صدقہ رب کو راضی کرنے کا ذریعہ
سود سے مال گھٹتا ہے اور صدقہ سے بڑھتا ہے
KARACHI:
حضرت ابوذر غفاریؓ کے بہت سے مویشی تھے اور اﷲ تعالیٰ نے ان میں بہت برکت عطا فرمائی تھی۔ قبیلہ بنو سلیم کے ایک شخص نے آکر آپ سے عرض کی:
''میں آپ کی خدمت میں رہنا چاہتا ہوں۔ اس کے بدلے میں اور تو کچھ نہیں کرسکتا البتہ آپ کے چرواہے کی کچھ مدد کردیاکروں گا۔''
حضرت ابوذر غفاریؓ نے فرمایا:''میرا دوست، رفیق اور ساتھی وہ ہے جو میری اطاعت کرے۔ اگر کرسکتے ہو تو شوق سے رہ سکتے ہو۔''
اس شخص نے عرض کیا:''آپ کس کس کام میں اطاعت چاہتے ہیں؟''
حضرت ابوذر غفاریؓ نے فرمایا:
''بس تمہاری اطاعت یہ ہے کہ کسی کو اﷲ تعالی کے نام پر خرچ کرنے کا حکم دوں تو بہتر سے بہتر مال خرچ کرلو۔''
اس نے یہ حکم قبول کرلیا اور وہاں رہنے لگا۔
ایک روز حضرت ابوذرؓ سے کسی نے عرض کیا:
''فلاں طرف جنگل میں کچھ غریب لوگ رہتے ہیں۔ ان کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے۔''
حضرت ابوذر غفاریؓ نے اپنے رفیق سلیمی کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:''میرے اونٹوں میں سے ایک اونٹ لے آؤ۔''
چنانچہ وہ جنگل گئے اور ایک ایسا بہترین اونٹ منتخب کیا جو نہایت طاقت ور، جوان، خوب صورت اور سواری میں نہایت فرماں بردار تھا، لیکن پھر دل میں سوچا کہ یہ اونٹ تو خود حضرت کی سواری اور دیگر متعلقین کے لیے مفید اور کار آمد ہے، غریبوں کے کھلانے کے لیے ایسے اچھے اونٹ کی کیا ضرورت ہے؟ گوشت تو ہر اونٹ کا برابر ہی ہوتا ہے لہٰذا انہوں نے وہ اونٹ چھوڑ دیا اور ایک اونٹنی جو اس اونٹ سے تو ذرا کم تھی، مگر باقی تمام اونٹوں سے بہتر تھی، اپنے ساتھ لی اورحضرت ابوذر غفاریؓ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔
آپ نے دیکھتے ہی فرمایا:
''سلیمی! تم نے خیانت کی۔''
وہ سمجھ گئے اور واپس جاکر وہی بہترین اونٹ لے آئے جسے پہلے منتخب کرنے کے بعد چھوڑ دیا تھا۔
حضرت ابوذر غفاریؓ نے اسے ذبح کرایا اور ساتھیوں سے ارشاد فرمایا:''اس بستی میں جتنے لوگ ہیں، ان سب کے گھر شمار کرلو اور ان کے ساتھ ہی ابوذر کا (میرا) مکان بھی گن لو اور اس گوشت کو سب گھروں میں مساوی تقسیم کردو، مگر دیکھنا، کہیں ابوذرؓ کے گھر میں زیادہ گوشت نہ دینا۔''
اس کے بعد میں انہوں نے اپنے دوست سلیمی کو بلاکر ان سے کہا:
''تم نے اﷲ کی راہ میں عمدہ مال خرچ کرنے کا جو وعدہ مجھ سے کیا تھا، اس وعدے کو جان بوجھ کر توڑا یا بھول گئے تھے؟''
سلیمی نے عرض کیا:''بھولا تو نہیں تھا، مجھے آپ سے کیا گیا وعدہ خوب اچھی طرح یاد ہے، لیکن میں نے یہ خیال ضرورکیا تھا کہ یہ اونٹ حضرت کی ضرورت کا ہے، اس لیے میں دانستہ اسے چھوڑ آیا تھا۔''
حضرت ابوذر غفاریؓ نے فرمایا:
''کیا اس اونٹ کو تم صرف میری ضرورت کی وجہ سے چھوڑ آئے تھے؟''
انہوں نے عرض کیا:
''جی ہاں! صرف آپ کی ضرورت کی وجہ سے ہی اسے چھوڑا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ آپ کے لیے زیادہ کارآمد اور مفید ہوگا۔''
حضرت ابوذرؓ نے فرمایا:
''اپنی ضرورت کا دن بتاؤں؟ یاد رکھو! میری ضرورت کا دن وہ ہے جس روز مجھے قبر کے گڑھے میں اکیلا ڈال دیا جائے گا۔ جس دن میرے ساتھ میرے دوست احباب، عزیز و اقارب میں سے کوئی بھی نہیں ہوگا۔ اس دن میرا مال و اسباب، میری دولت سب کچھ یہیں رہ جائے گا اور میں وہاں تنہا ہوں گا، وہ ہے میری ضرورت کا دن!''
