آمدنی میں چارگنا اضافہ
قومی وصوبائی اسمبلیوں کی تحلیل یا براہ راست فوجی حکومتوں کا قیام شامل ہے
ترقی کے سفر میں آگے بڑھنے سے پہلے،اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ دنیا بھر میں معاشی ترقی کے لیے مختلف ممالک کے درمیان سخت مقابلہ جاری ہے اور ہم اس مقابلے میں مختلف وجوہات کی وجہ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔ آج چین ، بنگلہ دیش، بھارت ،ایران، دبئی، سنگاپور اورملیشیا کے لوگوں کی فی کس آمدنی ہم سے آگے ہے۔ ان ممالک کی حکومتوں اور عوام کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام کو خوشحال اور با اختیار بنائے بغیرکوئی ملک مستحکم ، آزاد اور خود مختار نہیں ہوسکتا ۔ اس منزل کی طرف سفرکا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
دنیا بھر میں ملکوں کی ترقی کا راز''اچھی حکمرانی'' ہے۔ اس کے چند رہنما اصول ہیں ۔ اپنے حالات کے مطابق ان اصولوں کو اپنا لیا جائے تو پاکستان کے ہر شخص کی آمدنی اس کی موجودہ آمدنی کے مقابلے میں چارگنا ہوجائے گی۔ اقوام متحدہ کے معاشی اور سماجی کمیشن کے مطابق اچھی حکمرانی کے لیے فیصلہ سازی میں خواتین اور مردوں کی عوامی شراکت داری ضروری ہے۔ یہ براہ راست یا ان کے منتخب نمایندوں کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ ملک کے محروم طبقات کی فیصلہ سازی میں شراکت اور ان کی فلاح وبہبود اور تحفظ ضروری ہے۔ اجتماع ، انجمن سازی اور اظہار آزادی کا حق سب کو حاصل ہو اور معاشرے میں نظم وضبط بھی برقرار رہے۔اچھی حکمرانی کا دوسرا اصول منصفانہ آئینی وقانونی نظام کا غیرجانبدارانہ نفاذ ہے۔ انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری ہو۔اس مقصد کے حصول کے لیے ایک آزاد عدلیہ، غیر جانبدار اور بدعنوانی سے پاک پولیس ضروری ہے۔
تیسرا اہم نقطہ شفافیت ہے تمام فیصلے قانون ، قوائد وضوابط کے تحت ہوں اور عملدرآمد بھی انھی اصولوں کے تحت ہو۔ اس سلسلے میں جو اقدامات ہوں اس کی معلومات تک رسائی ہو اور خصوصا ان لوگوں کو معلومات مہیا ہوں جو ان فیصلوں اور اس پر عمل درآمد سے متاثر ہوں ۔ چوتھا اصول ذمے داری اور جواب دہی ہے، اچھی حکمرانی کے لیے ضروری ہے کہ ادارے اپنی کارکردگی کے ذریعے ان تمام متعلقین کو جو ان کے دائرہ کار میں آئے ہیں، انھیں مطمئن رکھیں اور ان کے سامنے جوابدہ ہوں اور اپنے اہداف کو مقررہ وقت میں مکمل کریں۔ فیصلہ سازی اور عملدرآمد میں تاخیر نہ ہو۔ احتساب کا عمل قانون کی بالا دستی اور شفافیت سے مشروط ہونا چاہیے ۔ پانچواں اہم نقطہ افہام وتفہیم اور اتفاق رائے ہے کسی بھی معاشرے میں مختلف الخیال لوگ اور گروہ ہوتے ہیں۔ مختلف قسم کے نقطہ نظر ہوتے ہیں۔ اچھی حکمرانی کے لیے ضروری ہے کہ وہ افہام وتفہیم کی راہ تلاش کرے، اتفاق رائے پیدا کرے اور مختلف گروہوں کے درمیان ثالثی کا انتظام کرے ۔ سب کے مفادات کا خیال رہے اور پورے معاشرے کی بہتری کے لیے راہ تلاش کی جائے۔
کمیشن نے اچھی حکمرانی کے لیے احتساب کے عمل کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ احتساب کے لیے ضروری ہے کہ یہ صرف سرکاری اداروں تک محدود نہ ہو اس میں نجی اداروں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو بھی عوام کے سامنے جوابدہی کا پابند بنایا جائے ۔کمیشن کے مطابق یہ وہ بہترین اقدامات ہیں جو اچھی حکمرانی کی بنیاد ہیں ،لیکن ان اقدامات پر مکمل اور بھرپور عملدرآمد ایک مثالی صورت ہے اس ہدف تک پہنچنا انتہائی مشکل ہے۔
اس مشکل صورت حال کے باوجود پائیدار انسانی ترقی کے اقدامات ناگزیر ہیں ۔ لہٰذا مثالی ''اچھی حکمرانی'' کے حصول کے لیے ہر قدم اٹھانا چاہیے اور اسے ایک حقیقت بنانے کی بھرپورکوشش کرنی چاہیے ۔ اقوام متحدہ کے معاشی اور سماجی کمیشن کی رپورٹ کے تعارف میں کہا گیا ہے، انسانی ترقی کے لیے لکھی جانے والی بیشتر تحریروں،کتابوں میں ''اچھی حکمرانی '' کی اصطلاح کو خصوصی اہمیت دی گئی اور ناقص حکمرانی کو معاشرے میں موجود تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے۔
