جمہوریت اور حکمرانی کو درپیش چیلنجز
آج بھی اہل دانش پاکستان میں جمہوریت سے جڑے مسائل کا احاطہ کرتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت بدستور اپنے ارتقائی عمل سے گزررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان ممالک میں شمار نہیں ہوتے جہاں حقیقی جمہوریت کو برتری حاصل ہوتی ہے۔ جمہوریت کی پاسداری اور نظام کو جمہوری خدوخال میں ڈالنے کی باتیں آسان اور عملی طور پر جمہوری نظام کو نافذ کرنا اور خود کو اس میں جوابدہ بنانا مشکل کام ہے۔
بالخصوص ایسے معاشروں میں جہاں جمہوریت داخلی محاذ پر کوئی مضبوط جڑیں نہ رکھتی ہو اوراس میں خارجی مداخلتیں زیادہ ہوں تو وہاں جمہوریت کا عمل اور زیادہ کمزور نظر آتا ہے۔ جمہوریت کو ایک بڑا چیلنج مرکزیت پر مبنی نظام سے ہوتا ہے جو ایک سطح پر طاقت کو منجمند کرکے لوگوں کو سیاسی اورجمہوری عمل میں شرکت کے عمل کو محدود کرتا ہے۔آج بھی اہل دانش پاکستان میں جمہوریت سے جڑے مسائل کا احاطہ کرتے ہیں اور ان بنیادی وجوہات کو پیش کرتے ہیں جو عملا ملک میں جمہوری نظا م کو درپیش ہیں۔
برطانوی جریدے"دی اکانومسٹ"کے تحقیقی ادارے انٹیلی جنس یونٹ کے نئے جمہوری معیارات کے مطابق پاکستان میں جمہوریت او ر جمہوری عمل زوال کا شکار ہے۔ دنیا بھرمیں موجود جمہوری ممالک میں پاکستان کا نمبر 112ہے۔جب کہ ہمارے مقابلے میں بھارت کا 44 واں نمبر ہے۔اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق دنیا میں صرف بیس ایسے ممالک ہیں جہاں مکمل جمہوریت ہے، جب کہ 57 ایسے ممالک ہیں جہاں حکومتی نظام ناقص ہے مگر تقریبا وہ جمہوریت کے قریب ہیں۔
اسی طرح 39 ممالک کو "نیم جمہوریت"میں شمار کیا گیا ہے جہاں انتخابی عمل شفاف نہیں اور سول سوسائٹی سمیت قانون کی عملدرآمد کا نظام کمزور ہے۔جب کہ دنیا کے 53 ممالک ایسے ہیں جہاں جمہوریت کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔اس تحقیقی رپورٹ میں پاکستان کو ''نیم جمہوریت اور یا مخلوط نظام یعنی Hybrid Regime میںشمار کیا گیا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں 2014ء کے بعد سے جمہوری اسکور میں بتدریج کمی آرہی ہے ۔2014ء میں 4 اشاریہ 64، 2015ء میں 4 اشاریہ 40, 2016ء میں 4 اشاریہ 33 جب کہ 2017ء میں اشاریہ 26 رہا ہے۔
اس تحقیقی رپورٹ میں دنیا کے 167ممالک میں جمہوریت کا جائزہ لیا گیا۔ 42 ممالک میں جمہوریت کو زوال جب کہ 48 ممالک میں عملی طور پر جمہوریت کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔دنیا کے دس بہترین جمہوری ممالک نے 9.87 اسکور کے ساتھ ناروے، آئس لینڈ، سویڈن، نیوزی لینڈ، ڈنمارک، کینیڈا، آئرلینڈ، فن لینڈ، آسٹریلیا اور سوئٹزرلینڈ شامل ہیں۔ جب کہ نچلی سطح سے آمرانہ نظام میں شمالی کوریا، شام، کانگو، وسطی افریقا چاڈ ہیں۔امریکا میں بھی جمہوریت کی اسکور کم ہوا ہے اور وہ 2017ء کے مقابلے میں 21 ویں سے 25 ویں نمبر پر آ گیا ہے، جب کہ برطانیہ 14ویں نمبر پر ہے۔
اسی طرح چین 130، افغانستان 143 اور ایران 150ویں نمبر پر ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا جن میں اول مکمل جمہوریت، دوئم تقریبا یا ناقص جمہوریت، سوئم نیم جمہوریت یا مخلوط نظا م، چہارم مطلق العنانیت یا آمرانہ نظام شامل ہیں۔ جب کہ جمہوریت کی صورتحال کو پرکھنے کے لیے جن امور کا جائزہ لیا گیا ان میں انتخابی عمل اورکثریت، حکومتی عمل داری، سیاسی شرکت، جمہوری سیاسی کلچر اور شہری آزادیاں شامل ہیں۔
اکانومسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت اور جمہوری عمل کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔ بنیادی طور پر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم دنیا میں فلاحی اورجمہوری ریاستوں کے مقابلے میں بڑی تیزی سے سیکیورٹی طرز کی ریاستوں میں جا رہے ہیں۔ ایسی سیکورٹ طرز کی ریاستوں میں فلاحی جمہوری ریاست اور عوامی حقوق یا شہری آزادیوں کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ جو سیکیورٹی طرز کی ریاستوں کا بحران ہے وہ عالمی سیاست سے جڑے ہوئے سوال کا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں بھر میں جمہوریت کو اصل چیلنج بھی جمہوریت کے داخلی اور خارجی دونوں نظاموں سے ہے ۔پاکستان او رجنوبی ایشیا یا ہمارے علاقائی ممالک جن میں پاکستان، افغانستان، ایران اور بھارت شامل ہیں کو جمہوری تناظر میں بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں داخلی اور خارجی دونوںبحران شدت سے موجود ہیں۔دونوں عوامل یا فریقین ایک دوسرے کو الزام دے کر اپنا دامن بچانے کی سیاست کرتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوری عمل میں سیاسی مداخلتیں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں او رآج بھی کسی نہ کسی شکل میں دیکھی جاسکتی ہیں۔اصل مسئلہ مرکزیت پر مبنی نظام کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے نے جائز ہ کے تناظر میں بہت سے اہم نکات کو حصہ بنایا، لیکن ان کے نکات میں مقامی حکومتوں یعنی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا کوئی نکتہ موجود نہیں۔ حالانکہ ہم سب اتفاق کرتے ہیں کہ جمہوریت میں یہ مقامی ادارے جمہوری نرسری کا حق رکھتے ہیں۔ کیونکہ اگر آپ نے کسی ملک میں جمہوریت کا عملی جائزہ لینا ہو تو یہ دیکھا ضروری ہوگا کہ ان کی نچلی سطح پر حکومت اورحکمرانی کا نظا م کس حد تک مقامی نظام حکومت سے جڑ ا ہوا ہے، کیونکہ اس کے بغیر جمہوریت کو جانچنے کا عمل بے معنی نظر آتا ہے۔
پاکستان کے مقدمے کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کی مضبوطی کے تناظر میں ہمیں جو بڑے چیلنجز درپیش ہیں ان میں داخلی محاذ پر سیاسی عمل کی کمزوری،, سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت سے جڑے مسائل، پارلیمنٹ اور دیگر سیاسی اداروں کو نظر انداز کرنا، پارلیمنٹ کی حیثیت محض ایک تقریری فورم، وزیر اعظم اور وزرا کی پارلیمانی امور میں عدم دلچسی، سیاسی جماعتوں کے داخلی انتخابات، موروثی سیاست کے مسائل، کمزور احتساب اور شفافیت کا نظام، ادارہ جاتی عمل کی کمزوری، غیر منصفانہ اور عدم شفافیت پر مبنی انتخابی نظام، دولت کا بے جا استعمال، قانون سازی پر عدم توجہ، سیاسی عدم استحکام، قانون کی پاسداری کا نہ ہونا، ریاستی رٹ کا کمزور ہونا، دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، کمزور طبقات کا بری طرح استحصال، سیاسی اورسماجی ناہمواریاں شامل ہیں۔ جب کہ سیاسی نظام میں سول فوجی بیورکریسی کی مداخلتیں، سیاسی نظام کی اکھاڑ پچھاڑ، اداروں کے درمیان ٹکراو اور سول ملٹری تعلقات میں خرابی جیسے امور بھی جمہوریت اور جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے بجائے اسے کمزور بنانے کا سبب بنتے ہیں۔
