عشق اور عقل
عقیدت کی انتہا اور ایسے لوگوں کے لیے جو اس دنیا میں اب نہیں ہیں۔
ISLAMABAD:
پیپلزپارٹی کے جیالوں نے اپنا سیاسی قبلہ لاڑکانہ کو بنالیا ہے۔ نوڈیرو میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کے مزارات نے برصغیر کی سیاست کو نیا رنگ عطا کیا ہے۔ اتنی عقیدت تقریباً ایک درجن بڑے بزرگوں کی آخری آرام گاہ کے نزدیک دیکھی جاتی ہے۔ تمام کی تمام مذہبی شخصیات اور تبلیغ دین سے متعلق مقامات ہیں۔ ''سیاسی قلندر'' کی نئی اصطلاح ذوالفقار علی بھٹو کے لیے ایجاد ہوچکی ہے۔ ممکن ہے اتنی بھرپور عقیدت پورے سندھ میں نہ ہو بلکہ صرف لاڑکانہ میں ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عقیدت کی انتہا صرف لاڑکانہ میں نہ ہو بلکہ صرف نوڈیرو میں ہو۔ ممکن ہے لاکھوں اور ہزاروں لوگوں کا سیاسی قبلہ یہ مزارات نہ ہوں بلکہ صرف چند سو لوگ ہوں۔ کچھ بھی ہو، سیاسی عقیدت اور محبت کی انتہا مزارات کے آ س پاس زندہ جاوید لوگوں کی زبانی ٹی وی اسکرین پر دیکھی جاچکی ہیں۔ یہ تاریخ کا ریکارڈ ہے اور شاید دنیا کی تاریخ کا انوکھا تجربہ ہو۔
لاڑکانہ کے ایسے گھروں میں پیپلزپارٹی کا جھنڈا دیکھا گیا جن کی نہ چھت ہے نہ دیواریں، نہ باورچی خانہ ہے اور نہ فرنیچر۔ نہ بچوں کے لیے اسکول ہیں نہ بڑوں کے لیے روزگار۔ زندگی کی سہولتیں اور آسائشیں تو چھوڑیں یہاں تو زندگی کی بنیادی ضرورتیں تک نہیں ہیں۔ روٹی کپڑا مکان کے نعرے کو نصف صدی کے لگ بھگ ہوگئے ہیں۔ چار حکومتوں میں پندرہ بیس سال تک پارٹی اقتدار میں رہ چکی ہے پھر بھی محرومی کو خندہ پیشانی سے قبول کیا جارہا ہے۔ نہ اپنے پیٹ کی فکر ہے نہ لباس کی، نہ گھر میں سہولت ہے اور نہ بچوں کا کوئی مستقبل پھر بھی دعائیں ہیں تو بھٹو خاندان کے لیے۔ ووٹ دیں گے تو پیپلز پارٹی کو، چاہے امیدوار کوئی بھی ہو۔ کوئی بھی کی تفصیل بتائی گئی کہ چاہے نااہل ہو یا کرپٹ؟ کہا گیا کہ کوئی بھی ہو ووٹ بی بی کا ہے۔ جب پارٹی کے سربراہوں کے بیرون ملک ڈالروں کی بات کی گئی؟ جواب آیا کہ یہ ان کا معاملہ ہے، ہم تو جیالے ہیں اور ووٹ بے نظیر کو دیں گے۔ پوچھا گیا کہ اب پیپلزپارٹی کو چلانے والے بھٹو تو نہیں ہیں وہ تو زرداری ہیں؟ کہا گیا کہ کچھ بھی ہو وہ بے نظیر کے بچے اور بچوں کے والد ہیں۔ میزبان نے کہا کہ لاڑکانہ میں پیپلزپارٹی کے چاہنے والوں کو اپنے بچوں کی فکر نہیں بلکہ انھیں تشویش ہے تو اس بات کی کہ بلاول پاکستان کے حکمران بن سکیں گے یا نہیں۔ نوڈیرو کے لوگ نواز شریف اور عمران کو جانتے ہیں لیکن ووٹ وہ پیپلزپارٹی کو دیں گے۔ آگے اہم بات ایک دانشور کی ہے، جب عشق اور عقل کا ٹکراؤ ہوگا۔
