افغانستان سے امریکی انخلا انڈیا کیا سوچ رہا ہے
جونہی امریکا نے افغانستان سے انخلا کی بات کہی، نئی دہلی میں خطرے کی گھنٹیاں بج اُٹھیں۔
افغانستان سے عنقریب امریکی افواج کے انخلا کا اعلان گونج رہا ہے۔دُنیا کے دو مختلف ممالک میں افغان طالبان، سابق افغان صدر حامد کرزئی، افغان حکومت کے نمایندگان اور امریکی صدر کے خصوصی ایلچی کے مابین چھ روزہ طویل مذاکرات بھی ہو چکے ہیں۔
فروری2019ء کے پہلے ہفتے ان کا اختتام ہُوا ہے۔نقطہ تھا:امریکی فوجوں کے افغانستان سے نکلنے کے بعد معاملات کی شکل کیا ہو گی؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فی الحال مبینہ انخلا کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دے رہے۔بھارت کو مگر پسّو پڑ رہے ہیں کہ اگر افغانستان سے امریکی فوجیں نکل جاتی ہیں تو اُس کا کیا بنے گا؟انڈین اسٹیبلشمنٹ میں بڑی تشویش پائی جا رہی ہے۔
7فروری2019ء کو افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر، امر سنہا، نے ممتاز بھارتی صحافی، سوہاسنی حیدر، کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا ہے :''افغان طالبان اس وقت پاکستان کی بات مان رہے ہیں اور بھارت سے بہت دُور ہیں، بھارت اس وقت طالبان سے رابطے کی کوشش بھی کرے تو اُس کی دال نہیں گلے گی۔''بھارتی پریشانی صاف ظاہر ہو رہی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ جونہی امریکا نے افغانستان سے انخلا کی بات کہی، نئی دہلی میں خطرے کی گھنٹیاں بج اُٹھیں۔ بھارت افغان طالبان اور امریکا کے درمیان کسی بھی قسم کے مکالمے کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ اُس نے طالبان کو ہمیشہ ''دہشت گرد'' کے نام سے پکارا ہے۔ مگر جب سے امریکی نمایندہ خصوصی، زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے نمایندگان کے مابین باقاعدہ مذاکرات کا آغاز ہُوا ہے، بھارت کے مزاج میں بھی تیزی سے تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے۔
حتیٰ کہ بھارتی آرمی چیف، جنرل بپن راوت، نے 9جنوری2019ء کو نئی دہلی میں Raisina Dialogue کے ایک سیشن سے خطاب کرتے ہُوئے یوں کہا:''اگر افغانستان میں امن اور استحکام آتا ہے تو طالبان کے ساتھ مکالمہ ہونا چاہیے۔ یہ ہمارے لیے بھی سود مند ہے، خطے کے مفاد میں بھی اور پاکستان کے لیے بھی فائدہ بخش ہے۔'' مشہور بھارتی اخبار ''دی ہندو'' میں شایع ہونے والا ایک حالیہ مضمون تازہ بھارتی سوچ کو عیاں کرتاہے۔ یہ آرٹیکل 14جنوری2019ء کو A way out of the morass : on the US plan to pull out of Afghanistan کے زیر عنوان شایع ہُوا ہے ۔
اِسے بھارت کے سابق نائب صدر حامد انصاری اور اقوامِ متحدہ میں سابق بھارتی سفیر سی آر گاڑھے کھن نے مشترکہ طور پر لکھا ہے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ''افغانستان اگر غیر جانبدارممالک میں خود کو شامل کرلیتا تو اُس کے بہت سے مسائل بھی حل ہو سکتے تھے اور وہ غیر ملکی مداخلتوں سے بھی محفوظ رہ سکتا تھا۔'' بھارت نے ہمیشہ افغان طالبان کی مخالفت کی ہے اور افغانستان میں کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے لیکن اب جب کہ افغان طالبان بالا دست اور غالب نظر آرہے ہیں، بھارت کے لیے پریشانی یہ ہے کہ کل کلاں یہی طالبان اگر افغانستان کے کامل حکمران بن گئے تو ہمارا کیا بنے گا؟