٭٭٭
عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''(روز حشر) تم میں سے ہر شخص سے اس کا پروردگار اس طرح بلاواسطہ اور دوبدو کلام فرمائے گا کہ درمیان میں نہ تو کوئی ترجمان ہوگا اور نہ ہی کوئی پردہ حائل ہوگا۔ پس جب بھی ادھر ادھر نظر ڈالے گا تو اپنے دائیں جانب سوائے اپنے اعمال کے اور کچھ نہ دیکھ سکے گا۔ اور اسی طرح جب اپنی بائیں جانب نظر ڈالے گا تو سوائے اپنے اعمال کے اور کچھ اسے نظر نہیں آئے گا۔ اور جب سامنے نظر دوڑائے گا تو اپنے رو برو آگ ہی آگ دیکھے گا۔ پس اے لوگو! دوزخ کی آگ سے بچو، اگرچہ خشک کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے۔ (اس سے بچنے کی فکر کرو)۔'' (صحیح بخاری و مسلم)
اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب سے قرآن و حدیث بھرے ہوئے ہیں اور جگہ جگہ اہل ایمان کو انفاق فی سبیل اﷲ کی دعوت دی گئی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ ہمارے پاس جس قدر بھی مال و دولت اور دیگر نعمتیں ہیں، وہ ہمارے رب کی عطا کردہ ہیں لہٰذا انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر ہمیں بغیر کسی اجر اور بدلے کے اپنا مال اﷲ کو واپس کرنے یعنی اس کی راہ میں خرچ کا حکم دیا جاتا تو ہم بخوشی اسے قبول کرتے اور اسے اس شکریے کے ساتھ واپس کرتے کہ:
''یا اﷲ! تو نے ہی دیا تھا، اب اس کی واپسی کا حکم ہوا ہے تو یہ امانت حاضر ہے۔ اور تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں اتنے عرصے تک اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع عطا فرمایا۔''
مگر جیسا کہ خالق کائنات نے ارشاد فرمایا:
''انسان حریص بھی ہے، جلد باز بھی ہے اور ناشکرا بھی ہے۔''
لہٰذا رب کریم نے ہمیں ایسی آزمائش میں ڈالنے کے بجائے اس طرح حکم دیا:
''ایسا کون شخص ہے و اﷲ کو قرض حسنہ دے، پھر اﷲ تعالیٰ اس کے ثواب کو اس کے لیے بڑھاتا چلا جائے اور اس کے لیے بہترین بدلہ ہے۔'' (سورۂ حدید۔ رکوع 2)
اسی سے ملتے جلتے مضمون کی آیت سورۂ بقرہ میِں بھی ہے جس کے بارے میں حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوالدحداح انصاری، نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
''یا رسول اﷲ! اﷲ جل شانہ ہم سے قرض مانگتے ہیں؟''
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:''بے شک!''
