سائنس اور ذرایع ابلاغ

انسان ہزاروں سال تک زمین ہی کو کل کائنات سمجھتا رہا اور اسی پس منظر میں عقائد و نظریات کی تشکیل کرتا رہا

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

بیسوی صدی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس صدی نے سائنس، ٹیکنالوجی، مواصلات، طبی سائنس، خلائی سائنس اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں ایسے انقلاب برپا کردیے کہ دنیا یکسر بدل گئی۔ یہ تبدیلیاں نہ صرف اپنے اپنے شعبوں میں ترقی و تعمیر کا باعث بنیں بلکہ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ انسان کا وہ طرز فکر بدل گیا جو ہزاروں سال سے انسانی معاشروں کی پسماندگی کا سبب بنا ہوا تھا۔کراچی یونیورسٹی میں ''موثر ذرایع ابلاغ'' کے عنوان سے ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا تھا جس سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر نے کہا کہ ''موثر ذرایع ابلاغ بہترین سائنس کی ضمانت ہے''۔ عصرحاضر میں ذرایع ابلاغ میں جدت کے باعث ایک سائنس دان کے لیے ابلاغ کے مواقع بڑھ گئے ہیں۔

چاند صدیوں تک انسانی معاشروں میں طرح طرح کی فکری پسماندگی کا باعث بنا رہا، چاند کے دھبوں کو کبھی بڑھیا کا چرخہ کہا گیا، شاعر حضرات چاند میں محبوبہ کا چہرہ دیکھتے اور دکھاتے رہے، چاند سورج اور ستاروں کے بارے میں یہ سمجھا گیا کہ یہ سارے عناصر آسمان سے جڑے ہوئے ہیں لیکن ہزاروں سال پر پھیلے ہوئے یہ سارے تصورات اس وقت ملیا میٹ ہوگئے جب امریکا نے اپنی چاند گاڑی کو چاند پر اتار دیا اور آرم اسٹرانگ نے چاند پر اتر کر چاند کی سرزمین کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، ان پہاڑوں وادیوں کا مشاہدہ کیا جو اہل زمین کو دھبوں کی شکل میں نظر اتے ہیں۔ اب انسان چاند سے بہت آگے مریخ تک پہنچ گیا ہے اور مریخ کی سرزمین کا جائزہ دو حوالوں سے لے رہا ہے ایک یہ کہ کیا مریخ پر زندگی ہے یا کبھی رہی ہے، دوسرے یہ کہ کیا انسان مریخ پر آباد ہوسکتا ہے۔ اب تک بھیجی جانے والی اطلاعات کے مطابق ہوا پانی جیسی ضروریات کی مریخ پر موجودگی کے آثار ملے ہیں جو انسان کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں۔ یہ ذرایع ابلاغ یا مواصلاتی انقلاب کا نتیجہ تھا کہ ہم انسان کو چاند پر اترتا ہوا دیکھتے رہے۔ آج ہم ان ہی مواصلاتی سہولتوں کی وجہ سے مریخ کی سرزمین کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

انسان ہزاروں سال تک زمین ہی کو کل کائنات سمجھتا رہا اور اسی پس منظر میں عقائد و نظریات کی تشکیل کرتا رہا لیکن خلائی سائنس کی ترقی نے انسان کی معلومات میں ناقابل یقین اضافے نے نہ صرف انسان کو ترقی کی نئی نئی راہیں دکھائیں بلکہ اس میں سائنسی طرز فکر کی آبیاری کی۔ پسماندہ ملکوں میں جو خرابیاں جو برائیاں پائی جاتی ہیں خاص طور پر نظریاتی حوالوں سے جو تنگ نظری، تعصب، نفرت دیکھی جاتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ روایتی انداز فکر ہے جو سائنسی طرز فکر سے نہ صرف متضاد ہے بلکہ متصادم بھی ہے۔ انسانی سماج ترقی کے مختلف مراحل سے گزرتا آرہا ہے ان میں ہر دور کے رسم و رواج روایات مختلف رہے ہیں اور سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ رہی ہے کہ ہر دور کے حکمران طبقات نے اپنی حکمرانیوں کو خطرات سے بچانے اور مستحکم رکھنے کے لیے ایسی روایات ایسے نظریات ایجاد کیے جو عوام کو اپنا مطیع و فرمانبردار اور غلام رکھنے کے لیے ضروری تھے۔ مثلاً حکمرانی کو عطیہ ربانی کہہ کر عوام کی نظروں میں اسے اس قدر مقدس بنادیا گیا کہ عوام حکمرانوں کے خلاف ذہن میں کوئی بات لانے سے اس لیے گھبراتے تھے کہ ایسا کرنا خدا کی مرضی میں مداخلت ہوگی۔ اس طرز فکر کی وجہ سے حکمران طبقات کا اقتدار عوامی ناراضگی عوامی بغاوتوں سے بڑی حد تک بچا رہا۔