دونوں مذکورہ بھارتی شخصیات نے اپنے مشترکہ آرٹیکل میں تسلیم کیا ہے کہ رواں لمحوں میں افغان طالبان کو افغانستان کے 50 فیصد سے زائد حصے پر غلبہ اور بالادستی حاصل ہے اور یہ کہ وہ مزید طاقتور ہوتے جارہے ہیں اور یہ کہ اُن کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ امریکا خود اُن سے براہِ راست مذاکرات کررہا ہے۔ اور یہ بھی کہ آنے والے مہینوں اور برسوں میں طالبان افغانستان میں حکومتیں بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
ایسے میں طالبان سے بھارت کیسے اور کیونکر ہاتھ ملاسکتا ہے؟ کسی بھی حکومت کو اگر بدلتے عالمی مناظر میں اپنی خارجہ پالیسیوں کے بارے میںکوئی خیال ہے تو وہ ایسا ہی سوچے گا جیسا کہ بھارت کے مذکورہ بالا دونوں اہم افراد سوچ رہے ہیں۔ یہ افراد اگرچہ حکومت میں تو نہیں ہیں لیکن حکومتی اداروں پر اثر انداز ہونے کی اب بھی صلاحیت رکھتے ہیں،اس لیے اُن کے لکھے گئے الفاظ کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔
سابق بھارتی نائب صدرحامد انصاری اور سی آر گاڑھے کھن نے اپنے مذکورہ بالا آرٹیکل میں لکھا ہے :'' بھارت اب تک بوجوہ افغان طالبان سے مکالمہ کرنے اور اُن سے تعلقات قائم کرنے سے گریز پا رہا ہے۔ وجہ اس کی بھارتی حکومتوں کا افغان' منتخب 'حکمرانوں سے قریبی رشتہ رہا ہے۔ اگر وہ طالبان سے کوئی بھی ربط ضبط رکھتے تو یقینا افغان صدور (حامدکرزئی اور اشرف غنی) بھارت سے ایک فاصلے پر رہتے۔ بھارت کو اپنے مفادات کی نگرانی کرنی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو کیا وہ بھارت کے لیے سیکیورٹی خطرہ بن جائیں گے؟
اگر ایسا ہُوا تو چونکہ ہمارا (بھارت کا) طالبان قیادت سے کبھی کوئی براہِ راست رابطہ نہیں رہا ہے، اس لیے ایسی صورت میں ہم لاحق خطرات کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔'' ایسی صورت میں دونوں مذکورہ بھارتی اصحاب نے اپنی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ''افغان طالبان سے کسی نہ کسی شکل میں بھارت کو رابطہ رکھنا چاہیے ۔'' وہ اس امر پر زور دیتے ہُوئے لکھتے ہیں کہ ''ایک وقت وہ تھا جب ایران اور مقتدر طالبان میں سخت مخاصمت پائی جاتی تھی لیکن اب وہی ایران اگر طالبان سے تعلقات استوا ر کر سکتاہے تو بھارت کیوں نہیں؟ بھارت کو طالبان سے تعلقات فوری قائم کرنے چاہئیں، خواہ بھارت کوایران کی ہی مدد کیوں نہ حاصل کرنی پڑے۔ ایسا کرتے ہُوئے اس بات کا امکان ہے کہ امریکا ہم سے ناراض ہو جائے لیکن امریکا بھی تو ہر جگہ بھارتی مفادات کا تحفظ نہیں کرتا۔''
یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی بھارتی ذمے دار افغان امور کا ذکر کرے اور پاکستان کا ذکر گول کر جائے ؛چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ آرٹیکل میں ان دونوں اہم بھارتی شخصیات نے پاکستان کا ذکر بھی کیا ہے۔لکھتے ہیں:''افغانستان کے امن کی پائیداری اور افغان عوام کو امن و سکون سے رہنے دینے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ افغانستان غیر جانبداری کی راہ پر گامزن رہے۔ کوئی بھی بیرونی قوت اس میں مداخلت نہ کرے۔ اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی اعانت لی جا سکتی ہے۔
ہمارا خیال یہ ہے کہ اس پیش منظر میں پاکستان اہم ہوگا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ افغانستان میں بھارتی امدادی پروگروموں پر پاکستان معترض کیوں ہے(اسے ہی شاید تجاہلِ عارفانہ کہا جاتا ہے)افغانستان کو غیر جانبدار رکھنے کے لیے بھارت، چین کی مدد لے سکتا ہے۔ پہلے بھی تو اپریل 2018ء میں چین میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر ژی چنگ پنگ کے درمیان جو مذاکرات ہُوئے تھے، اُن میں بھی یہ معاملہ اُٹھایا گیا تھا۔