وہ عرض کرنے لگے:''اپنا دست مبارک مجھے پکڑا دیجیے۔''
حضورﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے معاہدے کے طور پر حضورﷺ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا:
''یا رسول اﷲ! میں نے اپنا باغ اپنے اﷲکو قرض دے دیا۔''
واضح رہے کہ ان کے باغ میں کھجور کے 600 درخت تھے اور اسی باغ میں ان کے بیوی بچے بھی رہتے تھے۔ وہاں سے اٹھ کر وہ اپنے باغ میں پہنچے اور اپنی بیوی ام وحداح کو آواز دے کر کہا:
''چلو اس باغ سے نکل چلو، یہ باغ میں نے اپنے رب کو دے دیا۔''
رب کائنات نے مزید ارشاد فرمایا:
''جو لوگ اﷲ کے راستے میں (یعنی خیر کے کاموں میں) اپنے مال خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ ہو جس میں سات بالیاں اگی ہوں اور ہریالی میں سودانے ہوں۔ اور اﷲ جس کو چاہتا ہے، بے حساب عطا فرما دیتا ہے۔'' (سورۂ بقرہ)
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''جو شخص ایک کھجور اﷲ کے راستے میں خرچ کرتا ہے، حق تعالیٰ شانہ اس کے ثواب کو اتنا بڑھاتے ہیں کہ وہ احد کے پہاڑ سے بڑا ہوجاتا ہے۔'' (فضائل صدقات)
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر رب العالمین چاہتا تو جس کے مقدر میں جتنا رزق لکھ دیا تھا، وہ اسے براہ راست عطا فرمادیتا، مگر قربان جاؤں اپنے پیارے رب پر کہ جس نے بہت سے غریبوں کے حصے کا رزق امیروں کو دے کر انہیں یہ اعزاز بخشا کہ لو تم تقسیم کرو جس کے بعد ایک طرف تو مفت میں نیک نامی حاصل کرو اور ساتھ ہی دوسری جانب ایسی نیکی کمائو جو قیامت تک پھلتی پھولتی ہی رہے۔ ایسا مالک کہاں ملے گا جو اپنے غلاموں کو مال دے کر ان کے ہاتھ سے تقسیم کروائے اور پھر لوگوں کی زبانوں سے اس کی سخاوت کے چرچے بھی کروائے اور قیامت کے روز بھی اربوں، کھربوں انسانوں کے سامنے ان کی سخاوت کی باتیں کی جائیں، اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کی اس سخاوت کو بہانہ بناکر اسے جنت میں بھی داخل کردے۔ اﷲ اکبر!
صدقہ دنیا میں بلائوں کو دور کرتا ہے جبکہ قیامت کے روز ہر شخص اپنے صدقہ کے سائے میں ہوگا۔ صدقہ عمر کو بڑھاتا اور بری موت کو دور کرتا ہے۔ غرض صدقہ کرنے کے اس قدر فضائل ہیں کہ جو اس کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے وہ ایسا سخی بن جاتا ہے کہ لوگ اس کی سخاوت کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔
صحابہ کرام ؓ نے اس حقیقت کو پالیا تھا کہ جو کچھ رزق کھالیا یا پی لیا، وہ سب ختم ہوگیا، جو پیچھے چھوڑ دیا وہ ورثاء کا ہوگیا، لیکن جو صدقہ کردیا، وہ جمع ہوگیا۔
کنویں سے جتنا بھی پانی نکالا جائے اتنا ہی اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور مزید یہ کہ اس کا پانی شیریں اور ٹھنڈا ہوتا جاتا ہے اور اگر اس کا پانی یونہی جمع رہنے دیا جائے تو آخر کار وہ کنواں برباد ہوجاتا ہے اور اس کا پانی پینے کے قابل ہی نہیں رہتا۔ یہی مثال مال کی بھی ہے کہ جتنا اﷲ کی راہ میں خرچ کرو، یہ اتنا ہی بڑھتا ہے اور اگر روک کر یا ذخیرہ کرکے رکھوگے تو خود بھی برباد ہوتا ہے اور اپنے مالک کو بھی برباد کردیتا ہے
رب کائنات نے ارشاد فرمایا:
''سود سے مال گھٹتا ہے اور صدقہ سے بڑھتا ہے۔'' اس کے باوجود ہم یا تو خرچ کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے اور اگر اﷲ کی راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں تو وہ ردی مال جسے ہم کسی شریف آدمی کو نہیں دے سکتے۔ ایسا کرکے ہم کسی اور کو نہیں خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور خود کو دھوکہ دینے کا انجام ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے۔
