برہان وانی کے خون سے اُٹھنے والی چنگاری بھارتی تسلط کو خاکستر کردے گی
جہاں نوجوانوں کے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم ہوتے ہیں وہیں خواتین نے اپنے ملبوس کو ہی پرچم میں ڈھال لیا۔
کشمیر گذشتہ 72 برسوں سے انسانی ا ور بنیادی حقوق کی علمبردار اقوامِ عالم کے ضمیر کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا، دنیا کے سات ارب سے زیادہ انسانوں کی بے حسی پر ایک متواتر سوال بھی ہے، واضح رہے کہ دنیا کے مسلم ممالک کی اکثریت کشمیراور کشمیری مسلمانوں کی حمایت گذشتہ 72 برسوں سے کرتی چلی آرہی ہے۔
تقسیمِ ہند اورقیام پاکستان کے آغاز سے کشمیریوں نے اپنی آزادی جدوجہد شروع کردی یہ جدوجہد پہلے ڈوگرا راجہ ہری سنگھ اور اُس کی ظالم فوج کے خلاف تھی جس میں میر پور آزاد کشمیر میں 5 فروری کی جراتمندانہ معرکہ ،تاریخِ آزادی کا ایک درخشاں باب بن گیا ، پھر جب بھارت نے اپنی فو جیں کشمیر میں اتار دیں تو دونوں ملکوں میں باقائدہ جنگ شروع ہوگئی یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی انڈونیشیا سمیت بہت سے مسلم ملکوں کو آزادی نہیں ملی تھی اور مغربی قوتوں نے فلسطین میں یہودیوں کی ریاست اسرائیل کے قیام کی منظوری دے دی تھی اس وقت قائد اعظم نے مسلم ملکوں کو پیغا م دیتے ہوئے یہ فرمایا۔
''مسلم برادر ملکوں کے لیے دوستانہ اور نیک خواہشات کا پیغام ہے کہ ،ہم تمام ایک خطرناک دور سے گزر رہے ہیں ۔طاقت کی بنیاد پر جو سیاسی ڈرامہ فلسطین، انڈونیشیااور کشمیر میں کھیلا گیا وہ ہماری آنکھیں کھو لنے کے لیے کا فی ہے،ہم صرف متحد ہو کر ہی اپنی آواز دنیا میں موثر طور پر اٹھا سکتے ہیں۔''
کشمیر کی تاریخ یہ بتا تی ہے کہ یہ ریاست کسی مغل بادشاہ نے ڈوگرا خاندان کونہیں دی تھی ،بلکہ جب پنجاب کے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد سکھوں کی جنگ انگریزوں سے ہوئی جس میں شکست کے بعد تاوانِ جنگ کی رقم میں 75 لاکھ نانک شاہی کم تھی تو انگریزوں نے اسے پورا کرنے کے لیے کشمیر کو 1846 ء میں 75 لاکھ نانک شاہی کرنسی میں ایک ڈوگرا گلاب سنگھ کوفروخت کردیا تھا اس واقع پر ایک کشمیری شاعر نے یوں کہا ہے ( با غ و بہشت و کھیت و خیاباں فروختن ۔۔قومیں فروختن او چہ ارزاں فروختن )اور حقیقت میں اسی دور سے کشمیریوں نے اپنی آزادی کی کٹھن صبر آزما جد وجہد ِ شروع کر دی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی اور جس میں سب سے بڑا معرکہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ہو نے والی پہلی جنگ ہے جو اکتوبر1947 سے شروع ہوئی اور 1949 میں اُس وقت بند ہوئی ،،جب کشمیری مجاہدین اور پاکستانی افواج آزادکشمیر کا ایک بڑا حصہ بھارت کی اورراجہ ہری سنگھ کی مشترکہ افواج سے آزاد کرواچکے تھے۔
تو بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میںگئے اور جنگ بندی کراوائی اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی ان قرادادوں سے اتفاق کیا کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام کریں گے اور کشمیریوں کی رائے معلوم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کروائی جائے گی واضح رہے کہ ریاست جموں وکشمیر کی 80 فیصد عوام مسلمان ہے اور یہ واضح ہے کہ کشمیر ی اب بھی اپنی ریاست کا الحاق پاکستان سے چاہتے ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی جموں و کشمیر کا پورا علاقہ پاکستان سے ملتا ہے کشمیر کو دنیا سے ملانے والے چھ راستے یہاں ہیں۔
