عثمان بزدار نہیں وزرا کی کارکردگی ناقص ہے

گھر کو ٹھیک کرلیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا

msuherwardy@gmail.com

وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ دورہ نہایت دلچسپ تھا۔جس طرح سانحہ ساہیوال کے بعد انھوں نے ٹوئٹ پر ٹوئٹ کیے تھے ۔ ایک امید تھی کہ وہ سانحہ ساہیوال کے متاثرین سے ضرور ملاقات کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ انھوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے کہا کہ وہ سانحہ ساہیوال کے متا ثر ین سے مل لیں۔ا یسے میں سوال ہے کہ جب معاملہ عثمان بزدار نے ہی دیکھنا تھا تو پاپولر ٹوئٹس کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پہلے دن سے یہ موقف رکھنا چاہیے تھا کہ عثمان بزدار اس معاملے کو انصاف کے اصولوں کے مطابق دیکھیں۔ اور اگر ٹوئٹس کر لیے تھے تو اب ان مظلوموں کو ملنے کی اخلاقی جرات بھی ہونی چاہیے تھی۔ یہ تو عجیب بات ہوئی کہ جہاں اچھے نمبر بننے ہوں وہاں خود آگے آگے جہاں پاؤں پھسلے وہاں عثمان بزدار کو آگے کر دو۔ بہر حال یہ خبر ضرور ہے کہ وزیر اعظم حکومت کی جانب سے سی ٹی ڈی کی وکالت پر ناراض تھے اور انھوں نے وزرا کو سی ٹی ڈی کی وکالت کرنے سے روک دیاہے۔

ویسے تو بیچارے عثمان بزدار نے جب سے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا ہے تب سے ہی انھیں ہٹانے کی سازشیں جاری ہیں۔ یہ سازشیں کوئی باہر سے نہیں کر رہا ہے بلکہ تحریک انصاف کے اندر سے ہی کی جا رہی ہیں۔ عثمان بزدار پر اپنے ہی گرارہے ہیں بجلیاں۔اس لیے اس بار بھی یہ خبریں بہت گرم تھیں کہ وزیر اعظم عثمان بزدار سے ناراض ہو چکے ہیں۔ ان کی تبدیلی کی باتیں بھی عام تھیں۔ کسی کو ان کا گلدستہ دینا پسند نہیں تھا ،کسی کو ان کا سچ بولنا پسند نہیں تھا، کوئی ان کے غریب ہونے کے مخالف تھا، اس لیے کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کا یہ دورہ لاہور اس ضمن میں بھی فیصلہ کن ہو سکتا تھا۔ تا ہم اس محاذ پر بھی گیم ہی پلٹ گئی ہے۔ ویسے تو عثمان بزدار نے بھی اپنا مقدمہ خوب اچھے طریقے سے لڑا ہے اور ان کی کارکردگی پر سوال اٹھانے والوں کو دھوبی پٹکا ہی مار دیا ہے۔ عثمان بزدار پہلے ہی وزیر اعظم کو ان وزراء کے نام دے چکے تھے جن کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے اور وہ کام کرنے کے بجائے ہر وقت وزیر اعلیٰ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔

اسی تناظر میں وزیر اعظم نے ا س دورہ لاہور کے دوران پنجاب کے دس وزرا کو ان کی کارکردگی کے حوالے سے آخری وارننگ دے دی ہے۔ ویسے بھی اب پنجاب کوئی ون مین شو نہیں ہے۔ یہ کوئی شہباز شریف کی حکومت نہیں ہے کہ اکیلا وزیر اعلیٰ ہی سارا نظام چلا رہا تھا ۔ یہ تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ اس میں ہر وزیر اپنے محکمہ میں با اختیار ہے۔ وزیر اعلیٰ وزیروں کے محکموں میں بے جا مداخلت نہیں کرتا، ایسے میں صرف وزیر اعلیٰ کی کارکردگی پر سوال اٹھانا ایک سیاسی اسٹنٹ کے سوا کچھ نہیں۔ یہ طے ہوا ہے کہ صحت اور تعلیم کے وزیروں سمیت اہم محکموں کے وزرا کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے۔ جب ان کی کارکر دگی ٹھیک ہو جائے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ سازش کرنے والے وزرا خود ہی پھنس گئے ہیں۔ عثمان بزدار کی گردن کاٹنے والوں کی اپنی گردن خطرہ میں آگئی ہے۔ کہیں نہ کہیںعمران خان کو بھی خبر آگئی ہے کہ عثمان بزدار کے دشمن باہر نہیں گھر میں ہیں۔ گھر کو ٹھیک کرلیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

ق لیگ کی تحریک انصاف سے ناراضی کوئی چھپی ہوئی بات نہیں۔اب تو ق لیگ نے بھی اعلا ن کر دیا ہے کہ ان کے اختلافات ہیں۔ اس لیے ایک خیال تھا کہ وزیر اعظم دورہ لاہور کے دوران چوہدری برادران سے ملاقات کریں گے۔ اور اس اتحادی کو منانے کی کوشش کریں گے۔ تا ہم یہ خیال غلط ثابت ہوگیا۔ عمران خان نے چوہدریوں سے ملاقات نہیں کی بلکہ یہ اختیار بھی سردار عثمان بزدار کو ہی دے دیا کہ وہ پنجاب کی سطح پر چوہدریوں سے معاملات طے کر لیں۔اس سے لگتا ہے کہ پہلے مرحلہ میں ق لیگ کو پنجاب میں ایک اور وزارت مل سکتی ہے لیکن مرکز میں ابھی ایک اور وزارت دینے کا کوئی موڈ نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ق لیگ پنجاب سے زیادہ مرکز میں وزارت میں دلچسپی رکھتی ہے۔ لیکن چوہدریوں کو منانے اور ان سے معاملات کو طے کرنے کا مینڈیٹ اب عثمان بزدار کے پاس ہے۔