کمیشن کی اس نشاندہی کے بعد پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کے پاس ایک ایسی بنیادی رہنمائی مہیا ہے جس پر عملدرآمد کے ذریعے خوشحالی اور ترقی کے سفرکا آغازکیا جاسکتا ہے۔ان حقائق سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے مسائل انتہائی گھمبیر اور پیچیدہ ہیں ۔ پاکستان کے عوام ہی وہ قوت ہیں جو متحد اور متحرک ہوکر ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔
پاکستان کی اشرافیہ ، بالائی طبقات اور مقتدرحلقوں پر اہم ترین ذمے داری ہے کہ وہ پاکستان کے اہم ترین مسائل کے حل کے لیے اتفاق رائے کے ساتھ کوشش کریں اورعوام کو بھی آمادہ کریں۔ عموما اصلاحات پر عملدرآمد اسی وقت ہوتا ہے جب بالائی طبقہ اس پر عمل کرتا ہے اور عوام کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ امیرطبقہ بھی خود کو قوانین کا پابند بنا رہا ہے۔ عوام عمومی طور پر بالائی طبقات اور اشرافیہ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں، لیکن اگر دونوں طبقات کے درمیان خلیج بڑھ جائے تو تصادم کی ایسی کیفیت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ جب غریب آدمی امیر شخص کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ لہٰذا معاشرے میں توازن کو قائم رکھنا لازمی ہے۔ جب تک پاکستان کے ارباب اختیار اور امراء ذاتی مفاد کے حصار سے باہر نہیں آئیں گے اور معاشرے کی فلاح کی سوچ اختیار نہیں کریں گے اچھی حکمرانی کی جانب آگے بڑھا نہیں جاسکتا ہے۔
موجودہ حالات میں وزیرِ اعظم عمران خان کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف اہم ترین حلقوں سے بھر پور حمایت مل رہی ہے، لیکن انھیں اندرون ملک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ بعض مذہبی جماعتیں بھی ایسے مواقعے کی تلاش میں ہیں جس میں وہ اقتدار میں کوئی حصہ حاصل کرلیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مختلف جماعتوں کے درمیان نظریاتی اختلاف یا محاذ آرائی ہے لیکن آج کی حقیقت کچھ اور ہے۔ اس وقت نظریاتی سیاست بہت پیچھے جا چکی ہے اور سیاست ایک کامیاب کاروبارکی شکل اختیارکر رہی ہے۔
جو ملکی فلاح وبہبود کے لیے ایک منفی عمل ہے۔گزشتہ دو سالوں سے بعض تبدیلیاں سامنے آئی ہیں، جس میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کے نتیجے میں نوازشریف کی تاحیات نااہلی سب سے اہم ہے ، جب کہ دوسری اہم تبدیلی عمران خان کا وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونا ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کے خیال میں اس سارے عمل میں ملک کے طاقتور حلقوں کا کردار ہے، لیکن یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس عمل میں پارلیمنٹ برقرار رہی اور انتخابی عمل بھی مکمل ہوا ۔اس سے قبل پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی کے تلخ تجربات رہے ہیں۔
جس میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کی تحلیل یا براہ راست فوجی حکومتوں کا قیام شامل ہے۔ موجودہ تبدیلی میں اب بھی قومی وصوبائی اسمبلیوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان میں یہ تبدیلی محض چہرے کی تبدیلی ہے یا آنے والے وقتوں میں اچھی حکمرانی اور دیرینہ مسائل کے حل کی طرف پیشرفت ہوگی یہ اب بھی ایک سوالیہ نشان ہے؟ پاکستانی عوام میڈیا اور فکرمند سیاسی کارکنوں کو ایک بھرپور جدوجہد کرنی ہوگی انھیں ملک کے مقتدر طبقات اور اشرافیہ پر دباؤ بڑھانا ہوگا کہ وہ اپنے ذاتی اور گروہی مفادات سے نکل کر پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کردار ادا کریں۔ ایسی صورت میں پاکستان ایک ایسا ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بن سکتا ہے۔ جہاں لوگوں کو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہوگا، وہ با اختیار ہوں گے اور ان کی آمدنی موجودہ آمدنی کے مقابلے میں چارگنا ہوجائے گی۔ فیصلہ ہم سب کوکرنا ہے کہ ہم بے حسی اختیارکریں یا ایک صاف ستھرے منصفانہ نظام کے لیے کردار ادا کریں۔
