لیاری میں آگہی کی لہر
تاریخی کردار قادر بخش عرف قادو مکرانی کو بغدادی تھانہ کے قریب دھوکا دہی سے قتل کیا گیا
RIYADH:
شہر قائدکا قدیم ترین علاقہ لیاری ملک گیر شہرت رکھتا ہے۔ اس بے نام شہرت کے کئی پہلو ہیں۔ سیاسی شعوراور جدوجہد کے حوالے سے لیاری کو ایوبی آمریت کے خلاف پہلے عوامی ابھارکا کریڈٹ جاتا ہے، علی احمد سومرو، رقیہ سومرو اور نورجہاں سومرو کے گھرانے کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ احتجاجی جلوس شاہ عبداللطیف بھٹائی روڈ سے شروع ہوا ، ان دنوں اس سڑک کا نام آتما رام پریتم داس روڈ تھا ، اس سے بھی پہلے اسے مسان روڈ کے نام سے لوگ جانتے تھے، پروفیسر این ڈی خان کی اہلیہ ڈاکٹر شمیم زین الدین گھوڑے پر سوار ہوکر ٹاور تک جلوس کے ساتھ ساتھ چلتی رہیں، جلوس کو مزار قائد تک جانا تھا۔ لیاری کاابتدائی تاریخی حوالہ 1934-35میں غازی عبدالقیوم کے جلوس میں عوام کی ریکارڈ شمولیت کا بھی ہے، جس چاکیواڑہ روڈ سے جلوس گزرا، اسے انقلاب جنکشن کا نام دیا گیا۔
اسی مقام پر پنجاب، سندھ ، بلوچستان اور سرحد(حال خیبر پختونخوا)کے ممتاز سیاست دان جلسوں میں شریک ہوتے تھے۔ پیر پگارا ، جی ایم سید ، میرغوث بخش بزنجو ، خیر بخش مری، سردارعطااللہ مینگل ، نواب اکبر بگٹی ، باچا خان ، خان ولی خان ، سید صالح شاہ آف شیرشاہ ، مختار رانا ، باقی بلوچ ، عبدالمالک بلوچ کراچی آکر ملک کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے، بعض نے اپنا الیکشن لیاری سے لڑا، ستارگبول کا مقابلہ ہارون فیمیلی سے ہوا ۔ کچھ لوگ لیاری کو حیرت کدہ کہتے ہیں، ایک ایسی قدیم اور وسیع المشرب آبادی جس میں علاقے کے سیاہ فام بلیک ڈائمنڈزکہلاتے، ان میں انٹرنیشنل فٹ بالرز ، باکسرز سمیت سائیکلسٹس اور جمناسٹ بھی تھے، گلوکاروں اور موسیقاروں کی کہکشاں جھلملاتی تھی، مہدی حسن گل محمد لین کی موسیقی کی محفلوں میں شریک ہوتے، استاد قدرت اللہ خان کا پورا گھرانہ ککری گراؤنڈ کے سامنے، صرافہ بازار میں رہائش پذیر تھا۔اسی لیاری میں فلم ''جاگ اٹھا انسان'' کے تاریخی کردار قادر بخش عرف قادو مکرانی کو بغدادی تھانہ کے قریب دھوکا دہی سے قتل کیا گیا۔
کھڈا ، دریاآباد، نیا آباد میں سندھی زبان کے جید شاعر ،ادیب، دانشور،اور فنکار سکونت پذیر تھے۔ اسی لیاری میں سید ظہورشاہ (سیدہاشمی) نے زندگی کے آخری ایام گزارے۔ بہارکالونی اور آگرہ تاج کالونی میں اردو سپیکنگ ادیب، شاعر ، اسکالر، اساتذہ و معلمات ، بیوروکریٹ اور معروف صحافٖیوں کی قیام گاہیں تھیں۔ گبول پارک میں بھٹو نے کابینہ کا نہ صرف پہلا اجلاس بلایا تھا بلکہ اسی پارک میں پی پی کے وزراء نے علامتی جھاڑو بھی دی تھی ، بھٹو نے شگفتہ انداز میں وارننگ دی تھی کہ میرا جو وزیر لیاری کی خدمت نہیں کرے گا وہ پھر جھاڑو دے گا۔
