اجمل خٹک قوم پرست شاعر اور پشتو میں پہلے پاکستانی ملی نغمے کے خالق

پولیس کے چھاپوں کی ڈر سے والدہ نے اجمل خٹک کی شاعری اور نثر کے بیشتر نمونے تندور میں پھینک کر جلا ڈالے

اجمل خٹک آٹھویں جماعت میں پورے صوبے میں اول آئے تھے، فوٹو: فائل

معروف قوم پرست اور ترقی پسند شاعر، ادیب، دانشور اور سیاست دان اجمل خٹک کو ہم سے بچھڑے 9 سال بیت گئے۔

اجمل خان خٹک 1925میں ایک عام کاشت کار حکمت خان کے ہاں اکوڑہ خٹک میں 7 بہنوں کے بعد پیدا ہوئے، ابتدائی دینی علوم اپنے گاﺅں کی مسجد میں حاصل کی، قرآن شریف اور پشتو کی دیگر منظوم کتابیں نورنامہ، جنگ نامہ اور قصے کہانیاں اپنی پھوپی منفعتہ سے سنتے رہے۔ 1935 میں مسجد سے گاﺅں کے اسکول میں جماعت دوئم میں داخل کردیے گئے، 8ویں جماعت میں "بدمعاش ھلک (بدمعاش لڑکا) " کے نام سے ایک چھوٹا سا ڈرامہ لکھا اور پیش کیا جس میں مرکزی کردار انہوں نے خود ادا کیا۔ انہوں نے پہلی بار 1938 میں خوشحال خان خٹک کے مزار پر منعقدہ مشاعرہ میں اپنی نظم پیش کی تھی۔

اجمل خٹک آٹھویں جماعت میں پورے صوبے میں اول آئے تھے، وہ اور معروف بالی ووڈ اداکار راج کپور ایک ہی اسکول کے طالب علم تھے اور دونوں کے مابین اچھی دوستی رہی۔

اجمل خٹک بچپن سے ہی باچاخان کی تحریک خدائی خدمتگار سے وابستہ ہوگئے تھے۔ غیر منقسم ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف "ہندوستان چھوڑ دو" تحریک میں شمولیت اختیار کرنے کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ آگے نہیں بڑھاسکے۔ 1943میں محکمہ تعلیم میں 20 روپے ماہوار پر "معلم" بھرتی ہوگئے، اس دوران انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پشتو آنرز' منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کئے، بعد میں فارسی زبان میں ایم اے کیا۔

یکم اپریل 1948 کو ریڈیو پاکستان پشاور میں بطور اسکرپٹ رائٹر ملازمت اختیار کی جہاں احمد ندیم قاسمی 'ن م راشد 'ناصر انصاری 'احمد فراز اور خاطر غزنوی جیسے شعراءو ادباءکی رفاقت نصیب ہوئی ۔1947 میں پاکستان کا پشتو میں پہلا ملی ترانہ بھی انہوں نے لکھا تھا جو اس وقت کے معروف گلوکار استاد سبز علی خان کی آواز میں نشر ہواتھا۔ اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے ریڈیو کی ملازمت سے فارغ کردیئے گئے تو 1956میں روزنامہ بانگ حرم کے ایڈیٹر بنے اور کئی سال تک مختلف اخبارات میں بطور مدیر فرائض سرانجام دیتے رہے۔


"مشین اور انسان" اور "سرمایہ"نامی کتابوں کے مطالعے نے اجمل خٹک کو مارکس ازم اور لینن ازم کی جانب راغب کیا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر بھی رہ چکے تھے۔ وہ اکثراس بات کااعتراف کیا کرتے تھے کہ افغانستان میں جلا وطنی کے دوران ان کے ساتھ بنگلا دیش اور ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے کافی مالی مدد کی تھی انہوں نے کئی کئی سال تک جیل کاٹی۔ ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار ہوئے یہاں تک کہ قید کے دوران "دا زہ پاگل اوم" ( کیا میں پاگل تھا؟) جیسی کتاب بھی لکھی۔

اجمل خٹک کے گھر پر پولیس کے چھاپوں کے ڈر سے ان کی والدہ نے ان کی شاعری اور نثر کے بیشتر نمونے تندور میں پھینک کر جلا ڈالے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ "دغیرت چغہ" بھی ان کے دوستوں نے کافی تلاش کے بعد یکجا کیا۔

1973 میں لیاقت باغ فائرنگ کیس کا واقعہ پیش آیا تو نواب محمد اکبر خان بگٹی کے گھر کوئٹہ میں نواب خیربخش مری 'غوث بخش بزنجو 'اکبر خان 'عطاءاللہ مینگل 'اور ولی خان کے مشورے اور کہنے پر انہوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور انہیں قریبی دوست "تور لالے" نے بڑی مشکل راستوں سے قبائلی راستے سے افغانستان تک پہنچایا، جہاں 15 سال تک جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد 1988 میں پاکستان آئے، وہ رکن قومی اسمبلی بعد ازاں سینیٹر منتخب ہوئے۔

اکتوبر 1999 میں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے ان سے ملاقات کی اور صدارت کاعہدہ پیش کیا اس ملاقات سے عوامی نیشنل پارٹی اور اجمل خٹک کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے جس پر انہوں نے اے این پی چھوڑ کر "اپنا کچکول اور رباب " بجانے کا فیصلہ کرتے ہوئے دوبارہ نیشنل عوامی پارٹی پاکستان کے نام سے الگ جماعت بنائی تاہم چند سالوں کے بعد دوبارہ اے این پی میں شامل ہوگئے اور مرتے دم تک اسی پارٹی سے وابستہ رہے۔

پشتو کے معروف ترقی پسند و قوم پرست شاعر ،ادیب، صحافی، دانشور اور بزرگ سیاست دان اجمل خان خٹک کے انتقال کو 9 برس بیت گئے لیکن ان کا تخلیق کیا گیا ادب آج بھی بے حد مقبول ہے۔
Load Next Story