لائیو اسٹاک کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے
گوشت کی پیداوارمیں پانچویں نمبر پر ہونے کے باوجود ہم امریکا، یورپ اور بیشتر ایشیائی ممالک میں گوشت برآمد نہیں کررہے
GENEVA:
آج ملک پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں سے لے کر گھروں کے ڈرائنگ رومز تک اگر کوئی تجارتی شعبہ سب سے زیادہ زیر بحث ہے تو وہ لائیو اسٹاک کی پیداوار اور اس کی برآمدات۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وزیراعظم عمران خان کی اس شعبے میں ذاتی دلچسپی ہے۔ لیکن جس شخصیت نے وزیراعظم کی توجہ اس شعبے کی ترقی کی جانب مبذول کروائی ہے وہ یقیناً خراج تحسین کی مستحق ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس شخصیت کا نام میاں عبدالحنان ہے۔ میاں عبدالحنان پاکستان کی سب سے بڑی میٹ ایکسپورٹ کمپنی تازج میٹ اینڈ فوڈز کے مالک ہیں اور پندرہ سال سے گوشت کی برآمدات سے منسلک ہیں۔ عبدالحنان صاحب نے وزیراعظم کو کیا مشورے اور تجاویز دیں، ان کا ذکر میں آگے چل کر کروں گا۔ فی الحال میں کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
حلال گوشت پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے جبکہ حلال گوشت کی برآمدات میں پاکستان انیسویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں پچھلے کچھ سال سے گوشت کی برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2016 میں گوشت کی برآمدات 268 ملین ڈالر رہیں جو 2017 میں کم ہو کر 221 ملین پر چلی گئیں اور 2018 میں بڑھ کر تقریباً 245 ملین سے زائد رہیں۔ برآمدات میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ گلف کوآپریشن کونسل ریجن میں پاکستان کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنا ہے۔ اس وقت پاکستان سب سے زیادہ گوشت چھ جی سی سی ممالک میں سے پانچ ممالک یعنی بحرین، متحدہ عرب امارات، کویت، عمان اور سعودی عرب کو برآمد کر رہا ہے۔ قطر میں پاکستان سے گوشت کی برآمدات باقی جی سی سی ممالک کی نسبت کم ہے لیکن اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے جو کہ حوصلہ افزا ہے۔
موجودہ حکومت پاکستان کے قطر سے مضبوط تعلقات قائم ہوچکے ہیں اور گلف بیلٹ میں پاکستان کی اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اگر پاکستانی گوشت پانچ گلف ممالک میں استعمال کیا جاسکتا ہے تو باقی ایک ملک میں اس کی برآمد کم ہونے کی کوئی مضبوط وجہ نظر نہیں آتی۔ حکومتی سطح پر مدعا اٹھا کر یہ معاملہ بہ آسانی حل کیا جا سکتا ہے۔ کویت اور متحدہ عرب امارات بھی پہلے آسٹریلیا سے گوشت کی درآمد کو ترجیح دیتے تھے لیکن آسٹریلین جانوروں کی صحت کی خرابی سے متعلق چلائی گئی سوشل میڈیا کمپین کی وجہ سے ان ممالک نے آسٹریلیا سے گوشت درآمد کرنا کم کر دیا ہے اور پاکستان اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ سعودی عرب جانوروں کی افزائش اور فارمنگ میں خودمختار ہونا چاہتا ہے اور ملکی ضرورت کا گوشت خود تیار کرنے کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ حکومتی اور پرائیویٹ سیکٹر نے اس شعبے میں اربوں ڈالر انویسٹ کردیئے ہیں۔ اس سلسلے میں سعودی حکومت کا دارومدار آسٹریلین جانوروں کی درآمد پر ہے، جبکہ پاکستان میں ساہیوال اور کوہستانی نسل کے جانور آسٹریلین نسل سے بہت زیادہ بہتر ہیں۔ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ لائیو اسٹاک کے متعلق اچھے تجارتی تعلقات قائم کر کے اربوں ڈالر سالانہ کما سکتا ہے۔