یوں اور آج بھی روزانہ ہزاروں کشمیری مقبوضہ بھارتی کشمیرمیں جب مظا ہرہ کرتے ہیں تو اِن خواتین اور مردوں کے ہاتھوں میں سبز ہلالی پاکستانی پر چم ہوتے ہیں اورکشمیری خواتین تو پاکستانی پرچم کے جیسا لباس پہن کر سر تاپا خود کو پاکستان بنا لیا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارت کی مودی سرکار نے بھارتی مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں سبز رنگ کے کپڑے کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے،لیکن اسے یہ معلوم نہیں کہ کشمیر واقعی زمین پر جنت ہے۔ یہاں چنار لہلہاتے ،دریا گنگناتے اور پرندے چہچہاتے اس دریاؤں کی سفیدی اور اس کی لہلہاتی سبز رنگت نے اس کے پورے رقبے ہی کو پاکستانی پرچم جیسا بنا دیا ہے ،اور اس کی مقدس فضاؤں میں ہزار ہا اقسام کے پھولوں کی خوشبوئیں رچی بسی ہیں یہ واقعی جنت ہے۔ یہاں بنات ِ کشمیر مردوں کے شانہ بشانہ تین نسلوں سے بھارتی جا رحیت کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہی ہیں اِن میں سے ہزاروں خواتین نے جام شہادت بھی نوش کیا اور لاکھوں خواتین ایسی ہیں کہ اپنے سہاگ کی شہادت پر شہید کے لہو کو اپنے ہاتھ کی مہندی بنا کر،مادرِ وطن پر اپنا تن من دھن قربان کردینے قسم کھا تی ہیں۔
اگر چہ کشمیریوں کی جد وجہد ِ آزادی 72 برسوں سے جاری ہے،لیکن اس میں نئے جوش و ولولے کے ساتھ شدت 8 جولائی 2016 سے اسوقت آئی جب سڑکوں اور شاہراہو ں پر جمہور ی انداز میں کشمیر کی آزادی کے لیے اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراقردادوں کی بنیاد پر ،جد جہد کرتے ہوئے ۔ 22 سالہ خوبصورت نوجوان برہان وانی بھارتی فوجیوں کی گولیوں سے شہید ہوگیا ۔ اس کی شہات کے بعد ہزاروں کشمیری خواتین اور مرد شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔
اِس وقت بھا رتی مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج مو جود ہے،اور اب تو 20 دسمبر2018 سے مقبوضہ کشمیر میں صدارتی راج نافذ ہے ہر طرف ظلم و بربریت کا دور ودورہ ہے بچو ں،بوڑھوں اور نوجوان ،مرد وخواتین کو ہر روز سینکڑ وں کی تعداد میں گرفتار کے ان پر تشدد کیا جاتا ہے ،خوا تین کی بے حرمتی کی جاتی مگر یہ تمام ظلم و ستم اِن کو آزادی کی جد و جہد سے نہیں روک سکتے۔
کشمیر کی یہ عام خواتین ہیں جو کشمیر کی آزادی کے لیے سر بکف ہیںاور ساتھ ہی ساتھ وہ کشمیری خواتین رہنما بھی ہیں جن میں فرید ہ بہن جی ہیں جو جموں اینڈ کشمیر محاذ کے پلیٹ فارم سے جمہوری انداز میں بھارت کی ہرجارحیت اور ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔ بھارت نے مقبو ضہ جموں وکشمیر مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے برعکس بھارت کے مختلف علاقوں سے ہندو ں کو لا کر یہاں آباد کر نا شروع کیا ہے جس کے خلاف حریت قیادت آواز اُٹھا رہی ہے۔ آسیہ اندرابی ہیں جو دخترانِ ملتِ کشمیر کے پلیٹ فارم سے 1993 سے کشمیر کے حق خود ارادیت کے لیے خواتین کی راہنمائی کر رہی ہیں۔
