بارشوں سے تباہی‘ انتظامی ناکامی

مقامی انتظامیہ کومقامی سطح پر سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچائو کے لیے اپنی ذمے داریاں پوری کرنی چاہیے

خیبر پختونخوا اور پنجاب میں تیز بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریاں اس امر کا ثبوت ہیں کہ مون سون شروع ہونے سے پہلے وفاقی و صوبائی سطح پر کسی بھی طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے انتظامات مکمل ہونے کے دعوے حقائق پر مبنی نہ تھے۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

خیبر پختونخوا اور پنجاب کے کئی علاقوں میں طوفانی بارشوں نے تباہی مچا دی، مواصلاتی نظام درہم برہم ہو گیا، تودے، چھتیں اور دیواریں گرنے کے واقعات میں 7بچوں سمیت 20 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ چنیوٹ کے موضع سخی حسین میں سیلابی ریلا داخل ہو گیا اور موضع جوگیرا کے قریب دریائی کٹائو کے باعث متعدد مکانات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ سیالکوٹ اور نارووال کے قریب نالہ ڈیک میں طغیانی آگئی ہے' سیکڑوں ایکڑ پر زرعی اراضی زیر آب آ گئی جب کہ متعدد دیہات پانی میں ڈوب گئے۔ راولپنڈی اور اس کے نواحی علاقوں میں موسلادھار بارش سے نشیبی علاقوں میں پانی جمع ہو گیا۔

انتظامیہ نے نالہ لئی فلڈ کنٹرول روم کو الرٹ کر دیا ہے۔ نوشہرہ' خٹک کلے اور اضاخیل' کاٹلنگ' بونیر' پشاور کے علاقہ تہکال بالا' باجوڑ' پبی' چارسدہ' ایبٹ آباد اور سوات میں بارشوں اور سیلابی پانی نے تباہی مچا دی' متعدد افراد سیلابی ریلے میں بہہ کر اور منہدم ہونے والی عمارتوں کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئے۔ کئی مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے سڑکیں بلاک ہو گئیں۔ میرپور اور اس کے گردونواح میں موسلادھار بارش سے نشیبی علاقے زیر آب آ گئے' بارش کے باعث دیوار گرنے سے دو افراد جاں بحق ہوئے۔

باغ کے علاقے میں بارش کے دوران مکان پر پہاڑی تودہ گر گیا جس کے نتیجے میں ایک خاندان کے تین افراد جاں بحق اور دو شدید زخمی ہو گئے۔ ٹیری کے علاقے میں بھی مکان کی چھت گرنے سے ایک شخص جاں بحق اور ایک خاتون زخمی ہو گئی۔ مظفر آباد کے علاقے شہید گلی میں پہاڑی تودے کے نیچے دب کر پولیس کانسٹیبل جاں بحق ہو گیا۔ شاہراہ نیلم بھی متعدد مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہو گئی جس کی وجہ سے وادی نیلم کا زمینی رابطہ دیگر علاقوں سے منقطع ہو گیا ہے۔ دریں اثناء ملک کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارشوں کے بعد دریائوں میں پانی کی سطح بلند ہونے لگی ہے۔

فیڈرل فلڈ کمیشن نے دریائے کابل، کرم، سندھ، راوی اور چناب میں سیلاب کی وارننگ جاری کر دی ہے۔ بارشوں' سیلابی ریلوں' نہروں و نالوں کے بند ٹوٹنے' لینڈ سلائیڈنگ اور دیواروں و مکانات گرنے سے ہونے والی ہلاکتیں اور مالی نقصان افسوسناک اور تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس امر کا ثبوت بھی ہیں کہ مون سون شروع ہونے سے پہلے وفاقی و صوبائی سطح پر کسی بھی طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے انتظامات مکمل ہونے کے جو دعوے کیے جاتے رہے وہ حقائق پر مبنی نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تھوڑی سی زیادہ بارشیں ہونے پر اتنے زیادہ جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔


ہمارے ملک میں اکثر یہی ہوتا ہے کہ جب بھی معمول سے کچھ زیادہ بارشیں ہو جائیں ندی نالے اوورفلو کر جاتے ہیں جس سے اہل علاقہ کا کافی نقصان ہوتا ہے۔ اس اوورفلو سے ثابت ہوتا ہے کہ ان ندی نالوں کے بند مضبوط بنانے اور ان کی صفائی کی طرف مناسب توجہ نہیں دی جاتی۔ حکومت کو اس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے کیونکہ یہ واضح ہے کہ ندی نالے جتنے زیادہ صاف ہوں گے ان میں اتنا زیادہ پانی سما سکے گا اور اوورفلو نہیں کرے گا یوں شہری اور دیہی آبادیاں پانی میں نہیں ڈوبیں گی اور ظاہر ہے اس طرح جانی اور مالی نقصان کو بھی محدود رکھا جا سکے گا۔

فی زمانہ ہمارے ملک کو جن بڑے اور اہم مسائل کا سامنا ہے ان میں ایک پانی کی شدید قلت بھی ہے جس کی ایک وجہ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں پر پانی ذخیرہ کرنے کی منصوبہ بندی اور اقدامات ہیں تاہم اس کا سب سے بڑا سبب اب تک پاکستان میں قائم رہنے والی حکومتوں کی جانب سے کسی بڑے آبی ذخیرہ کی تعمیر کے سلسلے میں مجرمانہ غفلت بھی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سال بھر میں مختلف مہینوں میں ہونے والی بارشوں اور موسم گرما میں پگھلنے والے گلیشیئرز سے حاصل ہونے والے پانی کی کافی بڑی مقدار کوئی بڑا آبی ذخیرہ نہ ہونے کی وجہ سے بہہ کر سمندر میں غرق ہو جاتی ہے۔

کوئی بڑا آبی ذخیرہ نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ اب ہر سال ہمیں سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے ہمارے پانیوں پر ڈیم بنانے کے عمل کو روکنے کی پالیسی غیر موثر نظر آتی ہے' علاوہ ازیں پاکستان کی چھوٹے ڈیم تعمیر کرنے کی پالیسی سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس ساری صورتحال کا تقاضا ہے کہ حکومت پانی کا ذخیرہ بڑھانے کے لیے کثیر جہتی پالیسی مرتب کرے اور پھر فوری طور پر اس پر عمل درآمد بھی شروع کیا جائے۔

ایک تو شہری آبادیوں کے ارد گرد موجود نالوں اور پہاڑی علاقوں میں بنی قدرتی آبی گزرگاہوں کی گہرائی تک صفائی کا بندوبست ازحد ضروری ہو چکا ہے' اس طرح پانی اوورفلو نہیں ہو گا اور زیادہ بارشوں سے بھی سیلابی کیفیت پیدا نہیں ہو گی' دوسرے ملک میں بڑے آبی ذخیروں کی تعمیر کی منصوبہ بندی ہونا چاہیے کیونکہ اس طرح کم از کم پنجاب اور سندھ کو ان تباہ کُن سیلابوں سے بچایا جا سکے گا جو ہر سال سیکڑوں قیمتی انسانی جانیں اور اربوں روپے کا سامان اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں۔

مختلف شہروں کی مقامی انتظامیہ کو بھی مقامی سطح پر سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچائو کے لیے اپنے حصے کی ذمے داریاں پوری کرنا چاہیے کیونکہ یہ واضح ہے کہ تھوڑی سی مخلصانہ توجہ دے کر بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کو مکمل ختم نہ بھی کیا جا سکے ان کی شدت ضرور کم کی جا سکتی ہے۔
Load Next Story