چین کی سرحد پر 50 ہزار فوجیوں کا اضافہ
اس طویل عرصے میں اگرچہ دونوں ملکوں کے تعلقات نشیب و فراز کا شکار ہوتے رہے۔
ٹی وی چینلوں پر جو پٹیاں چلتی ہیں یہ پٹیاں دراصل دریا کو کوزے میں بند کرنے کا کام انجام دیتی ہیں، قومی اور بین الاقوامی مسائل کی تلاش میں رہنے والے ان پٹیوں کو بڑے غور سے دیکھتے ہیں، ایسی ہی ایک پٹی میں بتایا گیا کہ بھارتی حکومت نے چین کی متنازعہ سرحد پر پچاس ہزار فوجیوں کو لگانے کا فیصلہ کیا ہے، اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے 6 کھرب 40 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے، جس کی منظوری دے دی گئی ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان یہ سرحدی تنازعہ 1962 سے چل رہا ہے۔
اس طویل عرصے میں اگرچہ دونوں ملکوں کے تعلقات نشیب و فراز کا شکار ہوتے رہے لیکن کبھی جنگ یا جنگ کے خطرات کی نوبت نہیں آئی۔ چین جب تک سوشلسٹ ملک رہا بھارت کے سرمایہ دارانہ نظام کو چین سے خطرہ رہا لیکن یہ خطرہ بھی کبھی نظریاتی حدود پار کرکے جنگی حدود میں داخل نہیں ہوا۔ اب جب کہ چین خود سرمایہ دارانہ نظام اختیار کرچکا ہے بھارت کے لیے چین نظریاتی خطرہ نہیں رہا، البتہ مسابقت بدستور خطرہ بنی ہوئی ہے اور یہ مسابقت ایشیا میں منی سپر پاوری کے حصول کی مسابقت ہے جو جنگ جیسی صورت حال پیدا نہیں کرتی۔ اس کے برخلاف دونوں ملکوں میں تعلقات کی بہتری کے لیے نہ صرف زبانی بلکہ عملی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ چین کی اعلیٰ قیادت کا حالیہ دورہ بھارت اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا جس میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور اقتصادی ترقی کے حوالے سے معاہدے بھی ہوئے اور سرحدی تنازعے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچانک دونوں ملکوں کے درمیان وہ کیا بات ہوئی کہ بھارتی حکومت کو چین کی سرحد پر 50 ہزار فوجیوں کو لگانے اور اس مہم پر چھ کھرب چالیس ارب روپے خرچ کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ بہ ظاہر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کوئی ایسی کشیدگی یا ہنگامی حالت نظر نہیں آتی کہ بھارت کو چینی سرحد پر 50 ہزار فوجی رکھنا ضروری محسوس ہوا ہو۔ 1962 سے اب تک کئی بار سرحدی کشیدگی کے واقعات پیش آئے لیکن بھارتی حکومت نے چین کی سرحد پر کبھی اتنی بڑی تعداد میں فوج نہیں لگائی۔ چین میں اگرچہ اقتصادی نظام بدل گیا اور چینی حکومت نے منڈی کی معیشت کو اپنانا شروع کیا لیکن نہ چین پہلے کسی ملک یا دنیا کے امن کے لیے خطرہ بنا نہ آج وہ کسی ملک یا دنیا کے امن کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے، اس کی ساری توجہ دنیا بھر کی منڈیوں میں اپنی بالادستی قائم کرنے پر لگی ہوئی ہے۔