عقیدت کی انتہا اور ایسے لوگوں کے لیے جو اس دنیا میں اب نہیں ہیں۔ ان کے لیے محبت و جنوں جو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان۔ دنیاوی فائدہ ہو نہ ہو لیکن اخروی فائدہ ہو تو بھی لوگ عقیدت کے پھول نچھاور کردیا کرتے ہیں۔ ہر قسم کے فائدے سے بے نیاز لاڑکانہ کے لوگ شاید کائنات میں اپنی مثال آپ ہوں۔ دنیا میں بے شمار سیاسی قائدین کے لیے پرجوش محبت کی مثالیں ہوں گی لیکن یہ وہ رہنما ہیں جنہوں نے قوموں کی زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ عقیدت بے شک ہوگی لیکن مادی فائدے کے عوض۔ بغیر کسی دینی و دنیوی فائدے کے عقیدت کی مثال دیکھنی ہو تو لاڑکانہ کے باسیوں کو دیکھو۔ آخری فیصلے سے پہلے ایک دانشور اور ایک خاتون کی گفتگو اہم ہے۔
نواز شریف اور عمران خان کے بارے میںجوابات انوکھے تھے۔ اس سوال کا بھی بے دھڑک جواب دیا گیا کہ کوئی دوسری پارٹی آپ کی زندگی بدل دے تو؟ علاج، تعلیم، روزگار، سڑکیں اور خوشحالی۔ ہرقسم کے مادی فائدے سے بے نیاز اور عقیدت کی انتہا کو چھو جانے والے لاڑکانہ کے سیدھے سادھے لوگوںنے حیرت انگیز جواب دیے۔ انھوں نے بھٹوخاندان سے محبت کو ''ایمان'' قرار دیا۔ غریب اور نادار لوگوں نے اینکر پرسن کو لاجواب کردیا۔ غیرملکی یونیورسٹیوں میں طالب علموں کو پڑھانے والے کو مسکرانے پر مجبور کر دیا۔بوڑھے جیالے نے کہا کہ دنیاوی فائدے کے لیے کبھی کوئی ایمان بھی بیچتا ہے۔ جیالوں کے اس انداز پر ٹی وی پروگرام میں ایک سیاستدان اور ایک خاتون کا مکالمہ آج کے اس کالم کا کلائمیکس ہوگا۔
جیالوں کی اس محبت کی انتہا کو خاتون نے نادانی اور بے وقوفی کہا۔ اسے شعور سے محرومی کا نام دیا۔ایک دانشور نے خاتون کی جیالوں پر تنقید پر برا مناکر کہا کہ کچھ لوگ ووٹر بھی اپنی مرضی کا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی شہری محبت، جنوں اور عشق کا مارا ہے تو کوئی کیا کرے۔ اگر وہ دربدر ہوکر بھی نصف صدی سے ایک ہی پارٹی کو ووٹ دے رہا ہے تو اس کی مرضی۔ اب کالم ایک سوال کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ایک جانب عشق کی بات ہے تو دوسری جانب ایک خاتون نے عقل کا سوال اٹھایا۔ ایک ایسے دانشور کے سامنے جو صحافی بھی ہیں، کالم نگار اور رکن اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔ اب ہم عشق و عقل کی کشمکش کی بات کرتے ہیں۔
