مشترکہ مفادات کونسل میں گھریلو میٹر کی ٹمپرنگ پر ایک سال قید اور10لاکھ جرمانے کی تجویز بجلی نہیں تو کچھ بھ

240 ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے، کرپٹ لوگوں کو بڑے عہدوں پر تعینات کیا گیا

اسلام آباد:وزیراعظم نوازشریف مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس سے خطاب کررہے ہیں، چاروں وزرائے اعلیٰ موجود ہیں ۔ فوٹو : این این آئی

وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ بجلی نہیں ہے تو پھر کچھ بھی نہیں ہے، 240 ارب روپے کی بجلی چوری ہوجاتی ہے، کرپٹ ترین لوگوں کوبجلی کی تقسیم کارکمپنیوں میں بڑے عہدوں پرتعینات کیاگیا، بجلی اورگیس چوروں کوسزا ملے گی تو دوسرے عبرت پکڑیں گے۔

سینئر صحافیوں اور اینکرپرسنز سے ملاقات میں وزیراعظم نے کہا اگر بجلی نہیں ہے توپھر کچھ بھی نہیں ہے، بجلی نہیں ہوگی تو ملک میں سرمایہ کاری بھی نہیں ہوگی، ہم صرف موجودہ بجلی کا شارٹ فال ختم کرنے میں ہی نہیں لگے ہیں بلکہ آئند50 ساٹھ سال کے لیے بھی منصوبہ بندی کررہے ہیں، انھوں نے کہا معاہدے کے مطابق نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی تکمیل45ارب روپے کی لاگت میں ہونا تھی لیکن اب یہ پروجیکٹ 240ارب روپے میں مکمل ہوگا، تھرکول منصوبے کی تکمیل3 اور 5 سال کے دوران ممکن ہوسکتی ہے، اگر بھارت تھرکول سے مستفید ہو رہا ہے تو ہم کیوں نہیں؟ انھوں کہا کہ بھارت تھرکول میں کارخانے لگانے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے، حیرانی کی بات ہے ہمیں بھارت کودیکھ کربھی خیال نہ آیاکہ تھرکول سے بجلی پیدا کرکے کارخانے چلائے جاسکتے ہیں، نوازشریف نے کہاکہ ملک کی بہتری اورسیکیورٹی کے حوالے سے ہم عمران خان کی بات علیحدہ بھی سننے کو تیار ہیں، گیس کی کمی کے حوالے سے شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور شہبازشریف خاصی توجہ دے رہے ہیں۔

انھوں نے کہا قطر والوں سے بھی بات چیت ہوئی ہے۔ ہمیں امید ہے ہم گیس کی کمی پرقابو پالیں گے، نئی انرجی پالیسی میں 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کا ٹیرف نہیں بڑھایا جائے گا، عدم ادائیگی پرجن کاکنکشن کٹ جائیگا، انھیں پری پیڈمیٹر ملے گا۔ تھرکول منصوبے کوپورا ہونے میں وقت لگے گا، ایران گیس پائپ لائن منصوبہ اب بھی ایک آپشن ہے، دہشت گردی سے نمٹنے کیلیے سیکیورٹی پالیسی بنارہے ہیں، انسداد دہشت گردی فورس کا قیام بھی زیرغورہے، نیشنل سیکیورٹی پالیسی کی تشکیل کیلیے آل پارٹیز کانفرنس عید کے بعد بلائی جائے گی۔ انھوں نے کہا ان کا زیادہ وقت توانائی بحران حل کرنے پر لگ رہا ہے، سرکاری لوگ اور بجلی چورملے ہوئے ہیں، صوبوں سے کہا ہے کہ بجلی چوروں کیخلاف کارروائی کریں، توانائی بحران کاحل حکومت کی پہلی ترجیح ہے، اس کے حل سے ہی اقتصادی پہیہ چلے گا، بجلی چوری کے خاتمے کیلیے جلد قانون منظورکرایا جائیگا، بھاشا ڈیم پر پیش رفت ہوئی ہے، بجلی ٹرانسمیشن لائنوں کی مرمت کی بھی ضرورت ہے، بجلی زیادہ پیدا بھی کر لیں تو ٹرانمیشن لائنیں ٹرپ کرجاتی ہیں۔

