دنیا میرے قدموں میں
اس کا چہرہ تفاخر سے چمک رہا تھا اور آنکھوں میں فتح مندی کی رمک تھی، اس کی پیشانی پر روشنی کی کرنیں مچل رہی تھیں اور...
اس کا چہرہ تفاخر سے چمک رہا تھا اور آنکھوں میں فتح مندی کی رمک تھی، اس کی پیشانی پر روشنی کی کرنیں مچل رہی تھیں اور لبوں پر خفیف سی طنزیہ مسکراہٹ رقصاں تھی، وہ اپنی قد آور شخصیت پر نازاں و فرحاں تھا، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ پوری کائنات کو تسخیر کر چکا ہو، جیسے اس نے آنکھیں بند کر کے خوفناک طوفانوں میں گھرے سات سمندر پار کر لیے ہوں، حالات کی بے مہری اور ملک کی خستہ حالی پر دکھ کا، ہلکا سا سایہ بھی تو اس کے قریب سے نہ گزرا تھا ،گولہ بارود کی بو سے وہ نا واقف تھا کہ شاید اپنے ہی افسونِ خدوخال میں گم تھا، وہ گلیور کی طرح جھک کر اپنے اردگرد چلتے پھرتے انسانوں کو دیکھ رہا تھا جن کے قد اسے دو سے چار انچ کے دکھائی دے رہے تھے، سچ تو یہ ہے کہ رعونت، تکبر کے سارے رنگ اس کی شخصیت سے جھانک رہے تھے اس کے باوجود وہ خوبصورت نظر آ رہا تھا، سیاہ ڈنر سوٹ اور سرخ ٹائی میں اس کا سراپا مرکز نگاہ بنا ہوا تھا جیسے کہکشاں کے جھرمٹ میں چودھویں کا چاند۔
قدم قدم پر لوگ اس کے ایک ایک قدم پر اپنا سر جھکا رہے تھے عقیدت سے، محبت سے، عزت سے اس حد تک کہ قدم بوسی میں جیسے چند ہی لمحے باقی ہوں اتنے میں حسین خواتین اور نو عمر لڑکیوں کا ایک غول مشرق سے نکلا اور انھوں نے دو زانو ہو کر اس کے سامنے اپنی آنکھیں موند لیں جیسے دیوداسیاں اپنے بھگوان کے سامنے کھڑی ہوں۔
اچانک سناٹے میں ان سب نے بیک وقت کورس میں گانا شروع کر دیا۔
'' سنو مسٹر ہینڈسم! ہمیں زندگی میں کچھ ملے یا نہ ملے بس تم مل جاؤ تو جانتے ہو کہ دنیا سے کانٹوں کا وجود مٹ جائے، خزاں خواب بن جائے اور موت ٹل جائے بلکہ ہم تک آنے سے پہلے وہ بھی یہ سوچ سمجھ لے کہ اس کا مقابلہ کن لوگوں سے ہے۔'' جواب میں اس قدآور شخصیت نے گردن کو بائیں جانب ذرا سا خم دیا، مسکرایا بڑی ادا سے اپنا اسٹف کالر اونچا کر لیا اور کھنکھار کر بولا۔
''شکریہ میڈم اور مس صاحبہ! مگر اتنا تو بتا دیجیے اے پری رو خواتین! کہ میں بیک وقت سب کا کیسے ہو سکتا ہوں؟''
''یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں آپ صرف ان ہی کا خواب نہیں ہماری بھی تمنا ہیں۔'' بائیں جانب سے لوگوں کا ایک اژدھام امڈ آیا جس میں نو عمر لڑکے اوسط عمر کے مرد اور بوڑھے تک شامل تھے۔
''اوہ میں اپنے آپ کو کتنے خانوں میں تقسیم کروں آپ سب کی محبت اور اشتیاق، آپ سب کا خلوص اور پیار، آپ سب کا بہت بہت شکریہ لیکن۔۔۔۔!''