اس پس منظر میں بھارتی حکومت کا یہ اقدام سوائے جنگی جنون میں اضافے اور بھارتی عوام کی مشکلات اور ان کی غربت میں اضافے کے اور کیا ہوسکتا ہے۔ اگر بھارتی قیادت اپنے عوام کے ساتھ مخلص ہوتی تو اس قسم کے غیر عاقلانہ اقدامات کے بجائے بھارتی عوام کی غربت کم کرنے کے منصوبے بناتی اور ان منصوبوں میں چھ کھرب چالیس ارب کی وہ بھاری رقم استعمال کرتی، جتنا وہ چین کی سرحد پر 50 ہزار فوجیوں کے اضافے میں جھونک رہی ہے۔ بھارت کو چین سے یہ شکایت ہے کہ اس نے 1962 کی سرحدی جنگ میں بھارت کے کچھ سرحدی علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے، چین کا دعویٰ یہ ہے کہ اس نے جن سرحدی علاقوں کو 1962 میں اپنے قبضے میں لیا ہے وہ تاریخی طور پر چین کا حصہ ہیں۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ کس کا موقف یا دعویٰ درست ہے، البتہ ہم اس حقیقت پر ضرور نظر ڈالیں گے کہ یہ مسئلہ دو ملکوں کے درمیان ایک سیاسی مسئلہ ضرور ہے لیکن اس مسئلے کا تعلق دونوں ملکوں کے عوام کی کسی حق تلفی سے نہیں۔
بھارت پچھلے 65 سال سے کشمیر پر بزور طاقت قابض ہے، اس نے کشمیر میں اپنی 6 لاکھ سے زیادہ فوجیں لگا رکھی ہیں اگر 50 ہزار فوجوں کی تعیناتی پر 6 کھرب 40 کا خرچہ آتا ہے تو 6 لاکھ فوجوں کی کشمیر میں عشروں سے تعیناتی پر کس قدر بھاری رقم خرچ ہورہی ہوگی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں جب کہ کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ عوام کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف 65 سال سے خونیں جدوجہد کر رہے ہیں اور اب تک اس جدوجہد میں لاکھوں کشمیری اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ ایک ایسے محاذ پر جہاں بھارت کو سخت عوامی مزاحمت کا سامنا ہے وہ اپنے اس سراسر جارحانہ اقدام کو اپنے آئین اور قانون کے مطابق قرار دیتا ہے اور چین کے ساتھ متنازعہ سرحدی مسئلے کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی کہتا ہے۔ اس دوغلی سیاست اور منافقانہ موقف کا نہ کوئی قانونی جواز ہے نہ اخلاقی، نہ اس سرحدی تنازعے کے حوالے سے بھارتی عوام کشمیری عوام کی طرح مزاحمت کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں چین کی متنازع سرحد پر مزید 50 ہزار فوجیوں کو لگانا اور اس پر چھ کھرب چالیس ارب روپے خرچ کرنا کیا بھارت کے غریب اور انتہائی پسماندہ عوام کے ساتھ ظلم نہیں؟
کشمیر کے مسئلے پر بھارتی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پورے جنوبی ایشیا کے اربوں غریب عوام کی غربت میں اضافہ ہورہا ہے، حتیٰ کہ اسی مسئلے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان دو بڑی جنگیں ہوئیں اور دنیا کے یہ دو پسماندہ ترین ملک ایٹمی طاقت بن گئے۔ اور اب تک دونوں ملک اسلحے کی اس دوڑ میں مبتلا ہیں جس میں جانے اب تک کتنے کھرب جھونکے جاچکے ہیں۔ اس سیاست کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کا حکمراںطبقہ ابھی تک گریٹر انڈیا کے خبط سے باہر نہیں آسکا۔ اگر اس گریٹر انڈیا کے خبط سے بھارت کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ عوام کی غربت میں کمی آتی تو اس خبط کا کوئی جواز ہوسکتا تھا لیکن افسوس اور شرم کی بات یہ ہے کہ گریٹر انڈیا کے اس خبط یا تصور کا تعلق صرف فوجی طاقت میں اضافے سے ہے، اگر اس کا تعلق اقتصادی طاقت میں اضافے سے ہوتا تو اس کا ایک منطقی جواز ہوتا اور اس نظریے سے بھارتی عوام کو فائدہ ہوتا لیکن افسوس کہ اس خبط کا تعلق بھارت کی اقتصادی ترقی سے نہیں۔چین اور بھارت اب دونوں سرمایہ دارانہ معیشت کے حامل ملک ہیں۔ فرق یہ ہے کہ چین کی زیادہ تر توجہ دنیا سے اقتصادی مسابقت پر معمول ہے اور بھارت کی زیادہ تر توجہ فوجی طاقت بننے پر لگی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت 60 کروڑ بھارتی عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی معیشت بھی مستحکم ہورہی ہے اور ترقی بھی کر رہی ہے لیکن اس کا فائدہ بھارت کے عوام کے بجائے بھارت کی ایلیٹ کلاس اور کرپٹ حکمران طبقے کو حاصل ہورہا ہے۔