دنیا بھر میں ملکوں کی ترقی کا راز''اچھی حکمرانی'' ہے۔ اس کے چند رہنما اصول ہیں ۔ اپنے حالات کے مطابق ان اصولوں کو اپنا لیا جائے تو پاکستان کے ہر شخص کی آمدنی اس کی موجودہ آمدنی کے مقابلے میں چارگنا ہوجائے گی۔ اقوام متحدہ کے معاشی اور سماجی کمیشن کے مطابق اچھی حکمرانی کے لیے فیصلہ سازی میں خواتین اور مردوں کی عوامی شراکت داری ضروری ہے۔ یہ براہ راست یا ان کے منتخب نمایندوں کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ ملک کے محروم طبقات کی فیصلہ سازی میں شراکت اور ان کی فلاح وبہبود اور تحفظ ضروری ہے۔ اجتماع ، انجمن سازی اور اظہار آزادی کا حق سب کو حاصل ہو اور معاشرے میں نظم وضبط بھی برقرار رہے۔اچھی حکمرانی کا دوسرا اصول منصفانہ آئینی وقانونی نظام کا غیرجانبدارانہ نفاذ ہے۔ انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری ہو۔اس مقصد کے حصول کے لیے ایک آزاد عدلیہ، غیر جانبدار اور بدعنوانی سے پاک پولیس ضروری ہے۔
تیسرا اہم نقطہ شفافیت ہے تمام فیصلے قانون ، قوائد وضوابط کے تحت ہوں اور عملدرآمد بھی انھی اصولوں کے تحت ہو۔ اس سلسلے میں جو اقدامات ہوں اس کی معلومات تک رسائی ہو اور خصوصا ان لوگوں کو معلومات مہیا ہوں جو ان فیصلوں اور اس پر عمل درآمد سے متاثر ہوں ۔ چوتھا اصول ذمے داری اور جواب دہی ہے، اچھی حکمرانی کے لیے ضروری ہے کہ ادارے اپنی کارکردگی کے ذریعے ان تمام متعلقین کو جو ان کے دائرہ کار میں آئے ہیں، انھیں مطمئن رکھیں اور ان کے سامنے جوابدہ ہوں اور اپنے اہداف کو مقررہ وقت میں مکمل کریں۔ فیصلہ سازی اور عملدرآمد میں تاخیر نہ ہو۔ احتساب کا عمل قانون کی بالا دستی اور شفافیت سے مشروط ہونا چاہیے ۔ پانچواں اہم نقطہ افہام وتفہیم اور اتفاق رائے ہے کسی بھی معاشرے میں مختلف الخیال لوگ اور گروہ ہوتے ہیں۔ مختلف قسم کے نقطہ نظر ہوتے ہیں۔ اچھی حکمرانی کے لیے ضروری ہے کہ وہ افہام وتفہیم کی راہ تلاش کرے، اتفاق رائے پیدا کرے اور مختلف گروہوں کے درمیان ثالثی کا انتظام کرے ۔ سب کے مفادات کا خیال رہے اور پورے معاشرے کی بہتری کے لیے راہ تلاش کی جائے۔
کمیشن نے اچھی حکمرانی کے لیے احتساب کے عمل کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ احتساب کے لیے ضروری ہے کہ یہ صرف سرکاری اداروں تک محدود نہ ہو اس میں نجی اداروں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو بھی عوام کے سامنے جوابدہی کا پابند بنایا جائے ۔کمیشن کے مطابق یہ وہ بہترین اقدامات ہیں جو اچھی حکمرانی کی بنیاد ہیں ،لیکن ان اقدامات پر مکمل اور بھرپور عملدرآمد ایک مثالی صورت ہے اس ہدف تک پہنچنا انتہائی مشکل ہے۔
اس مشکل صورت حال کے باوجود پائیدار انسانی ترقی کے اقدامات ناگزیر ہیں ۔ لہٰذا مثالی ''اچھی حکمرانی'' کے حصول کے لیے ہر قدم اٹھانا چاہیے اور اسے ایک حقیقت بنانے کی بھرپورکوشش کرنی چاہیے ۔ اقوام متحدہ کے معاشی اور سماجی کمیشن کی رپورٹ کے تعارف میں کہا گیا ہے، انسانی ترقی کے لیے لکھی جانے والی بیشتر تحریروں،کتابوں میں ''اچھی حکمرانی '' کی اصطلاح کو خصوصی اہمیت دی گئی اور ناقص حکمرانی کو معاشرے میں موجود تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے۔
