مرحلے طے کرتے بلدیاتی انتخابات
سندھ حکومت کا موقف تھا کہ آؤٹ آف ٹرن پروموشن پر عملدرآمد کے بعد حکومت کے انتظامی ڈھانچے میں خلا پیدا ہوگیا ہے
اکتوبر 2012 میں سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ بلدیاتی انتخابات نہ کرانا آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے لہٰذا عدالت حکومت کو فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا حکم دے۔ عدالت عظمیٰ نے مفاد عامہ کے اس معاملے پراپنے آئینی کردار اور ذمے داری سے انحراف کرنے پر چاروں صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمشنر سے جواب طلب کیا تھا۔ ان تمام نے عدالت سے بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے طویل وقت کی مہلت مانگی تھی جس کو قبول نہیں کیا گیا۔ پنجاب حکومت کا کہنا تھا وہ انتخابات کرانے میں پرعزم ہے، اس سلسلے میں اس نے قانونی مسودہ بھی تیار کرلیا ہے۔ اسمبلی سے منظوری اور انتخابی فہرستوں وغیرہ کی تیاری کے لیے 6 ماہ کی مدت دی جائے۔
جب کہ کے پی کے نے ستمبر 2013 تک بلدیاتی انتخابات کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی، بلوچستان نے اس سلسلے میں مشاورت کے لیے وقت مانگا تھا۔ سندھ حکومت کا موقف تھا کہ آؤٹ آف ٹرن پروموشن پر عملدرآمد کے بعد حکومت کے انتظامی ڈھانچے میں خلا پیدا ہوگیا ہے جس کو پر کرنے کے لیے اہل افسران کی تعیناتی کے لیے وقت درکار ہے، لہٰذا سال کے آخر تک مہلت دی جائے، البتہ سیکریٹری دفاع نے عدالت عظمیٰ کو 15 ستمبر تک تمام کنٹونمنٹ بورڈ میں انتخابات کی یقین دہانی کرادی تھی۔ عدالت نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ 2008 کے بعد قائم ہونے والی قومی و صوبائی حکومتوں نے امن وامان کی صورت حال کو جواز بناکر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو موخر کیا ہوا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ پنجاب اور سندھ میں جو موجودہ حکومتیں ہیں وہ پانچ سال سے حکومت کر رہی ہیں تو پھر حلقہ بندیوں اور فہرست سازی کا کام کیوں نہیں کیا گیا؟ عدالت عظمیٰ نے صوبائی اور وفاقی حکومتوں بلدیاتی انتخابات کے لیے قانون اور قواعد بنانے کا عمل 15 اگست تک مکمل کرنے، اسمبلیوں کا اجلاس بلاکر قانون سازی کرنے ورنہ آرڈیننس کے ذریعے جلدازجلد انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کا حکم دیا ہے اور 15 ستمبر یا اس کی نزدیکی تاریخوں میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا حکم دیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 32 میں ریاست کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ مقامی حکومتیں اداروں میں منتخب علاقائی نمایندوں بالخصوص کسانوں، مزدوروں اور خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ 2002 میں بھی ایل ایف او کے تحت ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ہر صوبے کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ قانون سازی کے ذریعے مقامی حکومتی نظام قائم کرکے منتخب نمایندوں کو سیاسی، انتظامی، مالی اختیارات اور ذمے داریاں منتقل کرے۔
