ہم سب کا پاکستان

ریاست کا آئین سب کو برابر درجہ دیتا ہے چاہے وہ کسی مذہب سے ہو، رنگ سے یا نسل سے۔

Jvqazi@gmail.com

کچھ دن قبل سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے حوالے سے ایک تاریخ ساز فیصلہ سنایا۔ یہ بینچ جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل تھا۔ ایک ایسی ججمنٹ رقم ہوئی جس نے ایک بار پھر آئین کی کھلے اور واضح انداز میں بہ بانگ دہل تشریح کی۔ ایک ایسی تشریح جو آنے والے سالوں میں اس ملک کی رہنمائی کرے گی اور اس کے لیے مزید راہیں کھولے گی۔

ایک ذمے دار، رواداری سے مالا مال پاکستان جو ہندوستان کی طرح سیکیولر تو نہیں مگر برداشت اور برد باری میں شاید ہندوستان سے بھی آگے جا سکتا ہے۔ عدالت اعظمیٰ کا یہ فیصلہ بنیادی طور پر آئین کے آرٹیکل 19, 19A اور 25 کو واضح کرتا ہے اور اداروں کو اپنی کارکردگی کے دائرہ کار میں رہنے کی تنبیہ کرتے ہوئے ذمے دار لوگوں کو بے نقاب بھی کرتا ہے۔

ہمارا آئین ہمارا محافظ ہے، یہ بات میں نے کئی دفعہ دہرائی ہے، اگر یہ ہے تو سب کچھ ہے، اگر نہیں تو پھرکچھ نہیں۔ ہمارا سفر آئین کے ہونے اور آئین کے نہ ہونے کا تسلسل ہے۔ اس کے نہ ہونے اور ہونے کے سفر میں آج ہم پھر ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔

فیض آباد کے چوراہے پر، جہاں سے ہم آئین کی تشریح کرنے بیٹھے اور آج پھر آئین ہمارا محافظ بن کر ابھرا۔ ہم پھر اپنے قائد کے پاس لوٹ چلے، ان کی تقاریر کا حوالہ دے کر، آئین کی روح میں ڈھل کر آج کے تقاضوں میں انصاف کے پیمانے سے تشریح کرنے بیٹھ گئے اور اس طرح آج ہمیں سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ ملا۔ اس بات سے قطع نظرکے خود سپریم کورٹ کے تاریخ میں آئین کے حوالے سے بڑے نشیب و فراز ہیں۔ نظریہ ضرورت سے لے کر آزاد عدلیہ کا الم اٹھانے تک۔

سپریم کورٹ عوام سے ہے اور عوام سے ہی اس کو طاقت ملتی ہے۔ آزاد عدلیہ، آزاد سوچ، آزادی اظہار رائے کی ضامن ہوتی ہے اور یہی ایک ادارہ ہے جو ہمیشہ آئین کے آگے ڈھال بن کر کھڑا ہوتا ہے۔کسی ملک کے ادارے اگرکمزور ہیں، پارلیمان کمزور ہے، معاشرہ کمزور ہے تو اس کا اثر بھی آزاد عدلیہ پر پڑتا ہے، لیکن اس صورت میں پہل بھی عدالتیں ہی کرتی ہیں۔

فیض آباد کا دھرنا اپنی مثال آپ تھا۔ ملک کا نظام جیسے مفلوج ہو کر رہ گیا نہ حکومت تھی، نہ عدالتیں، نہ قانون اور نہ انصاف۔ جیسے سب نے اپنے گھٹنے ٹیک دیے اور پھر یہ تاثر چھوڑا گیا کہ بس طاقت کا محور یہی لوگ ہیں۔کون نہیں جو اس عمل سے مستفیض ہوا۔ ہم تہمتیں لگاتے رہے، یہ جو رسم تھی یہ اتنی ہی پرانی تھی جتنا کہ ہمارا پاکستان۔ ہم خود ہی مدعی اور خود ہی منصف، خود ہی وکیل، خود ہی گواہ اور خود ہی جلاد۔ بس الزام لگانا کافی ہے۔ اور پھر اس کام کو حکمرانوں نے خود اچھالا۔ جنرل ضیاء الحق کی تو چاندی ہو گئی۔ جمہوریت پر کفل چڑھانے کے لیے جیسے legitimacy مل گئی۔ قصور صرف ضیاء الحق کا ہو تو بات یہاں رک جائے۔

سرد جنگ کے پس منظر میں سوویت یونین کا افغانستان میں جارحانہ قدم اور دوسری طرف امریکا، اور ہمارا مذہب ایک ایسا ذریعہ ملا جس سے اس کو شکست دی جائے۔ وہ امریکا جو انسانی حقوق، جمہوریت، آزاد معاشرے اور آزاد معیشت کا امین تھا۔ کسی اور کے غلط کو خود اونچے ہتھکنڈوں سے جواب دینا چاہتا تھا۔ ہمارے حکمرانوں کی تو جیسے لاٹری نکل آئی۔ دائیں بازو کی سیاست چھٹے سے پہلے پائیدان پر۔ نعروں، نفرتوں، فتوائوں کا بازار گرم ہوا۔ کبھی یہ کافرکبھی وہ کافر اور یوں اس مقابلے میں ایک دوسرے سے بازی لینے کے لیے ہم نے بیانیہ کو اور بگاڑا۔