پھر مشال ملک ہیں جو پاکستانی نژادکشمیر ی خاتون ہیں جہنوں نے مقبوضہ کشمیر ی لیڈر یاسین ملک سے 22 فروری2012 میں شادی کی۔ انہوں نے یہ شادی کشمیر کی آزادی کے عشق میں کی ،ان کے شوہر یاسین ملک اُس وقت سے اب تک بہت کم ہی آزاد رہے ہیں۔ وہ مسلسل بھارتی جبر کا نشانہ رہے ہیں جس کے باعث اُن کے گردے بھی بُری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔ ،مشال ملک اس وقت جموں اینڈ کشمیر لیبر یشن فرنٹ کے پلیٹ فار م سے بطور چیر پرسن متواتر اور بہت موثر انداز میں کشمیریوں کی آزادی کی جد وجہدمیں مصروف ہیں اِ ن خواتین کے عزم و ہمت کو دیکھ کر انداز ہ ہو تا ہے کہ جب کسی قوم کی خواتین آزادی کے لیے اتنی پُر جوش ہوں تو پھر دنیا کی کو ئی قوت زیادہ دیر اَن کو غلام نہیں رکھ سکتی ۔ بھارتی سیاسی قیادت نے اپنی جانب سے تو یہ کوشش کی تھی کہ مسئلہ کشمیر کو الجھا کر اتنی تاخیر کردی جائے کہ یہ مسئلہ ہی نہ رہے مگر آج 72 برس گذر جانے کے باوجود یہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اُبھر کر سامنے آیا ہے۔
برہا ن وانی شہید تک کشمیریوں کی تیسری نسل کا لہو گواہی دے رہا ہے کہ جلد کشمیر آزاد ہو گا ،یہاں ایک اہم جذبہ وہ ہے جو صوفی محمد یعقوب شہید جیسے کشمیریوں سے منتقل ہو تا آیا ہے یوںصوفی شہید کے بعد دوسری نسل کے اِن سنیئر افراد میں دیگر کئی شخصیات کے علاوہ اہم ترین بیرسٹر عبد القیوم چوہدری برطانوی ہاوس آف لارڈ کے نذیر احمد، لارڈ قربان حسین اور صوفی محمد یعقوب کے فرزند چوہدری خلیق الزمان ہیں جو پہلے اپنے دیگر سات بہن بھائیوں کی طرح بر طانیہ میں مقیم تھے اور وہاں ایک ماہنامے کے ایڈیٹر بھی تھے مگر عین جوانی ہی میں انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ آزاد کشمیر واپس جائیں اور غیر سیاسی اور رضاکارنہ انداز میں سماجی رفاعی اور فلاحی کام کر یں۔ وہ اب طویل عرصے سے میر پور میں ڈپٹی کسٹوڈین کے منصب پر فائز ہیں۔
انہوں نے اپنے ذرائع سے اسکول ،لائبریری، رفاہی فلاحی ادرے قائم کئے مگر سب سے اہم اور مشکل کام انہوں نے یہ کیا کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر صوفی یعقوب کے بعد کشمیریوں کی دوسری نسل میںکشمیری ہونے اور اس اعتبار سے اپنی شناخت قائم رکھنے کے جذبے کو زند ہ رکھا۔ اس سے بڑھ کر مشکل کام وہ یہ کر رہے ہیں کہ کشمیریوں وہ تیسر ی نسل جو گذشتہ 20 سے25 برس پہلے برطانیہ ہی میں پیدا ہوئی 'اِن میں سے تو ایسے بھی نوجوان ہیں جن کے والدین بھی برطانیہ میںپید اہوئے ہیں' اس نسل کی اس انداز سے تربیت کر رہے ہیں کہ وہ اپنے کشمیری ہو نے، اپنی ثقافتی تہذیبی ،اخلاقی ، دینی اور تاریخی شناخت قائم رکھتے ہو ئے ،خود کو متحد رکھتے ہوئے ، اپنے والد ین کی طرح کشمیریوں کی حمایت جاری رکھیں ۔یہ بلا شبہہ ایک مشکل اور صبر آزما مشن ہے۔
میں نے بارہا آزاد کشمیر میں دیکھا ہے کہ وہ نوجوان جو برطانیہ ہی میں پیدا ہو ئے جب اپنے والدین کے ساتھ آزاد کشمیر آتے ہیں تو یہاں اُ ن کو اُن کی تہذیب و ثقافت اور تاریخ سے آگاہ کیا جاتا ہے یہاں اس مقصد کے لیے بہت سی علمی ،ادبی ،ثقاوتی تنظیمیں قرات اور نعت خوانی کی محافل، مشاعروں ،مذاکروں اور سیمیناروں کا انعقاد کرتی رہتی ہیں،اور تعریف کی بات یہ ہے کہ صوفی محمد یعقوب شہید کے بیٹے چوہدری خلیق الز مان ایسی سرگرمیوں کے روح رواں ہوتے ہیں۔ اِس وقت جب پاکستان میں مجموعی طور پر شرح خواندگی 58% ہے تو آزاد کشمیر میں شرح خواندگی 74% ہے۔ برطانیہ میں لارڈ مئیر بریڈ فورڈ خادم حسین سمیت کشمیری اعلی منصب و مقام پر فائز ہیں ۔
صوفی محمد یعقوب شہید
