جنگی پلے گراؤنڈ
صاحبو! یہ ایک زاویہ ہے جو بالکل بھی اس قابل نہیں کہ اس پر کوئی خاص غور و خوص کیا جائے
یادش بخیر، برس گزرے 80 کی دہائی کے ابتدائی حصے میں ایک انگریزی ناول کا ترجمہ پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ دنیا کی ٹھیکیدار دو سپر پاورز ایک مفاہمت آپس میں یوں کرتی ہیں کہ بھئی آپس میں جنگ کرنے سے اپنے اپنے ملکوں میں بڑی تباہی آتی ہے، پہلی اور دوسری جنگ عظیم اس کی مثال ہیں، اور اب تو ایٹمی ہتھیار بھی آگئے ہیں۔ اگر دونوں سپر پاورز لڑ پڑیں یا کسی بھی بات پر باہمی جنگ چھڑ گئی تو مکمل بربادی ہوجائے گی۔ چنانچہ دونوں طرف کے بڑے بیٹھتے ہیں اور آپس میں یہ طے کرتے ہیں کہ دنیا میں ایک بے آباد خطہ چنا جائے اور ہر پانچ سال بعد وہاں دونوں ممالک کی فوجیں جنگ لڑیں۔
اس جنگ کے قواعد و ضوابط طے کرلیے جاتے ہیں کہ کتنی فوج ہوگی، کتنا اسلحہ اور کیا دیگر معاملات وغیرہ ہوں گے، مدت کتنی ہوگی وغیرہ۔ سوچا گیا کہ اس سے کئی فائدے ہوں گے، جنگی جنون نکلے گا، ہتھیاروں اور فوج کی آزمائش ہوتی رہے گی باقی دنیا رعب میں رہے گی۔ ایک بار جنگ جیتنے والا اگلے پانچ سال تک دنیا کے تمام معاملات میں برتر سمجھا جائے گا اور اس کے فیصلے چلیں گے، پھر پانچ سال بعد دوبارہ جنگی ورلڈ کپ منعقد ہوگا۔
تو جناب یہ تھا اس انگریزی ناول کے بنیادی خیال کا خلاصہ جو 80 کی دہائی کی ابتداء میں شائع ہوا اور ہم نے تو ترجمہ ہی پڑھا تھا کہ براہ راست پڑھنے کی قابلیت اب بھی کوئی خاص نہیں تو اس وقت تو کیا ہوتی! مگر پوائنٹ یہ نہیں، بات کچھ اور ہی سمجھ میں آئی اور وہ یہ کہ شاید لکھنے والے بے چارے مصنف نے تو ایک پلاٹ بنایا تھا اپنے ناول کےلیے، مگر یہ پلاٹ شاید مقتدر طاقتوں کو بہت بھا گیا اور ان ستم ظریفوں نے اس کو عملی جامہ ہی پہنا دیا۔ ایک جنگی پلے گراؤنڈ منتخب کیا گیا اور آتش و آہن کا جنگی کھیل شروع ہوگیا؛ اور وہ پلے گراؤنڈ بنا افغانستان۔
یہ ایک نظریہ بلکہ اس سے بھی کم ایک مفروضہ ہے جو سوچا گیا ہے، ہو سکتا ہے کہ ایسا قطعی نہ ہو بلکہ یقیناً ایسا نہیں ہوگا۔ مگر سوچنے میں کیا حرج ہے۔ پھر اس ناول کے بنیادی خیال اور پیش آنے والے حقیقی حالات و اقعات میں مماثلت بڑی حیرت انگیز سی ہے۔ 70 کی دہائی کے اواخر میں روس کا افغانستان پر حملہ کرنا، پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بناکر اور اپنا شطرنج کا وزیر بناکر امریکی شاطروں کی لگائی گئی ایک جنگی شطرنج کی بساط کا بچھنا۔ گیارہ سال کی بازی کے بعد روس کا ہار کر شرم سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا، امریکا کا اکلوتی سپر پاور بن جانے کا ٹائٹل حاصل کرلینا، کچھ عرصے سکون رہنا اور پھر دوسرا راؤنڈ شروع ہوجانا۔
نائن الیون کا واقعہ ہونا یا وقوعہ کروایا جانا، امریکا بہادر کا اچھل اچھل کر خوب غیض و غضب دکھانا، دنیا والوں کا سہم جانا، افغانستان کو ایک بار پھر جنگی پلے گراؤنڈ بنانا اور پھر جیسے فٹ بال کے میچ میں ہاف ٹائم کے بعد ادھر کی ٹیم ادھر اور ادھر کی ٹیم ادھر ہوجاتی ہے، تواب حملہ آور کا کردار امریکا اور اس کے فوجی اتحاد نیٹو کا ادا کرنا اور جنگ شروع ہوجانا۔ یہ والا راؤنڈ ذرا لمبا چلنا، خوب پے در پے ڈرامائی واقعات کا پیش آنا اور بالآخر اب 2019 میں صلح صفائی کی باتیں شروع ہو جانا کہ امریکا صاحب بہادر کی کمر جنگی اخراجات مزید اٹھانے کے قابل نہیں رہی۔
