ایشین انفرا اسٹرکچر بینک کی سینئرعہدیدار سے ملاقات

لورل ایک کنیڈین شہری ہیں اور یہ ان کا پاکستان کا پہلا دورہ ہے

msuherwardy@gmail.com

ایشین انفرااسٹرکچر بینک پاکستان میں ایک بلین ڈالر کے منصوبے لگانے کے لیے تیار ہے۔ اس ضمن میں اسے نہ صرف مطلوبہ منصوبوں کی تلاش ہے بلکہ حکومت سے تعان کی ضرورت ہے۔ تا ہم ابھی تک اسے دونوں ہی نہیں مل رہے۔ اسلام آباد کے فائیو اسٹار ہوٹل میں رات کے کھانے میں چند سنیئر صحافیوں اور اینکرز کے ساتھ ایشین انفرا اسٹرکچر بینک کی سنیئر اہلکار لورل اوسٹفیلڈ( Laurel Ostfield) موجود تھیں۔اس کھانے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں صرف اسلام آباد کے نہیں تھے بلکہ پورے پاکستان سے سنیئر صحافیوں کو مدعو کیا گیا تھا تاہم وہ اس سے پہلے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کر چکی تھیں۔

لورل ایک کنیڈین شہری ہیں اور یہ ان کا پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔اس خوبصورت نشست کے میزبان عمران ارشاد بھی موجود تھے۔ محترمہ رباب کی محنت سے ہی پورے پاکستان سے مہمان اس کھانے میں موجود تھے۔ پاکستان کے بارے میں سوالوں کے جواب میںلورل نے کہا کہ انھیں افسوس ہے کہ انھیں پاکستان دیکھنے کا موقع نہیں ملا ہے۔ وہ اسلام آباد آئی ہیں۔ یہاں اس فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہری ہیں۔ یہیں پریس کانفرنس کی ہے۔ اب یہیں کھانا رکھا گیا ہے۔کھانے کی میز پرانھوں نے پاکستانی کھانوں میں دلچسپی ظا ہر کی۔ انھیں افسو س تھا کہ وہ پاکستانی کھانوں سے لطف اندوز نہیں ہو سکی ہیں اور یہیں سے واپس چلی جائیں گی۔ مجھے لگا کہ جب ایسے مہمان پاکستان آئیں تو انھیں پاکستان دکھانے کا بھی حکومتی سطح پر اہتمام ہونا چاہیے۔

بہر حال بات ایشین انفرا اسٹرکچر بینک کی ہو رہی ہے۔ یہ بینک پاکستان میں انفرا اسٹرکچر کے شعبوں میں ایک بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی خواہش رکھتا ہے۔ ان میں ٹرانسپورٹ، اربن اور دیہی پانی کی اسکیمیں اور انرجی کے شعبہ شامل ہیں۔ایشین انفرا اسٹرکچر بینک کراچی رپیڈ بس ٹرانزٹ پراجیکٹ ، راولپنڈی رنگ روڈ پراجیکٹ، اور کراچی میں پانی اور سیوریج کی اسکیموں میںدلچسپی رکھتا ہے۔ اور ان شعبوں کی فنڈنگ کرنے پر غور کر رہا ہے۔ Laurel کے مطابق ان کے بینک نے نیشنل موٹر وے کے ایم فور منصوبے اور تربیلا کے توسیعی منصوبے تربیلا فائیو ہائیڈرو پاور کے لیے بھی سرمایہ کاری کی منظوری دے دی ہے۔تا ہم ایشین انفرا اسٹرکچر بینک پاکستان میں ایسے شعبوں کی فنڈنگ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے، جو پاکستان کی معیشت کے لیے سود مند ثابت ہو سکیں۔وہ طویل مدتی منصوبوں میں زیادہ دلچسپی رکھ رہے ہیں جس سے پاکستان کی معیشت مضبوط ہو سکے۔

ملک کی مجموعی معاشی صورتحال ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بہت اہم ہے۔ ملک کے اندر معاشی عدم استحکام بین الا قوامی اداروں کو بھی پریشان کرتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ سے عالمی مالیاتی ادارے بھی پریشان ہیں۔ ایشین انفرااسٹرکچر بینک کا بھی خیال ہے کہ ملک میں معاشی عدم استحکام پاکستان میں پراجیکٹ فنانسنگ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی طرح روپے کی قدر میں کمی بھی ایک رکاوٹ ہے۔ بات سادہ ہے کہ ملک میں معاشی استحکام لانے کے لیے حکومت کو اپنی پالیسیوں میں استحکام لانا ہوگا۔ تا کہ ادارے اس استحکام کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں کو بنا سکیں۔ جب روپے کی قدر کے حوالے سے قیاس آرئیاں ہو ںگی، کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوگا کہ روپے کی کتنی قدر کم ہو جائے گی۔ تب عالمی ادارے بھی شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ایشین انفرا اسٹرکچر بینک جیسے اداروں کو پاکستان کی طرف راغب کرنے کے لیے پاکستان کی معاشی پالیسیوں میں ایک طویل مدتی استحکام لانے کی ضرورت ہے۔