انڈونیشیا میں ہر سال رمضان میں گوشت کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ انڈونیشین حکومت طلب کو پورا کرنے اورمضان میں قیمتوں کو کم سطح پر رکھنے کےلیے برازیل سے حلال گوشت درآمد کرتی ہے۔ پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور انڈونیشیا میں کم قیمت پر اچھی کوالٹی کا گوشت برآمد کرسکتا ہے۔
اس کے علاوہ حلال گوشت کی برآمدات کےلیے ملائشیا کی مارکیٹ پاکستان کےلیے بہت سودمند ثابت ہو سکتی ہے۔ ملائشیا، انڈونیشیا اور چین میں گوشت برآمد نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ فٹ اینڈ ماؤتھ ڈیزیز (ایف ایم ڈی) ہے۔ حکومت پاکستان ویٹرنری یونیورسٹی اور ڈاکٹروں کی مدد سے اس بیماری پر بہ آسانی قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حکومتی سطح پر تھوڑی سی سنجیدگی پاکستان کو اربوں ڈالر کما کر دے سکتی ہے۔
پاکستان میں اس وقت تیس سے زائد کمپنیاں آل پاکستان میٹ ایکسپورٹر اینڈ پروسیسر ایسوسی ایشن میں رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں فوجی میٹ لمیٹڈ، پی کے لائیو اسٹاک، الشہیر کارپوریشن، زینت، انیس ایسوسی ایٹس اور تازج میٹ اینڈ فوڈ سرفہرست ہیں۔ ان کمپنیوں کے اپنے لائیو اسٹاک فارمز، جدید سلاٹر ہاؤسز اور پروسیسنگ یونٹس بھی ہیں۔ پچھلے کچھ سال میں گوشت برآمد کرنے والی ان کمپنیوں نے اپنی مارکیٹنگ کو بہت زیادہ آگے بڑھایا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ای کامرس میں ترقی ہے۔
آئیے اب تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں۔
گوشت کی پیداوار میں پانچویں نمبر پر ہونے کے باوجود ہم امریکا، یورپ اور بیشتر ایشیائی ممالک میں گوشت برآمد نہیں کر رہے۔ جبکہ ہمارا ہمسایہ ملک ہندوستان دنیا میں گوشت کا دوسرا بڑا ایکسپورٹر ہے۔ ملائشیا اور تھائی لینڈ میں حلال گوشت کی پیداوار پاکستان کی نسبت کم ہے جبکہ تھائی لینڈ دنیا کے حلال گوشت کا 6 فیصد مہیا کر رہا ہے۔ ملائشیا 2020 تک جی ڈی پی کا 5 فیصد پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
اگر ہم بیف کی بات کریں تو بیف کی برآمدات میں برازیل دنیا کے تمام ممالک پر بازی لے گیا ہے۔ برازیل کے بعد ہندوستان، آسٹریلیا ور امریکا سر فہرست ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان بیف کی برآمدات میں چودھویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان کی ستر فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور ان کی آمدنی کا دارومدار زراعت اور لائیو اسٹاک پر ہے۔ اس کے علاوہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں برآمدات سے منسلک سلاٹر ہاؤسز اپنی مکمل صلاحیت کے صرف چالیس فیصد پر کام کر رہے ہیں۔ ان تلخ حقائق کی سب سے بڑی وجہ حکومتی عدم دلچسپی اور غیر متوازن پالیسی رہی ہے۔
پاکستان سے گوشت کی برآمدات بڑھانے کےلیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟ اس حوالے سے میں میاں عبدالحنان صاحب کے وزیراعظم عمران خان کو دیئے گئے مشوروں اور تجاویز آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
عبدالحنان صاحب نے وزیراعظم کو تجاویز دیں کہ:
