نرگس کا پھول

کوئی زمانہ تھا جب آئینہ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ تب انسان کو جستجو تھی کہ وہ اپنی ذات کو دیکھ سکے۔ وہ اپنا سایہ دیکھ کر۔۔۔

shabnumg@yahoo.com

کوئی زمانہ تھا جب آئینہ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ تب انسان کو جستجو تھی کہ وہ اپنی ذات کو دیکھ سکے۔ وہ اپنا سایہ دیکھ کر سوچتا تھا کہ اس کی صورت کیسی ہو گی۔ کبھی پانی میں جھک کر اپنا آپ تلاش کرتا۔ اس وقت زندگی بالکل مختلف تھی۔ انسان میں نہ تو خود پسندی تھی اور نہ ہی وہ اپنی ذات کی پرستش کرتا۔ کہا جاتا ہے کہ آئینہ 8000 سال پہلے ایجاد ہوا۔ لیکن آئینے کے دریافت ہونے کا ذکر 835ء کے باب میں ملتا ہے۔ جرمن کیمسٹ Justus Von Liebig نے ایک آئینہ ایجاد کیا، جس میں بعد میں ردوبدل کر کے آئینے کی مکمل یافت کی گئی۔ گزشتہ صدیوں میں آئینے گھروں میں سجاوٹ کے لیے استعمال ہونے لگے۔ جب انسان نے خود کو آئینے میں دیکھا تو اپنی ذات کی محبت کے فریب میں مبتلا ہوتا چلا گیا۔ اس خود پرستی کے رجحان سے دیو مالائی قصہ بھی منسوب کیا جاتا ہے۔

زیوس دیوتا آسمان پر حکومت کرتا تھا۔ اسے پانی اور درختوں کی خوبصورتی سے محبت تھی۔ اس کی بیوی ہیرا کو زیوس دیوتا کی یہ عادت سخت ناپسند تھی۔ خوبصورت جنگل سے گزرتے ہوئے اکثر اسے ایکو نامی خوبصورت پری گھیر لیتی اور اسے باتوں میں الجھا دیتی اور زیوس خوبصورت پریوں کے جھرمٹ میں بیٹھا رہتا۔ ہیرا کو ایک دن ایکو کی اس چالاکی کا علم ہو گیا اور اس نے ایکو کو بد دعا دی جس کی وجہ سے اس کی خوبصورت آواز بازگشت بن گئی۔ پھر ایکو جنگلوں میں بھٹکتی اور دل کا کھویا چین حاصل کرنے کی تلاش میں رہتی۔ ایک دن اسے جنگل میں ایک خوبصورت شہزادہ نظر آیا ۔نارسیسسNarcissus کی خوبصورتی پر وہ فدا ہو گئی۔ مگر نارسیسس نے کبھی اس کی پذیرائی نہیں کی بلکہ وہ ہمیشہ اسے دھتکار دیتا۔ ایکو کا دل بری طرح ٹوٹ گیا۔ وہ اسے دکھ و کرب سے اتنا ہی کہہ سکی۔ ''خدا کرے کہ تم اپنی ذات کی محبت میں گرفتار ہو جاؤ ۔ اور تمہیں اس محبت کو پانے کا کوئی راستہ نہ ملے۔''

ایک دن نارسیسس ندی میں جھک کر دیکھ رہا تھا تو پانی میں اسے اچانک اپنا عکس نظر آیا۔ وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا اور بار بار پانی میں اس خوبصورت عکس کو دیکھتا اور ٹھنڈی آہیں بھرتا۔ اس کے ہونٹ جب بھی عکس کا بوسہ لینے پانی کو چھوتے تو وہ دریا میں گر جاتا۔ پرندے، جنگل کی ہوا، پودوں کی خوشبو اور لہریں یہ تماشہ دیکھ کر حیران ہو جاتے۔ نارسیسس دریا کے کنارے عکس کو پانے کی کھوج میں وہیں بیٹھا رہ گیا اور اسی غم میں اس کی موت واقع ہو گئی۔ ایکو بے قرار ہو کر اس کی جانب لپکی تو اس نے دیکھا نارسیسس کی جگہ نرگس کا پھول کھلا ہوا تھا۔ بعد میں اسی نرگسیت خود پرستی کے جذبے کی مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے ترجمانی کی کہ آخر انسان اپنی ذات سے اس قدر پیار کیوں کرتا ہے کہ اسے اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا! فرائیڈ نے اناego کی تشریح کی اور اسے مختلف دوروں میں تقسیم کر کے انسانی نفسیات کے پس منظر میں اسے وضاحت سے بیان کیا۔