سیاسی مفکرین، سیاسی کارکن، سیاسی قیادت اور اہل دانش کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جمہوریت کو جو خارجی سطح پر چیلنجز ہیں ان سے نمٹنے کے لیے پہلے ضروری ہے کہ جمہوری قوتیں اوراس سے وابستہ ادارے خود کو داخلی سطح پر مضبوط کریں۔ کیونکہ جمہوریت میں جب کوئی خلا ہوتا ہے اور جمہوریت اور لوگوں کا تعلق کمزور ہوتا ہے تو اس کا فائدہ یقینی طور پر غیر جمہوری قوتیں ہی اٹھاتی ہیں۔ہمارے یہاں جو جمہوری نظام چل رہا ہے اس پر بحث تو بہت کی جاتی ہے لیکن جمہوریت سے جڑے افراد کا اپنا جمہوری مقدمہ بہت کمزور ہے ۔ہم اداروں کی بالادستی کے مقابلے میں افراد یا آمرانہ سوچ اور فکرکی حمایت کرتے ہیں۔ایک مسئلہ جمہوریت سے جڑے اہل دانش کا بھی ہے جو جمہوریت کے مقابلے میں افراد یا طاقتور طاقتوں کو سہار ا بن کر جمہوری عمل کو کمزو رکرکے ان کی آمرانہ حکمرانی کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔
ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ آج دنیا میں جو جمہوریت کو بڑا چیلنج ہے وہ سیاست، جمہوریت، میڈیا کاکارپوریٹ کلچر ہے، یعنی سیاست کسی بھی شکل میں اصول اورنظریات کے مقابلے میں منافع کی بنیاد پر چلائی جاتی ہے اورا س کھیل میں دولت کو اولین فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب سیاست اور جمہوریت کے فیصلے جمہوری قوتیں کم اور سرمائے کی طاقت رکھنے والی بڑی قوتیں کرتیں ہیں۔ یہ ہی قوتیں اب سیاسی اور جمہوری نظا م کا لبادہ بھی اوڑھ چکی ہیں۔ میڈیا اوراہل دانش یا رائے عامہ بنانے والے افراد یا ادارے بھی اسی کھیل میں اپنی دانش بیچ رہے ہیں۔ یہاں تو تضادات اورتنازعات کو ابھارنا، اسلحے کی سیاست اورجنگوں کی سیاست کا کاروبار اب ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو عالمی نظام کو سیکیورٹی طرز کی ریاستوں میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
اس لیے جو قوتیں واقعی حقیقی جمہوریت چاہتی ہیں ان کو اپنی پالیسی کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا ۔ روایتی طور طریقوں سے جمہوریت کو کامیاب نہیں بنایا جاسکتا۔ اب وقت ہے کہ ہم روایتی طور طریقوں سے نکل کر کچھ ایسا کرنے کی کوشش کریں جو دنیا بھر میں جمہوری عمل کو کمزور کرنے والی داخلی اور خارجی قوتوں کے خلاف ایک بڑی مزاحمت کو پیدا کرسکے۔ کیونکہ ایک طاقتور مافیا ہے جس سے ہمیں عالمی اور خود پاکستان میں جمہوریت کو آزاد کرانے کی جنگ لڑنی بھی اورجیتنی بھی۔
بالخصوص ایسے معاشروں میں جہاں جمہوریت داخلی محاذ پر کوئی مضبوط جڑیں نہ رکھتی ہو اوراس میں خارجی مداخلتیں زیادہ ہوں تو وہاں جمہوریت کا عمل اور زیادہ کمزور نظر آتا ہے۔ جمہوریت کو ایک بڑا چیلنج مرکزیت پر مبنی نظام سے ہوتا ہے جو ایک سطح پر طاقت کو منجمند کرکے لوگوں کو سیاسی اورجمہوری عمل میں شرکت کے عمل کو محدود کرتا ہے۔آج بھی اہل دانش پاکستان میں جمہوریت سے جڑے مسائل کا احاطہ کرتے ہیں اور ان بنیادی وجوہات کو پیش کرتے ہیں جو عملا ملک میں جمہوری نظا م کو درپیش ہیں۔
برطانوی جریدے"دی اکانومسٹ"کے تحقیقی ادارے انٹیلی جنس یونٹ کے نئے جمہوری معیارات کے مطابق پاکستان میں جمہوریت او ر جمہوری عمل زوال کا شکار ہے۔ دنیا بھرمیں موجود جمہوری ممالک میں پاکستان کا نمبر 112ہے۔جب کہ ہمارے مقابلے میں بھارت کا 44 واں نمبر ہے۔اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق دنیا میں صرف بیس ایسے ممالک ہیں جہاں مکمل جمہوریت ہے، جب کہ 57 ایسے ممالک ہیں جہاں حکومتی نظام ناقص ہے مگر تقریبا وہ جمہوریت کے قریب ہیں۔
اسی طرح 39 ممالک کو "نیم جمہوریت"میں شمار کیا گیا ہے جہاں انتخابی عمل شفاف نہیں اور سول سوسائٹی سمیت قانون کی عملدرآمد کا نظام کمزور ہے۔جب کہ دنیا کے 53 ممالک ایسے ہیں جہاں جمہوریت کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔اس تحقیقی رپورٹ میں پاکستان کو ''نیم جمہوریت اور یا مخلوط نظام یعنی Hybrid Regime میںشمار کیا گیا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں 2014ء کے بعد سے جمہوری اسکور میں بتدریج کمی آرہی ہے ۔2014ء میں 4 اشاریہ 64، 2015ء میں 4 اشاریہ 40, 2016ء میں 4 اشاریہ 33 جب کہ 2017ء میں اشاریہ 26 رہا ہے۔