سب سے پہلے گوشت کی برآمدات کو سرکاری سطح پر صنعت کا درجہ دیا جائے۔ اینیمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کی ری اسٹرکچرنگ اور صلاحیت بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ گوشت کی برآمد کےلیے ہر آرڈر کے ساتھ کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کا سرٹیفکیٹ لازم ہے۔ پوری دنیا میں یہ سرٹیفکیٹ ایئرپورٹ پر ہی مل جاتا ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی یہ سرٹیفکیٹ ایئرپورٹ پر مہیا کرنے کا بندوبست کرنا چاہیے۔ حکومت پاکستان کورنٹائن سرٹیفکیٹ مہیا کرنے کی فیس لیتی ہے جبکہ ہندوستان میں کورنٹائن سرٹیفکیٹ کی کوئی فیس نہیں۔ یہ فیس ختم ہونی چاہیے۔ برآمدات چوبیس گھنٹے کا کام ہے۔ ہفتہ اتوار کورنٹائن ڈپارٹمنٹ بند ہونے کی وجہ سے مال رک جاتا ہے جس سے کچھ آرڈر وقت پر نہیں پہنچ پاتے۔ صرف تھوڑی سی توجہ سے اس مسئلے کو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔
پوری دنیا یہاں تک کہ ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان کے ایئرپورٹ پر کولڈ اسٹوریج کی سہولت موجود ہے جبکہ پاکستان کے ایئرپورٹس پر کولڈ اسٹوریج کی سہولت نہیں، جس سے گوشت کے خراب ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ایئرپورٹ پر کولڈ اسٹوریج بنا کر حکومت پاکستان اس بڑے مسئلے کو بہ آسانی حل کر سکتی ہے جس سے برآمدات بھی بڑھیں گی اور ایکسپورٹرز کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی۔
حکومت کسانوں کو جانوروں پر سبسڈی دینے کے بجائے ان کے مسائل سمجھنے اور حل کرنے کی طرف توجہ دے۔ غریب وہ نہیں جو دن کی دو تین سو روپے دہاڑی لے کر اٹھتا ہے بلکہ غریب وہ ہے جس کے پاس جانور بھی ہیں لیکن ان کی افزائش اور بیچنے کا کوئی سرکاری طریقہ موجود نہیں؛ اور وہ فائدے کے بجائے نقصان پر جانور مڈل مین (آڑھتی) کو بیچ دیتا ہے۔ آڑھتی دوگنی قیمت پر ایکسپورٹر کو بیچ دیتا ہے اور پیسہ آڑھتی کما جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پورے ملک کے جانوروں کا لائیو ریٹ مقرر کرے۔ لائیو ریٹ سے کم یا زیادہ پر جانور بیچنا جرم قرار دیا جائے۔ اس سے کسان بھی خوشحال ہوگا اور اچھی نسل اور صحت مند جانوروں کی افزائش کو ترجیح دے گا جس سے گوشت کی برآمدات بڑھیں گی۔
بیرون ملک گوشت کے مختلف قسم کے کٹ کی ڈیمانڈ ہے۔ پاکستان میں ٹیکنیکل ایجوکیشن انسٹی ٹیوشنز میں بین الاقوامی طریقے سے گوشت کی کٹنگ اور محفوظ کرنے کے حوالے سے طریقہ کار کو کورسز کا حصہ بنایا جائے۔ اس سے حلال گوشت کے ایکسپرٹ پاکستانی قصائیوں کو بیرون ملک روزگار میسر آئے گا۔ حکومتی سطح پر پاکستان میں سیمینار منعقد کروائے جائیں۔ پاکستانی جانوروں کی نسلوں خصوصاً ساہیوال اور کوہستانی کو دنیا میں متعارف کرایا جائے۔
پاکستان میں گوشت کی پیداوار بڑھانے کےلیے جوان گائیوں اور بھینسوں کی سلاٹرنگ پر مکمل پابندی ہونی چاہیے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کےلیے سخت سزائیں مقرر کی جائیں۔ صرف گوشت کی صنعت، پاکستان کی دس نئی صنعتوں کو جنم دے سکتی ہے۔ جانور کی آنکھ سے لے کر دُم تک ہر چیز برآمد کی جاسکتی ہے۔ یہاں تک کہ یورپ انتڑیاں بھی پاکستان سے درآمد کر رہا ہے۔ پاکستان کے ایکسپورٹرز اپنی مکمل جان لگا کر کامیابی سے یہ کاروبار کر رہے ہیں۔ اگر ضرورت ہے تو صرف حکومتی سرپرستی کی۔
پاکستان کی لائیو اسٹاک میں ترقی کا ذکر دو شخصیات کے نام لیے بغیر نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ ان شخصیات نے لائیو اسٹاک کی برآمدات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان میں آج لائیو اسٹاک میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے، اس میں سابق سیکریٹری لائیو اسٹاک جناب نسیم صادق صاحب کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے چار سال اس شعبے کی ترقی کےلیے دن رات کام کیا ہے اور اپنے دور میں گوشت کی برآمدات کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر لے کر جانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کے وائس چانسلر اور امریکا سے اینیمل نیوٹریشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے، پروفیسر ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا کی لائیو اسٹاک کی ترقی کےلیے گراں قدر خدمات ہیں۔ وہ میٹ ایکسپورٹرز اور عام لوگوں کےلیے چوبیس گھنٹے سروس دینے کو تیار رہتے ہیں۔ کوئی لیب ٹیسٹ ہو، کوئی ایمرجنسی ہو، کوئی مشورہ چاہیے ہو، ڈاکٹر صاحب کی خدمات ہمیشہ شامل حال رہی ہیں۔
میری وزیراعظم عمران خان صاحب سے گزارش ہے کہ اگر وہ ملک کی برآمدات کو بڑھانا چاہتے ہیں تو لائیو اسٹاک سے بہتر کوئی آپشن فی الحال موجود نہیں۔ آپ کی تھوڑی سے توجہ اس شعبے کو ملک پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ انڈسٹری بنا سکتی ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ آج ہی نسیم صادق اور طلعت نصیر پاشا صاحب پر مشتمل ایک کمیٹی بنادیجیے۔ انہیں ایک ماہ کا وقت دیجیے۔ ان کی تجاویز کو کابینہ میں زیر بحث لائیے اور جس برق رفتاری سے آپ نے ملک پاکستان کو ڈوبنے سے بچانے کےلیے ہنگامی بنیادوں پر دن رات محنت کی اور سخت فیصلے کیے ہیں، بالکل اسی طرح ہنگامی بنیادوں پر اس کمیٹی کی تجاویز کو عملی شکل دینے کےلیے اقدامات کیجیے۔ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو پیروں تلے روند دیجیے اور جب تک پاکستان، گوشت کی برآمدات میں دنیا میں پہلے نمبر پر نہیں آجاتا، آپ سکھ کا سانس نہ لیجیے۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جس دن آپ اس انڈسٹری کو دنیا میں پہلے نمبر پر لانے میں کامیاب ہوگئے، وہ دن پاکستان کی کامیابی کا دن ہوگا اور پاکستان آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بجائے قرض دینے کی پوزیشن میں آجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آج ملک پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں سے لے کر گھروں کے ڈرائنگ رومز تک اگر کوئی تجارتی شعبہ سب سے زیادہ زیر بحث ہے تو وہ لائیو اسٹاک کی پیداوار اور اس کی برآمدات۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وزیراعظم عمران خان کی اس شعبے میں ذاتی دلچسپی ہے۔ لیکن جس شخصیت نے وزیراعظم کی توجہ اس شعبے کی ترقی کی جانب مبذول کروائی ہے وہ یقیناً خراج تحسین کی مستحق ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس شخصیت کا نام میاں عبدالحنان ہے۔ میاں عبدالحنان پاکستان کی سب سے بڑی میٹ ایکسپورٹ کمپنی تازج میٹ اینڈ فوڈز کے مالک ہیں اور پندرہ سال سے گوشت کی برآمدات سے منسلک ہیں۔ عبدالحنان صاحب نے وزیراعظم کو کیا مشورے اور تجاویز دیں، ان کا ذکر میں آگے چل کر کروں گا۔ فی الحال میں کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
حلال گوشت پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے جبکہ حلال گوشت کی برآمدات میں پاکستان انیسویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں پچھلے کچھ سال سے گوشت کی برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2016 میں گوشت کی برآمدات 268 ملین ڈالر رہیں جو 2017 میں کم ہو کر 221 ملین پر چلی گئیں اور 2018 میں بڑھ کر تقریباً 245 ملین سے زائد رہیں۔ برآمدات میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ گلف کوآپریشن کونسل ریجن میں پاکستان کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنا ہے۔ اس وقت پاکستان سب سے زیادہ گوشت چھ جی سی سی ممالک میں سے پانچ ممالک یعنی بحرین، متحدہ عرب امارات، کویت، عمان اور سعودی عرب کو برآمد کر رہا ہے۔ قطر میں پاکستان سے گوشت کی برآمدات باقی جی سی سی ممالک کی نسبت کم ہے لیکن اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے جو کہ حوصلہ افزا ہے۔