فرائیڈ نے Self Love ذات پرستی کے رجحان کو فطری قرار دیا، جس کے توسط سے تحفظ و پیار کے جذبے پرورش پاتے ہیں۔ ذات کی محبت سے ہی انسان دوسروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اسی تناظر میں فرائیڈ نے مزید دریافتیں کیں اور کشش، پیار و جنس کے مختلف زاویوں کی وضاحت کی۔ عنفوان شباب میں بچے آئینہ بہت دیکھتے ہیں اور والدین کی ڈانٹ سنتے ہیں۔ درحقیقت اس دور میں بچہ تشخص کی پیچیدگیوں سے گزرتا ہے۔ وہ اپنی ذات کے ہونے کو محسوس کرتا ہے۔ وہ بار بار آئینے میں اپنے چہرے کے خدوخال کو دیکھتا ہے۔ مختلف زاویوں سے دیکھتا ہے اور اپنی شخصیت کو سوچتا ہے کہ اسے کیسے کپڑے پہننے ہیں۔ کون سا ہیئر اسٹائل اس پر جچے گا۔ پھر آئینے کے توسط سے وہ اپنی ذات سے پیار کرنے لگتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب ذات کی عزت ترویج پاتی ہے۔ اپنی نظروں میں اچھا تصور ایک انسان کی شخصی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس حوالے سے ماں بچے کو صحیح تشخص عطا کرنے کے سلسلے میں بہت معاونت کرتی ہے۔


اس کا مثبت رویہ اور بچے کے متعلق رائے سے ذات کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بچے کی ابتدائی تربیت کے لیے تعریف و ستائش اہمیت کے حامل ہیں۔ ماں اگر بچے کی ذات کی نفی کرتی ہے، بچے کو تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے تو وہ ذات سے محبت کرنے کے بجائے احساس کمتری و خود رحمی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ دو رویے انسان کی شخصیت کی تعمیر میں تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ بچہ اگر جھوٹ بول رہا ہے اور اسے براہ راست کہا جائے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو تو ایک تو اس کی عزت نفس مجروح ہو گی دوسری طرف وہ ان الفاظ کا اثر قبول کر لیتا ہے اور مزید جھوٹ بولنا شروع کر دیتا ہے۔ اگر بچے سے جھوٹ بولنے پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ بات اسے اس طرح نہیں کہنی چاہیے تو وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس نے غلط بات کہی ہے۔ کسی غلط بات کا احساس ہو جانا درحقیقت اصلاح کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔ یہ رویے ہی انسان کی شخصیت پر اپنے منفی و مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اچھا ہونے کا احساس اور ذات سے محبت انسان کو بہتری کی طرف لے جاتے ہیں۔

سگمنڈ فرائیڈ نے ذات سے محبت کے منفی رویوں کی بھی وضاحت کی ہے۔ درحقیقت ذات سے انتہا کی محبت ذہنی عدم استحکام اور ذہنی بیماری کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایسا شخص ذات میں بظاہر منظم ملے گا مگر وہ اردگرد کے ماحول کو اپنے بے ترتیب رویوں، اجارہ داری، تنگ نظری و غلط فہمیوں کی نذر کر دے گا۔ کیونکہ ذات کی محبت کے علاوہ انسان کو کوئی حقیقت، منطق و سچائی سجھائی نہیں دیتی۔

