مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند

ہمیں کھانے پینے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے غرض کروٹیں بدلتے وقت بھی اسلامی تعلیمات کو راہ نما بنانا ہوگا۔

ہمیں کھانے پینے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے غرض کروٹیں بدلتے وقت بھی اسلامی تعلیمات کو راہ نما بنانا ہوگا۔ فوٹو : فائل

تقویمِِ روزگار پر نگاہ عمیق ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کرّاتِ ارضی اور سیّارگانِ فلک اور شش جہات میں موجود اشیائے عالم امکان ہمیں ضوابط کے اسیر نظر آتے ہیں۔

دن کے اجالے اور شب کی تاریکیاں بھی کسی بے پایاں طاقت کے حکم کی منتظر معلوم ہوتی ہیں۔ تغیر و تبدل کا یہ لامتناہی سلسلہ ازخود رواں دواں نہیں ہے۔ عالم بالا کے مکین اور تحت الثریٰ میں موجود حشرات بھی ازخود یکسر مُو جنبش نہیں کرسکتے۔ ایک گھر کے نظام کو چلانے کے لیے ایک انسان باقاعدہ ضابطۂ اخلاق وضع کرتا ہے۔

وہ اپنی بیوی اور بچوں کو اُس ضابطۂ حیات و اخلاق کا پابند بنا کر رکھتا ہے۔ گھر کے اس نظام میں خُوب صورتی اور تزئین کا باعث یہی بات ہوتی ہے کہ وہ اُس گھر کے سر براہ کی تمکنت اور دبدبہ ہے جس کی وجہ سے افراد خانہ متابعت سربراہ کا عہد کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ تو یہ ایک فطری سی بات ہے کہ جب ایک چھوٹے سے گھر کا نظام بھی سربراہ کی مرضی اور حکم کے بغیر نہیں چل سکتا تو بھلا اتنی بڑی کائنات جس میں سات آسمان، سات زمینیں اور درمیان میں لامحدود وسعتِ خلا، آفتاب و ماہ تاب کی ضُوفشانیاں، نجوم و کہکشاں کی تابانیاں، بہار و خزاں کا تغیر و تبدل یہ سب کچھ خود بہ خود تو کسی سانچے میں نہیں ڈھلا۔ غیر مرئی طور پر محسوس ہوتا ہے کہ پسِ پردہ کوئی طاقت ور ترین ہستی دنیا و مافیہا کا سلسلہ اپنی مرضی سے چلا رہی ہے۔

زبانِ حال کے پاس اس حقیقت کا اظہار کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ ذاتِ بے ہمتا صرف اور صرف خدائے وحدہ ُ لا شریک ہے۔ وہ رنج و راحت، مسرت و انبسات، فرحت و شادمانی اور مصائب و آلام کے اوقات اپنی مشیت سے طے کرتا ہے۔

تھا حاصلِ نظارہ فقط ایک تحّیر

جلوے کو کہے کون کہ اب گُم ہے نظر بھی

جو ذہن درج بالا حقائق کو صدق دل سے تسلیم کرتا ہے اور یہ مانتا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر موجود ہے اور یہ تحیر آفرین نظام کائنات اُسی کے حکم سے چل رہا ہے تو پھر اس حقیقت کے سامنے بہ ہر صورت سر تسلیم خم کرنا پڑے گا کہ ہر شعبہ ہائے حیات میں اُس کے احکامات اولیٰ و بالا ہیں اور اُن کی پابندی ہر حال میں فرض ہے۔

