تعلیم کے ذریعے تبدیلی

پورامعاشرہ تعلیم کے صرف ایک مقصد ’معاش‘ کےلیے کوشاں ہے اور مہنگے ترین اداروں سے معاشی حیوان معاشرے میں بھیجے جارہے ہیں

تعلیم ایک بہت بڑا تغیر پیدا کرنے والی حقیقت ہے۔ اس حقیقت کے وقوع پذیر ہونے کےلیے علم کی روایت سے رشتہ جوڑنا ضروری ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

تعلیم کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی کے عَلَم بردار معروف ادارے، ایجوکیشنل ریسرچ انسٹیٹیوٹ (ERI) کے تحت گزشتہ دنوں اساتذہ کےلیے ایک فکرانگیز تربیتی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ یہ تین روزہ کانفرنس دو حصوں پر مشتمل تھی: پہلے دن ''پری کانفرنس'' میں سیمینار کا اہتمام تھا جس میں دانش وروں اور ماہرینِ تعلیم نے اپنی معلومات و مشاہدات پیش کیے۔ بقیہ دو دن ''پوسٹ کانفرنس'' میں اساتذہ کےلیے (علیحدہ کمروں میں) بہت سے مختصر تربیتی کورسز کا اہتمام تھا۔

ایجوکیشنل ریسرچ انسٹیٹیوٹ رُبع صدی قبل (1995 میں) محترمہ صفوریٰ نعیم اور ان کے ساتھی ماہرینِ تعلیم کی فکر اور سوچ بچار کے نتیجے میں وجود میں آنے والا تحقیقی ادارہ ہے۔ یہ ملک کا واحد تعلیمی تحقیقی ادارہ ہے جس نے تعلیم کے ساتھ تربیت کے عمل کو بھی معاشرے میں متعارف کروایا۔

ان کا مشن ہے: ''انسانی فکر کے تمام زاویوں کو اسلامی بنیادوں پر نئے سرے سے استوار کرنے کےلیے تعلیمی میدان میں سرگرم افراد کو بصیرت فراہم کرنا۔''

اس مشن کے پیشِ نظر یہ بات بھی ان ہی کے ذریعے متعارف ہوئی کہ تعلیم محض تدریسی مہارتوں (Teaching Skills) کا نام نہیں بلکہ یہ انسانیت سازی کا گراں قدر کام ہے جس کا نقطۂ آغاز خود ٹیچر کی اپنی ذات ہے۔ یہ انبیاء کا منصب ہے اور اساتذہ اس کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔ خلیفۃ اللّٰہ فی الارض کی بھاری ذمہ داری کی ادائیگی بھی تدریس کے عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مینیجنگ ڈائریکٹر ای آر آئی، نسیم صدیقی نے خیر مقدمی خطاب میں کانفرنس کا تعارف پیش کیا۔ ان کے مطابق: ہمارے نبیﷺ اُمی تھے، آپﷺ کو کتاب دی گئی۔ اسی کے ذریعے تربیت ملی۔ اسی تربیت کے بل بوتے پر آپ نے خود کو دنیا کے سامنے معلم کی حیثیت سے پیش کیا اور صحابہ کرامؓ کی تربیت کی۔ نبی کریمﷺ کے وارث ہونے کے ناتے آپ اس منصب پر فائز ہیں۔ اس کا حق ادا کرنے کےلیے ضروری ہے کہ کتاب اور نبیﷺ کے طریقے سے جڑیں رہیں۔



ای آر آئی کی روحِ رواں ایگزیکٹِو ڈائریکٹر، محترمہ صفوریٰ نعیم نے اپنے کلیدی خطاب میں معاشرے میں درپیش تعلیمی مسائل کا تجزیہ اور ان کا ممکنہ حل پیش کیا۔ ان کے مطابق: ہمارے معاشرے میں تعلیم کے انتخاب کو ایک کنفیوژن بنا دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلاف کا نمونہ ہمارے پاس موجود ہے۔ مولانا تقی عثمانیؒ کے تحریری سرمائے میں تعلیم پر بہت سا تحقیقی کام موجود ہے۔ آپ نے اس عظیم کام کو سرکاری و عوامی سطح پر پذیرائی نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کیا اور اس تعلیمی ماڈل کو ای آر آئی کے تحت روشناس کرانے کا عزم بھی کیا۔ آپ کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے آغازِ انسانیت سے ہی آدم علیہ السلام کو خلیفۃ اللہ فی الارض کا شرف دے کر علم سے نوازا۔ اس کے سڑی ہوئی مٹی کے جسم میں اپنی روح پھونکی۔

