اپنے آپ کو بدل لیں
درحقیقت اس بار اپوزیشن نے کرپشن کے خلاف ہونے والے اقدامات سے بچنے کے لیے گٹھ جوڑ کرلیا ہے۔
یہ قانون قدرت ہے، جب اس کی دنیا میں انسانی فلاح کو لے کر کوئی پروگریس ہوتی ہے تو اس کے فوائد تمام اقوام کو پہنچتے ہیں، اقوام عالم کی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے۔ خواہ یہ سائنس کی ترقی ہو۔ ایجادات اور دریافتیں ہوں۔ آرٹ اور میڈیسن ہو یا پھر ماڈرن جمہوری اور فلاحی ریاست کا تصور ہو۔ جب کسی قوم کے طاقتور حلقے بوجوہ اپنے لوگوں کو ان فوائد سے محروم رکھنا چاہتے ہیں تو وہ قوم تقسیم ہو جاتی ہے۔
بنگالیوں نے ہم سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا اور آج بنگلہ دیش ہر معاملے میں ہم سے آگے ہے۔ ہم نے آپسی لڑائیوں میں جتنا وقت برباد کیا شاید ہی کسی قوم نے ایسا کیا ہوگا۔ آج پہلی بار برسراقتدار آنے والی جماعت تحریک انصاف کی جانب سے ان لڑائیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی جو کوشش ہو رہی ہے اُس میں پاکستان کے عوام کو گمراہ کرنے کی بھی مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں۔
گزشتہ روز ایک دوست صحافی نے اپنے طویل اخباری تجزیے میں تکرار سے یہ بات کہی کہ تحریک انصاف کی غیر دانشمندی کی وجہ سے اپوزیشن متحد ہوگئی، حالانکہ ڈیڑھ دو سال بعد یہ کام کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں یہ سب تحریک انصاف سے ڈسے ہوئے، شکست خوردہ عناصر ہیں۔ کسی کا سرمایہ حیات لوٹ لیا، کوئی سیاسی دیوالیہ ہوگیا تو کسی کو خوف ہے کہ اگر یہ حکومت ڈیلیور کر گئی تو ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہوجائے گا۔
درحقیقت اس بار اپوزیشن نے کرپشن کے خلاف ہونے والے اقدامات سے بچنے کے لیے گٹھ جوڑ کرلیا ہے۔مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت جیل میں ہے جب کہ پیپلزپارٹی کی قیادت سمیت 172افراد کے نام ای سی ایل میں ہیں، بلاول زرداری اور مراد علی شاہ کا نام نکالا جا چکا ہے۔ماضی میں اگر اداروں نے کرپشن کے خلاف اقدامات کرنے کی کوشش کی بھی تو حکومتوں نے اداروں کے ہاتھ باندھ دیے۔ موجودہ حکومت احتساب سے پیچھے ہٹتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہی۔
معمولی عددی برتری کے باوجود تحریک انصاف اپوزیشن کو ٹف ٹائم دے رہی ہے۔ماضی میں جتنے بھی الائنس بنے ان کا مقصد حکومت کا خاتمہ تھا۔ایوب خاں، بھٹو، ضیاء، نواز،بے نظیر اورمشرف کے خلاف بنائے گئے اتحادوں کا بنیادی مقصد حکومت وقت کا خاتمہ تھا۔یہ سیاسی جدوجہد میں ایک نیا طرز عمل ہے کہ اپوزیشن کی 2بڑی جماعتیں جنہوں نے ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف کھلے عام عوامی جلسوں میں الزامات کی بوچھاڑ کی تھی،متحد ہوئی ہیں تو حکومت گرانے کے لیے نہیں بلکہ حکومتی گاڑی کو بریکیں لگانے کے لیے یاپھر اس کا رخ کسی اور طرف کرنے۔
جنرل الیکشن میں ہارنے کے بعد اپوزیشن میں بیٹھنے والی جماعتیں پہلے روز سے اس نکتہ پر متفق ہیں کہ تحریک انصاف سے جان چھڑائی جائے۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ حکومت نے انھیں متحد کیا۔ معیشت تباہ ہوگئی ایمانداری کی بات ہے کہ اس سے زیادہ بے بنیاد اور غلط بات اورکیا ہوسکتی ہے۔ معیشت کا حقیقی بیڑا غرق پچھلے چندبرسوں میں ہوا۔ ہمارا سب سے بڑا معاشی بحران یعنی بیلنس آف پیمنٹ کا ایشو پیدا ہی ن لیگ کے دور میں ہوا۔اس سے پہلے پچیس ارب ڈالر کی ایکسپورٹ تھی، مسلم لیگ ن کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کے باعث وہ اٹھارہ انیس ارب ڈالر تک گر گئی۔