بینک کے ذمے داران کا موقف ہے کہ آج پاکستان میں ایک معاشی بحران نظر آرہا ہے۔ایسے معاشی بحران کے دوران ایشین انفرا اسٹرکچر بینک کی جانب سے پبلک سیکٹر انفرا اسٹرکچر منصوبوں کی فنانسنگ سے معاشی بحران کو ختم کرنے میں نہ صرف مدد ملے گی بلکہ معیشت کا پہیہ چلے گا۔


ایشین انفرا اسٹرکچر بینک کوئی پرانا بینک نہیں ہے بلکہ یہ 2016ء میں قائم ہوا ہے۔ اس کا ہیڈ کوارٹر امریکا میں نہیں بلکہ بیجنگ میں ہے۔ دنیا کے 93 ممالک اس کے باقاعدہ ممبر بن چکے ہیں۔ یہ بینک کوئی آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کی طرز کا بینک نہیں ہے۔ بیجنگ میں ہیڈکوارٹر ہی ایک پیغام ہے۔

مجھے دکھ ہے کہ ایشین انفرا اسٹرکچر بینک کے ذمے داران کے دورہ پاکستان کے موقع سے حکومت پاکستان نے فائدہ نہیں اٹھایا۔ جب اسلام آباد میں ان کے ذمے داران یہ اعلان کر رہے تھے کہ ہم پاکستان میں ایک بلین ڈالر مزیدخرچ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسلام آباد سو رہا تھا۔ کسی حکومتی عہدیدار کے پاس اتنی فرصت نہیں تھی کہ ان سے ملاقات کر کے پوچھ ہی لیتاکہ اس ایک بلین ڈالر کی فنانسنگ میں ان کو کیا مدد درکار ہے۔ کوئی ان کا شکریہ ہی ادا کر دیتا۔

ایک طرف تو ہم دنیا بھر میں دوست ممالک سے قرضے مانگ رہے ہیں۔ تمام دوست ممالک سے قرضہ کی سہولت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف حکومت کے پاس اس بینک کے ذمے داران سے ملنے کا وقت ہی نہیں تھا۔ ایسا صرف اس حکومت کے ساتھ نہیں ہے بلکہ سب حکومتیں ہی ایسی ہوتی ہیں۔ میری اب بھی گزارش ہو گی جہاں ہم دوست ممالک کے دروازے کھٹکا رہے ہیں وہاں اس بینک کے ذمے داران سے ملاقات کی جائے۔ ایک بلین ڈالر تو یہ بغیر کسی لابی کے خرچنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ان سے بات کی جائے انھیں پاکستان کی ضروریات سے آگاہ کیا جائے تو مجھے امید ہے کہ اس رقم میں اضافہ بھی ممکن ہے۔

پاکستان میں انفراا سٹرکچر کے شعبہ میں بہت کام کی گنجائش ہے۔ یہاں توانائی کے شعبہ میں بہت کام کی گنجائش ہے۔ بالخصوص renewable energy کے منصوبوں میں فنانسنگ کی بہت گنجائش ہے۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ فی الحال حکومت صرف قر ضے لینے میں دلچسپی رکھ رہی ہے۔ منصوبوں کی فنانسنگ پر ابھی کوئی توجہ نہیں ہے۔ لیکن ملک صرف قرضوں سے نہیں چل سکتا۔ اس کے لیے منصوبوں کی بھی ضرورت ہے۔

اس وقت جب ملک معاشی بحران کا شکا ر ہے۔ ایسے میں ایشین انفراا سٹرکچر بینک کی Laurel Ostfiiedکا دورہ پاکستان ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ دنیا ہمارے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ شاید ہم خود تیار نہیں ہے۔ ہمیں خود کو تیار کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف چور چور کے نعروں سے ملک نہیں چلے گا۔ ہمیں ملک میں امید کی کرن پیدا کرنا ہوگی۔
Load Next Story