سحری اور افطاری کے وقت ٹرپنگ کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے، این این آئی کے مطابق وزیراعظم نے کہا قوم سے خطاب سے نہیں گھبراتا، بات کرنے کیلیے کچھ ہونا بھی چاہیے، ہمیں کرپٹ لوگوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا، بدقسمتی سے گذشتہ حکومت نے توانائی بحران کے حل پرکوئی توجہ نہیں دی، غیر ملکی سرمایہ کاروںکو سیکیورٹی کے حوالے سے تشویش ہے جبکہ چینی سرمایہ کاروں کوبھی سیکیورٹی صورتحال پرخدشات ہیں ، حکومت انھیں ہرممکن سیکیورٹی فراہم کرے گی۔ مسائل اتنے گمبھیر ہیں کہ سمجھتے سمجھتے یہ دن آ گئے ہیں، پہلے تمام ایشوز کو سمجھنا چاہتا ہوں، جلد قوم سے خطاب کرونگا۔ حکومت گیس کی فراہمی یقینی بنانے کیلیے سخت محنت کر رہی ہے،جن منصوبوں پر کام کررہے ہیں ان سے گیس کی سپلائی جلد بہتر ہوجائے گی، صوبوں سے کہا ہے کہ گیس اور بجلی چوروں کیخلاف کارروائی کریں۔

اربوں روپے کی بجلی چوری کرنے والوں کوانصاف کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔ اے پی پی کے مطابق نواز شریف نے کہا پی آئی اے، ریلوے اور پاکستان اسٹیل ملز سمیت زیادہ تر ریاستی ادارے اپنی بقاکیلیے ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے کھا رہے ہیں، وہ شفاف عمل، اچھے نظم و نسق اور منصفانہ نظام پر یقین رکھتے ہیں جس کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم نے کہا جب ان کے پاس کہنے کوکچھ ہوگا تو قوم سے خطاب کریں گے، رمضان المبارک کی وجہ سے ارکان اسمبلی عبادات میں مشغول ہوں گے اس لیے وہ توقع کرتے ہیں کہ صدارتی انتخاب عیدالفطرکے بعد ہوگا۔ دہشت گردی کیخلاف سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ جو بھی فیصلے لیے جائیں انھیں واپس نہ لینا پڑے۔


مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں صوبوں کے تحفظات پر نئی توانائی پالیسی کی منظوری ایک ہفتے کیلیے موخرکر دی گئی۔ ن لیگ کی حکومت کے قیام کے بعد مشترکہ مفادات کونسل کا پہلا اجلاس وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہوا جس میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وزیرخزانہ اور کونسل کے دیگر ارکان نے شرکت کی۔ اجلاس میں آئندہ5سال کیلیے نئی توانائی پالیسی منظوری کیلیے پیش کی گئی تاہم صوبوں کی جانب سے پالیسی پر مزید غور اور اسے بہتر بنانے کیلیے وقت مانگا گیا جس پر اس کی منظوری ایک ہفتے کیلیے موخرکردی گئی۔ وزیراعظم نے نئی مردم اور خانہ شماری پربھی کونسل کے ارکان کو اعتماد میں لیا تاہم اس سلسلے میں صوبوں کی جانب سے انتظامات مکمل کیے جانے کے بعداس کی نئی تاریخوں کا اعلان کیاجائیگا۔



وزارت پانی و بجلی نے بجلی چوری اور تنصیبات کو نقصان پہنچانے کیخلاف سزا اور جرمانوں کی تجاویز پر مشمل لیگل فریم ورک آرڈیننس کا مسودہ مشترکہ مفادات کونسل کو بھجوا دیا، مسودے کے مطابق اگر کوئی شخص بجلی کی ترسیل و تقسیم میں مداخلت یا چھیڑ چھاڑکرے تو اسے تین سال قید یا ایک کروڑ جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں۔ بجلی کی ٹرانسمیشن اور تقسیم نظام میں چھیڑ چھاڑ اور مداخلت پر دو سال قید یا تیس لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دینے کی تجویز دی گئی ہے۔