شمیر کے ایک معروف ،سماجی سیاسی رہنما صوفی محمد یعقوب شہید ہیں جنہیں حا سدین نے12 فروری1973 کو اس لیے شہید کروا دیا کہ انہوں نے بھارتی مقبوضہ جموں وکشمیر اور آزاد کشمیر کے عوام کے لیے انتھک جدوجہد کی۔ صو فی محمد یعقوب شہید ڈانگری بالا ضلع میر پور آزادکشمیر کے ایک متوسط چوہدری گھرانہ میں جنوری1921 میں پیدا ہوئے اور ابتدائی مذہبی تعلیم کے ساتھ سرکاری پرائمر ی اسکو ل بھی پاس کیا مگر اُن کا مطالعہ اور ویژن باقائدہ تعلیم سے کہیں زیادہ تھا۔
انہوں نے اپنے علاقے میر پور کو 5 ۔فروری 1948 کو جانوں کا نذرانہ دے کرغلامی سے آزادکرانے کا عمل دیکھا تھا۔ 1960 میں عالمی بینک کی معاونت سے پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے پانے کا عمل شروع ہوا اور 1962 اس سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ اس تناظر میں جب میر پور آزاد کشمیر میں منگلا ڈیم کی تعمیر کے لیے شہر کو خالی کروایا گیا اور اب بے گھر لوگوں کو متبادل زمینیں دیں گئیں تو اُس زمانے میں برطانیہ کو اپنی تیز رفتار صنعتی ترقی کے لیے فوری طور پر ہزاروں کی تعداد میں محنت کش تو انا افراد کی ضرورت تھی۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ بھی برطانیہ کے پاس تھا یوں میرپور کے وہ لوگ جو منگلا ڈیم کی تعمیر سے متاثر ہوئے تھے اُن کو برطانیہ آنے میں فوقیت دی گئی۔
یہ وہ زمانہ ہے جب نہرو 1949 کی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی قراردادوں پر مختلف بہانوں سے عملددر آمد کو روکے ہو ئے تھے۔ صوفی یعقوب جہاں علاقے سماجی رفاعی کاموں اور تعلیم کے فروغ کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے وہیں وہ پچاس کی دہائی سے سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے والد چوہدری نور حسین مرحوم اور محمد عبدالخاق انصار ی ایڈووکیٹ مرحوم کے ساتھ سیاسی جد وجہد میں بھی پورے جوش وخروش سے مصروفِ عمل رہے اور قید و بند کی تکالیف اور مصیبتیں بھی برداشت کیں۔
اُن کا اہم کام یہ ہے کہ اُنہوں نے عملی کو شش کی کہ زیادہ سے زیادہ کشمیری برطانیہ میں آباد ہوں تاکہ مستقبل میںنہ صرف کشمیری مالی ،معاشی اور اقتصا دی لحاظ سے بہتر پوزیشن میں ہوں بلکہ وہ برطانیہ کے جمہوری پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کو کامیاب بنانے میں بھی مدد دیں یوں صوفی یعقوب شہید نے نہ صرف بہت سے عام، غریب اور سادہ کشمیریوں کو برطانیہ میں مستقل سکونت اختیار کرنے میں مدد دی بلکہ 1962 ء سے 1973 ء تک چھ مرتبہ برطانیہ گئے اور پانچ مرتبہ سعودی عرب گئے۔
نغمۂ کشمیر
مرے کشمیر میں تیری فضا میں رنگ بھر دوں گا
لہو کے رنگ سے میلی ہَوا میں رنگ بھر دوں گا
مرے کشمیر میں تیری فضا میں رنگ بھر دوں گا
ستم کا رُخ بدل دوں گا میں اپنے زورِ بازو سے
مہک اُٹھیں گے پھر تیرے گلستاں سارے خوشبو سے
ہر اِک غنچے میں پھولوں کی قبا میں رنگ بھر دوں گا
مرے کشمیر میں تیری فضا میں رنگ بھر دوں گا
میں لکھّوں گا میں گائوں گا محبت کے حسیں نغمے
ترا شاعر ہوں میں مہکائوں گا سنسان سب رستے
میں تیرے بادلوں تیری گھٹا میں رنگ بھر دوں گا
مرے کشمیر میں تیری فضا میں رنگ بھر دوں گا
بنائوں گا میں سب منظر ترے جنّت نشاں پھر سے
نکھاروں گا زمیں تیری میں تیرا آسماں پھر سے
تری چڑیوں، پرندوں کی صدا میں رنگ بھر دوں گا
مرے کشمیر میں تیری فضا میں رنگ بھر دوں گا
سنو اقوامِ عالم میں تمھیں یہ بات کہتا ہوں
ڈھلے گی ایک دن درد و ستم کی رات کہتا ہوں
میں ایسے درد کی ہر انتہا میں رنگ بھر دوں گا