اسے میں فکس اپ کردوں گا۔ پھرککری گراؤنڈ پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کی شادی کی رنگا نگ تقریب منعقد ہوئی، اسی ککری گراؤنڈ میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے بھی خطاب کیا اور لیاری والوں کو متحدہ میں شمولیت اختیارکرنے کی اپیل بھی کی۔ بھٹو خاندان سے سیاسی وفاداری بہ شرط استواری کی داستان دراز بھی ہے اور دلگداز بھی۔ پی پی کے اکثر ناقدین کا لیاری کے عوام سے ہمیشہ یہی سوال رہا ہے کہ تم لوگوں کو پی پی کی غیر مشروط غلامی سے آخرکیا ملا، وہی تنگ وتاریک گلیاں ، ابلتے گٹر ، ٹوٹی سڑکیں ، بے ترتیب کچے مکان ، جھونپڑیاں ، گدھا گاڑیاں ، بیروزگاری اور جرائم و منشیات کے اڈے۔
ایک بار ڈان کے سابق ایڈیٹر عباس ناصر نے پریس کلب میں مجھے داخل ہوتے دیکھتے ہی پاس بلا لیا ۔وہ بی بی سی ورلڈ سروس سے وابستہ تھے، ان کے ساتھ بڑا سا بیگ تھا ، اسائنمنٹ پرکراچی آئے تھے، الیکشن سر پر تھے۔ ہم لوگ رپورٹنگ کے لیے اکثرساتھ جاتے تھے،میں روزنامہ ''حریت '' اور بعد ازاں روزنامہ ''پاکستان''سے وابستہ ہوگیا تھا۔ عباس ناصر نے مائیک نکالا میرے سامنے رکھ کر اپنی خوبصورت اور دبدبے والی بلند آہنگ آواز میں سوال کیا۔ ''شاہ صاحب پیپلز پارٹی سے لیاری کے رشتے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا اس میں کسی دراڑ کے امکانات ہیں، بتائیے یہ تعلق صرف سیاسی ہے یا اس کے دوسرے انسانی پہلو اور اسباب بھی ہیں؟ ظاہر ہے سوال گنجینہ معانی کا طلسم تھا، جواب دینے کی کوشش میں میری زبان سے یہ الفاظ برآمد ہوئے کہ عباس صاحب ، پی پی سے لیاری والوں کی محبت میثاق سیاست پر شوق گل بوسی میں زبان رکھنے کے مترادف تھی، ان کی بھٹواورپیپلز پارٹی سے جذباتی وابستگی جمہوریت اور سیاسی وفاداری کا لاثانی باب ہے۔ یہ حرف وفا کا یادگار استعارہ ہے ۔
آج میں لیاری سے بلاول بھٹوکی پیپلز پارٹی ہی کے ایک بے داغ جیالے شکور شاد کے مقابل الیکشن میں شکست کا باب کھولتا ہوں تو عباس ناصرکی دلنواز مسکراہٹ میرے وجود کو ہلا کر رکھ دیتی ہے اور خود سے سوال کرتا ہوں کہ کیا واقعی لیاری کا پی پی سے میثاق سیاست و محبت کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ پی پی بلاشبہ وفاق پرست جماعت ہے، لیکن لیاری والوں کی ذوالفقارعلی بھٹو ، بیگم بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے وابستگی کا دی اینڈ نہیں ہوا، لیاری میں 2018ء کے الیکشن میں جو پری الیکشن واقعات ہوئے، ان میں لیاری کا اضطراب، فرسٹریشن، مایوسی، ناراضی اور خاص طور پر سنگدلانہ لاتعلقی کے باعث پی پی کا ووٹ بیلٹ باکس میں جانے سے گریزاں رہا۔ لیاری والے الیکشن سے پہلے اقبال بانو کا یہ سدا بہار گیت سناتے رہ گئے، '' تم کھیل رہے ہو خوشیوں میں، ہم ڈوب گئے ہیں آہوں میں ، دل توڑنے والے دیکھ کے چل، ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔'' واقعہ یہ ہے کہ لیاری والے الیکشن کے بعد ابھی بھی راہوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