2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے چکوال سے ایک مشہور صحافی کو ٹکٹ نہ دیا۔ شیر کا نشان ان کو اسمبلی میں پہنچا سکتا تھا۔ سیاست پر گہری نظر اور حکومتوں کے اتار چڑھاؤ کو سمجھنے والے دانشور کو ٹکٹ نہ دیا گیا۔ اہل پنجاب ن لیگ اور تحریک انصاف میں بٹے ہوئے تھے۔ شیر یا بلے کا انتخابی نشان نہ ہو تو عوام بڑے سے بڑے عقلمند کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ صحافی نے آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب میں حصہ نہ لیا۔ یہ عوام کا بھٹو خاندان، شریف خاندان اور اب عمران سے عشق ہے۔ اگر عوام عقل استعمال نہ کرتے ہوئے عقلمند کو نہیں جانچتے تو کوئی کیا کرے؟ سیاسی پارٹیاں قابلیت کی ناقدری کریں تو پھر بھی کوئی کیا کرے؟
عشق و عقل کی انخلا جنگ میں عشق جیت رہا ہے۔ اگر خاتون نے کہا کہ عوام کو عقل بھی استعمال کرنی چاہیے تو کیا غلط کہا؟ سیاسی میدان میں دنیا بھر کے لوگ عقل کا استعمال کرتے ہیں۔ اس عمل نے ان کی حالت کو بہتر بنادیا ہے۔ معاشی اور معاشرتی حالات کو زمین سے آسمان تک پہنچادیا ہے۔ ہم پچھلی نصف صدی سے سیاسی گھرانوں اور شخصیات سے عشق میں مبتلا ہیں۔ غربت، جہالت، بھوک، ننگ و افلاس ہمارے سیاسی عشق کے سبب تو ہمارے گلے کا ہار نہیں بن گئے ہیں؟ اگر عقل و عشق کی جنگ میں دانشور اور عقلمند لوگ بھی عوام کی صحیح رہنمائی نہ کریں تو ہم کیا کریں؟ اگر کوئی بے سبب عشق، بے مقصد جنون، لایعنی محبت اور بے عقل عقیدت پر تنقید کرے تو خود اس پر تنقید کرکے چپ کروا دیا جاتا ہے۔ پاکستان اس وقت اپنے مسائل پر قابو پائے گا جب الیکشن والے روز ہم صحیح توازن برقرار رکھ سکیں۔ عشق اور عقل کے درمیان۔
پیپلزپارٹی کے جیالوں نے اپنا سیاسی قبلہ لاڑکانہ کو بنالیا ہے۔ نوڈیرو میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کے مزارات نے برصغیر کی سیاست کو نیا رنگ عطا کیا ہے۔ اتنی عقیدت تقریباً ایک درجن بڑے بزرگوں کی آخری آرام گاہ کے نزدیک دیکھی جاتی ہے۔ تمام کی تمام مذہبی شخصیات اور تبلیغ دین سے متعلق مقامات ہیں۔ ''سیاسی قلندر'' کی نئی اصطلاح ذوالفقار علی بھٹو کے لیے ایجاد ہوچکی ہے۔ ممکن ہے اتنی بھرپور عقیدت پورے سندھ میں نہ ہو بلکہ صرف لاڑکانہ میں ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عقیدت کی انتہا صرف لاڑکانہ میں نہ ہو بلکہ صرف نوڈیرو میں ہو۔ ممکن ہے لاکھوں اور ہزاروں لوگوں کا سیاسی قبلہ یہ مزارات نہ ہوں بلکہ صرف چند سو لوگ ہوں۔ کچھ بھی ہو، سیاسی عقیدت اور محبت کی انتہا مزارات کے آ س پاس زندہ جاوید لوگوں کی زبانی ٹی وی اسکرین پر دیکھی جاچکی ہیں۔ یہ تاریخ کا ریکارڈ ہے اور شاید دنیا کی تاریخ کا انوکھا تجربہ ہو۔
