پوپ فرانسس کا دورہ ابوظہبی
پوپ فرانسس کا دورہ 800 سال بعد جزیرہ نما عرب کا دورہ ہے۔
ISLAMABAD:
پوپ فرانسس نے حال ہی میں ابوظہبی کا دورہ کیا ہے ۔ ان کے دورے کا مقصد مذاہب کے درمیان تصادم اور مذہب کے نام پر دہشتگردی کو روکنا تھا۔ پوپ فرانسس کا دورہ 800 سال بعد جزیرہ نما عرب کا دورہ ہے۔ ان سے پہلے جن پوپ نے اس علاقے کا دورہ کیا وہ موجودہ پوپ کے ہم نام تھے یعنی سینٹ فرانسس جنہوں نے تیرھویں صدی میں مصر کے سلطان سے ملاقات کی۔
حیرت ہے کہ اس درمیان 800 سال کے طویل عرصے میں کسی بھی پوپ نے اس علاقے کا دورہ نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ صلیبی جنگیں اور سلطنت عثمانیہ کی یورپ پر مسلسل یلغار تھی۔
رومن امپائر کے خاتمے اور عیسائیوں پر مسلمانوں کی طویل بالا دستی نے دونوں طرف نفرت تعصب کی ایک ایسی آہنی دیوار قائم کی جس کی800 سال بعد خاتمے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس کے لیے ابوظہبی میں بین المذاہب کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مسلمانوں کی نمایندگی جامعہ الازہر قاہرہ کے سربراہ شیخ احمد الطیب نے کی، تو عیسائی دنیا کی نمایندگی پوپ فرانسس نے کی جس میں عہد کیا گیا کہ ہمیں ساتھ مل جل کر مستقبل کی تعمیرکرنا ہوگی یا پھر ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔
اب وقت آگیا ہے کہ مذاہب زیادہ حوصلے اور دلیری کے ساتھ اپنا فعال کردار ادا کریں۔ اس بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پوپ نے کہا کہ انسانی برادری ہم سے دنیا کے مذاہب کے نمایندوں کی حیثیت سے یہ تقاضا کرتی ہے اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم لفظ جنگ کو کسی بھی معنی اور استعارے میں مسترد کر دیں اور مذاہب کے ذریعے کسی بھی انتہا پسندی سے نمٹا جائے۔
اس کانفرنس میں دنیا بھر سے تمام مذاہب کے 700 نمایندے شریک ہوئے۔ اپنے دورے کے آخری روز پوپ نے ابوظہبی اسٹیڈیم میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب افراد سے خطاب کیا جس میں چار ہزار مسلمان بھی تھے۔ یاد رہے کہ جزیرہ نما عرب میں دس لاکھ مسیحی بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔
اس دورے میں ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید نے متحدہ عرب امارات میں تعمیر ہونے والے پہلے چرچ کی زمین کی دستاویزات پوپ فرانسس کو تحفے کے طور پر پیش کیں۔ جواب میں پوپ فرانسس نے ولی عہد کو مصر کے سلطان ملک الکمال اور سینٹ فرانسس کے درمیان 1219ء میں ہوئی ملاقات کا فریم کیا ہوا تمغہ پیش کیا۔
ایک طرف ابو ظہبی کی بین الاقوامی کانفرنس میں پوپ فرانسس اور احمد الطیب نے دستاویزات کا باہمی تبادلہ کرتے ہوئے عہد کیا کہ جامع الازہر اور ویٹی کن انتہا پسندی کے خلاف ملکر لڑیں گے۔ کیونکہ دین کے نام پر تشدد کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ مذہبی شدت پسندی مسلم دنیا میں تو ناسور بن ہی چکی، مغرب میں بھی اس حوالے سے صورتحال کس قدر گھمبیر ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ برطانیہ میں ہر تیسرا برطانوی شہری اسلام اور برطانوی اقدار کو ایک دوسرے سے متصادم سمجھتے ہیں۔
