خبر کی معروضیت کالم کی دلکشی…
جرنلزم کا یہ درخشندہ ستارہ آج اپنے عروج پر چمکتا ہوا نظر آرہا ہے۔
صحافت (ذرایع ابلاغ عامہ) یا ماس کمیونیکیشن کے دائرہ مطالعہ میں سب ایڈیٹنگ، رپورٹنگ، انٹرویو، اداریہ، فیچر نگاری، اشتہارات کے علاوہ ایک اہم اور حساس شعبہ صحافت ''کالم نگاری'' یا کالم نویسی ہے۔ یہ قدیم فرانسیسی زبان کے لفظ Colomne اور لاطینی زبان کے لفظ Columna سے ماخوذ ہے جس کے لفظی معنی کھمبا یا ستون کے ہیں، اخبار نویسی کے اس فن کی ابتدا بیسویں صدی میں ہوئی۔ اس کی کوئی قدیمی تاریخ نہیں بلکہ اس کا باقاعدہ آغاز جنگ عظیم اول کے آخری اوائل میں ہوا۔ زمانہ قدیم میں کالم کی دریافت سے قبل لوگ اپنے احساسات و جذبات کا اظہار بذریعہ ''ایڈیٹر کی ڈاک'' میں کیا کرتے تھے۔
جرنلزم کا یہ درخشندہ ستارہ آج اپنے عروج پر چمکتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کالم نویس کی ذمے داریوں میں سب سے اہم ذمے داری طاقت کا توازن برقرار رکھوانے کی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں تک مظلوم کی فریاد پہنچانے تک ذمے داری اس کے کندھوں پر ہوتی ہے۔ وہ اپنے پیشہ ورانہ اور مثبت انداز میں معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں پر پردہ چاک کرتا ہے تاکہ ظالم کو مزید ظلم سے روکا جاسکے۔ کالم نویس کے فن کا سفر اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب صحافت مکمل طور پر آزاد ہو۔ اظہار رائے کی آزادی کے لیے ایک منظم و مستحکم پلیٹ فارم موجود ہو۔
سیاسی شعور کی عوام میں بیداری کے علاوہ طبی، دینی، قانونی، ڈائری نما، عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور مزاحیہ کالم بھی لکھے جاسکتے ہیں۔ ان کے علاوہ فکاہیہ اور مکتوباتی کالم بھی لکھے جاتے ہیں۔ ابن انشاء کچھ اس طرح رقم طراز ہیں ''میں کالم کو (Essay) مضمون سمجھتا ہوں جس طرح مضمون (Essay) بے کراں چیز ہے کالم بھی ہے''۔ بقول عطاء الحق قاسمی کے ''کالم ایک تحریری کارٹون ہوتا ہے جس میں کالم نویس الفاظ سے خاکہ تیار کرتا ہے''۔ ماضی کے چند معروف و مقبول فکاہیہ کالم نگاروں میں چراغ حسن حسرت، عبدالمجید سالک ،نصراﷲ خان ، م ،ش ، وقار انبالوی، شوکت تھانوی، مجید لاہوری، ابراہیم جلیس ، طفیل احمد جمالی اور انعام درانی شامل ہیں۔
کالم میں دیا گیا ہر لفظ ذو معنی اور معلومات سے بھرپور مواد اخبار کی مقبولیت اور کثیر اشاعت کا سبب بنتی ہے بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اچھے اور معیاری کالم اخبار کا ادارتی حسن اور پہچان ہوتے ہیں، بلاشبہ اخبارات کی شہرت اور انفرادیت ادارتی صفحے اور کالم کی بدولت ہی سے ممکن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے دور میں ہر خواندہ شخص کچھ نہ کچھ لکھ سکتا ہے لیکن ایسی تحریر لکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں جس میں لکھنے والے کے دل کی بات کا اظہار بھی ہو اور اس سے دوسروں کے احساسات و جذبات اور معاشرے کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی بھی ہوتی ہو۔ اس لیے کالم ایسے صحافی یا اہل قلم کی تحریر ہے جو وسیع علم، تجربے ، بصیرت اور فکر و نظر کا حامل ہو۔ چونکہ جدید الیکٹرانکس میڈیا اور موبائل ٹیکنالوجی کا دور ہے، لوگ اپنی معاشی سرگرمیوں کے ساتھ سوشل مصروفیات کے سبب بھی وقت کی قلت کا شکار ہیں۔ اس وجہ سے کالم نویس کو قاری کے وقت کی قدر و قیمت جانتے ہوئے غیر ضروری طوالت، لفاظی اور افسانوی انداز سے بالکل اجتناب کرنا چاہیے۔ کالم میں دیے گئے مواد کا تسلسل کسی قیمت جدا نہیں ہونا چاہیے۔ ذاتی انا سے بالاتر ہوکر صرف قوم و ملک کی بہتری کے لیے لکھا گیا مواد زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے۔ اردو زبان میں لکھا گیا کالم اخباری زبان کی قدروں کی شناخت کرتا ہے، اس لیے ترجیحی بنیادوں پر اس کا خیال رکھا جائے۔
بنیادی طور پر کسی اخبار میں کالم کے اردگرد صحافت سے متعلق دوسرے شعبہ جات احاطہ کرتے ہیں۔ اخبار کی پہچان ''خبر'' سے ہے۔ خبر کے اہم ذرایع رپورٹنگ ہے، اس لیے جتنی اچھی خبر کی رپورٹنگ ہوگی اتنا ہی اچھا کالم بھی ہوگا۔ خبر کی بنیاد حقیقت میں پانچ ڈبلیوز یا ''ک'' پر قائم ہے۔ کیا، کون، کب، کہاں، کیوں -Who-What-When-Where-Whyاور ایک چھٹا ک کیسے Howبھی اس میں شامل کیا گیا ہے ۔ صحافتی صحت کے لیے یہ شرط اول ہے کہ عام قاری کو خبر کے اصل حقائق سے بخوبی آگاہی ہو۔ خبر کی تکمیل اور رونما ہونے والے واقعے/ حادثے کالم نویس اپنی علمی استعداد اور مشاہدے کے ذریعے کالم میں زیر تحریر لاتا ہے تاکہ عوام کو اصل حقائق کا پتہ چل سکے۔ یہ سارے عناصر باہم مل کر خبر کی معروضیت اور کالم کی صداقت و دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں۔
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے صحافت کے شعبے کو یونیورسٹی کی ڈگری کا درجہ دے کر اسے ایک پیشہ ورانہ سند کا درجہ تسلیم کیا ہے۔ ملک کی نامور منظور شدہ یونیورسٹیوں میں اس شعبے میں درس و تدریس کا سلسلہ ہنوز ''ماس کمیونیکیشن'' کے نام سے جاری ہے۔ تدریسی لحاظ سے کالم نگاری کی اقسام کو یوں پیش کیا گیا ہے۔ 1۔ اسلوبی اقسام۔ 2۔ موضوعاتی اقسام۔ اسلوبی اقسام میں فکاہی کالم (مزاحیہ انداز)، سنجیدہ، اقتباسی، ترکیبی، مکتوباتی اور علامتی کالمز کو شامل کیا گیا ہے۔ اسی طرح طبی، دینی، قانونی، نفسیات، اقتصادیات، کھیل، پامسٹری (علم نجوم)، فیشن پر لکھے گئے کالم موضوعاتی کالم کے زمرے میں آتے ہیں، اس کے علاوہ سیاحت کے موضوع اور ڈائری نما کالمز بھی مشاہداتی کالم کہلاتے ہیں۔ بعض کالم نویسوں نے ماحولیات کو اپنا خاص موضوع بنایا ہوا ہے اور اس میں وہ معلومات کو عالمی تناطر میں دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں۔
جدید معاشی، سیاسی، سائنسی ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے صحافت کے اس قیمتی شعبے کی دن بدن ضرورت کے تحت میری وفاقی و صوبائی وزارت تعلیم، چیئرمین، انٹرمیڈیٹ بورڈز سے گزارش ہے کہ ماس کمیونیکیشن کا کم ازکم ایک مضمون انٹرمیڈیٹ کے تعلیمی سیشن میں شامل کیا جائے تاکہ طالب علم کی ذہنی نشوونما اور مستقبل میں صحافت کے میدان میں شمولیت کے لیے تیار کیا جاسکے۔نئی نسل کو اس امر پر بھی غور کرنا چاہیے کہ عالمی میڈیا کے بیشتر شعبہ جات پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔ ذرا غور کیجیے، آخر کیوں؟