ان کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں، کچھی کمیونٹی پی پی کی فطری ووٹر تھی اسے بے رحمی سے دھکیل دیا گیا، لیاری کی خاتون ووٹرز اسی دن سے ناراض تھیں جب انھوں نے دیکھا کہ بینظیر جیسی بے لوث محبت کرنے والی کوئی رہنما انھیں سینہ سے لگانے اورگینگ وار میں ناحق قتل ہونے والے بھائیوں کی تعزیت کے لیے لیاری کا رخ نہیں کر رہی ۔ لوگ کہتے ہیں یہ ظلم لیاری پرگینگ وارکارندوں کے ہاتھوں دیو مالائی طاقتوں نے کیا ، جو پر امن محنت کش تھے وہ نفرتوں کی آگ میں جھونک دیے گئے۔
لیکن گینگ وارکی ظلمت افروز شب لیاری والوں کے خواب چرانے میں ناکام رہی۔لیاری کی استقامت کل کی طرح آج بھی فتح یاب ہوئی۔ اس کے سیاسی ورکر، طلبہ و طالبات، شاعروادیب، صحافی وفنکار، سول سوسائٹی اور محنت کش عوام زندہ ہیں۔ جس کا اندازہ مجھے گزشتہ اتوار کو لیاری کے سینئر صحافی لطیف بلوچ کے قائم کردہ ریڈرز بک کلب کے ایک فکری اور نظریاتی مکالمے میں شرکت سے ہوا جو علاقے کے بزرگ دانشوروں، سیاسی کارکنوں، سماجی رہنماؤں اور طلبہ کے ساتھ طے پایا تھا ۔ لطیف بلوچ نے گینگ وار کے کڑے اور انتہائی اعصاب شکن دور میں علم کی شمع جلائے رکھی، اپنے اسکول '' گل ِنور'' کے دروازے لیاری کے بچوں اور بچیوں کے لیے کھلے رکھے۔اس مکالمہ میں خدا بخش، اختر بہادر، مجید ساجدی، ابو بکر، عبدالوہاب بلوچ ، کامریڈ محمد بخش ، محمود عالم ، ابراہیم رئیس ، غلام قادر اور دیگر نے حصہ لیا، گفتگو ہمہ گیر و ہمہ جہت تھی، بزرگ سماجی وسیاسی شخصیات نے بلوچستان کی حالت زار، لیاری کے شب و روز، سیاسی جماعتوں کی کارکردگی، عمران خان کے وعدوں اور بلوچ قوم کو درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا۔عبدالوہاب نے لیاری کے ممتاز مارکسی دانشور یوسف نسکندی پر تحریری اظہار خیال کیا، اورکراچی کی بانی مائی کولاچی کو یاد کیا۔
لطیف بلوچ کا کہنا تھا کہ book club کا قیام ان کا دیرینہ خواب تھا ۔ یہ لیاری کی نئی نسل کو علم ودانش سے سرفرازکرنے کی حقیرانہ کوشش ہے، ان کی خواہش ہے کہ جن صحافیوں، ادیبوں، سیاستدانوں کی ذاتی لائبریریوں میں اضافی کتب ہوں ، وہ اس بک کلب کو عطیہ کردیں تو اس سے ہزاروں نوجوان مستفید ہونگے۔یہ بک کلب فدا حسین شیخا روڈ سے متصل اس بمباسہ اسٹریٹ کے قریب ہے جہاں گزشتہ کئی برسوں سے فری اسٹریٹ اسکول قائم رہا ۔ محمد امین اور محمود عالم اپنے رفقا کے ساتھ اس کی نگرانی کرتے رہے۔ان ہی اسٹریٹ اسکولز کے بطن سے پروفیسر صبا دشتیاری نے جنم لیا، ن م دانش نے ان اسکولوں کی تنظیم سازی کی، مرحوم امام بخش اور درجنوںبے لوث رضاکاروں نے ان اسکولوں میں بلامعاوضہ تدریس کے فرائض انجام دیے۔ لطیف بلوچ نے ایک چراغ روشن کیا ہے جسے جہالت کی آندھیوں سے بچانا اب ہم سب کا فرض ہے۔