''سنیے۔۔۔!'' ہجوم نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
'' سنیے! مسٹر ہینڈسم! کہ ہماری ویران زندگی میں کبھی خوبصورت لمحے نہیں آئے اور اگر سکھ کی چند ساعتیں گزریں بھی تو وہ ریت کی دیوار تھیں جن سے سر ٹکا کر ہم خاک ہو گئے ہم اگر آپ کو پالیں گے، اگر آپ ہمیں اپنالیں گے، اپنا بنالیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمارے ہوجائیں گے تو ہم ہی نہیں ہم نسل در نسل شاد و آباد رہیں گے''۔
''مگر مجھ میں ایسا کیا ہے اے نادان انسانو! کیا آپ لوگوں کے عزیز واقارب اور خاندان نہیں، کیا آپ کے دوست احباب نہیں، کیا آپ لوگ بالکل تنہا ہیں؟'' اس نے مسکراکر کہا۔
''ایسی بات نہیں ہے سر! بلکہ بات یہ ہے کہ جب آپ ہمارے ہو جائیں گے تو لوگ ہم سے محبت بھی کریں گے اور ہماری عزت بھی ۔ آپ میں بلا کی محبوبیت ہے، آپ کو پتہ ہی نہیں کہ آپ اس معاشرے میں آج ہمارے لیے کیا ہیں؟'' ہجوم نے کہا۔
''بیوقوفو! میں بھی انسان کو دیکھ کر اپناتا ہوں اگر سب ہی کا بن جاؤں تو میری اکائی کون تسلیم کرے گا میری تو اہمیت کچھ نہ رہے گی آج آپ لوگ جس قدر بے چینی اور بے صبری سے میرا انتظار کرتے ہیں اگر میں آپ کو دستیاب ہو گیا تو میرے منتظر تو دنیا سے ختم ہو جائیں گے کیونکہ مجھے راہ تکتی آنکھیں بہت خوبصورت لگتی ہیں''۔ اس نے ایک بار پھر بڑی رعونت سے اپنا سر بلند کیا۔
''ایسا نہ کہیے معزز مہمان! دیکھیے کہ زندگی تو چند روزہ ہے اگر اس مختصر سی زندگی میں ہم آپ سے محروم رہے تو لوگوں کے طعنے اور تحقیر آمیز نگاہیں عفریت بن کر ہمارا تعاقب کرتی رہیں گی ہم معاشرے کے ارزل ترین فرد بن جائیں گے، آپ کو ہم پر ترس نہیں آتا، ہم فقیروں کی طرح آپ سے دوستی کی بھیک مانگ رہے ہیں آپ کے نام کا سکہ چلتا ہے اور ہم۔۔۔۔ہم تو کھوٹے سکے ہیں، ہمیں کون پوچھتا ہے، بنا آپ کے ہمیں کون اپنے پہلو میں بٹھاتا ہے، کون عزت کرتا ہے، دیکھیے کہ آپ کے بغیر ہماری بیٹیوں کی شادی ممکن نہیں رہی، ملازمت مقدر سے دور ہے، خون کے رشتے بھی بکھر رہے ہیں، دیکھیے یہ میری بیٹی ہے، کبھی کالج بیوٹی کہلاتی تھی اس وقت میں سمجھتی تھی کہ شاید اسے زندگی میں ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جس سے میں گزری ہوں جس سے آج میری جیسی ہزاروں مائیں گزر رہی ہیں ان دنوں آپ ہمارے قدم سے قدم ملا کر چلتے تھے پھر جانے کیا ہوا حالات نے پلٹا کھایا اور آپ ہمیں چھوڑ گئے، میری حسین بیٹی کا رشتہ ٹوٹ گیا آج وہ چالیس برس سے اوپر ہے اور اس کے ہاتھ پیلے نہیں ہوئے، میں خون کے عارضے میں مبتلا ہوں، بیوہ ہوں اور میری خوبصورت بچی!'' ایک لاغر بڑھیا نے آگے بڑھ کر روتے ہوئے کہا۔
''بتائیے نا! کیوں چلے گئے آپ، کیا آپ کو اس بات کا احساس نہیں کہ آپ کے بغیر ہماری زندگیوں کو گھن لگ گیا ہے؟''
''آپ سچ کہہ رہی ہیں معزز ماں! '' اس نے دھیمے سے کہا کہ دائیں جانب سے ایک ادھیڑ عمر کا شخص اپنے نوجوان بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر مجمعے کو چیرتا ہوا آگے آ گیا اور وہیں سے چلایا۔
''سر! میں بھی آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ سر ! یہ میرا بیٹا سکندر ہے جو پورے صوبے میں فرسٹ آیا تھا آج دو برس ہوگئے اسے نوکری نہ مل سکی کہ رشوت کا بازار گرم ہے، ہمارے روز و شب وہی ہیں میں نے اپنے آباو اجداد کی جائیداد بیچ کر اسے پڑھایا تھا اور یہ۔۔۔۔یہ میری انیس سالہ بیٹی زیبو ہے سر! جسے زیادہ جہیز نہ لانے پر طلاق ہو گئی''۔ مسٹر ہینڈسم نے نظریں اٹھاکر دیکھا گندمی رنگت، کتابی چہرے، شربتی آنکھوں اور گھنیری زلفوں والی ایک نازک اندام سی لڑکی جس کی پلکوں پر آنسو ٹھہر گئے تھے عجب حسرت و یاس سے خلاؤں میں گھور رہی تھی۔یوں ہی ایک ایک کر کے جانے کتنی ہی درد بھری آوازیں اس کے کانوں سے ٹکراتی رہیں وہ ساکت سا کھڑا رہا اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس کس کی اشک جوئی کرے کس کس کے زخم سمیٹے پھر اس نے دھیمے لہجے میں کہنا شروع کیا۔
''معزز خواتین و حضرات! میں جانتا ہوں آپ کے مسائل مشترک ہیں اور آپ کے خواب ادھورے ، میں چاہتا تو ہوں کہ میں آپ سب کا ہو جاؤں مگر ایسا میرے اختیار میں نہیں کہ یہ نظام ہی ایسا ہے، یہ میرے اختیار میں نہیں ہاں آپ کے اختیار میں کسی حد تک ہے مگر۔۔۔۔!''