برطانوی میڈیا کے مطابق38 فیصد برطانوی عوام سمجھتے ہیں کہ اسلام اور برطانوی اقدار ایک دوسرے سے متصادم ہیں اسی طرح فرانس اور جرمنی میں کیے گئے پولز کے مطابق وہاں کا ہر دوسرا شہری اس بات پر معترض ہوگا کہ اس کا کوئی رشتے دار یا دوست کسی مسلمان سے شادی کرے، جب کہ برطانیہ کی28 فیصد آبادی اس بات سے مطمئن نہیں ہو گی کہ ان کا کوئی دوست یا رشتے دار کسی مسلمان سے شادی کرے۔
صرف جرمنی میں پچھلے 60 سال سے50 لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں جن میں اکثریت ترکوں کی ہے۔ جب کہ فرانس میں تو یہ تعداد ایک کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔ جن کی اکثر یت الجزائری، مراکشی، تیونسی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ہے برطانوی ،فرانسی،جرمن آبادی کی اتنی بڑی تعداد کی نفسیاتی کیفیت، اپنے ارد گرد رہنے والے اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں سے بیزاریت نفرت کی وجہ قوم پرستی جس کو مذہبی جنونیت کا تڑکا بھی لگا ہوا ہے۔
اس کے علاوہ وہاں رہنے والے مسلمانوں کی کثیر تعداد اور اُن کی بڑھتی ہوئی افزائش نسل نے مقامی یورپین آبادی کو خوفزدہ کر دیا ہے کہ کہیں مسلمان چند دہائیوں کے بعد اُن کے ملکوں کے اقتدار پر قبضہ نہ کر لیں۔جب کہ مقامی آبادی کی شرح پیدائش صفر یا مائنس ہوکر رہ گئی ہے۔
مسلم دنیا سے ابھرنے والی شدت پسندی جسے امریکی سامراج نے سوویت یونین کے خاتمے کے لیے کاشت کیا کہ اُس نے مغرب کو بھی اس طرح اپنی لپیٹ میں لیا کہ اب اُ س کا کئی نسلوں تک مداوا ممکن نہیں۔ شدت پسندی کے اس ہتھیار نے پہلے سوویت یونین کا خاتمہ کیا تو اب اسی ہتھیار سے یورپ سے مسلمانوں کا انخلاء ممکن بنایا جائے گا۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ یورپ میں مسلمانوں اور اُن کی مسجدوں پر حملے کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ حالانکہ وہاں کی حکومتیں کوششیں کر رہی ہیں کہ وہ ان منفی عناصر کو کنٹرول کریں لیکن ان کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ حتیٰ کہ اب تو ان کی جماعتیں بھی بن گئی ہیں جس کو عوام میں پذیرائی حاصل ہو گئی ہے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی ہو یا ہالینڈ مسلمانوں پر حملے بڑھتے جا رہے ہیں جس میں کئی افراد مارے جا چکے ہیں۔
یہ نفرت اور تعصب وہاں کی صرف لوئر مڈل کلاس میں نہیں بلکہ وہاں کی اپر رولنگ کلاس میں بھی وباکی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔ سڑکوں پر روک کر مسلمان خواتین کا حجاب اتروانا عام ہے۔
یورپ (مغرب) میں آباد مسلمانوں کو اسی طرح کے آئینی حقوق حاصل ہیں جو وہاں کے گوروں کو حاصل ہیں۔ عبادت گاہیں مدرسے قائم ہیں' تبلیغ ہو رہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ مسلمانوں کے لیے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں' مسلم دنیا کو سب سے زیادہ نقصان شدت پسندی نے پہنچایا ہے' اب مسلم دنیا میں اس کا احساس پیدا ہو گیا ہے' یہی وجہ ہے کہ اب علماء کرام اور مذہبی اسکالرز شدت پسندی کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
٭ایرانی انقلاب2020-21 میں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گا ۔ اس وقت پتہ چلے گا کہ ایرانی انقلاب کا مستقبل کیا ہے۔