تو صاحبو! یہ ایک زاویہ ہے جو بالکل بھی اس قابل نہیں کہ اس پر کوئی خاص غور و خوص کیا جائے۔ بس ایک آوارہ سا، پراگندہ سا خیال سمجھ کر آپ سے شیئر کر دیا ہے۔ لیکن اگر اس تھیوری یا مفروضے میں کچھ دم ہے تو آپ دیکھیں گے کہ کچھ عرصے تک تو امن و امان رہے گا اور پھر ایک نیا راؤنڈ، خاکم بدہن، شروع ہوجائے گا، جو کہ دعا ہے نہ ہو، بالکل نہ ہو۔ زیادہ امکان ہے کہ نہیں ہوگا کیونکہ طاقت کا عالمی توازن ایک بار پھر مغرب سے مشرق کی جانب پلٹ رہا ہے۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس جنگ کے قواعد و ضوابط طے کرلیے جاتے ہیں کہ کتنی فوج ہوگی، کتنا اسلحہ اور کیا دیگر معاملات وغیرہ ہوں گے، مدت کتنی ہوگی وغیرہ۔ سوچا گیا کہ اس سے کئی فائدے ہوں گے، جنگی جنون نکلے گا، ہتھیاروں اور فوج کی آزمائش ہوتی رہے گی باقی دنیا رعب میں رہے گی۔ ایک بار جنگ جیتنے والا اگلے پانچ سال تک دنیا کے تمام معاملات میں برتر سمجھا جائے گا اور اس کے فیصلے چلیں گے، پھر پانچ سال بعد دوبارہ جنگی ورلڈ کپ منعقد ہوگا۔
تو جناب یہ تھا اس انگریزی ناول کے بنیادی خیال کا خلاصہ جو 80 کی دہائی کی ابتداء میں شائع ہوا اور ہم نے تو ترجمہ ہی پڑھا تھا کہ براہ راست پڑھنے کی قابلیت اب بھی کوئی خاص نہیں تو اس وقت تو کیا ہوتی! مگر پوائنٹ یہ نہیں، بات کچھ اور ہی سمجھ میں آئی اور وہ یہ کہ شاید لکھنے والے بے چارے مصنف نے تو ایک پلاٹ بنایا تھا اپنے ناول کےلیے، مگر یہ پلاٹ شاید مقتدر طاقتوں کو بہت بھا گیا اور ان ستم ظریفوں نے اس کو عملی جامہ ہی پہنا دیا۔ ایک جنگی پلے گراؤنڈ منتخب کیا گیا اور آتش و آہن کا جنگی کھیل شروع ہوگیا؛ اور وہ پلے گراؤنڈ بنا افغانستان۔
یہ ایک نظریہ بلکہ اس سے بھی کم ایک مفروضہ ہے جو سوچا گیا ہے، ہو سکتا ہے کہ ایسا قطعی نہ ہو بلکہ یقیناً ایسا نہیں ہوگا۔ مگر سوچنے میں کیا حرج ہے۔ پھر اس ناول کے بنیادی خیال اور پیش آنے والے حقیقی حالات و اقعات میں مماثلت بڑی حیرت انگیز سی ہے۔ 70 کی دہائی کے اواخر میں روس کا افغانستان پر حملہ کرنا، پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بناکر اور اپنا شطرنج کا وزیر بناکر امریکی شاطروں کی لگائی گئی ایک جنگی شطرنج کی بساط کا بچھنا۔ گیارہ سال کی بازی کے بعد روس کا ہار کر شرم سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا، امریکا کا اکلوتی سپر پاور بن جانے کا ٹائٹل حاصل کرلینا، کچھ عرصے سکون رہنا اور پھر دوسرا راؤنڈ شروع ہوجانا۔
نائن الیون کا واقعہ ہونا یا وقوعہ کروایا جانا، امریکا بہادر کا اچھل اچھل کر خوب غیض و غضب دکھانا، دنیا والوں کا سہم جانا، افغانستان کو ایک بار پھر جنگی پلے گراؤنڈ بنانا اور پھر جیسے فٹ بال کے میچ میں ہاف ٹائم کے بعد ادھر کی ٹیم ادھر اور ادھر کی ٹیم ادھر ہوجاتی ہے، تواب حملہ آور کا کردار امریکا اور اس کے فوجی اتحاد نیٹو کا ادا کرنا اور جنگ شروع ہوجانا۔ یہ والا راؤنڈ ذرا لمبا چلنا، خوب پے در پے ڈرامائی واقعات کا پیش آنا اور بالآخر اب 2019 میں صلح صفائی کی باتیں شروع ہو جانا کہ امریکا صاحب بہادر کی کمر جنگی اخراجات مزید اٹھانے کے قابل نہیں رہی۔
تو صاحبو! یہ ایک زاویہ ہے جو بالکل بھی اس قابل نہیں کہ اس پر کوئی خاص غور و خوص کیا جائے۔ بس ایک آوارہ سا، پراگندہ سا خیال سمجھ کر آپ سے شیئر کر دیا ہے۔ لیکن اگر اس تھیوری یا مفروضے میں کچھ دم ہے تو آپ دیکھیں گے کہ کچھ عرصے تک تو امن و امان رہے گا اور پھر ایک نیا راؤنڈ، خاکم بدہن، شروع ہوجائے گا، جو کہ دعا ہے نہ ہو، بالکل نہ ہو۔ زیادہ امکان ہے کہ نہیں ہوگا کیونکہ طاقت کا عالمی توازن ایک بار پھر مغرب سے مشرق کی جانب پلٹ رہا ہے۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