''مگر۔۔۔۔؟'' سارا ہجوم چیخ پڑا۔
''ہاں چند خوش قسمت مجھے پا لیتے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، کون کہتا ہے کہ آپ کا ملک غریب ہے آپ کے یہاں تو بڑے نامی گرامی لوگ موجود ہیں جن کا بینک بیلنس لاکرز بھی برداشت نہیں کرتے اور خودبخود ٹوٹ جاتے ہیں جو منی لانڈرنگ، اسمگلنگ، رشوت، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی اور فراڈ سے شہنشاہوں کی طرح راج کر رہے ہیں۔ اگر آپ سب یہ نہیں کر سکتے تو میرے حصول کی تمنا بے کار ہے۔۔۔۔!''
''تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا وقار انھی لوگوں کے ہاتھوں کھیلتا ہے۔''
''نہیں ایسا بھی نہیں، اس میں قصور آپ کا نہیں اس موجودہ دور کا ہے یہ فرسودہ نظام مجھے آپ کے قریب نہیں ہونے دیتا میں بذات خود برا نہیں مگر مجھے لوگوں نے منفی انداز میں اپنایا ہے۔''
''آپ سچ کہہ رہے ہیں سر! مگر ہم۔۔۔۔ہم نئی نسل کے لوگ فرسٹریشن کے سمندر میں گلے گلے ڈوب چکے ہیں ہماری منزل کہیں نہیں، ہمارا مستقبل کوئی نہیں۔ ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے ہمارے حلق کا آخری نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ سر! ہم مفلسی کی چکی میں پس کر آٹا بن چکے ہیں ہم کس کا ہاتھ تھامیں کہ جب راہبر ہی رہزن بن جائیں۔۔۔۔''
''اگر آپ یہ سب نہیں کرسکتے تو پھر واپس اپنی دنیا میں چلے جائیں کہ میر املنا اتنا آسان نہیں ہے۔''مسٹر اسٹیٹس نے اپنے سیاہ کوٹ کی جیب سے سرخ رومال نکالا اور لہراتا ہوا دھندلکوں میں گم ہو گیا۔
قدم قدم پر لوگ اس کے ایک ایک قدم پر اپنا سر جھکا رہے تھے عقیدت سے، محبت سے، عزت سے اس حد تک کہ قدم بوسی میں جیسے چند ہی لمحے باقی ہوں اتنے میں حسین خواتین اور نو عمر لڑکیوں کا ایک غول مشرق سے نکلا اور انھوں نے دو زانو ہو کر اس کے سامنے اپنی آنکھیں موند لیں جیسے دیوداسیاں اپنے بھگوان کے سامنے کھڑی ہوں۔
اچانک سناٹے میں ان سب نے بیک وقت کورس میں گانا شروع کر دیا۔
'' سنو مسٹر ہینڈسم! ہمیں زندگی میں کچھ ملے یا نہ ملے بس تم مل جاؤ تو جانتے ہو کہ دنیا سے کانٹوں کا وجود مٹ جائے، خزاں خواب بن جائے اور موت ٹل جائے بلکہ ہم تک آنے سے پہلے وہ بھی یہ سوچ سمجھ لے کہ اس کا مقابلہ کن لوگوں سے ہے۔'' جواب میں اس قدآور شخصیت نے گردن کو بائیں جانب ذرا سا خم دیا، مسکرایا بڑی ادا سے اپنا اسٹف کالر اونچا کر لیا اور کھنکھار کر بولا۔
''شکریہ میڈم اور مس صاحبہ! مگر اتنا تو بتا دیجیے اے پری رو خواتین! کہ میں بیک وقت سب کا کیسے ہو سکتا ہوں؟''
''یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں آپ صرف ان ہی کا خواب نہیں ہماری بھی تمنا ہیں۔'' بائیں جانب سے لوگوں کا ایک اژدھام امڈ آیا جس میں نو عمر لڑکے اوسط عمر کے مرد اور بوڑھے تک شامل تھے۔
''اوہ میں اپنے آپ کو کتنے خانوں میں تقسیم کروں آپ سب کی محبت اور اشتیاق، آپ سب کا خلوص اور پیار، آپ سب کا بہت بہت شکریہ لیکن۔۔۔۔!''