امپورٹ ایکسپورٹ میں فرق اتنا بڑھ گیا کہ آج ہمیں دوست ممالک سے ڈالر کی بھیک مانگنی پڑ رہی ہے۔زرداری حکومت ختم ہونے پر نواز شریف حکومت نے بڑا شورمچایا کہ ساڑھے چار سو ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ (گردشی قرضہ)چھوڑ کر گئے ہیں، اسے کس طرح ہینڈل کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ اپنی بار ی پر مسلم لیگ ن گیارہ سو ارب روپے کا گردشی قرضہ چھوڑ کر گئی ہے۔
ن لیگ کے ترجمان بڑی ڈھٹائی سے اپنی حکومت کے معاشی ثمرات گنواتے ہیں تو کراہت ہوتی ہے۔ اتنا سفید جھوٹ۔ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے یہ فقرہ ہر طرف سے سننے کو مل رہا ہے۔ اس میں دانستہ طور پر مبالغہ آمیزی بھر دی گئی ہے۔ہر سال بعض شعبوں میں قیمتیں بڑھتی ہیں، یہ منڈی کا آٹومیٹک رویہ ہے، اسے روکنا آسان نہیں۔کسی کو یاد ہے کہ دود ھ دہی کی قیمت پانچ سات سال پہلے کتنی تھی؟ظاہر ہے آج والی قیمت سے ایک تہائی کم۔ ہر سال یہ بڑھتی ہے۔ بڑھتی رہے گی، کیونکہ ان پٹس مہنگے ہیں،کسی حکومت نے ان چیزوں کے ریٹس فکس کرنے کا کوئی منظم نظام وضع ہی نہیں کیا۔
یعنی اپوزیشن کا گٹھ جوڑ بننے کے دو ہی مقاصد سمجھ میں آتے ہیں ایک کرپشن سے بچائو اور دوسرا حکومت کو ہر طرح سے ناکام بنانا! آج اپوزیشن کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے ابھی تک کوئی کرشمہ نہیں دکھایا۔میرا ان نام نہاد سیاستدانوں سے سوال ہے کہ انھوں نے عوام کے لیے کون سے کرشمے دکھائے ، میڈیا پردانستہ مخصوص تاثر بنایا گیا۔ کون سا این آر او؟ حکومت مسلسل یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ اپوزیشن این آر او مانگ رہی ہے، لیکن ہم ایسا نہیں کریں گے۔
دوسری طرف اپوزیشن اس پر سخت برہم ہو کر کہتی ہے کہ کون سا این آر او؟ بھائی لوگو،جب آپ احتساب کے عمل کو روکنے کی بات کرتے ہیںتوایک طرح سے این آر او مانگ رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ، جعلی بینک اکائونٹس، کرپشن کے ملزموں کے خلاف نیب کی تحقیقات بند کرنااین آر او ہی ہے۔این آر اواور کیا تھا؟ یہی ناں کہ ہمارے خلاف جو مقدمات ہیں، وہ ختم کیے جائیں اور ہم دودھ کے دھلے بن کر پھر سے مزے لوٹنے شروع کر دیں۔اپوزیشن آج وہی تو کہہ رہی ہے۔ حکومت کے پاس صرف چھ ماہ ہیں یہ درفنطنی نجانے کس نے چھوڑی ؟بقول شاعر
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
چلیں اس بات کو اگر مان بھی لیا جائے کہ حکومت کی جانب سے بعض معاملات میں مس ہینڈلنگ ہوئی تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ پوری حکومت ہی گر جانی چاہیے، کیا اربوں کھربوں روپے کے الیکشن کروانااور وہ بھی ایک غریب ملک میں، کیا آسان کام ہے؟ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیں کہ ایسا ہوجائے تو پھر اس کی جگہ کون آئے گا؟ شریف برادران یا پھر زرداری صاحب؟مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ٹوٹ پھوٹ کے خطرے سے دوچار ہے، ایسے میں کون بے وقوف حکمران جماعت یا اتحاد چھوڑ کر ان کے ساتھ ملے گا؟