مقامی حکومتوں کے نظام کا مقصد اختیارات کی مرکزیت ختم کرکے امور مملکت میں عوام کی براہ راست شرکت اور ان اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی یقینی بنانے اور گڈگورننس کا قیام بتایا جاتا ہے۔ ایوان بالا اور ایوان زیریں کے ساتھ یہ نظام ایک سہ جہتی حیثیت رکھتا ہے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ آمر حکمراں اس نظام کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں، وہ بلدیاتی ارکان کو اپنے سیاسی عزائم کے حصول کے لیے اور اپنی آمریت پر ملک و عوام دوستی کا لیبل لگاکر تمام ملک کو اپنا حلقہ انتخاب بنانے کی بارآور کوشش بھی کرتے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے بیسک ڈیموکریسی سسٹم کے ذریعے محترمہ فاطمہ جناح جیسی مضبوط ہستی کے خلاف اپنے سیاسی عزائم حاصل کرنے کا مظاہرہ کیا۔ پھر جنرل ضیا الحق بھی بلدیاتی نظام کے زور پر حکومت کرتے رہے اور قومی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے پر قادر رہے۔
پھر جنرل پرویز مشرف نے بھی اس نظام کے ذریعے طویل عرصے تک کامیابی سے اپنا تسلط برقرار رکھا۔ ایوب خان نے سب سے پہلے سول سروس کے بنیادی ڈھانچے اور ترکیبی عمل کو شدید نقصانات پہنچائے۔ افسران کو برطرف کیا، ذہین اور خوددار نوجوانوں میں اس طرف آنے کا رجحان کم ہوگیا۔ بی ڈی سسٹم نے بھی بھرکس نکال کر رکھ دیا۔ جنرل ضیا الحق کا مقامی حکومتوں کا نظام اس لحاظ سے بہتر رہا کہ یہ نظام سول ملازمین کے تحت کام کر رہا تھا جس کی نگرانی وہ خود کرتے تھے جس کی وجہ سے ادارے کا معیار بہتر رہا۔ جنرل پرویز مشرف کا مقامی حکومتوں کا نظام اور نچلی سطح تک اقتدار کی منتقلی کے پروگرام نے سول سروس کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں۔ سول سروس جو ملک کی سیاسی، سماجی و معاشی نظام میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے اس نظام میں سول ملازمین مقامی حکومتوں کے منتخب نمایندوں، ناظمین جو سول ملازمین کی نسبت تربیت اور اہلیت و استعداد کار میں کم تر ہوتے ہیں، کے سامنے ملکی معاملات میں سول ملازمین کو جواب دہ ہوتا ہے۔ 2001 کے انتقال اختیارات کے منصوبے نے مختلف تبدیلیاں لاکر اس نظام کو بہت نقصان پہنچایا۔
اس نظام کے تحت ضلعی سطح پر منتخب کیے گئے ناظم کے ماتحت غیر تربیت یافتہ اور ناتجربہ کار افسران رکھے گئے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس نظام نے معاشرے کو اہل، استعداد کار رکھنے والے تربیت یافتہ افراد سے محروم کردیا ہے۔پنجاب حکومت نے جو مسودہ قانون تیار کیا ہے جسے اسمبلی نے توثیق کرنی ہے، اس کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اس میں ضلعی حکومتوں کا نظام ختم کرکے شہری اور دیہی الگ الگ نظام لایا جارہا ہے جس میں ناظمین کے بجائے میئر و ڈپٹی میئر اور چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب کیے جائیں گے جو کسی سیاسی جماعت سے وابستگی رکھ سکیں گے لیکن کونسلرز غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہوں گے۔ سیاسی حلقے اسے غیر جماعتی نظام واپس لانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔اس سے قبل پی پی پی اور اس کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے مابین ضلعی حکومتوں کا نظام ختم کرکے پرانے نظام کی بحالی پر بڑی کشیدگی کی فضا پیدا ہوگئی تھی جو ابھی جاری ہے۔
ملک بھر میں یکساں نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے کے عدالت عظمیٰ کے حکم کے تحت الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کے لیے یکساں قانون سازی کے لیے چاروں صوبوں کو خط تحریر کردیے ہیں۔ اے این پی نے تو ان انتخابات کی مخالفت کرتے ہوئے صاف کہہ دیا ہے کہ ان کے نتیجے میں دہشت گرد اور خودکش ہی منتخب ہوکر آئیں گے۔ عدالت عظمیٰ اور عام لوگوں کا بھی یہی خیال ہے کہ بلدیاتی انتخابات ملکی مفاد میں ہیں جو امن وامان کی صورت حال کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے بلدیاتی انتخابات کے لیے کی جانے والی قانون سازی سے ابتدائی طور پر اس کے خدوخال نمایاں ہوجائیں گے اور انتخابات کے بعد ان کے ثمرات و مضمرات دونوں سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ اس میں جمہوری حکومتوں کا اخلاص یا عزائم بھی کھل کر سامنے آجائیں گے جو سارے فنڈز اور اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی خاطر اس نظام کو ایک متوازی حکومت یا نظام سمجھ کر اس سے گریزاں رہتے ہیں۔
