ہمارا کالم انٹرنیشنل ہو گیا ہے
اپنے قارئین بجا طور پر ہم سے شاکی ہیں کہ ہم پرانے زمانے کے اولڈ فیشن کالم نگار ہیں اور ہماری دکان میں نہ تو کبھی...
اپنے قارئین بجا طور پر ہم سے شاکی ہیں کہ ہم پرانے زمانے کے اولڈ فیشن کالم نگار ہیں اور ہماری دکان میں نہ تو کبھی ''نیا مال'' آتا ہے اور نہ ہی باہر کا درآمد شدہ کوئی آئٹم دستیاب ہوتا ہے۔ اب دیکھیے دنیا بھر کے کالم نگار، تجزیہ کار اور نہ جانے کیا کیا کار مصر کے واقعات پر دانش کے موتی بکھیر رہے ہیں اور ہمارے ہاتھ ایک کنکر بھی نہیں جس پر ہم مصری ٹھپہ لگا کر دکان میں سجا لیں۔ وہی منحوس مہنگائی ہے، وہی باغ و بہار فنڈز ہیں، وہی وزیر ہیں، وہی امیر و کبیر ہیں اور وہی ہماری مانی چاہی دلربا کرپشن ہے اور وہی انجلینا جولی بجلی ہے جو اب کنڈولیزا رائس، مشعل اوباما، اوپرا ونفرے اور ولیمز سسٹرز ہو گئی ہے۔
کافی عرصے پہلے جب امریکا پر ایک زنانہ نام والا طوفان آیا تھا اور جس میں نو ے کے قریب قیمتی اور بے بہا امریکی جانیں گئی تھیں اور ان جانوں کے ضیاع پر دنیا بھر میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً صف ماتم بچھ گئی، اس وقت ہم نے تہیہ کر لیا تھا کہ اب ہم بھی اپنے کنوئیں سے نکل کر دنیا کے سمندر میں غوطہ زنی کریں گے، کافی ویب سائیٹس اور انسائیکلو پیڈیا بھی دیکھ لی اور غیر ملکی معاملات پر قلم زنی کرنے والے کالم نگاروں سے قربت بھی اختیار کی لیکن ہماری ساری تیاری دھری کی دھری رہ گئی۔ ہم نے تیاری ریاضی کی تھی اور پرچے میں سائنس کا مضمون آگیا۔ یورپ اور امریکا کے بجائے واقعہ مصر میں ہوا۔
نام کا اثر تو ہونا ہی تھا جسمانی طور پر نہ سہی سیاسی طور پر مرسی لیکن مرسی تو مرسی پتہ نہیں اس کی پارٹی میں اور کوئی تھا ہی نہیں یا ان کے نام اس سے بھی زیادہ خطرناک تھے کہ بے چارے اخوان المسلمون کے سوکھے دھانوں میں اتنے عرصے بعد جو پانی کا چھینٹا پڑا تھا جس سے امید لگا کر ہمارے یہاں تک کے اخوان خوش ہو رہے تھے کہ آج تم کل ہماری باری ہے لیکن
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
خیر ایک بات تو ہے کہ اس میں بدخواہوں کا اگر ہاتھ نہیں تو انگلی تو ضرور ہو گی کیونکہ ان ظالموں کو عالم اسلام کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی، یہاں پاکستان میں آ کر دیکھیے افغانستان پر نظر ڈالیے، برما کی خبریں سنیے، یورپ اور امریکا کی خبر لیجیے، یہود ہنود کے گٹھ جوڑ دیکھیے، ظالموں نے اپنے ہر کام کو مؤخر کر رکھا ہے اور صرف مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں، یہ سازشیں نہیں تو اور کیا ہیں کہ پاکستان افغانستان اور بھارت کے مسلمانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے حالانکہ ان تینوں ممالک کے مسلمان سچے سے بھی کچھ زیادہ سچے مسلمان ہیں، مال حرام سے تو اتنا دور بھاگتے ہیں کہ کالے ناگ کو ہاتھ لگا دیں گے لیکن مال حرام کو دس فٹ ڈنڈے سے بھی چھونا پسند نہیں کریں۔
اسلامی اخوت کا یہ عالم ہے کہ کوئی اس وقت تک پانی نہیں پیتا جب اڑوس پڑوس کے بارے میں تسلی نہ کر لیں کہ سب کھا پی کر آرام کر رہے ہیں، ایثار کا یہ عالم ہے کہ اپنا خون بہا دیں گے لیکن مجال ہے کہ دوسرے مسلمان بھائی کے پیر میں کانٹا بھی چبھنے دیں، لیکن مسلمان بھی آخر مسلمان ہیں ان سازش کرنے والوں کو ایسا اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں کہ اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے میں بھی یہ کافر لوگ مسلمانوں سے پیچھے ہیں ۔۔۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ۔۔۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ۔
