بات صوبوں کی اور عوامی مہم
سیاسی حلقے یہ بھی شور مچا رہے ہیں کہ وہ اٹھارہویں ترمیم میں تقسیم کا خدشہ محسوس کر رہے ہیں۔
اصغر خان کو جب بھی سیاسی منظرنامے میں دیکھا جائے گا، ان کی سچائی اور سیاسی ایمانداری کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور یہی بات ان کی سیاسی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی ۔
غالباً یہ بات 40 برس پرانی ہے جب اصغر خان نے نہ صرف جنوبی پنجاب کے صوبہ بنانے کی بات کی تھی بلکہ صوبہ سرحد کے نئے نام اور کئی صوبوں کی بات کی تھی جس میں ہزارہ ڈویژن کو بھی نیا صوبہ بنانے کا مسئلہ تھا مگر کے پی کے نئے نام سے ایک صوبہ بنا اور جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی بات تو بہت پرانی ہے۔ مگر اصغر خان گوکہ حکومت نہ بناسکے مگر فکری طور پر ان کا سیاسی ہوم ورک بہت اعلیٰ تھا۔
لیکن ان کی سیاسی ناکامی کے اسباب محض یہ تھے کہ وہ اس نعرے کو متروک قرار دیتے تھے جو عملی طور پر مکمل نہ کرسکیں ۔ مثلاً وہ یہ نعرہ کبھی نہ لگاتے کہ اگر میں اقتدار میں آگیا تو پانچ ایکڑ زمین ہر بے زمین کاشت کار کو دوں گا اور ہر شہری کو فلیٹ دوں گا جن کی اقساط 30 برس تک دینی ہوں گی یا بعد میں ان کی اولاد کو ادا کرنا ہوں گی، غرض عوام کو فریب کھانے میں مزہ آتا ہے کیونکہ ان کی خیالی حسرتوں کو تسکین ملتی ہے۔
مگر اصغر خان نے کبھی ایسا اعلان نہ کیا جو ناقابل عمل ہو۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ صحرا کو جنگل اور جھیل میں تبدیل کردوں گا۔ ایک کروڑ گھر بناؤں گا بلکہ ریٹائرڈ فوجی ہونے کے باوجود فوجی حکام کی جانب سے سیاستدانوں میں رقم تقسیم کرنے کا معاملہ عوام کو بتایا کہ کس عوامی رہنما کا کیا کردار ہے، یہ معاملات ان کی موت کے بعد لوگوں کے سامنے آئے۔ صوبوں کے معاملات محض مصنوعی نہ تھے ان پر کام کیا گیا تھا ان کے 9 صوبوں کا تذکرہ بڑی حد تک قابل عمل تھا۔
مگر پاکستان میں لیڈروں کے پاس نہ کوئی سوچ بچار کا ادارہ ہے اور نہ مرکز۔ محض نعرے بازی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے کرتب آتے ہیں۔ اب یہ خبر ہر اخبار کی زینت بن چکی ہے کہ جنوبی پنجاب ایک نیا صوبہ بنے گا۔ یہ اعلان (ن) لیگ کے اہم رہنماؤں نے گزشتہ ماہ کیا ہے جبکہ انتخابات کے موقعے پر برسر اقتدار پارٹی بھی اسی راہ پر گامزن تھی مگر تعجب اس بات پر ہے کہ (ن) لیگ تو 3 بار اقتدار میں رہی تو اس کو صوبہ یاد نہ آیا مگر محض ایک شوشہ چھوڑ کر وہ موجودہ حکومت کا ردعمل دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر حکمران جماعت کا فی الحال کوئی واضح ردعمل نمایاں نہ ہوا کیونکہ ان کو اس بات کا اندازہ ہے کہ تعمیرات اور اصول پرستی کی بنیاد پر جو توڑ پھوڑ کراچی میں لگی ہے دیر یا سویر اس کا ردعمل سامنے آسکتا ہے۔