موجودہ حکومت پاکستان کے قطر سے مضبوط تعلقات قائم ہوچکے ہیں اور گلف بیلٹ میں پاکستان کی اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اگر پاکستانی گوشت پانچ گلف ممالک میں استعمال کیا جاسکتا ہے تو باقی ایک ملک میں اس کی برآمد کم ہونے کی کوئی مضبوط وجہ نظر نہیں آتی۔ حکومتی سطح پر مدعا اٹھا کر یہ معاملہ بہ آسانی حل کیا جا سکتا ہے۔ کویت اور متحدہ عرب امارات بھی پہلے آسٹریلیا سے گوشت کی درآمد کو ترجیح دیتے تھے لیکن آسٹریلین جانوروں کی صحت کی خرابی سے متعلق چلائی گئی سوشل میڈیا کمپین کی وجہ سے ان ممالک نے آسٹریلیا سے گوشت درآمد کرنا کم کر دیا ہے اور پاکستان اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ سعودی عرب جانوروں کی افزائش اور فارمنگ میں خودمختار ہونا چاہتا ہے اور ملکی ضرورت کا گوشت خود تیار کرنے کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ حکومتی اور پرائیویٹ سیکٹر نے اس شعبے میں اربوں ڈالر انویسٹ کردیئے ہیں۔ اس سلسلے میں سعودی حکومت کا دارومدار آسٹریلین جانوروں کی درآمد پر ہے، جبکہ پاکستان میں ساہیوال اور کوہستانی نسل کے جانور آسٹریلین نسل سے بہت زیادہ بہتر ہیں۔ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ لائیو اسٹاک کے متعلق اچھے تجارتی تعلقات قائم کر کے اربوں ڈالر سالانہ کما سکتا ہے۔
انڈونیشیا میں ہر سال رمضان میں گوشت کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ انڈونیشین حکومت طلب کو پورا کرنے اورمضان میں قیمتوں کو کم سطح پر رکھنے کےلیے برازیل سے حلال گوشت درآمد کرتی ہے۔ پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور انڈونیشیا میں کم قیمت پر اچھی کوالٹی کا گوشت برآمد کرسکتا ہے۔
اس کے علاوہ حلال گوشت کی برآمدات کےلیے ملائشیا کی مارکیٹ پاکستان کےلیے بہت سودمند ثابت ہو سکتی ہے۔ ملائشیا، انڈونیشیا اور چین میں گوشت برآمد نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ فٹ اینڈ ماؤتھ ڈیزیز (ایف ایم ڈی) ہے۔ حکومت پاکستان ویٹرنری یونیورسٹی اور ڈاکٹروں کی مدد سے اس بیماری پر بہ آسانی قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حکومتی سطح پر تھوڑی سی سنجیدگی پاکستان کو اربوں ڈالر کما کر دے سکتی ہے۔
پاکستان میں اس وقت تیس سے زائد کمپنیاں آل پاکستان میٹ ایکسپورٹر اینڈ پروسیسر ایسوسی ایشن میں رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں فوجی میٹ لمیٹڈ، پی کے لائیو اسٹاک، الشہیر کارپوریشن، زینت، انیس ایسوسی ایٹس اور تازج میٹ اینڈ فوڈ سرفہرست ہیں۔ ان کمپنیوں کے اپنے لائیو اسٹاک فارمز، جدید سلاٹر ہاؤسز اور پروسیسنگ یونٹس بھی ہیں۔ پچھلے کچھ سال میں گوشت برآمد کرنے والی ان کمپنیوں نے اپنی مارکیٹنگ کو بہت زیادہ آگے بڑھایا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ای کامرس میں ترقی ہے۔
آئیے اب تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں۔
گوشت کی پیداوار میں پانچویں نمبر پر ہونے کے باوجود ہم امریکا، یورپ اور بیشتر ایشیائی ممالک میں گوشت برآمد نہیں کر رہے۔ جبکہ ہمارا ہمسایہ ملک ہندوستان دنیا میں گوشت کا دوسرا بڑا ایکسپورٹر ہے۔ ملائشیا اور تھائی لینڈ میں حلال گوشت کی پیداوار پاکستان کی نسبت کم ہے جبکہ تھائی لینڈ دنیا کے حلال گوشت کا 6 فیصد مہیا کر رہا ہے۔ ملائشیا 2020 تک جی ڈی پی کا 5 فیصد پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
