کرپشن پر گرفتار دو ڈپٹی کمشنر

گرفتار ہونے والے سابق ڈپٹی کمشنر پی آئی ڈی کراچی میں ڈپٹی ڈائریکٹر اور ایک بڑے زمیندارکے بڑے صاحبزادے ہیں۔

KARACHI:
تحریک انصاف کی حکومت کرپشن کے خلاف انتخابی مہم کے نتیجے میں برسر اقتدار آئی جس کو دیگر جماعتیں تسلیم نہیں کرتیں اور ان کا موقف ہے کہ دو سابق حکمران جماعتوں کو جان بوجھ کر پیچھے رکھ کر تحریک انصاف کی مخلوط حکومت بنوائی گئی ہے جس میں دونوں بڑی پارٹیوں کے وہ لوگ بھی شامل ہیں جن پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں۔ ان کی نیب میں پیشیاں بھی ہوئی ہیں مگر ان کے حکمران پارٹیوں میں ہونے کی وجہ سے ان سے رعایت برتی جا رہی ہے اور صرف دو سابق حکمران جماعت والوں کو چور، ڈاکو اور کرپٹ قرار دے کر ان کا میڈیا ٹرائل اور گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور جانبدارانہ احتساب ہو رہا ہے۔

نیب کے کردار پر سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور جسٹس صاحبان جو سخت ریمارکس دیتے آرہے ہیں وہ خود نیب کے کردار پر سوالیہ نشان ہیں اور نیب کے زیر عتاب لوگوں کے اعلیٰ عدلیہ میں نیب کی کارکردگی پر تنقید سے حوصلے بڑھے ہیں اور ان کے نیب سے متعلق الزامات کو تقویت مل رہی ہے اور نیب کارروائیاں جانبدارانہ اور متنازعہ بنا دی گئی ہیں اور نیب کے قیام کے بعد جنرل پرویز کے دور میں نام نہاد احتساب کرا کر جس طرح سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی گئی تھیں ان کا ذکر بھی میڈیا میں عام ہے۔

ملک میں احتساب کے لیے بااختیار ادارہ نیب اور کرپشن معاملات دیکھنے کے لیے ادارہ ایف آئی اے ہیں۔ ایف آئی اے محکمہ داخلہ کے ماتحت مگر نیب ایک بااختیار وفاقی ادارہ ہے جس کے چیئرمین کا تقرر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر آئین کے مطابق کرتے ہیں اور موجودہ چیئرمین دونوں سابق حکمران جماعتوں کی باہمی مشاورت سے مقرر ہوئے تھے اور اب وہ دونوں بڑی جماعتوں کے لیے ناپسندیدہ اور تنقید کی زد میں ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ہم کسی بھی دباؤکے بغیر اپنے اختیارات کے تحت غیر جانبدارانہ احتساب کر رہے ہیں۔ نیب کے بعض معاملات پر سپریم کورٹ سے انھیں رعایت ملی ہوئی ہے مگر نیب اقدامات عدلیہ کے سخت ریمارکس سے محفوظ نہیں رہے جو نیب کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔

ملک میں کرپشن روکنے کے لیے صوبوں میں اینٹی کرپشن کے ادارے عشروں سے ہیں جو خود کرپشن میں نہ صرف ملوث ہیں بلکہ صوبوں میں کرپشن کم کرنے کی بجائے کرپشن کو فروغ دے رہے ہیں۔ اینٹی کرپشن سربراہوں کا تقرر سیاسی اور رشوت پر ہوتا ہے جن کے ہر سرکاری ادارے میں معاملات طے ہیں، جس کا واضح ثبوت اینٹی کرپشن کے افسروں کا رشوت لیتے ہوئے خود پکڑا جانا بھی ہے۔ کرپشن کے سلسلے میں انصافی حکومت کے بعد نیب اور ایف آئی اے متحرک ہیں جنھوں نے ملک میں سیاستدانوں کے سابق آئی جی پولیس بھی عدلیہ میں حاضریاں بھگت رہے ہیں۔ صوبائی سیکریٹریوں پر ہاتھ ڈالا گیا مگر کروڑوں روپے کی برآمدگی کے باوجود کسی کو سزا نہیں ہوئی اور اگر کسی کو احتساب عدالت سے سزا بھی ہوئی تو وہ ناقص تفتیش کے باعث ہائی کورٹوں سے ریلیف لینے میں کامیاب رہا۔


سندھ میں دو ڈپٹی کمشنر کرپشن کے الزام میں گرفتار ہوکر جیل میں ہیں جن کا تعلق میرے آبائی شہر شکارپور سے ہے جو سیاسی بنیاد اور پیپلز پارٹی سے دیرینہ وابستگی کے باعث کراچی اور دیگر اضلاع میں تعینات رہے اور اب زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ اور اقدامات کے باعث اپنے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ دونوں گرفتار سابق کمشنروں کو ان کے خاندانوں سے قریبی تعلق کے باعث دونوں کا ماضی مجھ سے پوشیدہ نہیں۔ حال ہی میں گرفتار ہونے والے سابق ڈپٹی کمشنر پی آئی ڈی کراچی میں ڈپٹی ڈائریکٹر اور ایک بڑے زمیندارکے بڑے صاحبزادے ہیں۔

ان کے والد مرحوم اصغر خان کے پرانے ساتھی تھے جو بعد میں تحریک استقلال سے پیپلز پارٹی میں آئے اور تین عشروں سے زائد عرصہ پی پی میں ضلع صدر اور اہم رہنما رہے جن کی جائیدادوں کا کوئی شمار نہیں اور ان کی جائیداد کے دو ہی وارث ہیں ۔ ملیر میں پی پی دور میں سالوں ڈپٹی کمشنر رہنے اور جیل میں موجود ان پر سرکاری زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ اور کرپشن کے الزامات ہیں جو ظاہر ہے کہ بڑا زمیندار ہونے کے باعث انھوں نے خود کم کی ہوگی اور ان سے کرائی زیادہ گئی ہوگی۔

دوسرے گرفتار ڈپٹی کمشنر کراچی ایسٹ، بدین اور سجاول میں تعینات رہے جن کا تعلق غریب گھرانے سے تھا جن کی والدہ کی پیپلز پارٹی میں اس وقت خدمات تھیں جب پی پی کے مرد رہنما خاموش اور وہ متحرک تھیں جن کے گھر راقم کی بے نظیر بھٹو سے ملاقات ہوئی تھی اور محترمہ نے انھیں مخصوص نشست پر رکن اسمبلی منتخب کرایا، جن کے صاحبزادے سرکاری ملازمت میں آکر ڈپٹی کمشنر اور ڈی او لینڈ رہے اور پی پی دور میں وہ کہیں سے کہیں پہنچ گئے اور آج کرپشن کے الزامات میں جیل میں ہیں۔

شکار پور کے ایک اور سابق بیوروکریٹ بھی ہیں جنھوں نے اپنے دور میں شہر والوں کو مفت ملازمتیں دی تھیں وہ ریٹائر ہوکر سیاست میں آئے، منتخب صوبائی وزیر فنکشنل لیگ میں رہ کر انھوں نے اپنے شہر کے لیے بہت کچھ کیا وہ بھی زمیندار گھرانے سے تھے مگر محتاط بیوروکریٹ تھے جو اب بھی پی پی کے رہنما اور صوبائی وزیر مگر کرپشن الزامات سے محفوظ اور اپنے ضلع میں عوام میں مقبولیت کے بھی حامل ہیں۔
Load Next Story