سیل فون:0346-4527997
پوپ فرانسس نے حال ہی میں ابوظہبی کا دورہ کیا ہے ۔ ان کے دورے کا مقصد مذاہب کے درمیان تصادم اور مذہب کے نام پر دہشتگردی کو روکنا تھا۔ پوپ فرانسس کا دورہ 800 سال بعد جزیرہ نما عرب کا دورہ ہے۔ ان سے پہلے جن پوپ نے اس علاقے کا دورہ کیا وہ موجودہ پوپ کے ہم نام تھے یعنی سینٹ فرانسس جنہوں نے تیرھویں صدی میں مصر کے سلطان سے ملاقات کی۔
حیرت ہے کہ اس درمیان 800 سال کے طویل عرصے میں کسی بھی پوپ نے اس علاقے کا دورہ نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ صلیبی جنگیں اور سلطنت عثمانیہ کی یورپ پر مسلسل یلغار تھی۔
رومن امپائر کے خاتمے اور عیسائیوں پر مسلمانوں کی طویل بالا دستی نے دونوں طرف نفرت تعصب کی ایک ایسی آہنی دیوار قائم کی جس کی800 سال بعد خاتمے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس کے لیے ابوظہبی میں بین المذاہب کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مسلمانوں کی نمایندگی جامعہ الازہر قاہرہ کے سربراہ شیخ احمد الطیب نے کی، تو عیسائی دنیا کی نمایندگی پوپ فرانسس نے کی جس میں عہد کیا گیا کہ ہمیں ساتھ مل جل کر مستقبل کی تعمیرکرنا ہوگی یا پھر ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔
اب وقت آگیا ہے کہ مذاہب زیادہ حوصلے اور دلیری کے ساتھ اپنا فعال کردار ادا کریں۔ اس بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پوپ نے کہا کہ انسانی برادری ہم سے دنیا کے مذاہب کے نمایندوں کی حیثیت سے یہ تقاضا کرتی ہے اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم لفظ جنگ کو کسی بھی معنی اور استعارے میں مسترد کر دیں اور مذاہب کے ذریعے کسی بھی انتہا پسندی سے نمٹا جائے۔
اس کانفرنس میں دنیا بھر سے تمام مذاہب کے 700 نمایندے شریک ہوئے۔ اپنے دورے کے آخری روز پوپ نے ابوظہبی اسٹیڈیم میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب افراد سے خطاب کیا جس میں چار ہزار مسلمان بھی تھے۔ یاد رہے کہ جزیرہ نما عرب میں دس لاکھ مسیحی بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔
اس دورے میں ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید نے متحدہ عرب امارات میں تعمیر ہونے والے پہلے چرچ کی زمین کی دستاویزات پوپ فرانسس کو تحفے کے طور پر پیش کیں۔ جواب میں پوپ فرانسس نے ولی عہد کو مصر کے سلطان ملک الکمال اور سینٹ فرانسس کے درمیان 1219ء میں ہوئی ملاقات کا فریم کیا ہوا تمغہ پیش کیا۔
ایک طرف ابو ظہبی کی بین الاقوامی کانفرنس میں پوپ فرانسس اور احمد الطیب نے دستاویزات کا باہمی تبادلہ کرتے ہوئے عہد کیا کہ جامع الازہر اور ویٹی کن انتہا پسندی کے خلاف ملکر لڑیں گے۔ کیونکہ دین کے نام پر تشدد کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ مذہبی شدت پسندی مسلم دنیا میں تو ناسور بن ہی چکی، مغرب میں بھی اس حوالے سے صورتحال کس قدر گھمبیر ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ برطانیہ میں ہر تیسرا برطانوی شہری اسلام اور برطانوی اقدار کو ایک دوسرے سے متصادم سمجھتے ہیں۔