لاڑکانہ کے ایسے گھروں میں پیپلزپارٹی کا جھنڈا دیکھا گیا جن کی نہ چھت ہے نہ دیواریں، نہ باورچی خانہ ہے اور نہ فرنیچر۔ نہ بچوں کے لیے اسکول ہیں نہ بڑوں کے لیے روزگار۔ زندگی کی سہولتیں اور آسائشیں تو چھوڑیں یہاں تو زندگی کی بنیادی ضرورتیں تک نہیں ہیں۔ روٹی کپڑا مکان کے نعرے کو نصف صدی کے لگ بھگ ہوگئے ہیں۔ چار حکومتوں میں پندرہ بیس سال تک پارٹی اقتدار میں رہ چکی ہے پھر بھی محرومی کو خندہ پیشانی سے قبول کیا جارہا ہے۔ نہ اپنے پیٹ کی فکر ہے نہ لباس کی، نہ گھر میں سہولت ہے اور نہ بچوں کا کوئی مستقبل پھر بھی دعائیں ہیں تو بھٹو خاندان کے لیے۔ ووٹ دیں گے تو پیپلز پارٹی کو، چاہے امیدوار کوئی بھی ہو۔ کوئی بھی کی تفصیل بتائی گئی کہ چاہے نااہل ہو یا کرپٹ؟ کہا گیا کہ کوئی بھی ہو ووٹ بی بی کا ہے۔ جب پارٹی کے سربراہوں کے بیرون ملک ڈالروں کی بات کی گئی؟ جواب آیا کہ یہ ان کا معاملہ ہے، ہم تو جیالے ہیں اور ووٹ بے نظیر کو دیں گے۔ پوچھا گیا کہ اب پیپلزپارٹی کو چلانے والے بھٹو تو نہیں ہیں وہ تو زرداری ہیں؟ کہا گیا کہ کچھ بھی ہو وہ بے نظیر کے بچے اور بچوں کے والد ہیں۔ میزبان نے کہا کہ لاڑکانہ میں پیپلزپارٹی کے چاہنے والوں کو اپنے بچوں کی فکر نہیں بلکہ انھیں تشویش ہے تو اس بات کی کہ بلاول پاکستان کے حکمران بن سکیں گے یا نہیں۔ نوڈیرو کے لوگ نواز شریف اور عمران کو جانتے ہیں لیکن ووٹ وہ پیپلزپارٹی کو دیں گے۔ آگے اہم بات ایک دانشور کی ہے، جب عشق اور عقل کا ٹکراؤ ہوگا۔
عقیدت کی انتہا اور ایسے لوگوں کے لیے جو اس دنیا میں اب نہیں ہیں۔ ان کے لیے محبت و جنوں جو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان۔ دنیاوی فائدہ ہو نہ ہو لیکن اخروی فائدہ ہو تو بھی لوگ عقیدت کے پھول نچھاور کردیا کرتے ہیں۔ ہر قسم کے فائدے سے بے نیاز لاڑکانہ کے لوگ شاید کائنات میں اپنی مثال آپ ہوں۔ دنیا میں بے شمار سیاسی قائدین کے لیے پرجوش محبت کی مثالیں ہوں گی لیکن یہ وہ رہنما ہیں جنہوں نے قوموں کی زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ عقیدت بے شک ہوگی لیکن مادی فائدے کے عوض۔ بغیر کسی دینی و دنیوی فائدے کے عقیدت کی مثال دیکھنی ہو تو لاڑکانہ کے باسیوں کو دیکھو۔ آخری فیصلے سے پہلے ایک دانشور اور ایک خاتون کی گفتگو اہم ہے۔
نواز شریف اور عمران خان کے بارے میںجوابات انوکھے تھے۔ اس سوال کا بھی بے دھڑک جواب دیا گیا کہ کوئی دوسری پارٹی آپ کی زندگی بدل دے تو؟ علاج، تعلیم، روزگار، سڑکیں اور خوشحالی۔ ہرقسم کے مادی فائدے سے بے نیاز اور عقیدت کی انتہا کو چھو جانے والے لاڑکانہ کے سیدھے سادھے لوگوںنے حیرت انگیز جواب دیے۔ انھوں نے بھٹوخاندان سے محبت کو ''ایمان'' قرار دیا۔ غریب اور نادار لوگوں نے اینکر پرسن کو لاجواب کردیا۔ غیرملکی یونیورسٹیوں میں طالب علموں کو پڑھانے والے کو مسکرانے پر مجبور کر دیا۔بوڑھے جیالے نے کہا کہ دنیاوی فائدے کے لیے کبھی کوئی ایمان بھی بیچتا ہے۔ جیالوں کے اس انداز پر ٹی وی پروگرام میں ایک سیاستدان اور ایک خاتون کا مکالمہ آج کے اس کالم کا کلائمیکس ہوگا۔