اس تحقیقی رپورٹ میں دنیا کے 167ممالک میں جمہوریت کا جائزہ لیا گیا۔ 42 ممالک میں جمہوریت کو زوال جب کہ 48 ممالک میں عملی طور پر جمہوریت کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔دنیا کے دس بہترین جمہوری ممالک نے 9.87 اسکور کے ساتھ ناروے، آئس لینڈ، سویڈن، نیوزی لینڈ، ڈنمارک، کینیڈا، آئرلینڈ، فن لینڈ، آسٹریلیا اور سوئٹزرلینڈ شامل ہیں۔ جب کہ نچلی سطح سے آمرانہ نظام میں شمالی کوریا، شام، کانگو، وسطی افریقا چاڈ ہیں۔امریکا میں بھی جمہوریت کی اسکور کم ہوا ہے اور وہ 2017ء کے مقابلے میں 21 ویں سے 25 ویں نمبر پر آ گیا ہے، جب کہ برطانیہ 14ویں نمبر پر ہے۔
اسی طرح چین 130، افغانستان 143 اور ایران 150ویں نمبر پر ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا جن میں اول مکمل جمہوریت، دوئم تقریبا یا ناقص جمہوریت، سوئم نیم جمہوریت یا مخلوط نظا م، چہارم مطلق العنانیت یا آمرانہ نظام شامل ہیں۔ جب کہ جمہوریت کی صورتحال کو پرکھنے کے لیے جن امور کا جائزہ لیا گیا ان میں انتخابی عمل اورکثریت، حکومتی عمل داری، سیاسی شرکت، جمہوری سیاسی کلچر اور شہری آزادیاں شامل ہیں۔
اکانومسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت اور جمہوری عمل کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔ بنیادی طور پر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم دنیا میں فلاحی اورجمہوری ریاستوں کے مقابلے میں بڑی تیزی سے سیکیورٹی طرز کی ریاستوں میں جا رہے ہیں۔ ایسی سیکورٹ طرز کی ریاستوں میں فلاحی جمہوری ریاست اور عوامی حقوق یا شہری آزادیوں کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ جو سیکیورٹی طرز کی ریاستوں کا بحران ہے وہ عالمی سیاست سے جڑے ہوئے سوال کا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں بھر میں جمہوریت کو اصل چیلنج بھی جمہوریت کے داخلی اور خارجی دونوں نظاموں سے ہے ۔پاکستان او رجنوبی ایشیا یا ہمارے علاقائی ممالک جن میں پاکستان، افغانستان، ایران اور بھارت شامل ہیں کو جمہوری تناظر میں بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں داخلی اور خارجی دونوںبحران شدت سے موجود ہیں۔دونوں عوامل یا فریقین ایک دوسرے کو الزام دے کر اپنا دامن بچانے کی سیاست کرتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوری عمل میں سیاسی مداخلتیں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں او رآج بھی کسی نہ کسی شکل میں دیکھی جاسکتی ہیں۔اصل مسئلہ مرکزیت پر مبنی نظام کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے نے جائز ہ کے تناظر میں بہت سے اہم نکات کو حصہ بنایا، لیکن ان کے نکات میں مقامی حکومتوں یعنی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا کوئی نکتہ موجود نہیں۔ حالانکہ ہم سب اتفاق کرتے ہیں کہ جمہوریت میں یہ مقامی ادارے جمہوری نرسری کا حق رکھتے ہیں۔ کیونکہ اگر آپ نے کسی ملک میں جمہوریت کا عملی جائزہ لینا ہو تو یہ دیکھا ضروری ہوگا کہ ان کی نچلی سطح پر حکومت اورحکمرانی کا نظا م کس حد تک مقامی نظام حکومت سے جڑ ا ہوا ہے، کیونکہ اس کے بغیر جمہوریت کو جانچنے کا عمل بے معنی نظر آتا ہے۔