حضرت ابوذر غفاریؓ کے بہت سے مویشی تھے اور اﷲ تعالیٰ نے ان میں بہت برکت عطا فرمائی تھی۔ قبیلہ بنو سلیم کے ایک شخص نے آکر آپ سے عرض کی:
''میں آپ کی خدمت میں رہنا چاہتا ہوں۔ اس کے بدلے میں اور تو کچھ نہیں کرسکتا البتہ آپ کے چرواہے کی کچھ مدد کردیاکروں گا۔''
حضرت ابوذر غفاریؓ نے فرمایا:''میرا دوست، رفیق اور ساتھی وہ ہے جو میری اطاعت کرے۔ اگر کرسکتے ہو تو شوق سے رہ سکتے ہو۔''
اس شخص نے عرض کیا:''آپ کس کس کام میں اطاعت چاہتے ہیں؟''
حضرت ابوذر غفاریؓ نے فرمایا:
''بس تمہاری اطاعت یہ ہے کہ کسی کو اﷲ تعالی کے نام پر خرچ کرنے کا حکم دوں تو بہتر سے بہتر مال خرچ کرلو۔''
اس نے یہ حکم قبول کرلیا اور وہاں رہنے لگا۔
ایک روز حضرت ابوذرؓ سے کسی نے عرض کیا:
''فلاں طرف جنگل میں کچھ غریب لوگ رہتے ہیں۔ ان کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے۔''
حضرت ابوذر غفاریؓ نے اپنے رفیق سلیمی کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:''میرے اونٹوں میں سے ایک اونٹ لے آؤ۔''
چنانچہ وہ جنگل گئے اور ایک ایسا بہترین اونٹ منتخب کیا جو نہایت طاقت ور، جوان، خوب صورت اور سواری میں نہایت فرماں بردار تھا، لیکن پھر دل میں سوچا کہ یہ اونٹ تو خود حضرت کی سواری اور دیگر متعلقین کے لیے مفید اور کار آمد ہے، غریبوں کے کھلانے کے لیے ایسے اچھے اونٹ کی کیا ضرورت ہے؟ گوشت تو ہر اونٹ کا برابر ہی ہوتا ہے لہٰذا انہوں نے وہ اونٹ چھوڑ دیا اور ایک اونٹنی جو اس اونٹ سے تو ذرا کم تھی، مگر باقی تمام اونٹوں سے بہتر تھی، اپنے ساتھ لی اورحضرت ابوذر غفاریؓ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔
آپ نے دیکھتے ہی فرمایا:
''سلیمی! تم نے خیانت کی۔''
وہ سمجھ گئے اور واپس جاکر وہی بہترین اونٹ لے آئے جسے پہلے منتخب کرنے کے بعد چھوڑ دیا تھا۔
حضرت ابوذر غفاریؓ نے اسے ذبح کرایا اور ساتھیوں سے ارشاد فرمایا:''اس بستی میں جتنے لوگ ہیں، ان سب کے گھر شمار کرلو اور ان کے ساتھ ہی ابوذر کا (میرا) مکان بھی گن لو اور اس گوشت کو سب گھروں میں مساوی تقسیم کردو، مگر دیکھنا، کہیں ابوذرؓ کے گھر میں زیادہ گوشت نہ دینا۔''
اس کے بعد میں انہوں نے اپنے دوست سلیمی کو بلاکر ان سے کہا:
''تم نے اﷲ کی راہ میں عمدہ مال خرچ کرنے کا جو وعدہ مجھ سے کیا تھا، اس وعدے کو جان بوجھ کر توڑا یا بھول گئے تھے؟''
سلیمی نے عرض کیا:''بھولا تو نہیں تھا، مجھے آپ سے کیا گیا وعدہ خوب اچھی طرح یاد ہے، لیکن میں نے یہ خیال ضرورکیا تھا کہ یہ اونٹ حضرت کی ضرورت کا ہے، اس لیے میں دانستہ اسے چھوڑ آیا تھا۔''
حضرت ابوذر غفاریؓ نے فرمایا:
''کیا اس اونٹ کو تم صرف میری ضرورت کی وجہ سے چھوڑ آئے تھے؟''
انہوں نے عرض کیا:
''جی ہاں! صرف آپ کی ضرورت کی وجہ سے ہی اسے چھوڑا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ آپ کے لیے زیادہ کارآمد اور مفید ہوگا۔''
حضرت ابوذرؓ نے فرمایا:
''اپنی ضرورت کا دن بتاؤں؟ یاد رکھو! میری ضرورت کا دن وہ ہے جس روز مجھے قبر کے گڑھے میں اکیلا ڈال دیا جائے گا۔ جس دن میرے ساتھ میرے دوست احباب، عزیز و اقارب میں سے کوئی بھی نہیں ہوگا۔ اس دن میرا مال و اسباب، میری دولت سب کچھ یہیں رہ جائے گا اور میں وہاں تنہا ہوں گا، وہ ہے میری ضرورت کا دن!''