کمیشن کی اس نشاندہی کے بعد پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کے پاس ایک ایسی بنیادی رہنمائی مہیا ہے جس پر عملدرآمد کے ذریعے خوشحالی اور ترقی کے سفرکا آغازکیا جاسکتا ہے۔ان حقائق سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے مسائل انتہائی گھمبیر اور پیچیدہ ہیں ۔ پاکستان کے عوام ہی وہ قوت ہیں جو متحد اور متحرک ہوکر ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔
پاکستان کی اشرافیہ ، بالائی طبقات اور مقتدرحلقوں پر اہم ترین ذمے داری ہے کہ وہ پاکستان کے اہم ترین مسائل کے حل کے لیے اتفاق رائے کے ساتھ کوشش کریں اورعوام کو بھی آمادہ کریں۔ عموما اصلاحات پر عملدرآمد اسی وقت ہوتا ہے جب بالائی طبقہ اس پر عمل کرتا ہے اور عوام کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ امیرطبقہ بھی خود کو قوانین کا پابند بنا رہا ہے۔ عوام عمومی طور پر بالائی طبقات اور اشرافیہ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں، لیکن اگر دونوں طبقات کے درمیان خلیج بڑھ جائے تو تصادم کی ایسی کیفیت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ جب غریب آدمی امیر شخص کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ لہٰذا معاشرے میں توازن کو قائم رکھنا لازمی ہے۔ جب تک پاکستان کے ارباب اختیار اور امراء ذاتی مفاد کے حصار سے باہر نہیں آئیں گے اور معاشرے کی فلاح کی سوچ اختیار نہیں کریں گے اچھی حکمرانی کی جانب آگے بڑھا نہیں جاسکتا ہے۔
موجودہ حالات میں وزیرِ اعظم عمران خان کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف اہم ترین حلقوں سے بھر پور حمایت مل رہی ہے، لیکن انھیں اندرون ملک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ بعض مذہبی جماعتیں بھی ایسے مواقعے کی تلاش میں ہیں جس میں وہ اقتدار میں کوئی حصہ حاصل کرلیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مختلف جماعتوں کے درمیان نظریاتی اختلاف یا محاذ آرائی ہے لیکن آج کی حقیقت کچھ اور ہے۔ اس وقت نظریاتی سیاست بہت پیچھے جا چکی ہے اور سیاست ایک کامیاب کاروبارکی شکل اختیارکر رہی ہے۔
جو ملکی فلاح وبہبود کے لیے ایک منفی عمل ہے۔گزشتہ دو سالوں سے بعض تبدیلیاں سامنے آئی ہیں، جس میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کے نتیجے میں نوازشریف کی تاحیات نااہلی سب سے اہم ہے ، جب کہ دوسری اہم تبدیلی عمران خان کا وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونا ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کے خیال میں اس سارے عمل میں ملک کے طاقتور حلقوں کا کردار ہے، لیکن یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس عمل میں پارلیمنٹ برقرار رہی اور انتخابی عمل بھی مکمل ہوا ۔اس سے قبل پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی کے تلخ تجربات رہے ہیں۔
جس میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کی تحلیل یا براہ راست فوجی حکومتوں کا قیام شامل ہے۔ موجودہ تبدیلی میں اب بھی قومی وصوبائی اسمبلیوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان میں یہ تبدیلی محض چہرے کی تبدیلی ہے یا آنے والے وقتوں میں اچھی حکمرانی اور دیرینہ مسائل کے حل کی طرف پیشرفت ہوگی یہ اب بھی ایک سوالیہ نشان ہے؟ پاکستانی عوام میڈیا اور فکرمند سیاسی کارکنوں کو ایک بھرپور جدوجہد کرنی ہوگی انھیں ملک کے مقتدر طبقات اور اشرافیہ پر دباؤ بڑھانا ہوگا کہ وہ اپنے ذاتی اور گروہی مفادات سے نکل کر پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کردار ادا کریں۔ ایسی صورت میں پاکستان ایک ایسا ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بن سکتا ہے۔ جہاں لوگوں کو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہوگا، وہ با اختیار ہوں گے اور ان کی آمدنی موجودہ آمدنی کے مقابلے میں چارگنا ہوجائے گی۔ فیصلہ ہم سب کوکرنا ہے کہ ہم بے حسی اختیارکریں یا ایک صاف ستھرے منصفانہ نظام کے لیے کردار ادا کریں۔