پیپلز پارٹی کا صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ

مسلم لیگ ن کے امیدوار کے خلاف متفقہ امیدوار لانے کا مشن پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔

جمہوریت میں ہر سیاسی جماعت کو اپنا لائحہ عمل اختیار کرنے کا حق ہوتا ہے لیکن صدر کے انتخاب کا بائیکاٹ کرنا کچھ مناسب نہیں لگتا۔ فوٹو: ظفر اسلم/ ایکسپریس

پاکستان کی جمہوری تاریخ کے ایک انتہائی اہم موقع پر جب ملک میں صدرمملکت کے عہدے کا انتخاب ہونے جا رہا ہے' پیپلز پارٹی نے اس انتخاب کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ اس بائیکاٹ کا اعلان پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوارمیاں رضا ربانی نے جمعے کو کیا۔ اس بائیکاٹ کی بنیادی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کے رہنما راجہ ظفر الحق کی درخواست پر صدارتی انتخابات کی تاریخ کو آگے کر دیا اور اس میں پیپلز پارٹی کا موقف سنا ہی نہیں گیا۔ دوسرا نکتہ یا اعتراض یہ ہے کہ الیکشن مہم کے لیے انتہائی کم وقت دیا گیا' جس میں صدارتی انتخاب کے لیے مہم چلانا ممکن نہیں ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق نے بھی پیپلز پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یوں ایک اچھے جمہوری عمل کے آغاز میں ہی بدمزگی کا عنصر داخل ہو گیا ہے۔

گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے صدارتی امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کی۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار ممنون حسین کے کاغذات منظور کر لیے گئے' ان کے کورنگ امیدوار اقبال ظفر جھگڑا کے کاغذات بھی منظور ہو گئے' تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کے کاغذات بھی منظور کر لیے گئے ہیں۔ میڈیا کے مطابق پیپلز پارٹی کے امیدوار رضا ربانی کا نام پکارا گیا لیکن وہ نہیں آئے۔ اس وقت وہ صدارتی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر رہے تھے۔ تحریک انصاف کے امیدوار وجیہہ الدین احمد نے کہا ہے کہ الیکشن کا بائیکاٹ مناسب نہیں ہے۔ اب میدان میں مسلم لیگ ن کے ممنون حسین اور تحریک انصاف کے وجیہہ الدین احمد رہ گئے ہیں اور ان دونوں کے درمیان مقابلہ ہو گا۔ جمہوری عمل کے اس اہم موڑ پر پیپلز پارٹی کی جانب سے صدارتی الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ یقینی طور پرملک میں سیاسی ہلچل کا سبب بنے گا۔ پچھلے دو چار روز کی سرگرمیوں سے ایسے اشارے مل رہے تھے کہ شاید بائیکاٹ جیسی کوئی صورتحال پیدا نہ ہو جائے۔


پیپلز پارٹی نے کوشش کی کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کر لے' اے این پی اور مسلم لیگ ق نے پیپلز پارٹی کی حمایت کی لیکن ایم کیو ایم' جے یو آئی اور تحریک انصاف نے اپنی الگ لائن اختیار کر لی۔ یوں مسلم لیگ ن کے امیدوار کے خلاف متفقہ امیدوار لانے کا مشن پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ ایم کیو ایم اور جے یو آئی شاید مسلم لیگ ن کے امید وار کو ووٹ دیں۔ جمہوریت میں ہر سیاسی جماعت کو اپنا لائحہ عمل اختیار کرنے کا حق ہوتا ہے لیکن صدر کے انتخاب کا بائیکاٹ کرنا کچھ مناسب نہیں لگتا۔ پیپلز پارٹی ماضی میں بھی ایک عام انتخابات کا بائیکاٹ کر چکی ہے' بعد میں اس کی قیادت نے اس فیصلے کو غلطی تسلیم کیا تھا' کہیں ایسا نہ ہو کہ اس فیصلے پر بھی پشیمانی کا اظہار کرنا پڑے۔ بہر حال پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کی جو وجوہات بیان کی ہیں ان میں بھی وزن موجود ہے۔ زیادہ بہتر ہوتا اگر ان کے تحفظات کو بھی دور کر دیا جاتا تو بدمزگی پیدا نہ ہوتی۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے امیدوار کی کامیابی یقینی ہے۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے وجیہہ الدین احمد کا کردار صرف یہ ہو گا کہ انھوں نے صدارتی انتخاب کے جمہوری عمل کو رواں رکھا۔ جمہوری نظام میں شکوے شکایتیں ہوتی رہتی ہیں' اگر پیپلز پارٹی کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر کچھ تحفظات ہیں تووہ اپیل میں جا سکتی ہے لیکن اس نے یہ قانونی راستہ اختیار کرنے کے بجائے سیاسی راستہ اختیار کیا اور الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ کا صدارتی الیکشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار کی پوزیشن بالکل واضح ہے تاہم پیپلز پارٹی کا بائیکاٹ جمہوریت کے لیے اچھا نہیں ہے۔بہتر راستہ یہی تھا کہ سارے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوتے۔
Load Next Story