ادب کا جشن آخری حصہ
شکلیں بدلتی رہیں گی، نام بدل جائیں گے مگر لفظ ختم نہیں ہو سکتے۔
کراچی میں منعقد ہونے والے اس سہ روزہ ادبی جشن میں پیٹر اوسبرن کی کتاب کا ترجمہ '' وکٹ سے وکٹ تک '' بھی پیش کیا گیا۔ اس سیشن میں پیٹر اوسبرن کی شرکت اور حاضرین کے سوال و جواب نے لوگوں کو بہت لطف دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں لوگوں کو کرکٹ سے عشق ہے ۔
سندھی کے مشہور ادیب اور کالم نگار امر جلیل کی گفتگو بہت دلچسپ اور دلچسپ سے زیادہ دو ٹوک تھی۔ نور الہٰدی شاہ کی شرکت بھی بھرپور رہی۔ ہمیں ایسی محفلوں کی بہت ضرورت ہے۔ عورتوں کے لکھے ہوئے سفر ناموں پر بھی گفتگو ہوئی۔ یہ ایک مشکل کام تھا کہ اردو یا پنجابی میں لکھے ہوئے عورتوں کے سفرنامے تلاش کیے جائیں لیکن ڈھونڈنے سے کیا نہیں ملتا۔ انیسویں صدی کے نصف آخر سے آج تک عورتوں نے بہت سے سفر نامے لکھے۔
بیشتر لوگوں کے لیے یہ ایک نیا میدان تھا جس کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ اس جشن میں پیر زادہ سلمان کے پہلے شعری مجموعے ''وقت'' کا بھی اجراء ہوا۔ ان کی نظموں پر سید نعمان الحق اور افتخار عارف نے سیر حاصل گفتگو کی۔ مستنصر حسین تارڑ سے ایک گھنٹے تک حارث خلیق ان کے سفر ناموں اور ناولوں کے بارے میں سوال کرتے رہے اور ان سے سننے والے لطف اٹھاتے رہے۔
جشن میں بہت کچھ ہو رہا تھا اور سب میں شرکت ممکن نہ تھی۔ سید کاشف رضا کا چار درویش اور ایک کچھوا۔ ایلس فیض کی یادوں کا ترجمہ، محمد حنیف کا ناول ''ڈیڈ برڈ'' یہ تمام تقریبات ایک ساتھ چل رہی تھیں۔ لکھنے والوں کی بیٹھک میں نور الہٰدی، عارفہ سیدہ زہرا، حمرا خلیق آمنہ اظفر، شاہ بانو علوی، شیما کرمانی، ثانیہ سعید، منیزہ ہاشمی، سلیمیٰ ہاشمی اور منیزہ شمسی کے علاوہ بہت سے دوسرے نظر آ رہے تھے۔
اس شاندار سہ روزہ ادبی جشن میں سیکڑوں لوگوں نے شرکت کی۔ ان میں سے اکثر یہ بحث کرتے پائے گئے کہ کارپوریٹ سیکٹر اب ایسی ادبی سرگرمیوں کی اعانت کیوں کرنے لگا ہے جس میں خود اس کے مفادات کے خلاف خیالات پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ بڑی دل چسپ بحث ہے کیونکہ برصغیر میں ادبی جشن اور میلوں کا سلسلہ کافی زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقریباً تمام اہم زبانوں میں ادب تخلیق ہو رہا ہے اور عالمی سطح پر اس کی پذیرائی بھی ہو رہی ہے۔ ہندوستان کے کئی ادیبوں کو اہم بین الاقوامی انعامات مل چکے ہیں اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی ادیبوں کی کتابیں انگریزی سمیت بہت سی دیگر مغربی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔
مذکورہ بالا صورتحال سے یہ حقیقت بھی اجاگر ہوتی ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا وہ حیرت انگیز انقلاب جو اس وقت پوری دنیا کو تبدیل کر رہا ہے ،کے ذریعے مختلف زبانوں میں تخلیق پانے والے ادب کی رسائی دنیا کے ہر حصے تک ہو چکی ہے۔ آپ محض چند لمحوں میں انٹرنیٹ کے ذریعے یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ کس زبان میں کیا لکھا جا چکا ہے اورکیا لکھا جا رہا ہے۔ اب انٹرنیٹ پر پورا عالمی کلاسیکی ادب موجود ہے، تقریباً ہر وہ کتاب جو آج سے 30 سال پہلے لائبریریوں میں تلاش کرنی پڑتی تھی وہ آج مطالعے کے لیے انٹرنیٹ پر مفت اور باآسانی دستیاب ہے۔ اس صورتحال کا فطری نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ادب تک عام لوگوں کی رسائی کافی زیادہ ہو چکی ہے۔ اب گھروں میں پہلے کی طرح کتابیں اور ادبی جرائد کم آتے ہوں گے، اور با آسانی اس کے منفی اثرات اپنی جگہ لیکن ماضی کے مقابلے میں آج لوگوں کی کہیں بڑی تعداد اپنے ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کے نامور ادیبوں اور شاعروں کے نام اور کام سے واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی جشن اور میلوں میں عام لوگ، خصوصاً نوجوان بڑی کشش محسوس کرتے ہیں اور ان میں جوق در جوق شریک ہو کر پر جوش انداز میں بحث میں حصہ بھی لیتے ہیں۔