اگر افغانستان کی غیر جانبداری راہ پکڑ لیتی ہے تو چین کی وجہ سے پاکستان کو بھی اس سلسلے میں کوئی اعتراض نہ ہو گا کہ1988ء میں بھی افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے کسی معاملے میں عدم مداخلت سے کام لیں گے۔''واقعہ یہ ہے کہ بھارت کو دن رات یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلااور افغان طالبان کی مزید گرفت مضبوط ہونے کے بعد اُس کا کیا بنے گا؟ افغانستان میں بیٹھ کر وہ پاکستان اور چین کے خلاف جو شرارتیں اور سازشیں کرتا رہا ہے،ان کا انجام کیا ہو گا؟
بھارتی اخبار ''دی اکنامک ٹائمز'' میں سابق بھارتی انٹیلی جنس آفیسر، اوی ناش مہاننے، لکھتا ہے : ''افغانستان میں امریکی فوجوں کی کمی یا انخلا کا مطلب افغانستان میں بھارتی اثرو رسوخ کا زوال ہے۔پاکستان کو اِس سے براہِ راست فائدے ملیں گے۔''
امریکی ٹی وی ''سی این بی سی نیوز'' کو انٹرویو دیتے ہُوئے مقبوضہ کشمیر کے سابق پولیس سربراہ، کے راجندر کمار،نے کہا ہے: ''افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا سے (مقبوضہ) کشمیر پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ کشمیری علیحدگی پسندوں کے حوصلے بڑھیں گے۔ بھارت کو طالبان اور افغانستان کے بارے میں جوہری تبدیلیاں لانا پڑیں گی۔''
حیرت خیز بات یہ ہے کہ دو نامور بھارتی تھنک ٹینکس ( ''آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن'' اور '' تکشا شیلا انسٹی ٹیوشن'')کے دونوں سربراہوں( ہرش پنت اور نتین پائی) نے بھی بیک زبان یہی کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا سے (مقبوضہ) کشمیر میں علیحدگی پسند تحریک کو مزید تقویت ملے گی۔ صاف عیاں ہو رہا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے نکلنے سے بھارتی اعصاب پر دباؤ بڑھ جائے گا۔
فروری2019ء کے پہلے ہفتے ان کا اختتام ہُوا ہے۔نقطہ تھا:امریکی فوجوں کے افغانستان سے نکلنے کے بعد معاملات کی شکل کیا ہو گی؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فی الحال مبینہ انخلا کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دے رہے۔بھارت کو مگر پسّو پڑ رہے ہیں کہ اگر افغانستان سے امریکی فوجیں نکل جاتی ہیں تو اُس کا کیا بنے گا؟انڈین اسٹیبلشمنٹ میں بڑی تشویش پائی جا رہی ہے۔
7فروری2019ء کو افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر، امر سنہا، نے ممتاز بھارتی صحافی، سوہاسنی حیدر، کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا ہے :''افغان طالبان اس وقت پاکستان کی بات مان رہے ہیں اور بھارت سے بہت دُور ہیں، بھارت اس وقت طالبان سے رابطے کی کوشش بھی کرے تو اُس کی دال نہیں گلے گی۔''بھارتی پریشانی صاف ظاہر ہو رہی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ جونہی امریکا نے افغانستان سے انخلا کی بات کہی، نئی دہلی میں خطرے کی گھنٹیاں بج اُٹھیں۔ بھارت افغان طالبان اور امریکا کے درمیان کسی بھی قسم کے مکالمے کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ اُس نے طالبان کو ہمیشہ ''دہشت گرد'' کے نام سے پکارا ہے۔ مگر جب سے امریکی نمایندہ خصوصی، زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے نمایندگان کے مابین باقاعدہ مذاکرات کا آغاز ہُوا ہے، بھارت کے مزاج میں بھی تیزی سے تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے۔