چوہدری برادران کیا اتنے بھولے ہیں کہ زرداری صاحب کا اس ڈوبتے وقت ہاتھ پکڑیں گے؟اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھے منصوبہ ساز بھی ایک کروڑ ستر لاکھ ووٹ لینے والی جماعت اور ایک پاپولر لیڈر جسے پنجاب،کے پی اور کراچی میں یکساں مقبولیت حاصل ہے، اسے یکایک گرانے پر تل جائیں گے؟آخر کیوں؟ کیا عالمی حالات ایسے ہیں کہ یہاں پر مارشل لاء لگایا جائے؟ یہ تو آخری اور انتہائی مجبوری کی آپشن ہوتی ہے، اس وقت تو اس کے پانچ فیصد چانسز بھی نہیں۔صدارتی نظام لانا آسان ہے؟
آخر میں ایک قصہ دہراتا ہوں کہ ایک غصہ ور قبائلی شخص جو کسی جرم کی بنا پر برسوں سے جیل میں تھا۔ رہائی کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے قیدی ساتھیوں سے کہا کہ میرا بستر، کمبل وغیرہ سنبھال کر رکھنا، بیرک میں میری خاص چارپائی کی بھی حفاظت کرنا، میں جاتے ہی اپنے دشمن سے بدلہ لے کر چند دنو ں میں واپس جیل پہنچ رہا ہوں۔ رہاہوگیا، دو چار ہفتے گزر گئے، مگر اس کی کوئی خبر جیل نہ پہنچی۔ کچھ دن مزید انتظار کے بعد اس کے ساتھی قیدیوں نے ملاقات پر آئے کسی شخص کے توسط سے رہاہونے والے دوست کو پیغام بھیجا کہ تمہاری چارپائی، بستر،کمبل حتیٰ کہ تمہارا پانی پینے والا مگ تک سنبھال کر رکھا ہوا ہے، جلدی واپس آئو۔
چند دنوں بعد جوابی پیغام ملا، آپ لوگوں کا شکریہ ،مگر اب چارپائی، بستر سنبھالنے کی کوئی ضرورت نہیں، اسے کسی کو دے دو، اب میرا جیل آنے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ میں نے گزارا کرنا سیکھ لیا ہے۔ اخبارنویسوں کواچھا لگے یا برا، تجزیہ کاروں کی انامزید مجروح ہو یا ان کی تسکین کی کوئی صورت بن جائے، حالات اور قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ابھی خاصا عرصہ انھیں عمران خان کاسامنا کرنا پڑے گا۔گزارا کرنا سیکھ لیں تو اچھا ہے تاکہ اپنے آپ کو بدلا جاسکے!!!
بنگالیوں نے ہم سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا اور آج بنگلہ دیش ہر معاملے میں ہم سے آگے ہے۔ ہم نے آپسی لڑائیوں میں جتنا وقت برباد کیا شاید ہی کسی قوم نے ایسا کیا ہوگا۔ آج پہلی بار برسراقتدار آنے والی جماعت تحریک انصاف کی جانب سے ان لڑائیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی جو کوشش ہو رہی ہے اُس میں پاکستان کے عوام کو گمراہ کرنے کی بھی مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں۔
گزشتہ روز ایک دوست صحافی نے اپنے طویل اخباری تجزیے میں تکرار سے یہ بات کہی کہ تحریک انصاف کی غیر دانشمندی کی وجہ سے اپوزیشن متحد ہوگئی، حالانکہ ڈیڑھ دو سال بعد یہ کام کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں یہ سب تحریک انصاف سے ڈسے ہوئے، شکست خوردہ عناصر ہیں۔ کسی کا سرمایہ حیات لوٹ لیا، کوئی سیاسی دیوالیہ ہوگیا تو کسی کو خوف ہے کہ اگر یہ حکومت ڈیلیور کر گئی تو ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہوجائے گا۔