٭٭٭
عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''(روز حشر) تم میں سے ہر شخص سے اس کا پروردگار اس طرح بلاواسطہ اور دوبدو کلام فرمائے گا کہ درمیان میں نہ تو کوئی ترجمان ہوگا اور نہ ہی کوئی پردہ حائل ہوگا۔ پس جب بھی ادھر ادھر نظر ڈالے گا تو اپنے دائیں جانب سوائے اپنے اعمال کے اور کچھ نہ دیکھ سکے گا۔ اور اسی طرح جب اپنی بائیں جانب نظر ڈالے گا تو سوائے اپنے اعمال کے اور کچھ اسے نظر نہیں آئے گا۔ اور جب سامنے نظر دوڑائے گا تو اپنے رو برو آگ ہی آگ دیکھے گا۔ پس اے لوگو! دوزخ کی آگ سے بچو، اگرچہ خشک کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے۔ (اس سے بچنے کی فکر کرو)۔'' (صحیح بخاری و مسلم)
اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب سے قرآن و حدیث بھرے ہوئے ہیں اور جگہ جگہ اہل ایمان کو انفاق فی سبیل اﷲ کی دعوت دی گئی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ ہمارے پاس جس قدر بھی مال و دولت اور دیگر نعمتیں ہیں، وہ ہمارے رب کی عطا کردہ ہیں لہٰذا انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر ہمیں بغیر کسی اجر اور بدلے کے اپنا مال اﷲ کو واپس کرنے یعنی اس کی راہ میں خرچ کا حکم دیا جاتا تو ہم بخوشی اسے قبول کرتے اور اسے اس شکریے کے ساتھ واپس کرتے کہ:
''یا اﷲ! تو نے ہی دیا تھا، اب اس کی واپسی کا حکم ہوا ہے تو یہ امانت حاضر ہے۔ اور تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں اتنے عرصے تک اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع عطا فرمایا۔''
مگر جیسا کہ خالق کائنات نے ارشاد فرمایا:
''انسان حریص بھی ہے، جلد باز بھی ہے اور ناشکرا بھی ہے۔''
لہٰذا رب کریم نے ہمیں ایسی آزمائش میں ڈالنے کے بجائے اس طرح حکم دیا:
''ایسا کون شخص ہے و اﷲ کو قرض حسنہ دے، پھر اﷲ تعالیٰ اس کے ثواب کو اس کے لیے بڑھاتا چلا جائے اور اس کے لیے بہترین بدلہ ہے۔'' (سورۂ حدید۔ رکوع 2)
اسی سے ملتے جلتے مضمون کی آیت سورۂ بقرہ میِں بھی ہے جس کے بارے میں حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوالدحداح انصاری، نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
''یا رسول اﷲ! اﷲ جل شانہ ہم سے قرض مانگتے ہیں؟''
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:''بے شک!''