حتیٰ کہ بھارتی آرمی چیف، جنرل بپن راوت، نے 9جنوری2019ء کو نئی دہلی میں Raisina Dialogue کے ایک سیشن سے خطاب کرتے ہُوئے یوں کہا:''اگر افغانستان میں امن اور استحکام آتا ہے تو طالبان کے ساتھ مکالمہ ہونا چاہیے۔ یہ ہمارے لیے بھی سود مند ہے، خطے کے مفاد میں بھی اور پاکستان کے لیے بھی فائدہ بخش ہے۔'' مشہور بھارتی اخبار ''دی ہندو'' میں شایع ہونے والا ایک حالیہ مضمون تازہ بھارتی سوچ کو عیاں کرتاہے۔ یہ آرٹیکل 14جنوری2019ء کو A way out of the morass : on the US plan to pull out of Afghanistan کے زیر عنوان شایع ہُوا ہے ۔
اِسے بھارت کے سابق نائب صدر حامد انصاری اور اقوامِ متحدہ میں سابق بھارتی سفیر سی آر گاڑھے کھن نے مشترکہ طور پر لکھا ہے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ''افغانستان اگر غیر جانبدارممالک میں خود کو شامل کرلیتا تو اُس کے بہت سے مسائل بھی حل ہو سکتے تھے اور وہ غیر ملکی مداخلتوں سے بھی محفوظ رہ سکتا تھا۔'' بھارت نے ہمیشہ افغان طالبان کی مخالفت کی ہے اور افغانستان میں کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے لیکن اب جب کہ افغان طالبان بالا دست اور غالب نظر آرہے ہیں، بھارت کے لیے پریشانی یہ ہے کہ کل کلاں یہی طالبان اگر افغانستان کے کامل حکمران بن گئے تو ہمارا کیا بنے گا؟
دونوں مذکورہ بھارتی شخصیات نے اپنے مشترکہ آرٹیکل میں تسلیم کیا ہے کہ رواں لمحوں میں افغان طالبان کو افغانستان کے 50 فیصد سے زائد حصے پر غلبہ اور بالادستی حاصل ہے اور یہ کہ وہ مزید طاقتور ہوتے جارہے ہیں اور یہ کہ اُن کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ امریکا خود اُن سے براہِ راست مذاکرات کررہا ہے۔ اور یہ بھی کہ آنے والے مہینوں اور برسوں میں طالبان افغانستان میں حکومتیں بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
ایسے میں طالبان سے بھارت کیسے اور کیونکر ہاتھ ملاسکتا ہے؟ کسی بھی حکومت کو اگر بدلتے عالمی مناظر میں اپنی خارجہ پالیسیوں کے بارے میںکوئی خیال ہے تو وہ ایسا ہی سوچے گا جیسا کہ بھارت کے مذکورہ بالا دونوں اہم افراد سوچ رہے ہیں۔ یہ افراد اگرچہ حکومت میں تو نہیں ہیں لیکن حکومتی اداروں پر اثر انداز ہونے کی اب بھی صلاحیت رکھتے ہیں،اس لیے اُن کے لکھے گئے الفاظ کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔
سابق بھارتی نائب صدرحامد انصاری اور سی آر گاڑھے کھن نے اپنے مذکورہ بالا آرٹیکل میں لکھا ہے :'' بھارت اب تک بوجوہ افغان طالبان سے مکالمہ کرنے اور اُن سے تعلقات قائم کرنے سے گریز پا رہا ہے۔ وجہ اس کی بھارتی حکومتوں کا افغان' منتخب 'حکمرانوں سے قریبی رشتہ رہا ہے۔ اگر وہ طالبان سے کوئی بھی ربط ضبط رکھتے تو یقینا افغان صدور (حامدکرزئی اور اشرف غنی) بھارت سے ایک فاصلے پر رہتے۔ بھارت کو اپنے مفادات کی نگرانی کرنی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو کیا وہ بھارت کے لیے سیکیورٹی خطرہ بن جائیں گے؟