شہر قائدکا قدیم ترین علاقہ لیاری ملک گیر شہرت رکھتا ہے۔ اس بے نام شہرت کے کئی پہلو ہیں۔ سیاسی شعوراور جدوجہد کے حوالے سے لیاری کو ایوبی آمریت کے خلاف پہلے عوامی ابھارکا کریڈٹ جاتا ہے، علی احمد سومرو، رقیہ سومرو اور نورجہاں سومرو کے گھرانے کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ احتجاجی جلوس شاہ عبداللطیف بھٹائی روڈ سے شروع ہوا ، ان دنوں اس سڑک کا نام آتما رام پریتم داس روڈ تھا ، اس سے بھی پہلے اسے مسان روڈ کے نام سے لوگ جانتے تھے، پروفیسر این ڈی خان کی اہلیہ ڈاکٹر شمیم زین الدین گھوڑے پر سوار ہوکر ٹاور تک جلوس کے ساتھ ساتھ چلتی رہیں، جلوس کو مزار قائد تک جانا تھا۔ لیاری کاابتدائی تاریخی حوالہ 1934-35میں غازی عبدالقیوم کے جلوس میں عوام کی ریکارڈ شمولیت کا بھی ہے، جس چاکیواڑہ روڈ سے جلوس گزرا، اسے انقلاب جنکشن کا نام دیا گیا۔
اسی مقام پر پنجاب، سندھ ، بلوچستان اور سرحد(حال خیبر پختونخوا)کے ممتاز سیاست دان جلسوں میں شریک ہوتے تھے۔ پیر پگارا ، جی ایم سید ، میرغوث بخش بزنجو ، خیر بخش مری، سردارعطااللہ مینگل ، نواب اکبر بگٹی ، باچا خان ، خان ولی خان ، سید صالح شاہ آف شیرشاہ ، مختار رانا ، باقی بلوچ ، عبدالمالک بلوچ کراچی آکر ملک کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے، بعض نے اپنا الیکشن لیاری سے لڑا، ستارگبول کا مقابلہ ہارون فیمیلی سے ہوا ۔ کچھ لوگ لیاری کو حیرت کدہ کہتے ہیں، ایک ایسی قدیم اور وسیع المشرب آبادی جس میں علاقے کے سیاہ فام بلیک ڈائمنڈزکہلاتے، ان میں انٹرنیشنل فٹ بالرز ، باکسرز سمیت سائیکلسٹس اور جمناسٹ بھی تھے، گلوکاروں اور موسیقاروں کی کہکشاں جھلملاتی تھی، مہدی حسن گل محمد لین کی موسیقی کی محفلوں میں شریک ہوتے، استاد قدرت اللہ خان کا پورا گھرانہ ککری گراؤنڈ کے سامنے، صرافہ بازار میں رہائش پذیر تھا۔اسی لیاری میں فلم ''جاگ اٹھا انسان'' کے تاریخی کردار قادر بخش عرف قادو مکرانی کو بغدادی تھانہ کے قریب دھوکا دہی سے قتل کیا گیا۔
کھڈا ، دریاآباد، نیا آباد میں سندھی زبان کے جید شاعر ،ادیب، دانشور،اور فنکار سکونت پذیر تھے۔ اسی لیاری میں سید ظہورشاہ (سیدہاشمی) نے زندگی کے آخری ایام گزارے۔ بہارکالونی اور آگرہ تاج کالونی میں اردو سپیکنگ ادیب، شاعر ، اسکالر، اساتذہ و معلمات ، بیوروکریٹ اور معروف صحافٖیوں کی قیام گاہیں تھیں۔ گبول پارک میں بھٹو نے کابینہ کا نہ صرف پہلا اجلاس بلایا تھا بلکہ اسی پارک میں پی پی کے وزراء نے علامتی جھاڑو بھی دی تھی ، بھٹو نے شگفتہ انداز میں وارننگ دی تھی کہ میرا جو وزیر لیاری کی خدمت نہیں کرے گا وہ پھر جھاڑو دے گا۔