جاگیردارانہ نظام نے غربت، بھوک، بیماری وغیرہ کو تقدیر سے وابستہ کرکے غریب انسانوں میں اس تصور کو مضبوط کیا کہ جو چیزیں انسان کو خدا کی طرف سے ملتی ہیں انسان اسے قبول کرنے کے علاوہ اور کیا کرسکتا ہے، جیسے جیسے انسانی سماج ترقی کرتا گیا اس میں فکری تبدیلیاں آتی رہیں۔ دنیا میں جمہوریت کے کلچر اور نظام کی وجہ سے انسان کو یہ احساس ہوا کہ حکمرانی عطائے ربانی نہیں جس کے خلاف آواز اٹھانا گناہ ہے بلکہ حکمرانی عوام کی عطا ہے اور عوام اپنی اس عطا کے غلط استعمال پر حکمرانوں سے حق حکمرانی واپس لے سکتے ہیں۔ اس طرز فکر نے عوام کو اپنی طاقت کا احساس دلایا۔


انسان ہزاروں سال تک ان توہمات میں گھرا رہا کہ طوفان، سیلاب، زلزلے، متعدی بیماریاں مثلاً طاعون، ہیضہ، ٹی بی وغیرہ انسان کے گناہوں کی وجہ سے اس پر نازل ہوتی ہیں لیکن یہ انسان کی ذہنی فکری اور سائنسی ترقی کی اعجاز ہے کہ اس نے ان تمام آفات کی نہ صرف وجوہات کا پتہ چلا لیا بلکہ ان آفات سے بڑی حد تک بچاؤ کے طریقے بھی دریافت کرلیے، اکثر خطرناک بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہوگیا۔ ماضی میں طاعون اور ہیضے جیسی بیماریوں کا کوئی علاج نہ تھا، اب ان بیماریوں پر قابو پالیا گیا۔ ٹی بی کے مرض کا بیسویں صدی میں بھی کوئی مکمل علاج موجود نہ تھا، محمد علی جناح کا انتقال اسی مرض کی وجہ سے ہوا۔ پولیو، کینسر جیسی بیماریاں اگرچہ ابھی تک ختم نہیں ہوسکیں لیکن ان کے علاج دریافت کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

اسی طرح آفات سماوی میں طوفان سیلاب زلزلے ایسی آفات ہیں جن کی وجوہات تو دریافت کرلی گئی ہیں لیکن ان پر مکمل طور پر ابھی تک قابو نہیں پایا جاسکا، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان نے ان بلاؤں کے خاتمے کو ابھی تک نہ اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا نہ ان پر قابو پانے میں اتنی دلچسپی لی جتنی اسے لینی چاہیے تھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ زمین سے زیادہ آسمان میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحقیق کائنات انسانی ترجیحات میں سر فہرست آگئی ہیں اور یہ ذہن انسانی کی ایسی فتوحات ہیں جو مستقبل کے انسان کے لیے رہنمائی کا کام انجام دیں گی لیکن اس سے زیادہ اہم مسئلہ آفات سماوی یعنی طوفانوں سیلابوں، زلزلوں پر قابو پانا ہے جن کے سامنے آج بھی انسان بے بس ہے۔ اور یہ بات یقینی ہے کہ اگر ہمارے ماہرین ارض ان آفات پر قابو پانے کو اپنی اولین ترجیح بنالیں تو ان پر قابو پانا ناممکن نہیں۔

طب کے شعبے میں دل کی تبدیلی، گردوں کی تبدیلی، دماغ سمیت بڑے بڑے آپریشن انسان کے وہ کارنامے سائنس کے ایسے کرشمے ہیں جن کا بیسویں صدی کے اوائل میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، آنکھوں کی بیماریوں میں اندھا پن بھی ایک ایسی بیماری تھی جس کا کوئی علاج نہ تھا لیکن اب نہ صرف لینس لگا کر انسانوں کو اندھا ہونے سے بچایا جارہا ہے بلکہ پیدائشی اندھے پن کا علاج بھی دریافت ہورہا ہے، بصارت کی اس بیماری پر قابو پانے میں بصیرت کا بہت بڑا دخل ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ بعض اہم بیماریوں کے علاج موجود ہونے کے باوجود یہ علاج غریب انسانوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ماضی میں غربت مفلسی وغیرہ کو تقدیر کا نام دے کر صبر وشکر کو اپنایا جاتا تھا اب انسان نے یہ شعور حاصل کرلیا ہے کہ غربت بھوک بیماری کا تعلق کسی تقدیر یا قسمت سے نہیں بلکہ ان ظالمانہ نظاموں سے ہے جو خود انسان کے ایجاد کردہ ہیں۔ لیکن پسماندہ ملکوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ آج بھی انسان آفات سماوی بھوک غربت بیماری کو تقدیر کا لکھا اور اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا سمجھتا ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے ورکشاپ میں سائنس اور ذرایع ابلاغ کے موضوع پر گفتگو ہوئی اور وائس چانسلر اور ان کے رفقاء نے فرمایا کہ ذرایع ابلاغ کی ترقی کی وجہ سے سائنسدانوں کے لیے ابلاغ کے مواقع بڑھ گئے ہیں لیکن ان حضرات نے غالباً اس حقیقت پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی کہ ہمارا شعبہ سائنس تحقیق اور دریافت کے حوالے سے انتہائی پسماندگی کا شکار ہے اور اس سائنسی پسماندگی اور سائنسی طرز فکر کی کمی کی وجہ سے آج ہمارے ذرایع ابلاغ پر غربت اور آفات کو انسانوں کے گناہوں کا نتیجہ بتانے والوں کا قبضہ ہے جو ہمارے مستقبل کو اگلی صدی تک یرغمال بناسکتا ہے۔
Load Next Story