جدید روشنی سے اپنے قلوب و اذہان کو ''منور'' کرنے والے کچھ مادہ پرست بڑی شان بے نیازی سے گریز پائی اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم مسلمان تو کہلوانا چاہتے ہیں لیکن خالق و مالک کائنات کی غلامی کا قلاوہ زیبِ گُلو کرنے کے لیے تیار نہیں، ہم سطحی طور پر اسلام کو ایک مذہبِ دین و دنیا تو مانتے ہیں لیکن قیام صلوٰۃ کے لیے گرمیوں میں حدتِ آفتاب اور سردیوں میں یخ بستہ فضاؤں کی شدت کو برداشت نہیں کرسکتے، ہم قرآن کو زبانی طور پر ضابطۂ حیات تو مان لیتے ہیں لیکن عملاً اس میں بیان کردہ اوامر و نہی کے لوازم کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہم قربانی کو محض ایک لذتِ کام و دہن کے اہتمام کی حد تک تو مانتے ہیں لیکن فلسفۂ قربانی کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم جہاد کی اہمیت کے قائل تو ہیں لیکن اسے آشفتگانِ محبت کی زندگیوں کا حصہ سمجھتے ہیں، ہم حضورؐ کے اس فرمانِِ ذی شان کو اس حد تک ماننے کے لیے تیار ہیں کہ علم دین ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے لیکن ہم اسے دینی گھرانوں کے بچوں کا ترکہ خیال کرتے ہیں۔


ڈاکٹر اقبال نے کتنی خوب صورت بات کہی تھی

چومی گویم مسلمانم بلرزم

کہ دانم مشکلاتِ لا الہ را

(ترجمہ : میں جب خود کو مسلمان کہتا ہوں تو لرز جاتا ہوں کیوں کہ میں لا الہ پڑھنے کی مشکلات کو جانتا ہوں)

اس لیے ایک مسلمان اور اﷲ کا بندہ ہوتے ہوئے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں کوئی باک محسوس نہیں کرنا چاہیے کہ اگر ہم مسلمان ہیں تو پانچ وقت کی نماز اس کی طے شدہ پابندیوں کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو صاحب استطاعت و صاحب ثروت ہوتے ہوئے حج کی ادائی ضروری ہے تب ہی انسان حضورؐ کے اس فرمان کا مستحق ہوتا ہے کہ حج کرنے سے انسان گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے جنم لیتے وقت۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو موسم کی حدت و شدت سے بے نیاز روزہ رکھنا ہوگا، الا یہ کہ انسان شدید بیمار ہو اور اُس کی علالت کے بڑھ جانے کا خطرہ ہو۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو اسلامی مملکت پر دشمن کے حملے کی صورت میں اپنی توپ و تفنگ اور شمشیر ہائے براں کو بے نیام کرتے ہوئے سرحدوں پر نکلنا ہوگا اور اسے اعدائے دین کے حملوں سے محفوظ بنانا ہوگا۔

اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں تعیشاتِ زمن سے خود حظ اٹھاتے وقت بے کس و نادار ہمسایوں کا ضرور خیال رکھنا ہوگا۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں نشیب فرازِ حیات میں فقط گُل ہائے رنگا رنگ کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرنا پڑے گا، بل کہ خارِ مغیلاں کے وجود کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں اپنے بچوں سے دیوانہ وار محبت کرتے ہوئے طفلان ِ یتامیٰ و مساکین کے سروں پر بھی دست شفقت رکھنا ہوگا۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں اپنی بچیوں کو گھروں سے رخصت کرتے وقت ردائے حریر و پرنیاں سے ڈھانپتے ہوئے بے اماں بچیوں کے برہنہ سروں کا خیال رکھنا ہوگا۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں عروس آزادی سے ہم کنار لوگوں سے مسرتوں اور تحائف کا تبادلہ کرتے وقت اسیرانِ قفس کی بے بسی کا بھی ادراک کرنا ہوگا۔

اگر ہم مسلمان ہیں تو سردیوں میں لباس سمور سے فیض یاب ہوتے وقت فٹ پاتھوں پر بلکنے والی مخلوق خدا کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں اقدار احترام آدمیت کا بہ ہر صورت تعین کرنا ہوگا۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو قرآنی تعلیمات کو لازمۂ حیات تصور کرنا ہوگا۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں بڑوں کی حرمت و توقیر اور چھوٹوں سے مروت و شفقت کو شعار بنانا ہوگا۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں کھانے پینے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے غرض کروٹیں بدلتے وقت بھی اسلامی تعلیمات کو راہ نما بنانا ہوگا۔

تقدیر کے پابند جمادات و نباتات

مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
Load Next Story