گھریلو میٹر کی ٹمپرنگ پر ایک سال قید یا دس لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں' صنعتی و کمرشل میٹر کی ٹمپرنگ پر تین سال قید یا ساٹھ لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی جبکہ زرعی میٹر کی ٹمپرنگ پر دو سال قید یا پچیس لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں، وزارت پانی و بجلی کا ایل ایف او مسودہ مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری کے بعد نافذ العمل ہوگا، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا توانائی پالیسی کو کامیاب بنانے کیلیے صوبوں کا کردار بہت اہم ہے، بجلی کے شعبے کو درپیش بڑے مسائل میں طلب و رسد میں فرق، استطاعت کے فقدان، غیر مستعدی اور بجلی کے ضیاع اور چوری شامل ہیں۔ ان مسائل پر قابو پانے کیلیے نظام میں اہم تبدیلیاں لائی جائیں گی۔

پاکستان فرنس آئل سے45 فیصد بجلی پیدا کر رہا ہے جو بہت مہنگی ہے،25 سے28 فیصد ڈسٹری بیوشن نقصانات اور140ارب روپے سالانہ کی بجلی چوری بھی ''شارٹ فال'' کی بڑی وجہ ہیں، ہم کثیر الجہتی حکمت عملی کے ذریعے آئندہ تین چار برسوں کے اندر لوڈ شیڈنگ کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس حکمت عملی میں کم لاگت کی توانائی کی پیداوار، ٹیرف کی تشکیل نو، موثر ٹیکنالوجی، شفاف پن اور میرٹ پر مبنی نظام شامل ہیں، کوئلے اور ہائیڈل پاور کو استعمال کرکے کم لاگت کی بجلی پیدا کی جائیگی۔ بجلی کی پیداوار کیلیے کوئلہ نکالنے اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا عمل وقت بچانے کیلیے ساتھ ساتھ چلائے جائیں گے مقامی کوئلہ دستیاب ہونے تک بجلی کے استعمال کیلیے اسے درآمد کیا جائے گا، قلیل مدتی طلب پر قابو پانے کیلیے دریا کے بہائو پر منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں، بونجی ڈیم اور بھاشا ڈیم سمیت بڑے ڈیم تعمیرکیے جائیں گے، توانائی کی حکمت عملی کے تحت تین برسوں میں پاور ٹیرف کو یک ہندسی سطح تک لایا جائیگا، سبسڈیز کو بتدریج معقول بنایا جائے گا، 200 یونٹ استعمال کرنے والوں کو سبسڈی فراہم کی جائیگی، وزیراعظم نے کہا کہ واپڈا اور دیگر متعلقہ محکموں کی بد انتظامی اور نا اہلی موجودہ صورتحال کی ذمے دار ہے، یہ سسٹم کو قائم رکھنے میں بری طرح ناکام رہے اور آج ہماری ڈسٹری بیوشن لائنز بوجھ برداشت نہیں کر سکتیں، 1400 میگاواٹ بجلی صرف نظام کی مناسب دیکھ بھال کر کے ایک سال کے اندر نظام میں لائی جا سکتی ہے،

انھوں نے گڈانی انرجی کوریڈور کی تعمیرکا اعلان کیا جو توانائی کی پیداوار کیلیے سرمایہ کاروں کو خدمات فراہم کرے گا، یہ بجلی کی پیداوار کا محور ہو گا، تمام وزرائے اعلیٰ نے حکومت کی طرف سے پیش کردہ توانائی پالیسی کو سراہا تاہم کونسل سے درخواست کی کہ انھیں اپنے صوبے میں پالیسی کو مزید بہتر بنانے کے لیے پالیسی کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز اور ہر صوبے سے ایک ایک نمائندے پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیدی اور اسے ایک ہفتے کے اندر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی، وزیراعظم نے بجلی کی چوری اور ضیاع کو کم کرنے کیلیے صوبوں کے کردارکو اجاگرکرتے ہوئے اس ضمن میں ان کا تعاون چاہا اور صوبوں کوہرممکنہ معاونت کی یقین دہانی کرائی،وزیراعظم نے کہا قومی توانائی پالیسی 25 سے30 سال کی ضروریات کو مدنظر رکھ کرتیارکی گئی ہے۔
Load Next Story