مرے کشمیر میں تیری فضا میں رنگ بھر دوں گا
سُلگتی وادیوں میں جلتے بُجھتے کوہساروں میں
محبت سُرخرو ہو گی وفا کے مرغزاروں میں
میں اِس دھرتی کی اِک اِک یوں ادا میں رنگ بھر دوں گا
مرے کشمیر میں تیری فضا میں رنگ بھر دوں گا
لہو کے رنگ سے میلی ہَوا میں رنگ بھر دوں گا
ڈاکٹر نبیل احمد نبیل
تقسیمِ ہند اورقیام پاکستان کے آغاز سے کشمیریوں نے اپنی آزادی جدوجہد شروع کردی یہ جدوجہد پہلے ڈوگرا راجہ ہری سنگھ اور اُس کی ظالم فوج کے خلاف تھی جس میں میر پور آزاد کشمیر میں 5 فروری کی جراتمندانہ معرکہ ،تاریخِ آزادی کا ایک درخشاں باب بن گیا ، پھر جب بھارت نے اپنی فو جیں کشمیر میں اتار دیں تو دونوں ملکوں میں باقائدہ جنگ شروع ہوگئی یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی انڈونیشیا سمیت بہت سے مسلم ملکوں کو آزادی نہیں ملی تھی اور مغربی قوتوں نے فلسطین میں یہودیوں کی ریاست اسرائیل کے قیام کی منظوری دے دی تھی اس وقت قائد اعظم نے مسلم ملکوں کو پیغا م دیتے ہوئے یہ فرمایا۔
''مسلم برادر ملکوں کے لیے دوستانہ اور نیک خواہشات کا پیغام ہے کہ ،ہم تمام ایک خطرناک دور سے گزر رہے ہیں ۔طاقت کی بنیاد پر جو سیاسی ڈرامہ فلسطین، انڈونیشیااور کشمیر میں کھیلا گیا وہ ہماری آنکھیں کھو لنے کے لیے کا فی ہے،ہم صرف متحد ہو کر ہی اپنی آواز دنیا میں موثر طور پر اٹھا سکتے ہیں۔''
کشمیر کی تاریخ یہ بتا تی ہے کہ یہ ریاست کسی مغل بادشاہ نے ڈوگرا خاندان کونہیں دی تھی ،بلکہ جب پنجاب کے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد سکھوں کی جنگ انگریزوں سے ہوئی جس میں شکست کے بعد تاوانِ جنگ کی رقم میں 75 لاکھ نانک شاہی کم تھی تو انگریزوں نے اسے پورا کرنے کے لیے کشمیر کو 1846 ء میں 75 لاکھ نانک شاہی کرنسی میں ایک ڈوگرا گلاب سنگھ کوفروخت کردیا تھا اس واقع پر ایک کشمیری شاعر نے یوں کہا ہے ( با غ و بہشت و کھیت و خیاباں فروختن ۔۔قومیں فروختن او چہ ارزاں فروختن )اور حقیقت میں اسی دور سے کشمیریوں نے اپنی آزادی کی کٹھن صبر آزما جد وجہد ِ شروع کر دی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی اور جس میں سب سے بڑا معرکہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ہو نے والی پہلی جنگ ہے جو اکتوبر1947 سے شروع ہوئی اور 1949 میں اُس وقت بند ہوئی ،،جب کشمیری مجاہدین اور پاکستانی افواج آزادکشمیر کا ایک بڑا حصہ بھارت کی اورراجہ ہری سنگھ کی مشترکہ افواج سے آزاد کرواچکے تھے۔
تو بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میںگئے اور جنگ بندی کراوائی اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی ان قرادادوں سے اتفاق کیا کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام کریں گے اور کشمیریوں کی رائے معلوم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کروائی جائے گی واضح رہے کہ ریاست جموں وکشمیر کی 80 فیصد عوام مسلمان ہے اور یہ واضح ہے کہ کشمیر ی اب بھی اپنی ریاست کا الحاق پاکستان سے چاہتے ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی جموں و کشمیر کا پورا علاقہ پاکستان سے ملتا ہے کشمیر کو دنیا سے ملانے والے چھ راستے یہاں ہیں۔