ایسی کوئی بھی سرگرمی جو لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہو اس کی افادیت کئی حوالوں سے بڑھ جاتی ہے اور بڑے کارپوریٹ ادارے اس کی سرپرستی کر کے اپنی کاروباری ساکھ کو مضبوط بنانے کے ساتھ اپنا مثبت سماجی تشخص بھی اجاگرکرتے ہیں۔ ادبی جشن اور میلوں کی کامیابیوں اور کارپوریٹ ادارے کی جانب سے ملنے والی سرپرستی سے ادبی اور سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے دو آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اس وقت چوتھے صنعتی انقلاب کے دور میں داخل ہو گیا ہے اور عالمگیریت یعنی گلوبلائزیشن کے ذریعے عالمی سطح پر صارفین کے ذہنوں کو مسخر کرنے کی ایک منظم کوشش کی جا رہی ہے۔
عالمگیریت کے خلاف اٹھنے والی مزاحمت کا زور توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ ادیبوں، شاعروں، مصنفوں، سیاسی اور حقوق انسانی کے کارکنوں کو اپنی سرپرستی میں اظہار رائے کرنے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ کارپوریٹ اداروں کے خلاف ان نفرت اور غصے میں کمی آسکے۔ اس نقطۂ نظر کے حامیوں کا استدلال ہے کہ ماضی کی نیشن اسٹیٹ کی جگہ ایک ایسی کارپوریٹ نیشن اسٹیٹ جنم لے رہی ہے جو اختلاف اور انحراف کو کچلنے کے بجائے اُسے اظہار رائے کا موقع دے کر اس کی شدت کو کم کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہے۔
اس نقطۂ نظر سے اختلاف کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دنیا میں جو تبدیلی رونما ہوئی ہے، اس نے ماضی کے بہت سے کلیوں کو تبدیل کر دیا ہے۔ اب ضروری نہیں کہ مزاحمت پر تشدد انداز میں کی جائے کیونکہ پرامن جدوجہد کے ذریعے پوری دنیا کی رائے عامہ کوآج اپنے حق میں بیدار کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اب اختلاف اور انحراف کو طاقت کے ذریعے کچل کر کارپوریٹ سیکٹر اپنی منڈیوں کو تباہ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا لہٰذا اس کا جارحانہ انداز بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انحراف اور اختلاف کے پیچھے مضبوط دلیل ہو گی تو کوئی اُسے شکست نہیں دے سکے گا۔ ادبی جشن اور میلوں سے تعاون کرنا کارپوریٹ سیکٹر کی خود اپنی مجبوری ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ مجبور اپنی بات نہیں منوا سکتا۔
ادبی میلوں کے حوالے سے جاری بحث سے قطع نظر یہ امر واقعہ ہے کہ ایسی سرگرمیاں معاشرے میں موجود انتہا پسندی کے خلاف ایک موثر کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ تخلیقی ادب زندگی سے متعلق ہوتا ہے اور زندگی تنوع کا ایک حسین امتزاج ہے جب کہ انتہا پسندی کا اصل ہدف تنوع ہے۔
اختتامی تقریب میں حسینہ معین کے ذہن میں غالباً یہی خیال کار فرما تھا جب انھوں نے کہا کہ آج کا یہ خوبصورت جشن ختم ہو رہا ہے مگر مجھے یہ کہنا ہے کہ یہ اختتام نہیں ابتدا ہے، اس لیے میں خدا حافظ نہیں، خوش آمدید کہوں گی، آنے والے دنوں میں ایک بار پھر ادیبوں اور ادب دوستوں کی اس محفل کو جو اگلے برس اسی طرح ہمارا دل لبھائے گی ۔ یہ ایک راستہ بنا ہے۔ ایک راہ سے ہزار راستے کھلتے ہیں۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم اس دور میں دنیا میں آئے ہیں جب کاغذ اور قلم کے ساتھ کمپیوٹر بھی ہمارے پاس ہے۔ شکلیں بدلتی رہیں گی، نام بدل جائیں گے مگر لفظ ختم نہیں ہو سکتے۔ قلم اور کاغذ کسی نہ کسی شکل میں ادب پیش کرتے رہیں گے اور ہم نئے خیالوں کی خوشہ چینی کرتے رہیں گے، نئے خواب دیکھتے رہیں گے۔ نئے خیالوں اور خوابوں کی اُمید کے ساتھ یہ جشن ختم ہوا۔