درحقیقت اس بار اپوزیشن نے کرپشن کے خلاف ہونے والے اقدامات سے بچنے کے لیے گٹھ جوڑ کرلیا ہے۔مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت جیل میں ہے جب کہ پیپلزپارٹی کی قیادت سمیت 172افراد کے نام ای سی ایل میں ہیں، بلاول زرداری اور مراد علی شاہ کا نام نکالا جا چکا ہے۔ماضی میں اگر اداروں نے کرپشن کے خلاف اقدامات کرنے کی کوشش کی بھی تو حکومتوں نے اداروں کے ہاتھ باندھ دیے۔ موجودہ حکومت احتساب سے پیچھے ہٹتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہی۔
معمولی عددی برتری کے باوجود تحریک انصاف اپوزیشن کو ٹف ٹائم دے رہی ہے۔ماضی میں جتنے بھی الائنس بنے ان کا مقصد حکومت کا خاتمہ تھا۔ایوب خاں، بھٹو، ضیاء، نواز،بے نظیر اورمشرف کے خلاف بنائے گئے اتحادوں کا بنیادی مقصد حکومت وقت کا خاتمہ تھا۔یہ سیاسی جدوجہد میں ایک نیا طرز عمل ہے کہ اپوزیشن کی 2بڑی جماعتیں جنہوں نے ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف کھلے عام عوامی جلسوں میں الزامات کی بوچھاڑ کی تھی،متحد ہوئی ہیں تو حکومت گرانے کے لیے نہیں بلکہ حکومتی گاڑی کو بریکیں لگانے کے لیے یاپھر اس کا رخ کسی اور طرف کرنے۔
جنرل الیکشن میں ہارنے کے بعد اپوزیشن میں بیٹھنے والی جماعتیں پہلے روز سے اس نکتہ پر متفق ہیں کہ تحریک انصاف سے جان چھڑائی جائے۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ حکومت نے انھیں متحد کیا۔ معیشت تباہ ہوگئی ایمانداری کی بات ہے کہ اس سے زیادہ بے بنیاد اور غلط بات اورکیا ہوسکتی ہے۔ معیشت کا حقیقی بیڑا غرق پچھلے چندبرسوں میں ہوا۔ ہمارا سب سے بڑا معاشی بحران یعنی بیلنس آف پیمنٹ کا ایشو پیدا ہی ن لیگ کے دور میں ہوا۔اس سے پہلے پچیس ارب ڈالر کی ایکسپورٹ تھی، مسلم لیگ ن کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کے باعث وہ اٹھارہ انیس ارب ڈالر تک گر گئی۔
امپورٹ ایکسپورٹ میں فرق اتنا بڑھ گیا کہ آج ہمیں دوست ممالک سے ڈالر کی بھیک مانگنی پڑ رہی ہے۔زرداری حکومت ختم ہونے پر نواز شریف حکومت نے بڑا شورمچایا کہ ساڑھے چار سو ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ (گردشی قرضہ)چھوڑ کر گئے ہیں، اسے کس طرح ہینڈل کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ اپنی بار ی پر مسلم لیگ ن گیارہ سو ارب روپے کا گردشی قرضہ چھوڑ کر گئی ہے۔
ن لیگ کے ترجمان بڑی ڈھٹائی سے اپنی حکومت کے معاشی ثمرات گنواتے ہیں تو کراہت ہوتی ہے۔ اتنا سفید جھوٹ۔ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے یہ فقرہ ہر طرف سے سننے کو مل رہا ہے۔ اس میں دانستہ طور پر مبالغہ آمیزی بھر دی گئی ہے۔ہر سال بعض شعبوں میں قیمتیں بڑھتی ہیں، یہ منڈی کا آٹومیٹک رویہ ہے، اسے روکنا آسان نہیں۔کسی کو یاد ہے کہ دود ھ دہی کی قیمت پانچ سات سال پہلے کتنی تھی؟ظاہر ہے آج والی قیمت سے ایک تہائی کم۔ ہر سال یہ بڑھتی ہے۔ بڑھتی رہے گی، کیونکہ ان پٹس مہنگے ہیں،کسی حکومت نے ان چیزوں کے ریٹس فکس کرنے کا کوئی منظم نظام وضع ہی نہیں کیا۔
یعنی اپوزیشن کا گٹھ جوڑ بننے کے دو ہی مقاصد سمجھ میں آتے ہیں ایک کرپشن سے بچائو اور دوسرا حکومت کو ہر طرح سے ناکام بنانا! آج اپوزیشن کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے ابھی تک کوئی کرشمہ نہیں دکھایا۔میرا ان نام نہاد سیاستدانوں سے سوال ہے کہ انھوں نے عوام کے لیے کون سے کرشمے دکھائے ، میڈیا پردانستہ مخصوص تاثر بنایا گیا۔ کون سا این آر او؟ حکومت مسلسل یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ اپوزیشن این آر او مانگ رہی ہے، لیکن ہم ایسا نہیں کریں گے۔