بھارت دنیا کا آبادی کے حوالے سے دوسرا بڑا ملک ہے لیکن بدقسمتی یا بھارت کے حکمران طبقے کی جنگی سیاست کی وجہ سے اس ملک کے نہیں بلکہ اس خطے کے عوام غربت، بھوک، بیماری، بے روزگاری کے صحراؤں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں، اس خطے کے ان مظلوم عوام کی زندگیوں کو غربت کے عذابوں سے نجات دلانے کے لیے بھارتی حکمرانوں کو ایورسٹ اور K-2 کی چوٹیوں پر جانا نہیں پڑے گا بلکہ اپنی اس جنگی اور جارحانہ سیاست سے باہر آنا پڑے گا جو ایک طرف چین کی سرحد پر 50 ہزار مزید فوجوں کی تعیناتی کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے تو دوسری طرف کشمیر میں چھ لاکھ سے زیادہ فوجوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہے، اگر بھارت چین سے اپنا سرحدی تنازعہ اور پاکستان سے کشمیر کے مسئلے کو جنگی اہمیت کے بجائے اس پورے خطے کے عوام کی بہتری کے تناظر میں حل کرنے پر آمادہ ہو تو چین کی سرحد پر خرچ ہونے والے چھ کھرب چالیس ارب روپے اور کشمیر میں خرچ کیے جانے والے ہزاروں کھرب روپے اس خطے کے غریب عوام کے بہتر مستقبل کی تعمیر میں صرف ہوسکتے ہیں۔ لیکن کیا بھارت کا حکمراں طبقہ اس طرف آنے کے لیے تیار ہوگا؟
ے کیوں جاگیں۔ یہ لوگ تو نہیں جانتے کہ بھوک کیا ہوتی ہے، غربت کی اذیت کیسی ہوتی ہے۔ میں اس پلیٹ فارم سے سب اداروں کو اپیل کرتا ہوں کہ خدارا! اپنی اپنی ذمے داری نبھائیں اور منچھر جھیل کو اصلی حالت میں لانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں وہ قومیں زندہ اور غیرت مند ہوتی ہیں جو اپنی ملکیت، زمین، کلچر اور اثاثوں کی حفاظت کرتی ہیں۔
اس طویل عرصے میں اگرچہ دونوں ملکوں کے تعلقات نشیب و فراز کا شکار ہوتے رہے لیکن کبھی جنگ یا جنگ کے خطرات کی نوبت نہیں آئی۔ چین جب تک سوشلسٹ ملک رہا بھارت کے سرمایہ دارانہ نظام کو چین سے خطرہ رہا لیکن یہ خطرہ بھی کبھی نظریاتی حدود پار کرکے جنگی حدود میں داخل نہیں ہوا۔ اب جب کہ چین خود سرمایہ دارانہ نظام اختیار کرچکا ہے بھارت کے لیے چین نظریاتی خطرہ نہیں رہا، البتہ مسابقت بدستور خطرہ بنی ہوئی ہے اور یہ مسابقت ایشیا میں منی سپر پاوری کے حصول کی مسابقت ہے جو جنگ جیسی صورت حال پیدا نہیں کرتی۔ اس کے برخلاف دونوں ملکوں میں تعلقات کی بہتری کے لیے نہ صرف زبانی بلکہ عملی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ چین کی اعلیٰ قیادت کا حالیہ دورہ بھارت اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا جس میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور اقتصادی ترقی کے حوالے سے معاہدے بھی ہوئے اور سرحدی تنازعے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچانک دونوں ملکوں کے درمیان وہ کیا بات ہوئی کہ بھارتی حکومت کو چین کی سرحد پر 50 ہزار فوجیوں کو لگانے اور اس مہم پر چھ کھرب چالیس ارب روپے خرچ کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ بہ ظاہر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کوئی ایسی کشیدگی یا ہنگامی حالت نظر نہیں آتی کہ بھارت کو چینی سرحد پر 50 ہزار فوجی رکھنا ضروری محسوس ہوا ہو۔ 