وہ عرض کرنے لگے:''اپنا دست مبارک مجھے پکڑا دیجیے۔''
حضورﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے معاہدے کے طور پر حضورﷺ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا:
''یا رسول اﷲ! میں نے اپنا باغ اپنے اﷲکو قرض دے دیا۔''
واضح رہے کہ ان کے باغ میں کھجور کے 600 درخت تھے اور اسی باغ میں ان کے بیوی بچے بھی رہتے تھے۔ وہاں سے اٹھ کر وہ اپنے باغ میں پہنچے اور اپنی بیوی ام وحداح کو آواز دے کر کہا:
''چلو اس باغ سے نکل چلو، یہ باغ میں نے اپنے رب کو دے دیا۔''
رب کائنات نے مزید ارشاد فرمایا:
''جو لوگ اﷲ کے راستے میں (یعنی خیر کے کاموں میں) اپنے مال خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ ہو جس میں سات بالیاں اگی ہوں اور ہریالی میں سودانے ہوں۔ اور اﷲ جس کو چاہتا ہے، بے حساب عطا فرما دیتا ہے۔'' (سورۂ بقرہ)
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''جو شخص ایک کھجور اﷲ کے راستے میں خرچ کرتا ہے، حق تعالیٰ شانہ اس کے ثواب کو اتنا بڑھاتے ہیں کہ وہ احد کے پہاڑ سے بڑا ہوجاتا ہے۔'' (فضائل صدقات)
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر رب العالمین چاہتا تو جس کے مقدر میں جتنا رزق لکھ دیا تھا، وہ اسے براہ راست عطا فرمادیتا، مگر قربان جاؤں اپنے پیارے رب پر کہ جس نے بہت سے غریبوں کے حصے کا رزق امیروں کو دے کر انہیں یہ اعزاز بخشا کہ لو تم تقسیم کرو جس کے بعد ایک طرف تو مفت میں نیک نامی حاصل کرو اور ساتھ ہی دوسری جانب ایسی نیکی کمائو جو قیامت تک پھلتی پھولتی ہی رہے۔ ایسا مالک کہاں ملے گا جو اپنے غلاموں کو مال دے کر ان کے ہاتھ سے تقسیم کروائے اور پھر لوگوں کی زبانوں سے اس کی سخاوت کے چرچے بھی کروائے اور قیامت کے روز بھی اربوں، کھربوں انسانوں کے سامنے ان کی سخاوت کی باتیں کی جائیں، اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کی اس سخاوت کو بہانہ بناکر اسے جنت میں بھی داخل کردے۔ اﷲ اکبر!
صدقہ دنیا میں بلائوں کو دور کرتا ہے جبکہ قیامت کے روز ہر شخص اپنے صدقہ کے سائے میں ہوگا۔ صدقہ عمر کو بڑھاتا اور بری موت کو دور کرتا ہے۔ غرض صدقہ کرنے کے اس قدر فضائل ہیں کہ جو اس کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے وہ ایسا سخی بن جاتا ہے کہ لوگ اس کی سخاوت کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔
صحابہ کرام ؓ نے اس حقیقت کو پالیا تھا کہ جو کچھ رزق کھالیا یا پی لیا، وہ سب ختم ہوگیا، جو پیچھے چھوڑ دیا وہ ورثاء کا ہوگیا، لیکن جو صدقہ کردیا، وہ جمع ہوگیا۔
کنویں سے جتنا بھی پانی نکالا جائے اتنا ہی اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور مزید یہ کہ اس کا پانی شیریں اور ٹھنڈا ہوتا جاتا ہے اور اگر اس کا پانی یونہی جمع رہنے دیا جائے تو آخر کار وہ کنواں برباد ہوجاتا ہے اور اس کا پانی پینے کے قابل ہی نہیں رہتا۔ یہی مثال مال کی بھی ہے کہ جتنا اﷲ کی راہ میں خرچ کرو، یہ اتنا ہی بڑھتا ہے اور اگر روک کر یا ذخیرہ کرکے رکھوگے تو خود بھی برباد ہوتا ہے اور اپنے مالک کو بھی برباد کردیتا ہے
رب کائنات نے ارشاد فرمایا:
''سود سے مال گھٹتا ہے اور صدقہ سے بڑھتا ہے۔'' اس کے باوجود ہم یا تو خرچ کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے اور اگر اﷲ کی راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں تو وہ ردی مال جسے ہم کسی شریف آدمی کو نہیں دے سکتے۔ ایسا کرکے ہم کسی اور کو نہیں خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور خود کو دھوکہ دینے کا انجام ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے۔