دوسری طرف اپوزیشن اس پر سخت برہم ہو کر کہتی ہے کہ کون سا این آر او؟ بھائی لوگو،جب آپ احتساب کے عمل کو روکنے کی بات کرتے ہیںتوایک طرح سے این آر او مانگ رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ، جعلی بینک اکائونٹس، کرپشن کے ملزموں کے خلاف نیب کی تحقیقات بند کرنااین آر او ہی ہے۔این آر اواور کیا تھا؟ یہی ناں کہ ہمارے خلاف جو مقدمات ہیں، وہ ختم کیے جائیں اور ہم دودھ کے دھلے بن کر پھر سے مزے لوٹنے شروع کر دیں۔اپوزیشن آج وہی تو کہہ رہی ہے۔ حکومت کے پاس صرف چھ ماہ ہیں یہ درفنطنی نجانے کس نے چھوڑی ؟بقول شاعر
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
چلیں اس بات کو اگر مان بھی لیا جائے کہ حکومت کی جانب سے بعض معاملات میں مس ہینڈلنگ ہوئی تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ پوری حکومت ہی گر جانی چاہیے، کیا اربوں کھربوں روپے کے الیکشن کروانااور وہ بھی ایک غریب ملک میں، کیا آسان کام ہے؟ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیں کہ ایسا ہوجائے تو پھر اس کی جگہ کون آئے گا؟ شریف برادران یا پھر زرداری صاحب؟مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ٹوٹ پھوٹ کے خطرے سے دوچار ہے، ایسے میں کون بے وقوف حکمران جماعت یا اتحاد چھوڑ کر ان کے ساتھ ملے گا؟
چوہدری برادران کیا اتنے بھولے ہیں کہ زرداری صاحب کا اس ڈوبتے وقت ہاتھ پکڑیں گے؟اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھے منصوبہ ساز بھی ایک کروڑ ستر لاکھ ووٹ لینے والی جماعت اور ایک پاپولر لیڈر جسے پنجاب،کے پی اور کراچی میں یکساں مقبولیت حاصل ہے، اسے یکایک گرانے پر تل جائیں گے؟آخر کیوں؟ کیا عالمی حالات ایسے ہیں کہ یہاں پر مارشل لاء لگایا جائے؟ یہ تو آخری اور انتہائی مجبوری کی آپشن ہوتی ہے، اس وقت تو اس کے پانچ فیصد چانسز بھی نہیں۔صدارتی نظام لانا آسان ہے؟
آخر میں ایک قصہ دہراتا ہوں کہ ایک غصہ ور قبائلی شخص جو کسی جرم کی بنا پر برسوں سے جیل میں تھا۔ رہائی کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے قیدی ساتھیوں سے کہا کہ میرا بستر، کمبل وغیرہ سنبھال کر رکھنا، بیرک میں میری خاص چارپائی کی بھی حفاظت کرنا، میں جاتے ہی اپنے دشمن سے بدلہ لے کر چند دنو ں میں واپس جیل پہنچ رہا ہوں۔ رہاہوگیا، دو چار ہفتے گزر گئے، مگر اس کی کوئی خبر جیل نہ پہنچی۔ کچھ دن مزید انتظار کے بعد اس کے ساتھی قیدیوں نے ملاقات پر آئے کسی شخص کے توسط سے رہاہونے والے دوست کو پیغام بھیجا کہ تمہاری چارپائی، بستر،کمبل حتیٰ کہ تمہارا پانی پینے والا مگ تک سنبھال کر رکھا ہوا ہے، جلدی واپس آئو۔
چند دنوں بعد جوابی پیغام ملا، آپ لوگوں کا شکریہ ،مگر اب چارپائی، بستر سنبھالنے کی کوئی ضرورت نہیں، اسے کسی کو دے دو، اب میرا جیل آنے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ میں نے گزارا کرنا سیکھ لیا ہے۔ اخبارنویسوں کواچھا لگے یا برا، تجزیہ کاروں کی انامزید مجروح ہو یا ان کی تسکین کی کوئی صورت بن جائے، حالات اور قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ابھی خاصا عرصہ انھیں عمران خان کاسامنا کرنا پڑے گا۔گزارا کرنا سیکھ لیں تو اچھا ہے تاکہ اپنے آپ کو بدلا جاسکے!!!