جب کہ کے پی کے نے ستمبر 2013 تک بلدیاتی انتخابات کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی، بلوچستان نے اس سلسلے میں مشاورت کے لیے وقت مانگا تھا۔ سندھ حکومت کا موقف تھا کہ آؤٹ آف ٹرن پروموشن پر عملدرآمد کے بعد حکومت کے انتظامی ڈھانچے میں خلا پیدا ہوگیا ہے جس کو پر کرنے کے لیے اہل افسران کی تعیناتی کے لیے وقت درکار ہے، لہٰذا سال کے آخر تک مہلت دی جائے، البتہ سیکریٹری دفاع نے عدالت عظمیٰ کو 15 ستمبر تک تمام کنٹونمنٹ بورڈ میں انتخابات کی یقین دہانی کرادی تھی۔ عدالت نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ 2008 کے بعد قائم ہونے والی قومی و صوبائی حکومتوں نے امن وامان کی صورت حال کو جواز بناکر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو موخر کیا ہوا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ پنجاب اور سندھ میں جو موجودہ حکومتیں ہیں وہ پانچ سال سے حکومت کر رہی ہیں تو پھر حلقہ بندیوں اور فہرست سازی کا کام کیوں نہیں کیا گیا؟ عدالت عظمیٰ نے صوبائی اور وفاقی حکومتوں بلدیاتی انتخابات کے لیے قانون اور قواعد بنانے کا عمل 15 اگست تک مکمل کرنے، اسمبلیوں کا اجلاس بلاکر قانون سازی کرنے ورنہ آرڈیننس کے ذریعے جلدازجلد انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کا حکم دیا ہے اور 15 ستمبر یا اس کی نزدیکی تاریخوں میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا حکم دیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 32 میں ریاست کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ مقامی حکومتیں اداروں میں منتخب علاقائی نمایندوں بالخصوص کسانوں، مزدوروں اور خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ 2002 میں بھی ایل ایف او کے تحت ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ہر صوبے کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ قانون سازی کے ذریعے مقامی حکومتی نظام قائم کرکے منتخب نمایندوں کو سیاسی، انتظامی، مالی اختیارات اور ذمے داریاں منتقل کرے۔
مقامی حکومتوں کے نظام کا مقصد اختیارات کی مرکزیت ختم کرکے امور مملکت میں عوام کی براہ راست شرکت اور ان اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی یقینی بنانے اور گڈگورننس کا قیام بتایا جاتا ہے۔ ایوان بالا اور ایوان زیریں کے ساتھ یہ نظام ایک سہ جہتی حیثیت رکھتا ہے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ آمر حکمراں اس نظام کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں، وہ بلدیاتی ارکان کو اپنے سیاسی عزائم کے حصول کے لیے اور اپنی آمریت پر ملک و عوام دوستی کا لیبل لگاکر تمام ملک کو اپنا حلقہ انتخاب بنانے کی بارآور کوشش بھی کرتے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے بیسک ڈیموکریسی سسٹم کے ذریعے محترمہ فاطمہ جناح جیسی مضبوط ہستی کے خلاف اپنے سیاسی عزائم حاصل کرنے کا مظاہرہ کیا۔ پھر جنرل ضیا الحق بھی بلدیاتی نظام کے زور پر حکومت کرتے رہے اور قومی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے پر قادر رہے۔