بہرحال مرسی صاحب دل چھوٹا نہ کریں،
گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ چار دن کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
کم از کم اتنا تو ہوا کہ مصر والوں نے مسلمانوں کی بابرکت حکومت دیکھ لی، وہ ایک شخص کو کسی نے بتایا کہ باجوڑ میں ''نمک'' کی بہت مانگ ہے چنانچہ اس نے بہت سارا نمک خرید کر اونٹوں پر بار کر دیا لیکن یہی خبر دوسروں نے بھی سنی تھی چنانچہ باجوڑ میں کوئی مفت بھی نمک لینے کو تیار نہیں تھا لیکن اس نے کوشش کر کے اپنا نمک لوگوں کو مفت بانٹ دیا اور اونٹ لے کر واپس آ گیا، مردان میں کسی شناسا نے پوچھا، کیوں بھئی باجوڑ کا ٹرپ کیسے رہا۔ بولا، بڑا اچھا رہا، دو فائدے ہوئے ایک تو باجوڑ کے لوگوں نے نمک کھایا اور دوسرے اونٹوں نے باجوڑ کی سیر کر لی، یہ سب کیا دھرا اس طالع شوریدہ ہی کا ہے کہ ہم امریکا یورپ اور چین و جاپان کی طرف کان لگائے بیٹھے تھے اور اس کم بخت نے جا کر مصر میں سر نکالا، حالانکہ میرٹ کے لحاظ سے محمد مرسی کی حکومت کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے تھے، اپنے دل میں وہ قبروں والا ''بن کھلے مرجھا گئے'' شعر خود ہی دہرا لیجیے، بے چارا محمد مرسی ۔
روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد
حالانکہ محمد مرسی صاحب بڑے مرنجان مرنج آدمی تھے۔ ہم سے اکثر ٹیلی فون پر صلاح مشورے لیتے تھے۔ کیا کریں دوسرے خربوزوں کو دیکھ کر ہمارے خربوزے نے بھی رنگ پکڑ لیا اور پھر کس نے پتہ کرنا ہے کہ محمد مرسی سے ہمارے تعلقات تھے یا نہیں اور تو ویسے بھی مرے پر سو درے والی بات ہے، چند روز پہلے ہی جب انھوں نے ہمیں ٹیلی فون کیا اور مصر کی حکمرانی میں پیش آنے والی چند دشواریوں کا حل ہم سے چاہا تو ہم نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ میاں تم سے ہماری لاکھ دوستی سہی تمہاری پارٹی بھی مضبوط سہی اور تمہارا موقف بھی درست سہی لیکن تمہارے نام میں جو یہ ''مرسی'' کا لفظ ہے، یہ کچھ نا مبارک سا ہے حالانکہ ہمارے ہاں ''چرسی'' بھی کدی نہ مرسی کا نعرہ لگاتے ہیں اور تم خود ہی اپنے آپ کو ''مرسی مرسی'' کہتے ہو، ظاہر ہے کہ اب جو مرسی تو وہ مرسی ہی مرسی ۔
تری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولی برق خرمن کا ہے خون گرم دہقان کا
جناب محمد مرسی کے خلاف یہ جو یہود و ہنود نے سازش کی ہے، اس کا ہمیں پہلے سے پتہ تھا کیونکہ وائٹ ہاؤس میں ہمارے گہرے تعلقات ہیں اور ہمیں معلوم ہوا تھا کہ جناب مرسی کے دن گنے جا چکے ہیں اور یہ بات ہم نے محمد مرسی کو ٹیلی فون پر بتا بھی دی تھی لیکن باوجود ہمارے خبر دار کرنے کے انھوں نے کوئی بندوبست نہیں کیا۔