اگر ایسا ہُوا تو چونکہ ہمارا (بھارت کا) طالبان قیادت سے کبھی کوئی براہِ راست رابطہ نہیں رہا ہے، اس لیے ایسی صورت میں ہم لاحق خطرات کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔'' ایسی صورت میں دونوں مذکورہ بھارتی اصحاب نے اپنی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ''افغان طالبان سے کسی نہ کسی شکل میں بھارت کو رابطہ رکھنا چاہیے ۔'' وہ اس امر پر زور دیتے ہُوئے لکھتے ہیں کہ ''ایک وقت وہ تھا جب ایران اور مقتدر طالبان میں سخت مخاصمت پائی جاتی تھی لیکن اب وہی ایران اگر طالبان سے تعلقات استوا ر کر سکتاہے تو بھارت کیوں نہیں؟ بھارت کو طالبان سے تعلقات فوری قائم کرنے چاہئیں، خواہ بھارت کوایران کی ہی مدد کیوں نہ حاصل کرنی پڑے۔ ایسا کرتے ہُوئے اس بات کا امکان ہے کہ امریکا ہم سے ناراض ہو جائے لیکن امریکا بھی تو ہر جگہ بھارتی مفادات کا تحفظ نہیں کرتا۔''
یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی بھارتی ذمے دار افغان امور کا ذکر کرے اور پاکستان کا ذکر گول کر جائے ؛چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ آرٹیکل میں ان دونوں اہم بھارتی شخصیات نے پاکستان کا ذکر بھی کیا ہے۔لکھتے ہیں:''افغانستان کے امن کی پائیداری اور افغان عوام کو امن و سکون سے رہنے دینے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ افغانستان غیر جانبداری کی راہ پر گامزن رہے۔ کوئی بھی بیرونی قوت اس میں مداخلت نہ کرے۔ اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی اعانت لی جا سکتی ہے۔
ہمارا خیال یہ ہے کہ اس پیش منظر میں پاکستان اہم ہوگا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ افغانستان میں بھارتی امدادی پروگروموں پر پاکستان معترض کیوں ہے(اسے ہی شاید تجاہلِ عارفانہ کہا جاتا ہے)افغانستان کو غیر جانبدار رکھنے کے لیے بھارت، چین کی مدد لے سکتا ہے۔ پہلے بھی تو اپریل 2018ء میں چین میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر ژی چنگ پنگ کے درمیان جو مذاکرات ہُوئے تھے، اُن میں بھی یہ معاملہ اُٹھایا گیا تھا۔
اگر افغانستان کی غیر جانبداری راہ پکڑ لیتی ہے تو چین کی وجہ سے پاکستان کو بھی اس سلسلے میں کوئی اعتراض نہ ہو گا کہ1988ء میں بھی افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے کسی معاملے میں عدم مداخلت سے کام لیں گے۔''واقعہ یہ ہے کہ بھارت کو دن رات یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلااور افغان طالبان کی مزید گرفت مضبوط ہونے کے بعد اُس کا کیا بنے گا؟ افغانستان میں بیٹھ کر وہ پاکستان اور چین کے خلاف جو شرارتیں اور سازشیں کرتا رہا ہے،ان کا انجام کیا ہو گا؟
بھارتی اخبار ''دی اکنامک ٹائمز'' میں سابق بھارتی انٹیلی جنس آفیسر، اوی ناش مہاننے، لکھتا ہے : ''افغانستان میں امریکی فوجوں کی کمی یا انخلا کا مطلب افغانستان میں بھارتی اثرو رسوخ کا زوال ہے۔پاکستان کو اِس سے براہِ راست فائدے ملیں گے۔''
امریکی ٹی وی ''سی این بی سی نیوز'' کو انٹرویو دیتے ہُوئے مقبوضہ کشمیر کے سابق پولیس سربراہ، کے راجندر کمار،نے کہا ہے: ''افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا سے (مقبوضہ) کشمیر پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ کشمیری علیحدگی پسندوں کے حوصلے بڑھیں گے۔ بھارت کو طالبان اور افغانستان کے بارے میں جوہری تبدیلیاں لانا پڑیں گی۔''
حیرت خیز بات یہ ہے کہ دو نامور بھارتی تھنک ٹینکس ( ''آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن'' اور '' تکشا شیلا انسٹی ٹیوشن'')کے دونوں سربراہوں( ہرش پنت اور نتین پائی) نے بھی بیک زبان یہی کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا سے (مقبوضہ) کشمیر میں علیحدگی پسند تحریک کو مزید تقویت ملے گی۔ صاف عیاں ہو رہا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے نکلنے سے بھارتی اعصاب پر دباؤ بڑھ جائے گا۔