عدالتی نظام کی کمزوریوں نے ملٹری کورٹس کو جنم دیا
جب عدالتی کارروائیاں بے پناہ دشوار ہوگئیں تو ہنگامی بنیاد پر اقدام اٹھایا گیا جو بعد میں معمول بن گیا۔
دسمبر 2007 کی بات ہے، راولپنڈی میں ایک عورت کو قتل کردیا گیا اور اس کا مقدمہ کوئی 10 برس تک چلتا رہا، وکیل اور جج بدلتے گئے یہاں تک کے ملزمان بھی تبدیل ہوتے رہے، 10 سال بعد بالآخر کیس کا فیصلہ آگیا جس کے مطابق تمام 5 ملزمان ثبوت کی عدم دستیابی پر رہا کردیے گئے، وہ عورت ان 2 درجن لوگوں میں سے ایک تھی ج سکا اس بد قسمت دن راولپنڈی میں انتقال ہوا تھا لیکن جاں بحق ہونے والوں میں اس کا کا نام کچھ الگ سے پہچانا گیا۔
بے نظیر بھٹو! یہ کیس پاکستانی عدالتی نظام کی بدترین ناکامی کی واضح ترین مثالوں میں سے صرف ایک کیس ہے کیوں کے اس کا تعلق سابقہ وزیر اعظم سے ہے۔ اسی تاریک داستان کے پس منظر میں پاکستان نے آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد یعنی جنوری 2015 میں ایک آئینی ترمیم کی جس کے تحت دہشت گردی میں ملوث ملزمان کے مقدمے سننے کے اختیار ملٹری کورٹس کو دے دیے گئے۔
نیا قانون 2 برس کی لیے آیا تھا ، لیکن اس کی میعاد 2 مرتبہ بڑھائی جا چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کے 4 سال بد بھی ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے عدالتی نظام کو سلجھانے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہیں۔
سپریم کورٹ کی قائم کردہ پولیس ریفارم کمیٹی ( پی . آر . سی ) نے عدالتی نظام کی کارکردگی اور دہشت گردی کے مقدمات پر تبادلہ خیال کیا۔ کمیٹی کے سربراہ سابق آئی جی سندھ افضل الہٰی شگری ہیں جب کے پنجاب کے سابق آئی جی سید مسعود شاہ ، سندھ کے سابقہ آئی جی اثد جہانگیر خان ،شعیب سڈل، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل طارق کھوسہ ، اور تمام حاضر انسپکٹر جنرلز بھی اِس کمیٹی کا حصہ ہیں اور 7 مہینوں سے پولیس اصلاحات کی رپورٹ بنا رہے ہیں اور عدالتی نظام میں دہشت گردی کے مقدمات کی کمزوری کی وجوہات تلاش کر رہے ہیں، ساتھ ہی ساتھ اِس نظام میں بہتری کا لائحہ عمل بھی مرتب کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ کمیٹی موجودہ قوانین میں بہتری اور دہشت گردی اور شدت پسندی کو روکنے کے لیے تجاویز بھی بنا رہی ہے۔ پاکستان کا لاء اور جسٹس کمیشن سابقہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ایک تقریب کے دوران کمیٹی کی رپورٹ پیش کر چکا ہے۔ کیا ملٹری کورٹس ختم ہونبی چاہیں یا ان کو توسیع ملنی چاہیے؟ پی . آر . سی . کے مطابق دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے دو ماڈل اپنائے جا سکتے ہیں جن میں جنگی ماڈل اور عدالتی ماڈل شامل ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے حلف کے بعد اپنی پہلی تقریر میں یہ واضح کیا کے ملٹری کورٹس دنیا بھر میں مصلحت کے تحت بنائے جاتے ہیں لیکن ان کورٹس کے فیصلوں کیخلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جاسکتی ہے۔
ملٹری کورٹس پر سنجیدہ اعتراضات کے باوجود اِس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کے موجودہ عدالتی نظام غیر مؤثر اور ناقص ہے جب کے عدالتی کاروائی میں بھی کمزوریاں موجود ہیں۔ ٹرائل کی میعاد لمبی ہونے کی وجہ سے کیس اور کمزور پڑ جاتے ہیں۔ دوسری طرف ملٹری کورٹس حل نہیں ہیں، اور ضرورت اِس امر کی ہے کہ عدالتی نظام کو بہتر بنایا جائے۔
بے نظیر بھٹو! یہ کیس پاکستانی عدالتی نظام کی بدترین ناکامی کی واضح ترین مثالوں میں سے صرف ایک کیس ہے کیوں کے اس کا تعلق سابقہ وزیر اعظم سے ہے۔ اسی تاریک داستان کے پس منظر میں پاکستان نے آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد یعنی جنوری 2015 میں ایک آئینی ترمیم کی جس کے تحت دہشت گردی میں ملوث ملزمان کے مقدمے سننے کے اختیار ملٹری کورٹس کو دے دیے گئے۔
نیا قانون 2 برس کی لیے آیا تھا ، لیکن اس کی میعاد 2 مرتبہ بڑھائی جا چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کے 4 سال بد بھی ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے عدالتی نظام کو سلجھانے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہیں۔
سپریم کورٹ کی قائم کردہ پولیس ریفارم کمیٹی ( پی . آر . سی ) نے عدالتی نظام کی کارکردگی اور دہشت گردی کے مقدمات پر تبادلہ خیال کیا۔ کمیٹی کے سربراہ سابق آئی جی سندھ افضل الہٰی شگری ہیں جب کے پنجاب کے سابق آئی جی سید مسعود شاہ ، سندھ کے سابقہ آئی جی اثد جہانگیر خان ،شعیب سڈل، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل طارق کھوسہ ، اور تمام حاضر انسپکٹر جنرلز بھی اِس کمیٹی کا حصہ ہیں اور 7 مہینوں سے پولیس اصلاحات کی رپورٹ بنا رہے ہیں اور عدالتی نظام میں دہشت گردی کے مقدمات کی کمزوری کی وجوہات تلاش کر رہے ہیں، ساتھ ہی ساتھ اِس نظام میں بہتری کا لائحہ عمل بھی مرتب کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ کمیٹی موجودہ قوانین میں بہتری اور دہشت گردی اور شدت پسندی کو روکنے کے لیے تجاویز بھی بنا رہی ہے۔ پاکستان کا لاء اور جسٹس کمیشن سابقہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ایک تقریب کے دوران کمیٹی کی رپورٹ پیش کر چکا ہے۔ کیا ملٹری کورٹس ختم ہونبی چاہیں یا ان کو توسیع ملنی چاہیے؟ پی . آر . سی . کے مطابق دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے دو ماڈل اپنائے جا سکتے ہیں جن میں جنگی ماڈل اور عدالتی ماڈل شامل ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے حلف کے بعد اپنی پہلی تقریر میں یہ واضح کیا کے ملٹری کورٹس دنیا بھر میں مصلحت کے تحت بنائے جاتے ہیں لیکن ان کورٹس کے فیصلوں کیخلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جاسکتی ہے۔
ملٹری کورٹس پر سنجیدہ اعتراضات کے باوجود اِس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کے موجودہ عدالتی نظام غیر مؤثر اور ناقص ہے جب کے عدالتی کاروائی میں بھی کمزوریاں موجود ہیں۔ ٹرائل کی میعاد لمبی ہونے کی وجہ سے کیس اور کمزور پڑ جاتے ہیں۔ دوسری طرف ملٹری کورٹس حل نہیں ہیں، اور ضرورت اِس امر کی ہے کہ عدالتی نظام کو بہتر بنایا جائے۔