یوں اور آج بھی روزانہ ہزاروں کشمیری مقبوضہ بھارتی کشمیرمیں جب مظا ہرہ کرتے ہیں تو اِن خواتین اور مردوں کے ہاتھوں میں سبز ہلالی پاکستانی پر چم ہوتے ہیں اورکشمیری خواتین تو پاکستانی پرچم کے جیسا لباس پہن کر سر تاپا خود کو پاکستان بنا لیا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارت کی مودی سرکار نے بھارتی مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں سبز رنگ کے کپڑے کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے،لیکن اسے یہ معلوم نہیں کہ کشمیر واقعی زمین پر جنت ہے۔ یہاں چنار لہلہاتے ،دریا گنگناتے اور پرندے چہچہاتے اس دریاؤں کی سفیدی اور اس کی لہلہاتی سبز رنگت نے اس کے پورے رقبے ہی کو پاکستانی پرچم جیسا بنا دیا ہے ،اور اس کی مقدس فضاؤں میں ہزار ہا اقسام کے پھولوں کی خوشبوئیں رچی بسی ہیں یہ واقعی جنت ہے۔ یہاں بنات ِ کشمیر مردوں کے شانہ بشانہ تین نسلوں سے بھارتی جا رحیت کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہی ہیں اِن میں سے ہزاروں خواتین نے جام شہادت بھی نوش کیا اور لاکھوں خواتین ایسی ہیں کہ اپنے سہاگ کی شہادت پر شہید کے لہو کو اپنے ہاتھ کی مہندی بنا کر،مادرِ وطن پر اپنا تن من دھن قربان کردینے قسم کھا تی ہیں۔
اگر چہ کشمیریوں کی جد وجہد ِ آزادی 72 برسوں سے جاری ہے،لیکن اس میں نئے جوش و ولولے کے ساتھ شدت 8 جولائی 2016 سے اسوقت آئی جب سڑکوں اور شاہراہو ں پر جمہور ی انداز میں کشمیر کی آزادی کے لیے اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراقردادوں کی بنیاد پر ،جد جہد کرتے ہوئے ۔ 22 سالہ خوبصورت نوجوان برہان وانی بھارتی فوجیوں کی گولیوں سے شہید ہوگیا ۔ اس کی شہات کے بعد ہزاروں کشمیری خواتین اور مرد شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔
اِس وقت بھا رتی مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج مو جود ہے،اور اب تو 20 دسمبر2018 سے مقبوضہ کشمیر میں صدارتی راج نافذ ہے ہر طرف ظلم و بربریت کا دور ودورہ ہے بچو ں،بوڑھوں اور نوجوان ،مرد وخواتین کو ہر روز سینکڑ وں کی تعداد میں گرفتار کے ان پر تشدد کیا جاتا ہے ،خوا تین کی بے حرمتی کی جاتی مگر یہ تمام ظلم و ستم اِن کو آزادی کی جد و جہد سے نہیں روک سکتے۔
کشمیر کی یہ عام خواتین ہیں جو کشمیر کی آزادی کے لیے سر بکف ہیںاور ساتھ ہی ساتھ وہ کشمیری خواتین رہنما بھی ہیں جن میں فرید ہ بہن جی ہیں جو جموں اینڈ کشمیر محاذ کے پلیٹ فارم سے جمہوری انداز میں بھارت کی ہرجارحیت اور ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔ بھارت نے مقبو ضہ جموں وکشمیر مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے برعکس بھارت کے مختلف علاقوں سے ہندو ں کو لا کر یہاں آباد کر نا شروع کیا ہے جس کے خلاف حریت قیادت آواز اُٹھا رہی ہے۔ آسیہ اندرابی ہیں جو دخترانِ ملتِ کشمیر کے پلیٹ فارم سے 1993 سے کشمیر کے حق خود ارادیت کے لیے خواتین کی راہنمائی کر رہی ہیں۔
پھر مشال ملک ہیں جو پاکستانی نژادکشمیر ی خاتون ہیں جہنوں نے مقبوضہ کشمیر ی لیڈر یاسین ملک سے 22 فروری2012 میں شادی کی۔ انہوں نے یہ شادی کشمیر کی آزادی کے عشق میں کی ،ان کے شوہر یاسین ملک اُس وقت سے اب تک بہت کم ہی آزاد رہے ہیں۔ وہ مسلسل بھارتی جبر کا نشانہ رہے ہیں جس کے باعث اُن کے گردے بھی بُری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔ ،مشال ملک اس وقت جموں اینڈ کشمیر لیبر یشن فرنٹ کے پلیٹ فار م سے بطور چیر پرسن متواتر اور بہت موثر انداز میں کشمیریوں کی آزادی کی جد وجہدمیں مصروف ہیں اِ ن خواتین کے عزم و ہمت کو دیکھ کر انداز ہ ہو تا ہے کہ جب کسی قوم کی خواتین آزادی کے لیے اتنی پُر جوش ہوں تو پھر دنیا کی کو ئی قوت زیادہ دیر اَن کو غلام نہیں رکھ سکتی ۔ بھارتی سیاسی قیادت نے اپنی جانب سے تو یہ کوشش کی تھی کہ مسئلہ کشمیر کو الجھا کر اتنی تاخیر کردی جائے کہ یہ مسئلہ ہی نہ رہے مگر آج 72 برس گذر جانے کے باوجود یہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اُبھر کر سامنے آیا ہے۔