اس پیکرِخاکی میں اک شے ہے، سو وہ تیری
میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی

یعنی انسان کا پیکرِ خاکی زمین سے ہے تو زمین ہی کی جانب متوجہ رہے گا، لیکن اس کے اندر پھونکی ہوئی روح پرواز کےلیے ہمیشہ مچلتی رہے گی۔ زمین میں تگ و دو کرنا جسمانی ضروریات کا حصول ہے۔ تعلیم دراصل یہ ہے کہ جسمانی ضرورتوں کے ساتھ روح کی حفاظت اور نشوونما کا انتظام بھی اسی جسم میں ہو۔ اصل علم ﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ وہ آپ کو اپنی ذات کی چھوٹی سی دنیا سے نکال کر پوری انسانیت کی فلاح کےلیے تیار کرتا ہے۔ انیسویں صدی میں لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم کی بنیاد پر مروجہ تعلیمی نظام ہمارے مِلی تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ ای آر آئی کے تعلیمی ماڈل کی بنیاد امام غزالیؒ کے تعلیمی ماڈل پر ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ علوم کی دینی اور دنیاوی تفریق ختم کرکے ان کی اسلامی تقسیم کو رواج دیا جائے۔ اس طرح علوم کو چھ اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: علومِ فرض عین، علومِ فرضِ کفایہ، مستحِب علوم، مباح علوم، مکروہ علوم، حرام علوم۔



تدریس کے نقطہ نظر سے پہلے دو علوم انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے علوم فرض عین وہ علوم ہیں جو عقائد، فقہ، اخلاقیات اور اصول و ضوابط کا وہ مجموعہ ہیں جو ہر مسلمان کے علم میں ہونا ضروری ہے۔ دوسری طرف علوم فرض کفایہ وہ علوم ہیں جو کسی قوم اور معاشرے کی ضروریات کےلیے ناگزیر ہیں۔ میری تجویز ہے کہ اگر ہم ایک انقلابی قدم اٹھانا چاہیں تو تمام اسکولوں کو ہائر سیکنڈری کی سطح تک کردیں جہاں تمام طلبا علم فرض عین کے حصول کے ساتھ ساتھ علم فرض کفایہ کے مختلف شعبہ جات کا بنیادی علم حاصل کریں۔ اس کے بعد طلبا اس قابل ہوں کہ اپنی مرضی کے مطابق تخصص (Specialization) کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لیں یا ووکیشنل اداروں سے کوئی ہنر سیکھ کر اپنے آپ کو معاشرے کےلیے کارآمد بنائیں۔ یونیورسٹی میں علومِ دینیہ اور فقہ کے شعبہ جات بھی اسی طرح ہوں جس طرح عمرانیات، نفسیات، طب، ریاضی اور سائنسی علوم کے شعبہ جات ہیں۔ ماضی میں ہمارے پاس ایسی جامعات کی مثالیں موجود ہیں۔ تاریخ میں مسلمانوں کی زیادہ تر جامعات کی خصوصیت یہی رہی کہ علماء اور پروفیشنلز ایک ہی جامعہ سے پڑھ کر نکلتے تھے۔

انہوں نے دعائیہ خواہش کا اظہار کیا کہ ہمارے ہاں وہ وقت دوبارہ جلد آئے کہ علماء اور عصری علوم کے ماہرین و پیشہ ور ایک ہی جامعہ میں پڑھیں، ایک دوسرے سے مستفید ہوں اور معاشرے میں دین و دنیا کی تفریق ختم ہو۔ لیکن اس کےلیے عوام میں شعور اور طلب پیدا کرنا اور حکومتی سطح پر بھرپور کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔


معروف دانش ور شاہ نواز فاروقی کا خطاب ہو اور مغرب کی خبر نہ لی جائے، یہ ممکن نہیں۔ سو ان کی فکر انگیز گفتگو دنیا کے ''مغرب مرکز'' (ویسٹ سینٹرک) ہوجانے سے پیدا شدہ مسائل کے تجزیئے پر مرکوز رہی۔ آپ کے مطابق: قرآن میں دنیا کے سب سے بڑے معلمﷺ کی بعثت کا مقصد کتاب و حکمت کی تعلیم دینا اور نفوس کا تزکیہ کرنا بتایا گیا۔ اس لحاظ سے ہماری تہذیب میں تعلیم کے ہمیشہ چار مقاصد رہے:

1۔ نظامِ تعلیم کی پہلی ترجیح، عارف باللٰہ پیدا کریں۔ (یعنی وہ اپنے خالق و مالک کو پہچاننے اور اس کی مرضی و منشاء سے محبت کرنے والے ہوں۔)

2۔ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل انسان پیدا کریں۔ (یعنی جو علم بھی حاصل کریں اس میں مسلسل اضافے کےلیے کوشاں رہیں۔)

3۔ اخلاق و معاملات کے مثالی انسان پیدا کریں۔

4۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد رزقِ حلال کما سکیں۔

آج ہمارے تعلیمی اداروں، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں کہیں اس کا تذکرہ نہیں۔ پوری امت یہ فراموش کرچکی ہے۔ آپ نے اسلام کے تلوار کے ذریعے پھیلنے کے مغربی پروپیگنڈے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے ''علم'' کا کارنامہ قرار دیا۔ محمد بن قاسم کے 712 میں سندھ فتح کرتے وقت برِصغیر میں مسلمانوں کی تعداد چند سو تھی۔ آج اس خِطے میں ساٹھ کروڑ مسلمان ہیں۔ ہمارا علمی پس منظر یہ ہے کہ ہماری کتاب قرآن میں تقریباً آٹھ سو مقامات پر علم کے حصول کی جانب متوجہ کیا گیا ہے۔ ایمان کے بعد اہم ترین درجہ علم کو قرار دیا گیا۔ بحیثیت امت ہم اپنی ان روایات سے ہٹ چکے ہیں۔ کسی تخصص کے بغیر، دینی و دنیاوی درس گاہیں بلکہ پورا معاشرہ تعلیم کے صرف ایک اور آخری مقصد کےلیے کوشاں ہے۔ مہنگے ترین اداروں سے معاشی حیوان معاشرے میں بھیجے جارہے ہیں۔ تعلیم ایک بہت بڑا تغیر پیدا کرنے والی حقیقت ہے۔ اس حقیقت کے وقوع پذیر ہونے کےلیے علم کی روایت سے رشتہ جوڑنا ضروری ہے۔

کانفرنس کے دوسرے حصے (پوسٹ کانفرنس) میں اسکول کی تعلیم کی مختلف جہتوں اور مضامین کی جدید اسلامی اور دلچسپ طریقوں سے تدریس کےلیے تربیتی کورسز کا اہتمام تھا۔ ان کا نمایاں پہلو بچوں کو دلچسپ سرگرمیوں کے ذریعے تعلیم کی طرف متوجہ کرنا اور معاشرے کےلیے اچھا انسان تیار کرنا تھا۔



ای آر آئی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس ادارے کے ساتھ لیب اسکولز بھی ابتدا ہی سے موجود ہیں۔ تعلیمی تحقیقات کو پہلے ان اسکولز میں آزمایا جاتا ہے، اس کے بعد نصابی کتب (ٹیکسٹ بکس) کی صورت میں مارکیٹ میں متعارف کروایا جاتا ہے۔ یہ لیب اسکولز شہر کے بہترین لیڈنگ اسکولز سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں اِنسپریشن اسکول، عثمان پبلک اسکول سسٹم اور الایمان اسکول شامل ہیں۔

تین روزہ کانفرنس کے اختتام پر شرکاء اور میزبانوں کے کِھلتے چہرے معاشرے میں مثبت تبدیلی کےلیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کےلیے پرعزم نظر آئے۔ اس کا اظہار ان کے اختتامی تبصروں سے بخوبی نظر ایا۔ قائدانہ صلاحیتوں کی حامل نسل کی تیاری کے ذریعے معاشرے کے بدصورتی کو خوب صورتی میں بدلنے کےلیے اللّٰہ تعالیٰ اس گروہ کو استقامت سے نوازیں، آمین۔ اپنی کامیاب کوششوں اور عزائم کی بِناء پر ای آر آئی معاشرے کی جانب سے قدردانی کا بجا طور پر مستحق ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story