اسے میں فکس اپ کردوں گا۔ پھرککری گراؤنڈ پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کی شادی کی رنگا نگ تقریب منعقد ہوئی، اسی ککری گراؤنڈ میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے بھی خطاب کیا اور لیاری والوں کو متحدہ میں شمولیت اختیارکرنے کی اپیل بھی کی۔ بھٹو خاندان سے سیاسی وفاداری بہ شرط استواری کی داستان دراز بھی ہے اور دلگداز بھی۔ پی پی کے اکثر ناقدین کا لیاری کے عوام سے ہمیشہ یہی سوال رہا ہے کہ تم لوگوں کو پی پی کی غیر مشروط غلامی سے آخرکیا ملا، وہی تنگ وتاریک گلیاں ، ابلتے گٹر ، ٹوٹی سڑکیں ، بے ترتیب کچے مکان ، جھونپڑیاں ، گدھا گاڑیاں ، بیروزگاری اور جرائم و منشیات کے اڈے۔
ایک بار ڈان کے سابق ایڈیٹر عباس ناصر نے پریس کلب میں مجھے داخل ہوتے دیکھتے ہی پاس بلا لیا ۔وہ بی بی سی ورلڈ سروس سے وابستہ تھے، ان کے ساتھ بڑا سا بیگ تھا ، اسائنمنٹ پرکراچی آئے تھے، الیکشن سر پر تھے۔ ہم لوگ رپورٹنگ کے لیے اکثرساتھ جاتے تھے،میں روزنامہ ''حریت '' اور بعد ازاں روزنامہ ''پاکستان''سے وابستہ ہوگیا تھا۔ عباس ناصر نے مائیک نکالا میرے سامنے رکھ کر اپنی خوبصورت اور دبدبے والی بلند آہنگ آواز میں سوال کیا۔ ''شاہ صاحب پیپلز پارٹی سے لیاری کے رشتے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا اس میں کسی دراڑ کے امکانات ہیں، بتائیے یہ تعلق صرف سیاسی ہے یا اس کے دوسرے انسانی پہلو اور اسباب بھی ہیں؟ ظاہر ہے سوال گنجینہ معانی کا طلسم تھا، جواب دینے کی کوشش میں میری زبان سے یہ الفاظ برآمد ہوئے کہ عباس صاحب ، پی پی سے لیاری والوں کی محبت میثاق سیاست پر شوق گل بوسی میں زبان رکھنے کے مترادف تھی، ان کی بھٹواورپیپلز پارٹی سے جذباتی وابستگی جمہوریت اور سیاسی وفاداری کا لاثانی باب ہے۔ یہ حرف وفا کا یادگار استعارہ ہے ۔
آج میں لیاری سے بلاول بھٹوکی پیپلز پارٹی ہی کے ایک بے داغ جیالے شکور شاد کے مقابل الیکشن میں شکست کا باب کھولتا ہوں تو عباس ناصرکی دلنواز مسکراہٹ میرے وجود کو ہلا کر رکھ دیتی ہے اور خود سے سوال کرتا ہوں کہ کیا واقعی لیاری کا پی پی سے میثاق سیاست و محبت کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ پی پی بلاشبہ وفاق پرست جماعت ہے، لیکن لیاری والوں کی ذوالفقارعلی بھٹو ، بیگم بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے وابستگی کا دی اینڈ نہیں ہوا، لیاری میں 2018ء کے الیکشن میں جو پری الیکشن واقعات ہوئے، ان میں لیاری کا اضطراب، فرسٹریشن، مایوسی، ناراضی اور خاص طور پر سنگدلانہ لاتعلقی کے باعث پی پی کا ووٹ بیلٹ باکس میں جانے سے گریزاں رہا۔ لیاری والے الیکشن سے پہلے اقبال بانو کا یہ سدا بہار گیت سناتے رہ گئے، '' تم کھیل رہے ہو خوشیوں میں، ہم ڈوب گئے ہیں آہوں میں ، دل توڑنے والے دیکھ کے چل، ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔'' واقعہ یہ ہے کہ لیاری والے الیکشن کے بعد ابھی بھی راہوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