اگر ہم بیف کی بات کریں تو بیف کی برآمدات میں برازیل دنیا کے تمام ممالک پر بازی لے گیا ہے۔ برازیل کے بعد ہندوستان، آسٹریلیا ور امریکا سر فہرست ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان بیف کی برآمدات میں چودھویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان کی ستر فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور ان کی آمدنی کا دارومدار زراعت اور لائیو اسٹاک پر ہے۔ اس کے علاوہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں برآمدات سے منسلک سلاٹر ہاؤسز اپنی مکمل صلاحیت کے صرف چالیس فیصد پر کام کر رہے ہیں۔ ان تلخ حقائق کی سب سے بڑی وجہ حکومتی عدم دلچسپی اور غیر متوازن پالیسی رہی ہے۔
پاکستان سے گوشت کی برآمدات بڑھانے کےلیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟ اس حوالے سے میں میاں عبدالحنان صاحب کے وزیراعظم عمران خان کو دیئے گئے مشوروں اور تجاویز آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
عبدالحنان صاحب نے وزیراعظم کو تجاویز دیں کہ:
سب سے پہلے گوشت کی برآمدات کو سرکاری سطح پر صنعت کا درجہ دیا جائے۔ اینیمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کی ری اسٹرکچرنگ اور صلاحیت بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ گوشت کی برآمد کےلیے ہر آرڈر کے ساتھ کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کا سرٹیفکیٹ لازم ہے۔ پوری دنیا میں یہ سرٹیفکیٹ ایئرپورٹ پر ہی مل جاتا ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی یہ سرٹیفکیٹ ایئرپورٹ پر مہیا کرنے کا بندوبست کرنا چاہیے۔ حکومت پاکستان کورنٹائن سرٹیفکیٹ مہیا کرنے کی فیس لیتی ہے جبکہ ہندوستان میں کورنٹائن سرٹیفکیٹ کی کوئی فیس نہیں۔ یہ فیس ختم ہونی چاہیے۔ برآمدات چوبیس گھنٹے کا کام ہے۔ ہفتہ اتوار کورنٹائن ڈپارٹمنٹ بند ہونے کی وجہ سے مال رک جاتا ہے جس سے کچھ آرڈر وقت پر نہیں پہنچ پاتے۔ صرف تھوڑی سی توجہ سے اس مسئلے کو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔
پوری دنیا یہاں تک کہ ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان کے ایئرپورٹ پر کولڈ اسٹوریج کی سہولت موجود ہے جبکہ پاکستان کے ایئرپورٹس پر کولڈ اسٹوریج کی سہولت نہیں، جس سے گوشت کے خراب ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ایئرپورٹ پر کولڈ اسٹوریج بنا کر حکومت پاکستان اس بڑے مسئلے کو بہ آسانی حل کر سکتی ہے جس سے برآمدات بھی بڑھیں گی اور ایکسپورٹرز کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی۔
حکومت کسانوں کو جانوروں پر سبسڈی دینے کے بجائے ان کے مسائل سمجھنے اور حل کرنے کی طرف توجہ دے۔ غریب وہ نہیں جو دن کی دو تین سو روپے دہاڑی لے کر اٹھتا ہے بلکہ غریب وہ ہے جس کے پاس جانور بھی ہیں لیکن ان کی افزائش اور بیچنے کا کوئی سرکاری طریقہ موجود نہیں؛ اور وہ فائدے کے بجائے نقصان پر جانور مڈل مین (آڑھتی) کو بیچ دیتا ہے۔ آڑھتی دوگنی قیمت پر ایکسپورٹر کو بیچ دیتا ہے اور پیسہ آڑھتی کما جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پورے ملک کے جانوروں کا لائیو ریٹ مقرر کرے۔ لائیو ریٹ سے کم یا زیادہ پر جانور بیچنا جرم قرار دیا جائے۔ اس سے کسان بھی خوشحال ہوگا اور اچھی نسل اور صحت مند جانوروں کی افزائش کو ترجیح دے گا جس سے گوشت کی برآمدات بڑھیں گی۔