''سنیے۔۔۔!'' ہجوم نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
'' سنیے! مسٹر ہینڈسم! کہ ہماری ویران زندگی میں کبھی خوبصورت لمحے نہیں آئے اور اگر سکھ کی چند ساعتیں گزریں بھی تو وہ ریت کی دیوار تھیں جن سے سر ٹکا کر ہم خاک ہو گئے ہم اگر آپ کو پالیں گے، اگر آپ ہمیں اپنالیں گے، اپنا بنالیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمارے ہوجائیں گے تو ہم ہی نہیں ہم نسل در نسل شاد و آباد رہیں گے''۔
''مگر مجھ میں ایسا کیا ہے اے نادان انسانو! کیا آپ لوگوں کے عزیز واقارب اور خاندان نہیں، کیا آپ کے دوست احباب نہیں، کیا آپ لوگ بالکل تنہا ہیں؟'' اس نے مسکراکر کہا۔
''ایسی بات نہیں ہے سر! بلکہ بات یہ ہے کہ جب آپ ہمارے ہو جائیں گے تو لوگ ہم سے محبت بھی کریں گے اور ہماری عزت بھی ۔ آپ میں بلا کی محبوبیت ہے، آپ کو پتہ ہی نہیں کہ آپ اس معاشرے میں آج ہمارے لیے کیا ہیں؟'' ہجوم نے کہا۔
''بیوقوفو! میں بھی انسان کو دیکھ کر اپناتا ہوں اگر سب ہی کا بن جاؤں تو میری اکائی کون تسلیم کرے گا میری تو اہمیت کچھ نہ رہے گی آج آپ لوگ جس قدر بے چینی اور بے صبری سے میرا انتظار کرتے ہیں اگر میں آپ کو دستیاب ہو گیا تو میرے منتظر تو دنیا سے ختم ہو جائیں گے کیونکہ مجھے راہ تکتی آنکھیں بہت خوبصورت لگتی ہیں''۔ اس نے ایک بار پھر بڑی رعونت سے اپنا سر بلند کیا۔
''ایسا نہ کہیے معزز مہمان! دیکھیے کہ زندگی تو چند روزہ ہے اگر اس مختصر سی زندگی میں ہم آپ سے محروم رہے تو لوگوں کے طعنے اور تحقیر آمیز نگاہیں عفریت بن کر ہمارا تعاقب کرتی رہیں گی ہم معاشرے کے ارزل ترین فرد بن جائیں گے، آپ کو ہم پر ترس نہیں آتا، ہم فقیروں کی طرح آپ سے دوستی کی بھیک مانگ رہے ہیں آپ کے نام کا سکہ چلتا ہے اور ہم۔۔۔۔ہم تو کھوٹے سکے ہیں، ہمیں کون پوچھتا ہے، بنا آپ کے ہمیں کون اپنے پہلو میں بٹھاتا ہے، کون عزت کرتا ہے، دیکھیے کہ آپ کے بغیر ہماری بیٹیوں کی شادی ممکن نہیں رہی، ملازمت مقدر سے دور ہے، خون کے رشتے بھی بکھر رہے ہیں، دیکھیے یہ میری بیٹی ہے، کبھی کالج بیوٹی کہلاتی تھی اس وقت میں سمجھتی تھی کہ شاید اسے زندگی میں ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جس سے میں گزری ہوں جس سے آج میری جیسی ہزاروں مائیں گزر رہی ہیں ان دنوں آپ ہمارے قدم سے قدم ملا کر چلتے تھے پھر جانے کیا ہوا حالات نے پلٹا کھایا اور آپ ہمیں چھوڑ گئے، میری حسین بیٹی کا رشتہ ٹوٹ گیا آج وہ چالیس برس سے اوپر ہے اور اس کے ہاتھ پیلے نہیں ہوئے، میں خون کے عارضے میں مبتلا ہوں، بیوہ ہوں اور میری خوبصورت بچی!'' ایک لاغر بڑھیا نے آگے بڑھ کر روتے ہوئے کہا۔
''بتائیے نا! کیوں چلے گئے آپ، کیا آپ کو اس بات کا احساس نہیں کہ آپ کے بغیر ہماری زندگیوں کو گھن لگ گیا ہے؟''