ابھی کل شام ہی اس کا فون آیا، رو رہا تھا کہ آپ کی نہ مان کر میں نے بڑی غلطی کی ہے، لیکن اب کیا ہو سکتا ہے چڑیاں کھیت چگ چکی ہیں اور چڑیوں کو عقابوں نے لقمہ بنا لیا ، بات خوشی کی تو نہیں بلکہ رسوائی کی ہے لیکن ساتھ ہی سچ بھی ہے، اس لیے بتائے دیتے ہیں کہ مصر کے واقعات سے آہستہ آہستہ ہم نے تجربہ اور عبرت دونوں پکڑنا شروع کیے، ہمارے قارئین مطمئن رہیں اب ہم بھی دیسی قسم کے کالموں کے بجائے درآمد شدہ مسائل پر انٹرنیشنل کالم لکھیں گے اور انٹرنیشنل معاملات کے بارے میں اپنے قارئین کو برابر مطلع کرتے رہیں گے، رہے مقامی مسائل تو ان کے لیے ہمارے لیڈر ہیں نا ۔۔۔۔ جب تک زندہ رہیں گے نہ مسائل کی کمی واقع ہو گی اور نہ ان کے حل کی۔
کافی عرصے پہلے جب امریکا پر ایک زنانہ نام والا طوفان آیا تھا اور جس میں نو ے کے قریب قیمتی اور بے بہا امریکی جانیں گئی تھیں اور ان جانوں کے ضیاع پر دنیا بھر میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً صف ماتم بچھ گئی، اس وقت ہم نے تہیہ کر لیا تھا کہ اب ہم بھی اپنے کنوئیں سے نکل کر دنیا کے سمندر میں غوطہ زنی کریں گے، کافی ویب سائیٹس اور انسائیکلو پیڈیا بھی دیکھ لی اور غیر ملکی معاملات پر قلم زنی کرنے والے کالم نگاروں سے قربت بھی اختیار کی لیکن ہماری ساری تیاری دھری کی دھری رہ گئی۔ ہم نے تیاری ریاضی کی تھی اور پرچے میں سائنس کا مضمون آگیا۔ یورپ اور امریکا کے بجائے واقعہ مصر میں ہوا۔
نام کا اثر تو ہونا ہی تھا جسمانی طور پر نہ سہی سیاسی طور پر مرسی لیکن مرسی تو مرسی پتہ نہیں اس کی پارٹی میں اور کوئی تھا ہی نہیں یا ان کے نام اس سے بھی زیادہ خطرناک تھے کہ بے چارے اخوان المسلمون کے سوکھے دھانوں میں اتنے عرصے بعد جو پانی کا چھینٹا پڑا تھا جس سے امید لگا کر ہمارے یہاں تک کے اخوان خوش ہو رہے تھے کہ آج تم کل ہماری باری ہے لیکن
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
خیر ایک بات تو ہے کہ اس میں بدخواہوں کا اگر ہاتھ نہیں تو انگلی تو ضرور ہو گی کیونکہ ان ظالموں کو عالم اسلام کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی، یہاں پاکستان میں آ کر دیکھیے افغانستان پر نظر ڈالیے، برما کی خبریں سنیے، یورپ اور امریکا کی خبر لیجیے، یہود ہنود کے گٹھ جوڑ دیکھیے، ظالموں نے اپنے ہر کام کو مؤخر کر رکھا ہے اور صرف مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں، یہ سازشیں نہیں تو اور کیا ہیں کہ پاکستان افغانستان اور بھارت کے مسلمانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے حالانکہ ان تینوں ممالک کے مسلمان سچے سے بھی کچھ زیادہ سچے مسلمان ہیں، مال حرام سے تو اتنا دور بھاگتے ہیں کہ کالے ناگ کو ہاتھ لگا دیں گے لیکن مال حرام کو دس فٹ ڈنڈے سے بھی چھونا پسند نہیں کریں۔
اسلامی اخوت کا یہ عالم ہے کہ کوئی اس وقت تک پانی نہیں پیتا جب اڑوس پڑوس کے بارے میں تسلی نہ کر لیں کہ سب کھا پی کر آرام کر رہے ہیں، ایثار کا یہ عالم ہے کہ اپنا خون بہا دیں گے لیکن مجال ہے کہ دوسرے مسلمان بھائی کے پیر میں کانٹا بھی چبھنے دیں، لیکن مسلمان بھی آخر مسلمان ہیں ان سازش کرنے والوں کو ایسا اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں کہ اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے میں بھی یہ کافر لوگ مسلمانوں سے پیچھے ہیں ۔۔۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ۔۔۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ۔
بہرحال مرسی صاحب دل چھوٹا نہ کریں،
گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ چار دن کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
کم از کم اتنا تو ہوا کہ مصر والوں نے مسلمانوں کی بابرکت حکومت دیکھ لی، وہ ایک شخص کو کسی نے بتایا کہ باجوڑ میں ''نمک'' کی بہت مانگ ہے چنانچہ اس نے بہت سارا نمک خرید کر اونٹوں پر بار کر دیا لیکن یہی خبر دوسروں نے بھی سنی تھی چنانچہ باجوڑ میں کوئی مفت بھی نمک لینے کو تیار نہیں تھا لیکن اس نے کوشش کر کے اپنا نمک لوگوں کو مفت بانٹ دیا اور اونٹ لے کر واپس آ گیا، مردان میں کسی شناسا نے پوچھا، کیوں بھئی باجوڑ کا ٹرپ کیسے رہا۔ بولا، بڑا اچھا رہا، دو فائدے ہوئے ایک تو باجوڑ کے لوگوں نے نمک کھایا اور دوسرے اونٹوں نے باجوڑ کی سیر کر لی، یہ سب کیا دھرا اس طالع شوریدہ ہی کا ہے کہ ہم امریکا یورپ اور چین و جاپان کی طرف کان لگائے بیٹھے تھے اور اس کم بخت نے جا کر مصر میں سر نکالا، حالانکہ میرٹ کے لحاظ سے محمد مرسی کی حکومت کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے تھے، اپنے دل میں وہ قبروں والا ''بن کھلے مرجھا گئے'' شعر خود ہی دہرا لیجیے، بے چارا محمد مرسی ۔
روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد
حالانکہ محمد مرسی صاحب بڑے مرنجان مرنج آدمی تھے۔ ہم سے اکثر ٹیلی فون پر صلاح مشورے لیتے تھے۔ کیا کریں دوسرے خربوزوں کو دیکھ کر ہمارے خربوزے نے بھی رنگ پکڑ لیا اور پھر کس نے پتہ کرنا ہے کہ محمد مرسی سے ہمارے تعلقات تھے یا نہیں اور تو ویسے بھی مرے پر سو درے والی بات ہے، چند روز پہلے ہی جب انھوں نے ہمیں ٹیلی فون کیا اور مصر کی حکمرانی میں پیش آنے والی چند دشواریوں کا حل ہم سے چاہا تو ہم نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ میاں تم سے ہماری لاکھ دوستی سہی تمہاری پارٹی بھی مضبوط سہی اور تمہارا موقف بھی درست سہی لیکن تمہارے نام میں جو یہ ''مرسی'' کا لفظ ہے، یہ کچھ نا مبارک سا ہے حالانکہ ہمارے ہاں ''چرسی'' بھی کدی نہ مرسی کا نعرہ لگاتے ہیں اور تم خود ہی اپنے آپ کو ''مرسی مرسی'' کہتے ہو، ظاہر ہے کہ اب جو مرسی تو وہ مرسی ہی مرسی ۔
تری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولی برق خرمن کا ہے خون گرم دہقان کا
جناب محمد مرسی کے خلاف یہ جو یہود و ہنود نے سازش کی ہے، اس کا ہمیں پہلے سے پتہ تھا کیونکہ وائٹ ہاؤس میں ہمارے گہرے تعلقات ہیں اور ہمیں معلوم ہوا تھا کہ جناب مرسی کے دن گنے جا چکے ہیں اور یہ بات ہم نے محمد مرسی کو ٹیلی فون پر بتا بھی دی تھی لیکن باوجود ہمارے خبر دار کرنے کے انھوں نے کوئی بندوبست نہیں کیا۔
ابھی کل شام ہی اس کا فون آیا، رو رہا تھا کہ آپ کی نہ مان کر میں نے بڑی غلطی کی ہے، لیکن اب کیا ہو سکتا ہے چڑیاں کھیت چگ چکی ہیں اور چڑیوں کو عقابوں نے لقمہ بنا لیا ، بات خوشی کی تو نہیں بلکہ رسوائی کی ہے لیکن ساتھ ہی سچ بھی ہے، اس لیے بتائے دیتے ہیں کہ مصر کے واقعات سے آہستہ آہستہ ہم نے تجربہ اور عبرت دونوں پکڑنا شروع کیے، ہمارے قارئین مطمئن رہیں اب ہم بھی دیسی قسم کے کالموں کے بجائے درآمد شدہ مسائل پر انٹرنیشنل کالم لکھیں گے اور انٹرنیشنل معاملات کے بارے میں اپنے قارئین کو برابر مطلع کرتے رہیں گے، رہے مقامی مسائل تو ان کے لیے ہمارے لیڈر ہیں نا ۔۔۔۔ جب تک زندہ رہیں گے نہ مسائل کی کمی واقع ہو گی اور نہ ان کے حل کی۔