برہا ن وانی شہید تک کشمیریوں کی تیسری نسل کا لہو گواہی دے رہا ہے کہ جلد کشمیر آزاد ہو گا ،یہاں ایک اہم جذبہ وہ ہے جو صوفی محمد یعقوب شہید جیسے کشمیریوں سے منتقل ہو تا آیا ہے یوںصوفی شہید کے بعد دوسری نسل کے اِن سنیئر افراد میں دیگر کئی شخصیات کے علاوہ اہم ترین بیرسٹر عبد القیوم چوہدری برطانوی ہاوس آف لارڈ کے نذیر احمد، لارڈ قربان حسین اور صوفی محمد یعقوب کے فرزند چوہدری خلیق الزمان ہیں جو پہلے اپنے دیگر سات بہن بھائیوں کی طرح بر طانیہ میں مقیم تھے اور وہاں ایک ماہنامے کے ایڈیٹر بھی تھے مگر عین جوانی ہی میں انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ آزاد کشمیر واپس جائیں اور غیر سیاسی اور رضاکارنہ انداز میں سماجی رفاعی اور فلاحی کام کر یں۔ وہ اب طویل عرصے سے میر پور میں ڈپٹی کسٹوڈین کے منصب پر فائز ہیں۔
انہوں نے اپنے ذرائع سے اسکول ،لائبریری، رفاہی فلاحی ادرے قائم کئے مگر سب سے اہم اور مشکل کام انہوں نے یہ کیا کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر صوفی یعقوب کے بعد کشمیریوں کی دوسری نسل میںکشمیری ہونے اور اس اعتبار سے اپنی شناخت قائم رکھنے کے جذبے کو زند ہ رکھا۔ اس سے بڑھ کر مشکل کام وہ یہ کر رہے ہیں کہ کشمیریوں وہ تیسر ی نسل جو گذشتہ 20 سے25 برس پہلے برطانیہ ہی میں پیدا ہوئی 'اِن میں سے تو ایسے بھی نوجوان ہیں جن کے والدین بھی برطانیہ میںپید اہوئے ہیں' اس نسل کی اس انداز سے تربیت کر رہے ہیں کہ وہ اپنے کشمیری ہو نے، اپنی ثقافتی تہذیبی ،اخلاقی ، دینی اور تاریخی شناخت قائم رکھتے ہو ئے ،خود کو متحد رکھتے ہوئے ، اپنے والد ین کی طرح کشمیریوں کی حمایت جاری رکھیں ۔یہ بلا شبہہ ایک مشکل اور صبر آزما مشن ہے۔
میں نے بارہا آزاد کشمیر میں دیکھا ہے کہ وہ نوجوان جو برطانیہ ہی میں پیدا ہو ئے جب اپنے والدین کے ساتھ آزاد کشمیر آتے ہیں تو یہاں اُ ن کو اُن کی تہذیب و ثقافت اور تاریخ سے آگاہ کیا جاتا ہے یہاں اس مقصد کے لیے بہت سی علمی ،ادبی ،ثقاوتی تنظیمیں قرات اور نعت خوانی کی محافل، مشاعروں ،مذاکروں اور سیمیناروں کا انعقاد کرتی رہتی ہیں،اور تعریف کی بات یہ ہے کہ صوفی محمد یعقوب شہید کے بیٹے چوہدری خلیق الز مان ایسی سرگرمیوں کے روح رواں ہوتے ہیں۔ اِس وقت جب پاکستان میں مجموعی طور پر شرح خواندگی 58% ہے تو آزاد کشمیر میں شرح خواندگی 74% ہے۔ برطانیہ میں لارڈ مئیر بریڈ فورڈ خادم حسین سمیت کشمیری اعلی منصب و مقام پر فائز ہیں ۔
صوفی محمد یعقوب شہید
شمیر کے ایک معروف ،سماجی سیاسی رہنما صوفی محمد یعقوب شہید ہیں جنہیں حا سدین نے12 فروری1973 کو اس لیے شہید کروا دیا کہ انہوں نے بھارتی مقبوضہ جموں وکشمیر اور آزاد کشمیر کے عوام کے لیے انتھک جدوجہد کی۔ صو فی محمد یعقوب شہید ڈانگری بالا ضلع میر پور آزادکشمیر کے ایک متوسط چوہدری گھرانہ میں جنوری1921 میں پیدا ہوئے اور ابتدائی مذہبی تعلیم کے ساتھ سرکاری پرائمر ی اسکو ل بھی پاس کیا مگر اُن کا مطالعہ اور ویژن باقائدہ تعلیم سے کہیں زیادہ تھا۔