جیالوں کی اس محبت کی انتہا کو خاتون نے نادانی اور بے وقوفی کہا۔ اسے شعور سے محرومی کا نام دیا۔ایک دانشور نے خاتون کی جیالوں پر تنقید پر برا مناکر کہا کہ کچھ لوگ ووٹر بھی اپنی مرضی کا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی شہری محبت، جنوں اور عشق کا مارا ہے تو کوئی کیا کرے۔ اگر وہ دربدر ہوکر بھی نصف صدی سے ایک ہی پارٹی کو ووٹ دے رہا ہے تو اس کی مرضی۔ اب کالم ایک سوال کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ایک جانب عشق کی بات ہے تو دوسری جانب ایک خاتون نے عقل کا سوال اٹھایا۔ ایک ایسے دانشور کے سامنے جو صحافی بھی ہیں، کالم نگار اور رکن اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔ اب ہم عشق و عقل کی کشمکش کی بات کرتے ہیں۔
2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے چکوال سے ایک مشہور صحافی کو ٹکٹ نہ دیا۔ شیر کا نشان ان کو اسمبلی میں پہنچا سکتا تھا۔ سیاست پر گہری نظر اور حکومتوں کے اتار چڑھاؤ کو سمجھنے والے دانشور کو ٹکٹ نہ دیا گیا۔ اہل پنجاب ن لیگ اور تحریک انصاف میں بٹے ہوئے تھے۔ شیر یا بلے کا انتخابی نشان نہ ہو تو عوام بڑے سے بڑے عقلمند کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ صحافی نے آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب میں حصہ نہ لیا۔ یہ عوام کا بھٹو خاندان، شریف خاندان اور اب عمران سے عشق ہے۔ اگر عوام عقل استعمال نہ کرتے ہوئے عقلمند کو نہیں جانچتے تو کوئی کیا کرے؟ سیاسی پارٹیاں قابلیت کی ناقدری کریں تو پھر بھی کوئی کیا کرے؟
عشق و عقل کی انخلا جنگ میں عشق جیت رہا ہے۔ اگر خاتون نے کہا کہ عوام کو عقل بھی استعمال کرنی چاہیے تو کیا غلط کہا؟ سیاسی میدان میں دنیا بھر کے لوگ عقل کا استعمال کرتے ہیں۔ اس عمل نے ان کی حالت کو بہتر بنادیا ہے۔ معاشی اور معاشرتی حالات کو زمین سے آسمان تک پہنچادیا ہے۔ ہم پچھلی نصف صدی سے سیاسی گھرانوں اور شخصیات سے عشق میں مبتلا ہیں۔ غربت، جہالت، بھوک، ننگ و افلاس ہمارے سیاسی عشق کے سبب تو ہمارے گلے کا ہار نہیں بن گئے ہیں؟ اگر عقل و عشق کی جنگ میں دانشور اور عقلمند لوگ بھی عوام کی صحیح رہنمائی نہ کریں تو ہم کیا کریں؟ اگر کوئی بے سبب عشق، بے مقصد جنون، لایعنی محبت اور بے عقل عقیدت پر تنقید کرے تو خود اس پر تنقید کرکے چپ کروا دیا جاتا ہے۔ پاکستان اس وقت اپنے مسائل پر قابو پائے گا جب الیکشن والے روز ہم صحیح توازن برقرار رکھ سکیں۔ عشق اور عقل کے درمیان۔