ائیڈرو پاور پراجیکٹس کی تعمیر کے لیے کاغذی کارروائی مکمل کی جاچکی ہے ان میں سے سب سے زیادہ پیداوار اور کم لاگت کا منصوبہ نجی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ہے۔ اس منصوبے سے 7100 میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ آئی ایم ایف کی قسطوں پر چلنے والی ریاست ایسے منصوبے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی۔ ایسے میں وقفے کی بجلی کا بحران کا فوری حل نجی شعبے میں کام کرنے والے تمام تر پلانٹس کو قومی ملکیت میں لینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
جرنلزم کا یہ درخشندہ ستارہ آج اپنے عروج پر چمکتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کالم نویس کی ذمے داریوں میں سب سے اہم ذمے داری طاقت کا توازن برقرار رکھوانے کی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں تک مظلوم کی فریاد پہنچانے تک ذمے داری اس کے کندھوں پر ہوتی ہے۔ وہ اپنے پیشہ ورانہ اور مثبت انداز میں معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں پر پردہ چاک کرتا ہے تاکہ ظالم کو مزید ظلم سے روکا جاسکے۔ کالم نویس کے فن کا سفر اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب صحافت مکمل طور پر آزاد ہو۔ اظہار رائے کی آزادی کے لیے ایک منظم و مستحکم پلیٹ فارم موجود ہو۔
سیاسی شعور کی عوام میں بیداری کے علاوہ طبی، دینی، قانونی، ڈائری نما، عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور مزاحیہ کالم بھی لکھے جاسکتے ہیں۔ ان کے علاوہ فکاہیہ اور مکتوباتی کالم بھی لکھے جاتے ہیں۔ ابن انشاء کچھ اس طرح رقم طراز ہیں ''میں کالم کو (Essay) مضمون سمجھتا ہوں جس طرح مضمون (Essay) بے کراں چیز ہے کالم بھی ہے''۔ بقول عطاء الحق قاسمی کے ''کالم ایک تحریری کارٹون ہوتا ہے جس میں کالم نویس الفاظ سے خاکہ تیار کرتا ہے''۔ ماضی کے چند معروف و مقبول فکاہیہ کالم نگاروں میں چراغ حسن حسرت، عبدالمجید سالک ،نصراﷲ خان ، م ،ش ، وقار انبالوی، شوکت تھانوی، مجید لاہوری، ابراہیم جلیس ، طفیل احمد جمالی اور انعام درانی شامل ہیں۔
کالم میں دیا گیا ہر لفظ ذو معنی اور معلومات سے بھرپور مواد اخبار کی مقبولیت اور کثیر اشاعت کا سبب بنتی ہے بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اچھے اور معیاری کالم اخبار کا ادارتی حسن اور پہچان ہوتے ہیں، بلاشبہ اخبارات کی شہرت اور انفرادیت ادارتی صفحے اور کالم کی بدولت ہی سے ممکن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے دور میں ہر خواندہ شخص کچھ نہ کچھ لکھ سکتا ہے لیکن ایسی تحریر لکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں جس میں لکھنے والے کے دل کی بات کا اظہار بھی ہو اور اس سے دوسروں کے احساسات و جذبات اور معاشرے کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی بھی ہوتی ہو۔ اس لیے کالم ایسے صحافی یا اہل قلم کی تحریر ہے جو وسیع علم، تجربے ، بصیرت اور فکر و نظر کا حامل ہو۔ چونکہ جدید الیکٹرانکس میڈیا اور موبائل ٹیکنالوجی کا دور ہے، لوگ اپنی معاشی سرگرمیوں کے ساتھ سوشل مصروفیات کے سبب بھی وقت کی قلت کا شکار ہیں۔ اس وجہ سے کالم نویس کو قاری کے وقت کی قدر و قیمت جانتے ہوئے غیر ضروری طوالت، لفاظی اور افسانوی انداز سے بالکل اجتناب کرنا چاہیے۔ کالم میں دیے گئے مواد کا تسلسل کسی قیمت جدا نہیں ہونا چاہیے۔ ذاتی انا سے بالاتر ہوکر صرف قوم و ملک کی بہتری کے لیے لکھا گیا مواد زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے۔ اردو زبان میں لکھا گیا کالم اخباری زبان کی قدروں کی شناخت کرتا ہے، اس لیے ترجیحی بنیادوں پر اس کا خیال رکھا جائے۔