خصوصاً کراچی کورنگی کی توڑ پھوڑ پر جہاں انتخابی نتائج پر عمران خان کی حمایت پر بہت بڑا جلوس یہاں پر نکلا تھا اور آتش بازی رات بھر ہوتی رہی، مگر آج کھلے آسمان کے نیچے سردیوں میں بغیر چھت کے سڑکوں پر لوگ خیمہ زن ہیں اور اب پاکستان کوارٹرز کے مکینوں کی تیسری پشت کے مکانوں کی بجلی کاٹنے اور گیس بند کرنے کی اخباری اطلاعات ہیں۔ یہ کیسی انصاف کی کرسی ہے جو غیر انسانی طریقہ کارکو جمہوریت کی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے ۔ ہاں یہ عمل بالکل درست ہوتا اگر کوئی راہ میں بڑی رکاوٹ آگئی ہوتی مگر جب کھلے عام مکان بن رہے تھے۔ اشتہار چل رہے تھے تو کسی نے بھی لب کشائی نہ کی۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ مرکزی اور سندھ حکومت میں کوئی رابطہ ایسا تو ہو جس میں عوام کو کوئی سکھ ملے یا متبادل رہائش کا انتظام ہوجائے۔
دنیا کی کسی بھی جمہوری حکومت میں ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ تجارتی جگہ نہیں ہے بلکہ رہائشی جگہ ہے اور سیاسی پارٹیاں لب کشائی کی جرأت سے عاری ہیں۔ خود ان عام لوگوں کو جو عمران خان کی حکومت سے یہ توقع نہ رکھتے تھے وہ ششدر ہیں کہ یہ کیا ہوا۔ اسی لیے لوگوں نے اپنی جگہیں ابھی چھوڑی نہیں ہیں اور نہ ان کے پاس اتنی رقم ہے کہ وہ کوئی متبادل جگہ حاصل کرسکیں اور نہ جمہوری قوتوں میں اتنی جرأت ہے کہ اس کو چیلنج کرسکیں۔ لہٰذا افواہوں کا بازار گرم ہے کہ کراچی شہر میں بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر کے لیے جگہیں خالی کرائی جا رہی ہیں۔
سیاسی حلقے یہ بھی شور مچا رہے ہیں کہ وہ اٹھارہویں ترمیم میں تقسیم کا خدشہ محسوس کر رہے ہیں اور ملک ون یونٹ کے طرز کی نئی شکل کی سمت جا رہا ہے۔ مرکز اور صوبوں میں تصادم کا خطرہ ہے، لیکن لیڈر حضرات عوامی خواہشات پر کان نہیں دھر رہے ہیں۔ لہٰذا عوام بھی ازخود کسی تحریک کو چلانے کی قوت نہیں رکھتے۔ لڑو اور انتظار کرو، پر دھیان دے رہے ہیں۔ صوبہ سندھ سے اٹھارہویں ترمیم کو بچانے کے لیے آوازیں بلند ہو رہی ہیں مگر کسی بھی تحریک کا امکان نہیں۔ کیونکہ پاکستان کا یہ واحد صوبہ ہے جو فکری طور پر تقسیم ہے کیونکہ صوبائی حکومت نے کوٹہ سسٹم کو فعال کرکے نفرت کے بیج بو دیے ہیں لہٰذا شہری آبادی کا پڑھا لکھا طبقہ امریکا اور کینیڈا بھاگ رہا ہے اور جو غریب ہے باہر نہیں جاسکتا وہ ملکی عدم ترقی کی وجہ سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔
لہٰذا مختلف قسم کے لسانی اور مذہبی تضادات ازخود وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں اور مرکزی وزرا ہیں کہ وہ اپنی کم مائیگی کی نمائش کی تشہیر میں مبتلا ہیں کہ وہ دال کھا رہے ہیں ایک طرف ہم ریاست مدینہ کی باتیں کرتے دوسری طرف رہائشی مکانات مسمار کرتے ہیں اور متبادل مہیا کرنے کی کوئی بات نہیں کرتے۔ جبکہ نئے پاکستان کی خوشگوار امیدیں انھی غربا اور مسکینوں نے نئی حکومت سے باندھ رکھی تھیں۔ حکمرانوں کے انھی تضادات نے دنیا میں اختلافات کا بازار گرم کر رکھا ہے اور خصوصیت سے تیسری دنیا کے غریب ممالک میں نسلی امتیاز عروج پر ہے۔ عام طور پر کوٹہ سسٹم کم آبادی والے محروم لوگوں کے لیے رکھا جاتا ہے مگر پاکستان میں 70 سال بعد بھی یہ فارمولا استعمال ہو رہا ہے جو حکمرانوں کی قوت میں اضافے کا باعث ہے۔