سندھی کے مشہور ادیب اور کالم نگار امر جلیل کی گفتگو بہت دلچسپ اور دلچسپ سے زیادہ دو ٹوک تھی۔ نور الہٰدی شاہ کی شرکت بھی بھرپور رہی۔ ہمیں ایسی محفلوں کی بہت ضرورت ہے۔ عورتوں کے لکھے ہوئے سفر ناموں پر بھی گفتگو ہوئی۔ یہ ایک مشکل کام تھا کہ اردو یا پنجابی میں لکھے ہوئے عورتوں کے سفرنامے تلاش کیے جائیں لیکن ڈھونڈنے سے کیا نہیں ملتا۔ انیسویں صدی کے نصف آخر سے آج تک عورتوں نے بہت سے سفر نامے لکھے۔
بیشتر لوگوں کے لیے یہ ایک نیا میدان تھا جس کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ اس جشن میں پیر زادہ سلمان کے پہلے شعری مجموعے ''وقت'' کا بھی اجراء ہوا۔ ان کی نظموں پر سید نعمان الحق اور افتخار عارف نے سیر حاصل گفتگو کی۔ مستنصر حسین تارڑ سے ایک گھنٹے تک حارث خلیق ان کے سفر ناموں اور ناولوں کے بارے میں سوال کرتے رہے اور ان سے سننے والے لطف اٹھاتے رہے۔
جشن میں بہت کچھ ہو رہا تھا اور سب میں شرکت ممکن نہ تھی۔ سید کاشف رضا کا چار درویش اور ایک کچھوا۔ ایلس فیض کی یادوں کا ترجمہ، محمد حنیف کا ناول ''ڈیڈ برڈ'' یہ تمام تقریبات ایک ساتھ چل رہی تھیں۔ لکھنے والوں کی بیٹھک میں نور الہٰدی، عارفہ سیدہ زہرا، حمرا خلیق آمنہ اظفر، شاہ بانو علوی، شیما کرمانی، ثانیہ سعید، منیزہ ہاشمی، سلیمیٰ ہاشمی اور منیزہ شمسی کے علاوہ بہت سے دوسرے نظر آ رہے تھے۔
اس شاندار سہ روزہ ادبی جشن میں سیکڑوں لوگوں نے شرکت کی۔ ان میں سے اکثر یہ بحث کرتے پائے گئے کہ کارپوریٹ سیکٹر اب ایسی ادبی سرگرمیوں کی اعانت کیوں کرنے لگا ہے جس میں خود اس کے مفادات کے خلاف خیالات پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ بڑی دل چسپ بحث ہے کیونکہ برصغیر میں ادبی جشن اور میلوں کا سلسلہ کافی زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقریباً تمام اہم زبانوں میں ادب تخلیق ہو رہا ہے اور عالمی سطح پر اس کی پذیرائی بھی ہو رہی ہے۔ ہندوستان کے کئی ادیبوں کو اہم بین الاقوامی انعامات مل چکے ہیں اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی ادیبوں کی کتابیں انگریزی سمیت بہت سی دیگر مغربی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔
مذکورہ بالا صورتحال سے یہ حقیقت بھی اجاگر ہوتی ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا وہ حیرت انگیز انقلاب جو اس وقت پوری دنیا کو تبدیل کر رہا ہے ،کے ذریعے مختلف زبانوں میں تخلیق پانے والے ادب کی رسائی دنیا کے ہر حصے تک ہو چکی ہے۔ آپ محض چند لمحوں میں انٹرنیٹ کے ذریعے یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ کس زبان میں کیا لکھا جا چکا ہے اورکیا لکھا جا رہا ہے۔ اب انٹرنیٹ پر پورا عالمی کلاسیکی ادب موجود ہے، تقریباً ہر وہ کتاب جو آج سے 30 سال پہلے لائبریریوں میں تلاش کرنی پڑتی تھی وہ آج مطالعے کے لیے انٹرنیٹ پر مفت اور باآسانی دستیاب ہے۔ اس صورتحال کا فطری نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ادب تک عام لوگوں کی رسائی کافی زیادہ ہو چکی ہے۔ اب گھروں میں پہلے کی طرح کتابیں اور ادبی جرائد کم آتے ہوں گے، اور با آسانی اس کے منفی اثرات اپنی جگہ لیکن ماضی کے مقابلے میں آج لوگوں کی کہیں بڑی تعداد اپنے ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کے نامور ادیبوں اور شاعروں کے نام اور کام سے واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی جشن اور میلوں میں عام لوگ، خصوصاً نوجوان بڑی کشش محسوس کرتے ہیں اور ان میں جوق در جوق شریک ہو کر پر جوش انداز میں بحث میں حصہ بھی لیتے ہیں۔