1962 سے اب تک کئی بار سرحدی کشیدگی کے واقعات پیش آئے لیکن بھارتی حکومت نے چین کی سرحد پر کبھی اتنی بڑی تعداد میں فوج نہیں لگائی۔ چین میں اگرچہ اقتصادی نظام بدل گیا اور چینی حکومت نے منڈی کی معیشت کو اپنانا شروع کیا لیکن نہ چین پہلے کسی ملک یا دنیا کے امن کے لیے خطرہ بنا نہ آج وہ کسی ملک یا دنیا کے امن کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے، اس کی ساری توجہ دنیا بھر کی منڈیوں میں اپنی بالادستی قائم کرنے پر لگی ہوئی ہے۔
اس پس منظر میں بھارتی حکومت کا یہ اقدام سوائے جنگی جنون میں اضافے اور بھارتی عوام کی مشکلات اور ان کی غربت میں اضافے کے اور کیا ہوسکتا ہے۔ اگر بھارتی قیادت اپنے عوام کے ساتھ مخلص ہوتی تو اس قسم کے غیر عاقلانہ اقدامات کے بجائے بھارتی عوام کی غربت کم کرنے کے منصوبے بناتی اور ان منصوبوں میں چھ کھرب چالیس ارب کی وہ بھاری رقم استعمال کرتی، جتنا وہ چین کی سرحد پر 50 ہزار فوجیوں کے اضافے میں جھونک رہی ہے۔ بھارت کو چین سے یہ شکایت ہے کہ اس نے 1962 کی سرحدی جنگ میں بھارت کے کچھ سرحدی علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے، چین کا دعویٰ یہ ہے کہ اس نے جن سرحدی علاقوں کو 1962 میں اپنے قبضے میں لیا ہے وہ تاریخی طور پر چین کا حصہ ہیں۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ کس کا موقف یا دعویٰ درست ہے، البتہ ہم اس حقیقت پر ضرور نظر ڈالیں گے کہ یہ مسئلہ دو ملکوں کے درمیان ایک سیاسی مسئلہ ضرور ہے لیکن اس مسئلے کا تعلق دونوں ملکوں کے عوام کی کسی حق تلفی سے نہیں۔
بھارت پچھلے 65 سال سے کشمیر پر بزور طاقت قابض ہے، اس نے کشمیر میں اپنی 6 لاکھ سے زیادہ فوجیں لگا رکھی ہیں اگر 50 ہزار فوجوں کی تعیناتی پر 6 کھرب 40 کا خرچہ آتا ہے تو 6 لاکھ فوجوں کی کشمیر میں عشروں سے تعیناتی پر کس قدر بھاری رقم خرچ ہورہی ہوگی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں جب کہ کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ عوام کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف 65 سال سے خونیں جدوجہد کر رہے ہیں اور اب تک اس جدوجہد میں لاکھوں کشمیری اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ ایک ایسے محاذ پر جہاں بھارت کو سخت عوامی مزاحمت کا سامنا ہے وہ اپنے اس سراسر جارحانہ اقدام کو اپنے آئین اور قانون کے مطابق قرار دیتا ہے اور چین کے ساتھ متنازعہ سرحدی مسئلے کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی کہتا ہے۔ اس دوغلی سیاست اور منافقانہ موقف کا نہ کوئی قانونی جواز ہے نہ اخلاقی، نہ اس سرحدی تنازعے کے حوالے سے بھارتی عوام کشمیری عوام کی طرح مزاحمت کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں چین کی متنازع سرحد پر مزید 50 ہزار فوجیوں کو لگانا اور اس پر چھ کھرب چالیس ارب روپے خرچ کرنا کیا بھارت کے غریب اور انتہائی پسماندہ عوام کے ساتھ ظلم نہیں؟