ایک زمانہ تھا جب سندھ میں ہاری حق دار تحریک چل رہی تھی تو حیدربخش جتوئی کے ساتھ زیادہ لیڈر جیل جانے والے اردو دان تھے اسی طرح جب سندھی زبان پر پابندی ایوب خان نے لگائی تو اس تحریک کے روح رواں اردو کے نوجوان شاعر یونس شرر تھے لہٰذا سندھی اور نان سندھی کا فرق زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گا اور نہ ہی یہ حکمرانی کی بنیاد بن سکے گا۔ کیونکہ مرکز اور صوبے دونوں ہی معاشی مسائل سے دوچار ہیں یہ کیونکر عوام کی توقعات پر پورا اتر سکیں گے۔ دنیا اور سمٹ چکی ہے۔
فاصلے مٹ رہے ہیں انسان تو کیا پرندے بھی اب آواز کو پہچاننے لگے ہیں پہلے جب پی ایم ٹی پھٹتا تھا تو کوے اور دیگر پرندے آواز سے اڑتے تھے وہ یہ سمجھتے تھے کہ بندوق چلی ہے مگر اب کوے اور کبوتر بھی پی ایم ٹی اور فائر کی آواز کو پہچانتے ہیں لہٰذا کراچی کی اکائی جلد بحال ہوگی تمام خستہ حال اور بے گھر انسان محض زبان کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے مسائل کی بنیاد پر متحد ہوجائیں گے مگر بہادر، عقلمند، محب وطن اور عوام دوست تنظیم کی رہنمائی ضروری ہے جو کراچی سے کالام تک عوامی رابطہ مہم کا آغاز کرے مگر نمایاں بڑی پارٹیاں کوئی واضح موقف کسی مسئلے پر نہیں رکھتی ہیں لہٰذا پارٹیوں سے عوام کا اعتماد اٹھتا چلا جائے گا کیونکہ آج کا انسان کم ازکم پرندوں سے زیادہ آواز کو سمجھتا ہے، اس لیے پارٹیاں کمزور تر ہوتی جائیں گی کیونکہ عوام پارٹیوں پر اعتبار کرنے سے گریزاں ہیں۔
غالباً یہ بات 40 برس پرانی ہے جب اصغر خان نے نہ صرف جنوبی پنجاب کے صوبہ بنانے کی بات کی تھی بلکہ صوبہ سرحد کے نئے نام اور کئی صوبوں کی بات کی تھی جس میں ہزارہ ڈویژن کو بھی نیا صوبہ بنانے کا مسئلہ تھا مگر کے پی کے نئے نام سے ایک صوبہ بنا اور جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی بات تو بہت پرانی ہے۔ مگر اصغر خان گوکہ حکومت نہ بناسکے مگر فکری طور پر ان کا سیاسی ہوم ورک بہت اعلیٰ تھا۔
لیکن ان کی سیاسی ناکامی کے اسباب محض یہ تھے کہ وہ اس نعرے کو متروک قرار دیتے تھے جو عملی طور پر مکمل نہ کرسکیں ۔ مثلاً وہ یہ نعرہ کبھی نہ لگاتے کہ اگر میں اقتدار میں آگیا تو پانچ ایکڑ زمین ہر بے زمین کاشت کار کو دوں گا اور ہر شہری کو فلیٹ دوں گا جن کی اقساط 30 برس تک دینی ہوں گی یا بعد میں ان کی اولاد کو ادا کرنا ہوں گی، غرض عوام کو فریب کھانے میں مزہ آتا ہے کیونکہ ان کی خیالی حسرتوں کو تسکین ملتی ہے۔
مگر اصغر خان نے کبھی ایسا اعلان نہ کیا جو ناقابل عمل ہو۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ صحرا کو جنگل اور جھیل میں تبدیل کردوں گا۔ ایک کروڑ گھر بناؤں گا بلکہ ریٹائرڈ فوجی ہونے کے باوجود فوجی حکام کی جانب سے سیاستدانوں میں رقم تقسیم کرنے کا معاملہ عوام کو بتایا کہ کس عوامی رہنما کا کیا کردار ہے، یہ معاملات ان کی موت کے بعد لوگوں کے سامنے آئے۔ صوبوں کے معاملات محض مصنوعی نہ تھے ان پر کام کیا گیا تھا ان کے 9 صوبوں کا تذکرہ بڑی حد تک قابل عمل تھا۔