پھر جنرل پرویز مشرف نے بھی اس نظام کے ذریعے طویل عرصے تک کامیابی سے اپنا تسلط برقرار رکھا۔ ایوب خان نے سب سے پہلے سول سروس کے بنیادی ڈھانچے اور ترکیبی عمل کو شدید نقصانات پہنچائے۔ افسران کو برطرف کیا، ذہین اور خوددار نوجوانوں میں اس طرف آنے کا رجحان کم ہوگیا۔ بی ڈی سسٹم نے بھی بھرکس نکال کر رکھ دیا۔ جنرل ضیا الحق کا مقامی حکومتوں کا نظام اس لحاظ سے بہتر رہا کہ یہ نظام سول ملازمین کے تحت کام کر رہا تھا جس کی نگرانی وہ خود کرتے تھے جس کی وجہ سے ادارے کا معیار بہتر رہا۔ جنرل پرویز مشرف کا مقامی حکومتوں کا نظام اور نچلی سطح تک اقتدار کی منتقلی کے پروگرام نے سول سروس کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں۔ سول سروس جو ملک کی سیاسی، سماجی و معاشی نظام میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے اس نظام میں سول ملازمین مقامی حکومتوں کے منتخب نمایندوں، ناظمین جو سول ملازمین کی نسبت تربیت اور اہلیت و استعداد کار میں کم تر ہوتے ہیں، کے سامنے ملکی معاملات میں سول ملازمین کو جواب دہ ہوتا ہے۔ 2001 کے انتقال اختیارات کے منصوبے نے مختلف تبدیلیاں لاکر اس نظام کو بہت نقصان پہنچایا۔
اس نظام کے تحت ضلعی سطح پر منتخب کیے گئے ناظم کے ماتحت غیر تربیت یافتہ اور ناتجربہ کار افسران رکھے گئے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس نظام نے معاشرے کو اہل، استعداد کار رکھنے والے تربیت یافتہ افراد سے محروم کردیا ہے۔پنجاب حکومت نے جو مسودہ قانون تیار کیا ہے جسے اسمبلی نے توثیق کرنی ہے، اس کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اس میں ضلعی حکومتوں کا نظام ختم کرکے شہری اور دیہی الگ الگ نظام لایا جارہا ہے جس میں ناظمین کے بجائے میئر و ڈپٹی میئر اور چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب کیے جائیں گے جو کسی سیاسی جماعت سے وابستگی رکھ سکیں گے لیکن کونسلرز غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہوں گے۔ سیاسی حلقے اسے غیر جماعتی نظام واپس لانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔اس سے قبل پی پی پی اور اس کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے مابین ضلعی حکومتوں کا نظام ختم کرکے پرانے نظام کی بحالی پر بڑی کشیدگی کی فضا پیدا ہوگئی تھی جو ابھی جاری ہے۔
ملک بھر میں یکساں نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے کے عدالت عظمیٰ کے حکم کے تحت الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کے لیے یکساں قانون سازی کے لیے چاروں صوبوں کو خط تحریر کردیے ہیں۔ اے این پی نے تو ان انتخابات کی مخالفت کرتے ہوئے صاف کہہ دیا ہے کہ ان کے نتیجے میں دہشت گرد اور خودکش ہی منتخب ہوکر آئیں گے۔ عدالت عظمیٰ اور عام لوگوں کا بھی یہی خیال ہے کہ بلدیاتی انتخابات ملکی مفاد میں ہیں جو امن وامان کی صورت حال کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے بلدیاتی انتخابات کے لیے کی جانے والی قانون سازی سے ابتدائی طور پر اس کے خدوخال نمایاں ہوجائیں گے اور انتخابات کے بعد ان کے ثمرات و مضمرات دونوں سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ اس میں جمہوری حکومتوں کا اخلاص یا عزائم بھی کھل کر سامنے آجائیں گے جو سارے فنڈز اور اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی خاطر اس نظام کو ایک متوازی حکومت یا نظام سمجھ کر اس سے گریزاں رہتے ہیں۔