''آپ سچ کہہ رہی ہیں معزز ماں! '' اس نے دھیمے سے کہا کہ دائیں جانب سے ایک ادھیڑ عمر کا شخص اپنے نوجوان بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر مجمعے کو چیرتا ہوا آگے آ گیا اور وہیں سے چلایا۔
''سر! میں بھی آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ سر ! یہ میرا بیٹا سکندر ہے جو پورے صوبے میں فرسٹ آیا تھا آج دو برس ہوگئے اسے نوکری نہ مل سکی کہ رشوت کا بازار گرم ہے، ہمارے روز و شب وہی ہیں میں نے اپنے آباو اجداد کی جائیداد بیچ کر اسے پڑھایا تھا اور یہ۔۔۔۔یہ میری انیس سالہ بیٹی زیبو ہے سر! جسے زیادہ جہیز نہ لانے پر طلاق ہو گئی''۔ مسٹر ہینڈسم نے نظریں اٹھاکر دیکھا گندمی رنگت، کتابی چہرے، شربتی آنکھوں اور گھنیری زلفوں والی ایک نازک اندام سی لڑکی جس کی پلکوں پر آنسو ٹھہر گئے تھے عجب حسرت و یاس سے خلاؤں میں گھور رہی تھی۔یوں ہی ایک ایک کر کے جانے کتنی ہی درد بھری آوازیں اس کے کانوں سے ٹکراتی رہیں وہ ساکت سا کھڑا رہا اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس کس کی اشک جوئی کرے کس کس کے زخم سمیٹے پھر اس نے دھیمے لہجے میں کہنا شروع کیا۔
''معزز خواتین و حضرات! میں جانتا ہوں آپ کے مسائل مشترک ہیں اور آپ کے خواب ادھورے ، میں چاہتا تو ہوں کہ میں آپ سب کا ہو جاؤں مگر ایسا میرے اختیار میں نہیں کہ یہ نظام ہی ایسا ہے، یہ میرے اختیار میں نہیں ہاں آپ کے اختیار میں کسی حد تک ہے مگر۔۔۔۔!''
''مگر۔۔۔۔؟'' سارا ہجوم چیخ پڑا۔
''ہاں چند خوش قسمت مجھے پا لیتے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، کون کہتا ہے کہ آپ کا ملک غریب ہے آپ کے یہاں تو بڑے نامی گرامی لوگ موجود ہیں جن کا بینک بیلنس لاکرز بھی برداشت نہیں کرتے اور خودبخود ٹوٹ جاتے ہیں جو منی لانڈرنگ، اسمگلنگ، رشوت، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی اور فراڈ سے شہنشاہوں کی طرح راج کر رہے ہیں۔ اگر آپ سب یہ نہیں کر سکتے تو میرے حصول کی تمنا بے کار ہے۔۔۔۔!''
''تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا وقار انھی لوگوں کے ہاتھوں کھیلتا ہے۔''
''نہیں ایسا بھی نہیں، اس میں قصور آپ کا نہیں اس موجودہ دور کا ہے یہ فرسودہ نظام مجھے آپ کے قریب نہیں ہونے دیتا میں بذات خود برا نہیں مگر مجھے لوگوں نے منفی انداز میں اپنایا ہے۔''
''آپ سچ کہہ رہے ہیں سر! مگر ہم۔۔۔۔ہم نئی نسل کے لوگ فرسٹریشن کے سمندر میں گلے گلے ڈوب چکے ہیں ہماری منزل کہیں نہیں، ہمارا مستقبل کوئی نہیں۔ ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے ہمارے حلق کا آخری نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ سر! ہم مفلسی کی چکی میں پس کر آٹا بن چکے ہیں ہم کس کا ہاتھ تھامیں کہ جب راہبر ہی رہزن بن جائیں۔۔۔۔''
''اگر آپ یہ سب نہیں کرسکتے تو پھر واپس اپنی دنیا میں چلے جائیں کہ میر املنا اتنا آسان نہیں ہے۔''مسٹر اسٹیٹس نے اپنے سیاہ کوٹ کی جیب سے سرخ رومال نکالا اور لہراتا ہوا دھندلکوں میں گم ہو گیا۔