پاکستان کے مقدمے کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کی مضبوطی کے تناظر میں ہمیں جو بڑے چیلنجز درپیش ہیں ان میں داخلی محاذ پر سیاسی عمل کی کمزوری،, سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت سے جڑے مسائل، پارلیمنٹ اور دیگر سیاسی اداروں کو نظر انداز کرنا، پارلیمنٹ کی حیثیت محض ایک تقریری فورم، وزیر اعظم اور وزرا کی پارلیمانی امور میں عدم دلچسی، سیاسی جماعتوں کے داخلی انتخابات، موروثی سیاست کے مسائل، کمزور احتساب اور شفافیت کا نظام، ادارہ جاتی عمل کی کمزوری، غیر منصفانہ اور عدم شفافیت پر مبنی انتخابی نظام، دولت کا بے جا استعمال، قانون سازی پر عدم توجہ، سیاسی عدم استحکام، قانون کی پاسداری کا نہ ہونا، ریاستی رٹ کا کمزور ہونا، دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، کمزور طبقات کا بری طرح استحصال، سیاسی اورسماجی ناہمواریاں شامل ہیں۔ جب کہ سیاسی نظام میں سول فوجی بیورکریسی کی مداخلتیں، سیاسی نظام کی اکھاڑ پچھاڑ، اداروں کے درمیان ٹکراو اور سول ملٹری تعلقات میں خرابی جیسے امور بھی جمہوریت اور جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے بجائے اسے کمزور بنانے کا سبب بنتے ہیں۔
سیاسی مفکرین، سیاسی کارکن، سیاسی قیادت اور اہل دانش کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جمہوریت کو جو خارجی سطح پر چیلنجز ہیں ان سے نمٹنے کے لیے پہلے ضروری ہے کہ جمہوری قوتیں اوراس سے وابستہ ادارے خود کو داخلی سطح پر مضبوط کریں۔ کیونکہ جمہوریت میں جب کوئی خلا ہوتا ہے اور جمہوریت اور لوگوں کا تعلق کمزور ہوتا ہے تو اس کا فائدہ یقینی طور پر غیر جمہوری قوتیں ہی اٹھاتی ہیں۔ہمارے یہاں جو جمہوری نظام چل رہا ہے اس پر بحث تو بہت کی جاتی ہے لیکن جمہوریت سے جڑے افراد کا اپنا جمہوری مقدمہ بہت کمزور ہے ۔ہم اداروں کی بالادستی کے مقابلے میں افراد یا آمرانہ سوچ اور فکرکی حمایت کرتے ہیں۔ایک مسئلہ جمہوریت سے جڑے اہل دانش کا بھی ہے جو جمہوریت کے مقابلے میں افراد یا طاقتور طاقتوں کو سہار ا بن کر جمہوری عمل کو کمزو رکرکے ان کی آمرانہ حکمرانی کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔
ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ آج دنیا میں جو جمہوریت کو بڑا چیلنج ہے وہ سیاست، جمہوریت، میڈیا کاکارپوریٹ کلچر ہے، یعنی سیاست کسی بھی شکل میں اصول اورنظریات کے مقابلے میں منافع کی بنیاد پر چلائی جاتی ہے اورا س کھیل میں دولت کو اولین فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب سیاست اور جمہوریت کے فیصلے جمہوری قوتیں کم اور سرمائے کی طاقت رکھنے والی بڑی قوتیں کرتیں ہیں۔ یہ ہی قوتیں اب سیاسی اور جمہوری نظا م کا لبادہ بھی اوڑھ چکی ہیں۔ میڈیا اوراہل دانش یا رائے عامہ بنانے والے افراد یا ادارے بھی اسی کھیل میں اپنی دانش بیچ رہے ہیں۔ یہاں تو تضادات اورتنازعات کو ابھارنا، اسلحے کی سیاست اورجنگوں کی سیاست کا کاروبار اب ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو عالمی نظام کو سیکیورٹی طرز کی ریاستوں میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
اس لیے جو قوتیں واقعی حقیقی جمہوریت چاہتی ہیں ان کو اپنی پالیسی کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا ۔ روایتی طور طریقوں سے جمہوریت کو کامیاب نہیں بنایا جاسکتا۔ اب وقت ہے کہ ہم روایتی طور طریقوں سے نکل کر کچھ ایسا کرنے کی کوشش کریں جو دنیا بھر میں جمہوری عمل کو کمزور کرنے والی داخلی اور خارجی قوتوں کے خلاف ایک بڑی مزاحمت کو پیدا کرسکے۔ کیونکہ ایک طاقتور مافیا ہے جس سے ہمیں عالمی اور خود پاکستان میں جمہوریت کو آزاد کرانے کی جنگ لڑنی بھی اورجیتنی بھی۔