کشمیر کے مسئلے پر بھارتی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پورے جنوبی ایشیا کے اربوں غریب عوام کی غربت میں اضافہ ہورہا ہے، حتیٰ کہ اسی مسئلے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان دو بڑی جنگیں ہوئیں اور دنیا کے یہ دو پسماندہ ترین ملک ایٹمی طاقت بن گئے۔ اور اب تک دونوں ملک اسلحے کی اس دوڑ میں مبتلا ہیں جس میں جانے اب تک کتنے کھرب جھونکے جاچکے ہیں۔ اس سیاست کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کا حکمراںطبقہ ابھی تک گریٹر انڈیا کے خبط سے باہر نہیں آسکا۔ اگر اس گریٹر انڈیا کے خبط سے بھارت کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ عوام کی غربت میں کمی آتی تو اس خبط کا کوئی جواز ہوسکتا تھا لیکن افسوس اور شرم کی بات یہ ہے کہ گریٹر انڈیا کے اس خبط یا تصور کا تعلق صرف فوجی طاقت میں اضافے سے ہے، اگر اس کا تعلق اقتصادی طاقت میں اضافے سے ہوتا تو اس کا ایک منطقی جواز ہوتا اور اس نظریے سے بھارتی عوام کو فائدہ ہوتا لیکن افسوس کہ اس خبط کا تعلق بھارت کی اقتصادی ترقی سے نہیں۔چین اور بھارت اب دونوں سرمایہ دارانہ معیشت کے حامل ملک ہیں۔ فرق یہ ہے کہ چین کی زیادہ تر توجہ دنیا سے اقتصادی مسابقت پر معمول ہے اور بھارت کی زیادہ تر توجہ فوجی طاقت بننے پر لگی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت 60 کروڑ بھارتی عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی معیشت بھی مستحکم ہورہی ہے اور ترقی بھی کر رہی ہے لیکن اس کا فائدہ بھارت کے عوام کے بجائے بھارت کی ایلیٹ کلاس اور کرپٹ حکمران طبقے کو حاصل ہورہا ہے۔
بھارت دنیا کا آبادی کے حوالے سے دوسرا بڑا ملک ہے لیکن بدقسمتی یا بھارت کے حکمران طبقے کی جنگی سیاست کی وجہ سے اس ملک کے نہیں بلکہ اس خطے کے عوام غربت، بھوک، بیماری، بے روزگاری کے صحراؤں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں، اس خطے کے ان مظلوم عوام کی زندگیوں کو غربت کے عذابوں سے نجات دلانے کے لیے بھارتی حکمرانوں کو ایورسٹ اور K-2 کی چوٹیوں پر جانا نہیں پڑے گا بلکہ اپنی اس جنگی اور جارحانہ سیاست سے باہر آنا پڑے گا جو ایک طرف چین کی سرحد پر 50 ہزار مزید فوجوں کی تعیناتی کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے تو دوسری طرف کشمیر میں چھ لاکھ سے زیادہ فوجوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہے، اگر بھارت چین سے اپنا سرحدی تنازعہ اور پاکستان سے کشمیر کے مسئلے کو جنگی اہمیت کے بجائے اس پورے خطے کے عوام کی بہتری کے تناظر میں حل کرنے پر آمادہ ہو تو چین کی سرحد پر خرچ ہونے والے چھ کھرب چالیس ارب روپے اور کشمیر میں خرچ کیے جانے والے ہزاروں کھرب روپے اس خطے کے غریب عوام کے بہتر مستقبل کی تعمیر میں صرف ہوسکتے ہیں۔ لیکن کیا بھارت کا حکمراں طبقہ اس طرف آنے کے لیے تیار ہوگا؟
ے کیوں جاگیں۔ یہ لوگ تو نہیں جانتے کہ بھوک کیا ہوتی ہے، غربت کی اذیت کیسی ہوتی ہے۔ میں اس پلیٹ فارم سے سب اداروں کو اپیل کرتا ہوں کہ خدارا! اپنی اپنی ذمے داری نبھائیں اور منچھر جھیل کو اصلی حالت میں لانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں وہ قومیں زندہ اور غیرت مند ہوتی ہیں جو اپنی ملکیت، زمین، کلچر اور اثاثوں کی حفاظت کرتی ہیں۔