مگر پاکستان میں لیڈروں کے پاس نہ کوئی سوچ بچار کا ادارہ ہے اور نہ مرکز۔ محض نعرے بازی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے کرتب آتے ہیں۔ اب یہ خبر ہر اخبار کی زینت بن چکی ہے کہ جنوبی پنجاب ایک نیا صوبہ بنے گا۔ یہ اعلان (ن) لیگ کے اہم رہنماؤں نے گزشتہ ماہ کیا ہے جبکہ انتخابات کے موقعے پر برسر اقتدار پارٹی بھی اسی راہ پر گامزن تھی مگر تعجب اس بات پر ہے کہ (ن) لیگ تو 3 بار اقتدار میں رہی تو اس کو صوبہ یاد نہ آیا مگر محض ایک شوشہ چھوڑ کر وہ موجودہ حکومت کا ردعمل دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر حکمران جماعت کا فی الحال کوئی واضح ردعمل نمایاں نہ ہوا کیونکہ ان کو اس بات کا اندازہ ہے کہ تعمیرات اور اصول پرستی کی بنیاد پر جو توڑ پھوڑ کراچی میں لگی ہے دیر یا سویر اس کا ردعمل سامنے آسکتا ہے۔
خصوصاً کراچی کورنگی کی توڑ پھوڑ پر جہاں انتخابی نتائج پر عمران خان کی حمایت پر بہت بڑا جلوس یہاں پر نکلا تھا اور آتش بازی رات بھر ہوتی رہی، مگر آج کھلے آسمان کے نیچے سردیوں میں بغیر چھت کے سڑکوں پر لوگ خیمہ زن ہیں اور اب پاکستان کوارٹرز کے مکینوں کی تیسری پشت کے مکانوں کی بجلی کاٹنے اور گیس بند کرنے کی اخباری اطلاعات ہیں۔ یہ کیسی انصاف کی کرسی ہے جو غیر انسانی طریقہ کارکو جمہوریت کی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے ۔ ہاں یہ عمل بالکل درست ہوتا اگر کوئی راہ میں بڑی رکاوٹ آگئی ہوتی مگر جب کھلے عام مکان بن رہے تھے۔ اشتہار چل رہے تھے تو کسی نے بھی لب کشائی نہ کی۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ مرکزی اور سندھ حکومت میں کوئی رابطہ ایسا تو ہو جس میں عوام کو کوئی سکھ ملے یا متبادل رہائش کا انتظام ہوجائے۔
دنیا کی کسی بھی جمہوری حکومت میں ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ تجارتی جگہ نہیں ہے بلکہ رہائشی جگہ ہے اور سیاسی پارٹیاں لب کشائی کی جرأت سے عاری ہیں۔ خود ان عام لوگوں کو جو عمران خان کی حکومت سے یہ توقع نہ رکھتے تھے وہ ششدر ہیں کہ یہ کیا ہوا۔ اسی لیے لوگوں نے اپنی جگہیں ابھی چھوڑی نہیں ہیں اور نہ ان کے پاس اتنی رقم ہے کہ وہ کوئی متبادل جگہ حاصل کرسکیں اور نہ جمہوری قوتوں میں اتنی جرأت ہے کہ اس کو چیلنج کرسکیں۔ لہٰذا افواہوں کا بازار گرم ہے کہ کراچی شہر میں بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر کے لیے جگہیں خالی کرائی جا رہی ہیں۔