برطانوی میڈیا کے مطابق38 فیصد برطانوی عوام سمجھتے ہیں کہ اسلام اور برطانوی اقدار ایک دوسرے سے متصادم ہیں اسی طرح فرانس اور جرمنی میں کیے گئے پولز کے مطابق وہاں کا ہر دوسرا شہری اس بات پر معترض ہوگا کہ اس کا کوئی رشتے دار یا دوست کسی مسلمان سے شادی کرے، جب کہ برطانیہ کی28 فیصد آبادی اس بات سے مطمئن نہیں ہو گی کہ ان کا کوئی دوست یا رشتے دار کسی مسلمان سے شادی کرے۔
صرف جرمنی میں پچھلے 60 سال سے50 لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں جن میں اکثریت ترکوں کی ہے۔ جب کہ فرانس میں تو یہ تعداد ایک کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔ جن کی اکثر یت الجزائری، مراکشی، تیونسی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ہے برطانوی ،فرانسی،جرمن آبادی کی اتنی بڑی تعداد کی نفسیاتی کیفیت، اپنے ارد گرد رہنے والے اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں سے بیزاریت نفرت کی وجہ قوم پرستی جس کو مذہبی جنونیت کا تڑکا بھی لگا ہوا ہے۔
اس کے علاوہ وہاں رہنے والے مسلمانوں کی کثیر تعداد اور اُن کی بڑھتی ہوئی افزائش نسل نے مقامی یورپین آبادی کو خوفزدہ کر دیا ہے کہ کہیں مسلمان چند دہائیوں کے بعد اُن کے ملکوں کے اقتدار پر قبضہ نہ کر لیں۔جب کہ مقامی آبادی کی شرح پیدائش صفر یا مائنس ہوکر رہ گئی ہے۔
مسلم دنیا سے ابھرنے والی شدت پسندی جسے امریکی سامراج نے سوویت یونین کے خاتمے کے لیے کاشت کیا کہ اُس نے مغرب کو بھی اس طرح اپنی لپیٹ میں لیا کہ اب اُ س کا کئی نسلوں تک مداوا ممکن نہیں۔ شدت پسندی کے اس ہتھیار نے پہلے سوویت یونین کا خاتمہ کیا تو اب اسی ہتھیار سے یورپ سے مسلمانوں کا انخلاء ممکن بنایا جائے گا۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ یورپ میں مسلمانوں اور اُن کی مسجدوں پر حملے کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ حالانکہ وہاں کی حکومتیں کوششیں کر رہی ہیں کہ وہ ان منفی عناصر کو کنٹرول کریں لیکن ان کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ حتیٰ کہ اب تو ان کی جماعتیں بھی بن گئی ہیں جس کو عوام میں پذیرائی حاصل ہو گئی ہے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی ہو یا ہالینڈ مسلمانوں پر حملے بڑھتے جا رہے ہیں جس میں کئی افراد مارے جا چکے ہیں۔
یہ نفرت اور تعصب وہاں کی صرف لوئر مڈل کلاس میں نہیں بلکہ وہاں کی اپر رولنگ کلاس میں بھی وباکی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔ سڑکوں پر روک کر مسلمان خواتین کا حجاب اتروانا عام ہے۔
یورپ (مغرب) میں آباد مسلمانوں کو اسی طرح کے آئینی حقوق حاصل ہیں جو وہاں کے گوروں کو حاصل ہیں۔ عبادت گاہیں مدرسے قائم ہیں' تبلیغ ہو رہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ مسلمانوں کے لیے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں' مسلم دنیا کو سب سے زیادہ نقصان شدت پسندی نے پہنچایا ہے' اب مسلم دنیا میں اس کا احساس پیدا ہو گیا ہے' یہی وجہ ہے کہ اب علماء کرام اور مذہبی اسکالرز شدت پسندی کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
٭ایرانی انقلاب2020-21 میں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گا ۔ اس وقت پتہ چلے گا کہ ایرانی انقلاب کا مستقبل کیا ہے۔
سیل فون:0346-4527997