ان کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں، کچھی کمیونٹی پی پی کی فطری ووٹر تھی اسے بے رحمی سے دھکیل دیا گیا، لیاری کی خاتون ووٹرز اسی دن سے ناراض تھیں جب انھوں نے دیکھا کہ بینظیر جیسی بے لوث محبت کرنے والی کوئی رہنما انھیں سینہ سے لگانے اورگینگ وار میں ناحق قتل ہونے والے بھائیوں کی تعزیت کے لیے لیاری کا رخ نہیں کر رہی ۔ لوگ کہتے ہیں یہ ظلم لیاری پرگینگ وارکارندوں کے ہاتھوں دیو مالائی طاقتوں نے کیا ، جو پر امن محنت کش تھے وہ نفرتوں کی آگ میں جھونک دیے گئے۔
لیکن گینگ وارکی ظلمت افروز شب لیاری والوں کے خواب چرانے میں ناکام رہی۔لیاری کی استقامت کل کی طرح آج بھی فتح یاب ہوئی۔ اس کے سیاسی ورکر، طلبہ و طالبات، شاعروادیب، صحافی وفنکار، سول سوسائٹی اور محنت کش عوام زندہ ہیں۔ جس کا اندازہ مجھے گزشتہ اتوار کو لیاری کے سینئر صحافی لطیف بلوچ کے قائم کردہ ریڈرز بک کلب کے ایک فکری اور نظریاتی مکالمے میں شرکت سے ہوا جو علاقے کے بزرگ دانشوروں، سیاسی کارکنوں، سماجی رہنماؤں اور طلبہ کے ساتھ طے پایا تھا ۔ لطیف بلوچ نے گینگ وار کے کڑے اور انتہائی اعصاب شکن دور میں علم کی شمع جلائے رکھی، اپنے اسکول '' گل ِنور'' کے دروازے لیاری کے بچوں اور بچیوں کے لیے کھلے رکھے۔اس مکالمہ میں خدا بخش، اختر بہادر، مجید ساجدی، ابو بکر، عبدالوہاب بلوچ ، کامریڈ محمد بخش ، محمود عالم ، ابراہیم رئیس ، غلام قادر اور دیگر نے حصہ لیا، گفتگو ہمہ گیر و ہمہ جہت تھی، بزرگ سماجی وسیاسی شخصیات نے بلوچستان کی حالت زار، لیاری کے شب و روز، سیاسی جماعتوں کی کارکردگی، عمران خان کے وعدوں اور بلوچ قوم کو درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا۔عبدالوہاب نے لیاری کے ممتاز مارکسی دانشور یوسف نسکندی پر تحریری اظہار خیال کیا، اورکراچی کی بانی مائی کولاچی کو یاد کیا۔
لطیف بلوچ کا کہنا تھا کہ book club کا قیام ان کا دیرینہ خواب تھا ۔ یہ لیاری کی نئی نسل کو علم ودانش سے سرفرازکرنے کی حقیرانہ کوشش ہے، ان کی خواہش ہے کہ جن صحافیوں، ادیبوں، سیاستدانوں کی ذاتی لائبریریوں میں اضافی کتب ہوں ، وہ اس بک کلب کو عطیہ کردیں تو اس سے ہزاروں نوجوان مستفید ہونگے۔یہ بک کلب فدا حسین شیخا روڈ سے متصل اس بمباسہ اسٹریٹ کے قریب ہے جہاں گزشتہ کئی برسوں سے فری اسٹریٹ اسکول قائم رہا ۔ محمد امین اور محمود عالم اپنے رفقا کے ساتھ اس کی نگرانی کرتے رہے۔ان ہی اسٹریٹ اسکولز کے بطن سے پروفیسر صبا دشتیاری نے جنم لیا، ن م دانش نے ان اسکولوں کی تنظیم سازی کی، مرحوم امام بخش اور درجنوںبے لوث رضاکاروں نے ان اسکولوں میں بلامعاوضہ تدریس کے فرائض انجام دیے۔ لطیف بلوچ نے ایک چراغ روشن کیا ہے جسے جہالت کی آندھیوں سے بچانا اب ہم سب کا فرض ہے۔