بیرون ملک گوشت کے مختلف قسم کے کٹ کی ڈیمانڈ ہے۔ پاکستان میں ٹیکنیکل ایجوکیشن انسٹی ٹیوشنز میں بین الاقوامی طریقے سے گوشت کی کٹنگ اور محفوظ کرنے کے حوالے سے طریقہ کار کو کورسز کا حصہ بنایا جائے۔ اس سے حلال گوشت کے ایکسپرٹ پاکستانی قصائیوں کو بیرون ملک روزگار میسر آئے گا۔ حکومتی سطح پر پاکستان میں سیمینار منعقد کروائے جائیں۔ پاکستانی جانوروں کی نسلوں خصوصاً ساہیوال اور کوہستانی کو دنیا میں متعارف کرایا جائے۔
پاکستان میں گوشت کی پیداوار بڑھانے کےلیے جوان گائیوں اور بھینسوں کی سلاٹرنگ پر مکمل پابندی ہونی چاہیے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کےلیے سخت سزائیں مقرر کی جائیں۔ صرف گوشت کی صنعت، پاکستان کی دس نئی صنعتوں کو جنم دے سکتی ہے۔ جانور کی آنکھ سے لے کر دُم تک ہر چیز برآمد کی جاسکتی ہے۔ یہاں تک کہ یورپ انتڑیاں بھی پاکستان سے درآمد کر رہا ہے۔ پاکستان کے ایکسپورٹرز اپنی مکمل جان لگا کر کامیابی سے یہ کاروبار کر رہے ہیں۔ اگر ضرورت ہے تو صرف حکومتی سرپرستی کی۔
پاکستان کی لائیو اسٹاک میں ترقی کا ذکر دو شخصیات کے نام لیے بغیر نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ ان شخصیات نے لائیو اسٹاک کی برآمدات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان میں آج لائیو اسٹاک میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے، اس میں سابق سیکریٹری لائیو اسٹاک جناب نسیم صادق صاحب کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے چار سال اس شعبے کی ترقی کےلیے دن رات کام کیا ہے اور اپنے دور میں گوشت کی برآمدات کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر لے کر جانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کے وائس چانسلر اور امریکا سے اینیمل نیوٹریشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے، پروفیسر ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا کی لائیو اسٹاک کی ترقی کےلیے گراں قدر خدمات ہیں۔ وہ میٹ ایکسپورٹرز اور عام لوگوں کےلیے چوبیس گھنٹے سروس دینے کو تیار رہتے ہیں۔ کوئی لیب ٹیسٹ ہو، کوئی ایمرجنسی ہو، کوئی مشورہ چاہیے ہو، ڈاکٹر صاحب کی خدمات ہمیشہ شامل حال رہی ہیں۔
میری وزیراعظم عمران خان صاحب سے گزارش ہے کہ اگر وہ ملک کی برآمدات کو بڑھانا چاہتے ہیں تو لائیو اسٹاک سے بہتر کوئی آپشن فی الحال موجود نہیں۔ آپ کی تھوڑی سے توجہ اس شعبے کو ملک پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ انڈسٹری بنا سکتی ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ آج ہی نسیم صادق اور طلعت نصیر پاشا صاحب پر مشتمل ایک کمیٹی بنادیجیے۔ انہیں ایک ماہ کا وقت دیجیے۔ ان کی تجاویز کو کابینہ میں زیر بحث لائیے اور جس برق رفتاری سے آپ نے ملک پاکستان کو ڈوبنے سے بچانے کےلیے ہنگامی بنیادوں پر دن رات محنت کی اور سخت فیصلے کیے ہیں، بالکل اسی طرح ہنگامی بنیادوں پر اس کمیٹی کی تجاویز کو عملی شکل دینے کےلیے اقدامات کیجیے۔ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو پیروں تلے روند دیجیے اور جب تک پاکستان، گوشت کی برآمدات میں دنیا میں پہلے نمبر پر نہیں آجاتا، آپ سکھ کا سانس نہ لیجیے۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جس دن آپ اس انڈسٹری کو دنیا میں پہلے نمبر پر لانے میں کامیاب ہوگئے، وہ دن پاکستان کی کامیابی کا دن ہوگا اور پاکستان آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بجائے قرض دینے کی پوزیشن میں آجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