1990ء میں نیورو سائنس نے اس حوالے سے مزید پیش رفت کی اور Giacomo Rizzolatti نے مرر نیورونز کے حوالے سے منفرد حقائق کی ترجمانی کی۔ نیورو سائنس نے بتایا کہ ذہن، جذبے، عمل، تجربے کو کس طرح شیئر کرتا ہے۔ جیسے کسی کو ہنستا پاکر لوگ بھی ہنسنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور تکلیف یا رونے کے وقت دیکھنے اور محسوس کرنے والے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور وہ بھی اس اداس کیفیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ مرر نیورونز سماجی زندگی کے مزاج کا تعین کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم مسائل کا رونا رونے کے بجائے ہنسنے بولنے لگ جائیں اور زندہ دلی کو اپنا لیں تو اس کا اثر ماحول پر پڑے گا اور حالات تبدیل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ آپ نے یہ محاورہ تو سنا ہی ہو گا کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ جدید ریسرچ کے مطابق مردوں کا باڈی امیج عورتوں سے زیادہ مثبت ہوتا ہے۔ جب کہ آٹھ سے دس خواتین اپنے امیج سے غیر مطمئن نظر آتی ہیں۔ وہ خود کو بہت تنقیدی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ اور خوبصورت چہرہ اور آئیڈیل فگر چاہتی ہیں۔ اسی فیصد لوگ آئینے کے سچ سے خوش نہیں ہوتے۔ جس کی وجہ سے آج ہزاروں لاکھوں بیوٹی پارلرز، اسپا، باڈی شاپس کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پلاسٹک سرجری نے چہروں کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔ انگلینڈ میں 36 فیصد خواتین اینٹی ایجنگ کریمز استعمال کرتی ہیں۔ 2002ء میں 72,000 لوگوں نے کاسمیٹکس سرجری کروائی۔ Botox کے طریقہ کار نے مرجھائے ہوئے چہروں کو تروتازہ کر دیا۔ جس کے مختلف انجکشنز چہرے سے جھریوں کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔ جس میں موجود Botulinum Toxin کے الگ مضر اثرات ان حسین چہروں کو بھگتنے پڑتے ہیں۔

Collagen Injections اور Laser Treatments نے خوبصورتی کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ جسم کو خوبصورت بنانے کے لیے Bariatric Surgery دریافت کی گئی۔ معدے کے اوپر کے حصے میں Silicone Band رکھ دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے کم کھانے سے پیٹ بھر جاتا ہے۔ دستر خوان ہر طرح کے کھانوں سے سجا ہو اور انسان چند نوالے کھاکر سیر ہو جائے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں لوگ کیلوریز کے حساب سے کھانا کھاتے ہیں۔ جب کہ ہمارے ہاں جس طرح کھانے سے انصاف کیا جاتا ہے وہ شاید ہی کہیں اور ہوتا ہو۔ آئینے کو خوش کرنے کے لیے گورا کرنے والی کریموں کی مارکیٹ میں بھرمار نظر آتی ہے۔ گورا رنگ خوبصورتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مائیکل جیکسن نے بھی اپنی جلد کو گورے رنگ میں بدل دیا تھا لیکن وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکا۔ یہ تمام غیر فطری طریقے کہیں نہ کہیں انسان کو ضرور نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ظاہری خوبصورتی اور دکھاوے نے ہماری زندگیوں سے فطری پن کے احساس کو چھین لیا ہے جو ایشیائی قدیم تہذیب کا قیمتی ورثہ رہا ہے۔ آئینے سے عمر کا سچ کتنا ہی کیوں نہ چھپایا جائے مگر آپ آئینے کی ہوشیاری کو کبھی مات نہیں دے سکتے۔ کیونکہ آئینے کا سچ انسان کی روح کی خوبصورتی کے بارے میں بھی بتا دیتا ہے۔ جس کا عکس چہروں پر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ مگر لوگ یہ بات کیوں بھول رہے ہیں کہ چہروں کی تازگی اور کشش روح کی خوبصورتی کی مرہون منت ہے۔
Load Next Story