ایسی کوئی بھی سرگرمی جو لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہو اس کی افادیت کئی حوالوں سے بڑھ جاتی ہے اور بڑے کارپوریٹ ادارے اس کی سرپرستی کر کے اپنی کاروباری ساکھ کو مضبوط بنانے کے ساتھ اپنا مثبت سماجی تشخص بھی اجاگرکرتے ہیں۔ ادبی جشن اور میلوں کی کامیابیوں اور کارپوریٹ ادارے کی جانب سے ملنے والی سرپرستی سے ادبی اور سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے دو آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اس وقت چوتھے صنعتی انقلاب کے دور میں داخل ہو گیا ہے اور عالمگیریت یعنی گلوبلائزیشن کے ذریعے عالمی سطح پر صارفین کے ذہنوں کو مسخر کرنے کی ایک منظم کوشش کی جا رہی ہے۔
عالمگیریت کے خلاف اٹھنے والی مزاحمت کا زور توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ ادیبوں، شاعروں، مصنفوں، سیاسی اور حقوق انسانی کے کارکنوں کو اپنی سرپرستی میں اظہار رائے کرنے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ کارپوریٹ اداروں کے خلاف ان نفرت اور غصے میں کمی آسکے۔ اس نقطۂ نظر کے حامیوں کا استدلال ہے کہ ماضی کی نیشن اسٹیٹ کی جگہ ایک ایسی کارپوریٹ نیشن اسٹیٹ جنم لے رہی ہے جو اختلاف اور انحراف کو کچلنے کے بجائے اُسے اظہار رائے کا موقع دے کر اس کی شدت کو کم کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہے۔
اس نقطۂ نظر سے اختلاف کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دنیا میں جو تبدیلی رونما ہوئی ہے، اس نے ماضی کے بہت سے کلیوں کو تبدیل کر دیا ہے۔ اب ضروری نہیں کہ مزاحمت پر تشدد انداز میں کی جائے کیونکہ پرامن جدوجہد کے ذریعے پوری دنیا کی رائے عامہ کوآج اپنے حق میں بیدار کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اب اختلاف اور انحراف کو طاقت کے ذریعے کچل کر کارپوریٹ سیکٹر اپنی منڈیوں کو تباہ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا لہٰذا اس کا جارحانہ انداز بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انحراف اور اختلاف کے پیچھے مضبوط دلیل ہو گی تو کوئی اُسے شکست نہیں دے سکے گا۔ ادبی جشن اور میلوں سے تعاون کرنا کارپوریٹ سیکٹر کی خود اپنی مجبوری ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ مجبور اپنی بات نہیں منوا سکتا۔
ادبی میلوں کے حوالے سے جاری بحث سے قطع نظر یہ امر واقعہ ہے کہ ایسی سرگرمیاں معاشرے میں موجود انتہا پسندی کے خلاف ایک موثر کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ تخلیقی ادب زندگی سے متعلق ہوتا ہے اور زندگی تنوع کا ایک حسین امتزاج ہے جب کہ انتہا پسندی کا اصل ہدف تنوع ہے۔
اختتامی تقریب میں حسینہ معین کے ذہن میں غالباً یہی خیال کار فرما تھا جب انھوں نے کہا کہ آج کا یہ خوبصورت جشن ختم ہو رہا ہے مگر مجھے یہ کہنا ہے کہ یہ اختتام نہیں ابتدا ہے، اس لیے میں خدا حافظ نہیں، خوش آمدید کہوں گی، آنے والے دنوں میں ایک بار پھر ادیبوں اور ادب دوستوں کی اس محفل کو جو اگلے برس اسی طرح ہمارا دل لبھائے گی ۔ یہ ایک راستہ بنا ہے۔ ایک راہ سے ہزار راستے کھلتے ہیں۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم اس دور میں دنیا میں آئے ہیں جب کاغذ اور قلم کے ساتھ کمپیوٹر بھی ہمارے پاس ہے۔ شکلیں بدلتی رہیں گی، نام بدل جائیں گے مگر لفظ ختم نہیں ہو سکتے۔ قلم اور کاغذ کسی نہ کسی شکل میں ادب پیش کرتے رہیں گے اور ہم نئے خیالوں کی خوشہ چینی کرتے رہیں گے، نئے خواب دیکھتے رہیں گے۔ نئے خیالوں اور خوابوں کی اُمید کے ساتھ یہ جشن ختم ہوا۔