سیاسی حلقے یہ بھی شور مچا رہے ہیں کہ وہ اٹھارہویں ترمیم میں تقسیم کا خدشہ محسوس کر رہے ہیں اور ملک ون یونٹ کے طرز کی نئی شکل کی سمت جا رہا ہے۔ مرکز اور صوبوں میں تصادم کا خطرہ ہے، لیکن لیڈر حضرات عوامی خواہشات پر کان نہیں دھر رہے ہیں۔ لہٰذا عوام بھی ازخود کسی تحریک کو چلانے کی قوت نہیں رکھتے۔ لڑو اور انتظار کرو، پر دھیان دے رہے ہیں۔ صوبہ سندھ سے اٹھارہویں ترمیم کو بچانے کے لیے آوازیں بلند ہو رہی ہیں مگر کسی بھی تحریک کا امکان نہیں۔ کیونکہ پاکستان کا یہ واحد صوبہ ہے جو فکری طور پر تقسیم ہے کیونکہ صوبائی حکومت نے کوٹہ سسٹم کو فعال کرکے نفرت کے بیج بو دیے ہیں لہٰذا شہری آبادی کا پڑھا لکھا طبقہ امریکا اور کینیڈا بھاگ رہا ہے اور جو غریب ہے باہر نہیں جاسکتا وہ ملکی عدم ترقی کی وجہ سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔
لہٰذا مختلف قسم کے لسانی اور مذہبی تضادات ازخود وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں اور مرکزی وزرا ہیں کہ وہ اپنی کم مائیگی کی نمائش کی تشہیر میں مبتلا ہیں کہ وہ دال کھا رہے ہیں ایک طرف ہم ریاست مدینہ کی باتیں کرتے دوسری طرف رہائشی مکانات مسمار کرتے ہیں اور متبادل مہیا کرنے کی کوئی بات نہیں کرتے۔ جبکہ نئے پاکستان کی خوشگوار امیدیں انھی غربا اور مسکینوں نے نئی حکومت سے باندھ رکھی تھیں۔ حکمرانوں کے انھی تضادات نے دنیا میں اختلافات کا بازار گرم کر رکھا ہے اور خصوصیت سے تیسری دنیا کے غریب ممالک میں نسلی امتیاز عروج پر ہے۔ عام طور پر کوٹہ سسٹم کم آبادی والے محروم لوگوں کے لیے رکھا جاتا ہے مگر پاکستان میں 70 سال بعد بھی یہ فارمولا استعمال ہو رہا ہے جو حکمرانوں کی قوت میں اضافے کا باعث ہے۔
ایک زمانہ تھا جب سندھ میں ہاری حق دار تحریک چل رہی تھی تو حیدربخش جتوئی کے ساتھ زیادہ لیڈر جیل جانے والے اردو دان تھے اسی طرح جب سندھی زبان پر پابندی ایوب خان نے لگائی تو اس تحریک کے روح رواں اردو کے نوجوان شاعر یونس شرر تھے لہٰذا سندھی اور نان سندھی کا فرق زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گا اور نہ ہی یہ حکمرانی کی بنیاد بن سکے گا۔ کیونکہ مرکز اور صوبے دونوں ہی معاشی مسائل سے دوچار ہیں یہ کیونکر عوام کی توقعات پر پورا اتر سکیں گے۔ دنیا اور سمٹ چکی ہے۔
فاصلے مٹ رہے ہیں انسان تو کیا پرندے بھی اب آواز کو پہچاننے لگے ہیں پہلے جب پی ایم ٹی پھٹتا تھا تو کوے اور دیگر پرندے آواز سے اڑتے تھے وہ یہ سمجھتے تھے کہ بندوق چلی ہے مگر اب کوے اور کبوتر بھی پی ایم ٹی اور فائر کی آواز کو پہچانتے ہیں لہٰذا کراچی کی اکائی جلد بحال ہوگی تمام خستہ حال اور بے گھر انسان محض زبان کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے مسائل کی بنیاد پر متحد ہوجائیں گے مگر بہادر، عقلمند، محب وطن اور عوام دوست تنظیم کی رہنمائی ضروری ہے جو کراچی سے کالام تک عوامی رابطہ مہم کا آغاز کرے مگر نمایاں بڑی پارٹیاں کوئی واضح موقف کسی مسئلے پر نہیں رکھتی ہیں لہٰذا پارٹیوں سے عوام کا اعتماد اٹھتا چلا جائے گا کیونکہ آج کا انسان کم ازکم پرندوں سے زیادہ آواز کو سمجھتا ہے، اس لیے پارٹیاں کمزور تر ہوتی جائیں گی کیونکہ عوام پارٹیوں پر اعتبار کرنے سے گریزاں ہیں۔