انہوں نے اپنے علاقے میر پور کو 5 ۔فروری 1948 کو جانوں کا نذرانہ دے کرغلامی سے آزادکرانے کا عمل دیکھا تھا۔ 1960 میں عالمی بینک کی معاونت سے پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے پانے کا عمل شروع ہوا اور 1962 اس سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ اس تناظر میں جب میر پور آزاد کشمیر میں منگلا ڈیم کی تعمیر کے لیے شہر کو خالی کروایا گیا اور اب بے گھر لوگوں کو متبادل زمینیں دیں گئیں تو اُس زمانے میں برطانیہ کو اپنی تیز رفتار صنعتی ترقی کے لیے فوری طور پر ہزاروں کی تعداد میں محنت کش تو انا افراد کی ضرورت تھی۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ بھی برطانیہ کے پاس تھا یوں میرپور کے وہ لوگ جو منگلا ڈیم کی تعمیر سے متاثر ہوئے تھے اُن کو برطانیہ آنے میں فوقیت دی گئی۔
یہ وہ زمانہ ہے جب نہرو 1949 کی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی قراردادوں پر مختلف بہانوں سے عملددر آمد کو روکے ہو ئے تھے۔ صوفی یعقوب جہاں علاقے سماجی رفاعی کاموں اور تعلیم کے فروغ کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے وہیں وہ پچاس کی دہائی سے سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے والد چوہدری نور حسین مرحوم اور محمد عبدالخاق انصار ی ایڈووکیٹ مرحوم کے ساتھ سیاسی جد وجہد میں بھی پورے جوش وخروش سے مصروفِ عمل رہے اور قید و بند کی تکالیف اور مصیبتیں بھی برداشت کیں۔
اُن کا اہم کام یہ ہے کہ اُنہوں نے عملی کو شش کی کہ زیادہ سے زیادہ کشمیری برطانیہ میں آباد ہوں تاکہ مستقبل میںنہ صرف کشمیری مالی ،معاشی اور اقتصا دی لحاظ سے بہتر پوزیشن میں ہوں بلکہ وہ برطانیہ کے جمہوری پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کو کامیاب بنانے میں بھی مدد دیں یوں صوفی یعقوب شہید نے نہ صرف بہت سے عام، غریب اور سادہ کشمیریوں کو برطانیہ میں مستقل سکونت اختیار کرنے میں مدد دی بلکہ 1962 ء سے 1973 ء تک چھ مرتبہ برطانیہ گئے اور پانچ مرتبہ سعودی عرب گئے۔
نغمۂ کشمیر
مرے کشمیر میں تیری فضا میں رنگ بھر دوں گا
لہو کے رنگ سے میلی ہَوا میں رنگ بھر دوں گا
مرے کشمیر میں تیری فضا میں رنگ بھر دوں گا
ستم کا رُخ بدل دوں گا میں اپنے زورِ بازو سے
مہک اُٹھیں گے پھر تیرے گلستاں سارے خوشبو سے
ہر اِک غنچے میں پھولوں کی قبا میں رنگ بھر دوں گا
مرے کشمیر میں تیری فضا میں رنگ بھر دوں گا
میں لکھّوں گا میں گائوں گا محبت کے حسیں نغمے
ترا شاعر ہوں میں مہکائوں گا سنسان سب رستے
میں تیرے بادلوں تیری گھٹا میں رنگ بھر دوں گا
مرے کشمیر میں تیری فضا میں رنگ بھر دوں گا
بنائوں گا میں سب منظر ترے جنّت نشاں پھر سے
نکھاروں گا زمیں تیری میں تیرا آسماں پھر سے
تری چڑیوں، پرندوں کی صدا میں رنگ بھر دوں گا
مرے کشمیر میں تیری فضا میں رنگ بھر دوں گا
سنو اقوامِ عالم میں تمھیں یہ بات کہتا ہوں
ڈھلے گی ایک دن درد و ستم کی رات کہتا ہوں
میں ایسے درد کی ہر انتہا میں رنگ بھر دوں گا
مرے کشمیر میں تیری فضا میں رنگ بھر دوں گا
سُلگتی وادیوں میں جلتے بُجھتے کوہساروں میں
محبت سُرخرو ہو گی وفا کے مرغزاروں میں
میں اِس دھرتی کی اِک اِک یوں ادا میں رنگ بھر دوں گا
مرے کشمیر میں تیری فضا میں رنگ بھر دوں گا
لہو کے رنگ سے میلی ہَوا میں رنگ بھر دوں گا
ڈاکٹر نبیل احمد نبیل