بنیادی طور پر کسی اخبار میں کالم کے اردگرد صحافت سے متعلق دوسرے شعبہ جات احاطہ کرتے ہیں۔ اخبار کی پہچان ''خبر'' سے ہے۔ خبر کے اہم ذرایع رپورٹنگ ہے، اس لیے جتنی اچھی خبر کی رپورٹنگ ہوگی اتنا ہی اچھا کالم بھی ہوگا۔ خبر کی بنیاد حقیقت میں پانچ ڈبلیوز یا ''ک'' پر قائم ہے۔ کیا، کون، کب، کہاں، کیوں -Who-What-When-Where-Whyاور ایک چھٹا ک کیسے Howبھی اس میں شامل کیا گیا ہے ۔ صحافتی صحت کے لیے یہ شرط اول ہے کہ عام قاری کو خبر کے اصل حقائق سے بخوبی آگاہی ہو۔ خبر کی تکمیل اور رونما ہونے والے واقعے/ حادثے کالم نویس اپنی علمی استعداد اور مشاہدے کے ذریعے کالم میں زیر تحریر لاتا ہے تاکہ عوام کو اصل حقائق کا پتہ چل سکے۔ یہ سارے عناصر باہم مل کر خبر کی معروضیت اور کالم کی صداقت و دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں۔
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے صحافت کے شعبے کو یونیورسٹی کی ڈگری کا درجہ دے کر اسے ایک پیشہ ورانہ سند کا درجہ تسلیم کیا ہے۔ ملک کی نامور منظور شدہ یونیورسٹیوں میں اس شعبے میں درس و تدریس کا سلسلہ ہنوز ''ماس کمیونیکیشن'' کے نام سے جاری ہے۔ تدریسی لحاظ سے کالم نگاری کی اقسام کو یوں پیش کیا گیا ہے۔ 1۔ اسلوبی اقسام۔ 2۔ موضوعاتی اقسام۔ اسلوبی اقسام میں فکاہی کالم (مزاحیہ انداز)، سنجیدہ، اقتباسی، ترکیبی، مکتوباتی اور علامتی کالمز کو شامل کیا گیا ہے۔ اسی طرح طبی، دینی، قانونی، نفسیات، اقتصادیات، کھیل، پامسٹری (علم نجوم)، فیشن پر لکھے گئے کالم موضوعاتی کالم کے زمرے میں آتے ہیں، اس کے علاوہ سیاحت کے موضوع اور ڈائری نما کالمز بھی مشاہداتی کالم کہلاتے ہیں۔ بعض کالم نویسوں نے ماحولیات کو اپنا خاص موضوع بنایا ہوا ہے اور اس میں وہ معلومات کو عالمی تناطر میں دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں۔
جدید معاشی، سیاسی، سائنسی ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے صحافت کے اس قیمتی شعبے کی دن بدن ضرورت کے تحت میری وفاقی و صوبائی وزارت تعلیم، چیئرمین، انٹرمیڈیٹ بورڈز سے گزارش ہے کہ ماس کمیونیکیشن کا کم ازکم ایک مضمون انٹرمیڈیٹ کے تعلیمی سیشن میں شامل کیا جائے تاکہ طالب علم کی ذہنی نشوونما اور مستقبل میں صحافت کے میدان میں شمولیت کے لیے تیار کیا جاسکے۔نئی نسل کو اس امر پر بھی غور کرنا چاہیے کہ عالمی میڈیا کے بیشتر شعبہ جات پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔ ذرا غور کیجیے، آخر کیوں؟
ائیڈرو پاور پراجیکٹس کی تعمیر کے لیے کاغذی کارروائی مکمل کی جاچکی ہے ان میں سے سب سے زیادہ پیداوار اور کم لاگت کا منصوبہ نجی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ہے۔ اس منصوبے سے 7100 میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ آئی ایم ایف کی قسطوں پر چلنے والی ریاست ایسے منصوبے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی۔ ایسے میں وقفے کی بجلی کا بحران کا فوری حل نجی شعبے میں کام کرنے والے تمام تر پلانٹس کو قومی ملکیت میں لینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