اتنا تاریک کے شمشان کی شب ہو جیسے


لب پے لائوں تو میرے ہونٹ اور سیاہ ہوجائیں

نئے پیمانے و اقرارنامہ و حلف نامے لینے کے لیے محب وطن اور غدار وطن کی نئی تشریح بنی۔ مگر سپریم کورٹ کے کل کے فیصلے نے تو یہ سمجھایا کہ جو ملک سے وفاداری کا حلف لینا چاہتا ہے اس کو آئین سے وفادار ہونا پڑے گا اور جو آئین سے وفادار نہیں وہ آرٹیکل پانچ اور چھ کے پس منظر میں کچھ اور نہیں بلکہ ملک کا غدار ہے۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہمارا آئین کوئی نایاب چیز نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ہماری اپنی جدا گانہ تاریخ، بمع وہ تاریخ جس کو ہمارے آئین کی تاریخ کہا جا سکتا ہے۔ جو 1858ء سے شروع ہوئی جس کے پیچھے بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کو پھانسی اور انھیں جلاوطنی اور پھر پہلی تحریک آزادی جس کی قیادت مسلمانوں نے کی اور جس کے روح رواں ہند کے مسلمان تھے۔

اس تاریخ کے علاوہ ہمارا آئین دنیا کے ریاستی ارتقاء کے پس منظر جو لیگل ہو یا کانسٹیوٹیشنل سائنس ہے اس مواد سے مرتب ہوا ہے۔ اس طرح نہیں ہے جس طرح جنرل ضیاء الحق کہتے تھے کہ آئین اور کچھ نہیں چند کاغذوں پر مشتمل کتابچہ ہے جس سے وہ کسی وقت بھی ردی میں ڈال سکتا ہے۔ جس طرح فرد وجود کا آئین ہوتا ہے اور اس میں ذرا بھی خلل اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے بالکل اسی طرح ریاست کے آئین کے روح سے تعین کیے ہوئے تین بنیادی ستوں پارلیمان، عدلیہ اور مقننہ میں separation of power نہیں اس ریاست کو وہی کچھ جھیلنے کو ملے گا جس طرح ہم نے اپنے آئین سے انحرافی کر کے اب تک پایا ہے اور پھر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے بڑی خاموشی سے، بغیرکوئی judicial activism کیے ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس قلم کے بہہ جانے سے جو اس ملک کو جلا ملی ہے وہ شاید پچھلے سال کے ہمارے سابق چیف جسٹس کے تحریک سے بھی نہ ملی۔ اس لیے کہتے ہیں جج بولا نہیں کرتے وہ لکھا کرتے ہیں۔ وہ اپنی ججمنٹ میں بولتے ہیں۔ اور یہی کام کیا ہے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے۔

ستر سال گزرنے کے بعد آج بھی یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ کون سا ادارہ کون سا کام کرے گا۔ ہماری جمہوریتیں اب بھی ان پیر، وڈیروں اور چوہدریوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہمارے آئین سے انحرافی کا nexus بنتا ہے۔ آج کے Balance of Payment کی شکل میں ملنے والے بحران سے۔ اور یہ ستر سال کا بگاڑ پلک جھپکتے ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اس نظام کو سنبھلنے میں ستر سال تو نہیں مگر دہائیاں تو درکار ہیں، اگر صحیح سمت کا تعین کیا جائے تو۔

آئین کیا ہے؟ بحیثیت شہری آئین آپ کو حقوق اور پھر ذمے داریاں بھی دیتا ہے۔ آئین ا داروں کی حدود کا تعین کرتا ہے اور پھر انھیں حدود کے اندر رہنے کا پابند بھی۔ آئین کا سب سے بڑا اختیار Judicial Review ہے۔ جس کے تحت جو چیز آئین کے تصادم میں ہے، اس کا تعین کیا جاتا ہے اور اسے کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن ایسا بھی ہوا ہے کہ کبھی کبھی Judicial Review کا استعمال غلط ثابت ہوا ہے، مگر یہ ذمے داری بھی عدالت کی ہے کہ وہ اس کو درست کرے۔

سپریم کورٹ کے کل کے فیصلے میں بارہ مئی کے سانحے کا ذکر بھی کیا گیا اور ڈی چوک دھرنے کا بھی ذکر کیا گیا جو 2014ء میں دیا گیا تھا۔ احتجاج کرنا آپ کا حق ہے مگر اس حد تک جب دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔

ریاست کا آئین سب کو برابر درجہ دیتا ہے چاہے وہ کسی مذہب سے ہو، رنگ سے یا نسل سے۔ آئین ریاست کے پسماندہ طبقات کو ترجیح دیتا ہے ان لوگوں کی عکاسی کرتا ہے جس کی آواز ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتی۔ آئین ریاست کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئین کا چیپٹر دوم، حصہ اول جس میں ایک شہری کے بنیادی حقوق واضح طور پر موجود ہیں۔

ہمارے آئین کو آئین کی حکمرانی تک پہنچنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جس کو ہم قانون کی حکمرانی کہتے ہیں جو خود ایک پراسس ہے۔ قوانین کو بنیادی حقوق کا عکاس ہونا چاہیے اور جو اس سے تصادم میں ہے ان قوانین کو اس پراسس سے خارج ہو جانا چاہیے۔
Load Next Story