دورہ لاہور میں میڈیا اسٹرٹیجک کمیٹی کے اجلاس کی بھی بہت خبریں آئی ہیں۔ واقف حال بتاتے ہیں کہ عمران خان تحریک انصاف کی میڈیا حکمت عملی کو بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ گالم گلوچ کوبند کرنے کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔سیاسی درجہ حرات کو کم کرنے کی حکمت عملی بنائی جارہی ہے۔ اب تحریک انصاف کو یہ سمجھ آنا شروع ہو گئی ہے کہ گالم گلوچ کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے۔ سیاسی درجہ حرات کو بڑھانے سے بھی فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے۔ ویسے بھی جب ایک طرف جیل سے اسپتال کا سفر جاری ہو۔ لوگ این آر او کی کھلی باتیں کر رہے ہوں۔ ضمانتوں کا موسم آجائے تو ایسے میں تحریک انصاف کے پاس سیاسی درجہ حرات کم کرنے کے سوا کیا آپشن رہ جاتا ہے۔ گالم گلوچ کمپنی کو اب لگام ڈالنے کے احکامات دیے جا رہے ہیں۔

اسی کے ساتھ یہ بھی فیصلہ ہوگیا ہے شیخ رشید کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا ممبر نہیں بنایا جائے گا۔ یہ بھی ایک یو ٹرن ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے خود وزیر اعظم کے دفتر سے شیخ رشید کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا ممبر بنانے کا خط اسپیکر کو موصول ہو چکا ہے۔ لیکن اس خط سے پہلے ن لیگ نے بھی دو درخواستیں اسپیکر کوجمع کرا دی تھیں۔ پہلی درخواست رانا ثنا اللہ کو ممبر بنانے کی تھی ا ور دوسری خواجہ سعد رفیق کو ممبر بنانے کی تھی۔ اس طرح اگر حکومت ایک ممبر کو بدلتی تو اپوزیشن دو ممبر بدلنے کو تیار تھی۔ رانا ثنا اللہ کو شیخ رشید کا مقابلہ کرنے کے لیے لایا جا رہا تھا جب کہ خواجہ سعد رفیق کو پروڈکشن آرڈر کے لیے لایا جا رہا تھا۔ تا ہم حکومت نے اب فیصلہ کر لیا ہے کہ شیخ رشید کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا ممبر نہ بنایا جائے اور اسی کے ساتھ اپوزیشن کی بھی دونوں درخواستیں مسترد کر دی جائیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی جیسے ہے ویسے ہی چلائی جائے۔ اس میں تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ یہ فیصلہ بھی اس بات کا عکاس ہے کہ حکومت اب اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی نہیں کرنا چاہتی۔ بلکہ سیاسی درجہ حرات کو کم کرنا چاہتی ہے۔

دورہ لاہور میں گیس کے بلوں کا شور بھی وزیر اعظم کو سنائی دیا۔ شاید اسلام آباد میں بیٹھ کر انھیں یہ شور سنائی نہیں دے رہا تھا۔ اس لیے جہاں ایک دن پہلے وزیر پٹرولیم گیس کے زائد بلوں کا دفاع کر رہے تھے وہاں اب لاہور میں بیٹھ کر وزیر اعظم نے ان زائد بلوں پر نوٹس لے لیا ہے۔ ویسے کیا کوئی اب اسد عمر اور ان حکومتی وزرا سے سوال کر سکتا ہے کہ آپ تو کہتے تھے غریب کے لیے گیس کی قیمتیں نہیں بڑھائی گئی ہیں تو اب یہ غریبوں کو اتنے زیادہ بل کیسے آگئے ہیں۔ سیکڑوں میں آنے والے بل ہزاروں لاکھوںمیں کیسے آگئے ہیں۔بتایا جا رہا ہے کہ عوام کو دونوں طرف سے مارا گیا ہے۔ ایک طرف تو گیس قیمتوں میں بے پناہ اضافے کا بوجھ سامنے آگیا ہے اور کچھ گیس کے سرکلر ڈیٹ سے نبٹنے کے لیے بھی عوام پر بوجھ ڈالا گیا ہے۔

کہا یہی جا رہا ہے کہ وزیر اعظم کے نوٹس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ سب ملی بھگت ہے۔ جیسے ڈالر کی اڑان کے بعد وزیر اعظم نے کہہ دیا تھا کہ مجھے تو ٹی و ی سے پتہ چلا جب کہ سب پتہ تھا۔ اب بھی نوٹس لے کر عوام کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بیچاری سادہ عوام نوٹس کی خبروں سے ہی خوش ہو جائے گی۔ اگر کوئی اعلان ہی کرنا تھا تو یہ کرتے کہ کسی کو یہ زیادہ بل جمع کرانے کی ضرورت نہیں۔ حکومت دوبارہ درست بل بھیجے گی۔ لیکن پیغام یہی ہے کہ نوٹس ہو گیا ہے، اب یہ بل جمع کرادیں۔ باقی اللہ مالک ہے۔ یہی اس حکومت کا کمال ہے کہ یہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتی ہے۔ جیل سے اسپتال بھی منتقل کرتی ہے اور اس کے خلاف بیان بھی داغ دیتی ہے۔ اب بل بھی بھیجتی ہے اور نوٹس بھی لے لیتی ہے۔ بس یہی ریاست مدینہ ہے۔
Load Next Story