مہنگائی کو پر لگ گئے
پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ معمول کی بات ہے جس کے بڑھتے ہی ہر چیز کی قیمت خود بہ خود بڑھ جاتی ہے۔
ISLAMABAD:
رمضان المبارک میں اﷲ کے مومن بندے خدائے رحیم کی رحمتوں کے طلب گار ہیں، ایسے میں ذاتی لالچ میں مگن خوف خدا سے عاری کلمہ گو بیوپاری حضرات اوروں کے لیے زحمت اور اذیت اور اپنے لیے غضب ناک عذاب لانے پر مصر ہیں۔ دین اسلام روزہ داروں کے لیے آسانیاں اور سہولیات فراہم کرنے کا درس دیتا ہے لیکن ناجائز منافع خور حضرات رمضان المبارک میں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں خودساختہ اضافہ کرکے ان کے لیے معاشی تکلیف کا باعث بن رہے ہیں۔ دکاندار رمضان میں استعمال ہونے والی اشیا کی من مانی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کی نمائشی کارروائیوں کے دوران مجسٹریٹ صرف 10 منٹ کے لیے کسی ایک بازار میں ٹھہرتا ہے اور مہنگائی کا طوفان بھی اسی 10 منٹ کے لیے تھمتا ہے۔ اس طرح حکومت وقت کی جانب سے روزمرہ اشیا کی قیمتوں پر نظر رکھنے، ضروری اشیا بروقت اور مناسب قیمت پر لوگوں کو دستیاب ہونے، رمضان المبارک میں عوام کو دو ارب روپے رمضان ریلیف پیکیج دینے کے دعوے اور اقدامات بے کار ثابت ہورہے ہیں۔ عوام کو رمضان میں سستی اشیا کی فراہمی کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہے۔
ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق 11 جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران روز مرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں گزشتہ سال اس عرصے کے مقابلے میں 9.4 فیصد اور گزشتہ ہفتے کی نسبت 0.36 فیصد اضافہ ہوا۔ 8 ہزار روپے ماہانہ آمدنی والا طبقہ مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا، اور اس کے لیے مہنگائی 9.9 فیصد بڑھ گئی۔ آٹے جیسی بنیادی اجناس کی قیمت میں اضافہ غربت کے اس دور میں غریبوں کو جیتے جی مار دینے کے مترادف ہے جو کھلا ظلم اور ناانصافی ہے۔ فائن آٹا 42 روپے کلو، چھوٹی چکی کا آٹا 44 روپے جب کہ ڈھائی نمبر کا آٹا 40 روپے کلو فروخت کیا جارہا ہے۔ بیسن 80 سے 90 روپے کلو، کابلی چنا 100 سے 120 روپے کلو، مونگ کی دال 135 روپے کلو، گرم مصالحہ 700 روپے کلو، چینی 55 روپے کلو، مونگ کی دال کا آٹا 180 روپے، ماش کی دال کا آٹا 160 روپے کلو فروخت ہورہا ہے سوجی اور میدے کی قیمت 50 روپے کلو وصول کی جارہی ہے۔
کھجور جس سے روزہ افطار کرنا مسنون ہے، رمضان المبارک میں اس کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی کھجوروں کی مانگ درآمدی کھجوروں سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں کھجور کی فصل 15 جولائی سے 15 اگست تک تیار ہوتی ہے جس کے بعد اسے اسٹور کرکے رمضان المبارک کے قریب مارکیٹ میں لایا جاتا ہے، جس سے اس کی قیمت میں 3 گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ روزہ داروں کے لیے اس سوغات اور افطار کے وقت دستر خوان کی یہ زینت کھجور کی قیمت ان دنوں تھوک مارکیٹ میں 140 روپے سے 175 روپے فی کلو دستیاب ہے۔ بازاروں میں پھل فروشوں نے جو لوٹ مار مچا رکھی ہے اس نے مہنگائی کو پر لگا دیے ہیں۔ کیلے 60 روپے سے 100 روپے فی درجن، پیلا خربوزہ 30 سے 40 روپے کلو، گرما 50 روپے سے 70 روپے کلو، تربوزہ 30 روپے سے 40 روپے کلو، آم 80 سے 100 روپے، آلوچہ 140 روپے اور چیری کا پیکٹ 150 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں سبزیاں، ٹماٹر، پیاز، آلو وغیرہ مرغی، گوشت، دودھ، دہی، انڈے اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ کپڑے، ریڈی میڈ ملبوسات، چپل جوتے، میڈیکل ادویات سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی ناقابل برداشت اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔شیر خوار بچوں کے سینڈل اور سوٹ بھی 400 روپے میں بک رہے ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ معمول کی بات ہے جس کے بڑھتے ہی ہر چیز کی قیمت خود بہ خود بڑھ جاتی ہے۔ نئے بجٹ میں نئی حکومت نے جی ایس ٹی میں مزید ایک فیصد اضافہ کرکے عوام پر مزید مہنگائی کا بوجھ ڈال دیا ہے اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ بلندیوں پر سفر کرنے والی مہنگائی کو مزید پر لگ گئے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ غریبوں سے ان کے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے۔اس وقت ملک کی 45 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، آبادی کے ایک بڑے طبقے کے لیے دو وقت پیٹ بھرنا دشوار ہوچکا ہے تاہم اسی ملک (پاکستان) میں امیر طبقہ اپنے پالتو کتے بلیوں کا پیٹ بھرنے کے لیے بیرون ملک سے ماہانہ 25 لاکھ روپے کی خوراک منگوائی جاتی ہے یعنی ایک سال میں ایک لاکھ 24 ہزار ڈالر کی خوراک درآمد کی جاتی ہے اور بیرون ملک سے وطن آنے والے افراد بھی اپنے پالتو کتے بلیوں کے لیے پرسنل میں تقریباً اتنی ہی مالیت کی خوراک لارہے ہیں۔ واضح رہے کہ کتے بلیوں کے لیے درآمد کی جانے والی خوراک پوش بیگیج علاقوں کے سپر اسٹور اور ڈپارٹمنٹل اسٹورز پر فروخت کی جاتی ہے، خوراک کے علاوہ ملک میں پالتو کتے بلیوں کی نازبرداریوں پر بھی اخراجات تیزی سے بڑھ رہے ہیں جن میں علاج و معالجے اور ویکسین کے اخراجات بھی شامل ہیں۔
جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں بے روزگاری، غربت اور مہنگائی میں ہوشربا اضافے جیسے حقائق کو بالائے طاق رکھ کر خوشحال امیر طبقہ اپنے پالتو کتوں اور بلیوں کی صحت کو بہتر بنانے اور اپنے پالتو جانوروں کو صحت مند رکھنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ یہ امر قابل غور ہے کہ ملک میں کتوں اور بلیوں کی غذا کی درآمدات پر سالانہ 3 کروڑ روپے خرچ کیے جارہے ہیں جن میں سے پالتو کتے کی ماہانہ خوراک پر 10 ہزار روپے جب کہ بلی کی خوراک پر 4 تا 7 ہزار روپے کے اخراجات آتے ہیں۔ اسی پاکستان میں ایک مزدور کی ماہوار تنخواہ 8 ہزار روپے ہے جس سے اسے اپنے کنبے کی کفالت کرنا ہے۔ ذرا سوچیں! اس مہنگائی میں وہ کیسے گزر بسر کرسکتا ہے؟ دوسرے معنوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے یہاں غریبوں سے زیادہ پالتو جانوروں کی قدر ہے۔ یہ طبقاتی تقسیم ہمیں کہاں لے جاکر ڈبو دے گی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا انجام قدرت کا فیصلہ ہوگا، جب غریب غالب آئیں گے۔ یہ کیسے ہوگا؟ یہی تو قدرت کا کمال ہوگا جس کے یہاں ہمیشہ انصاف ہوا ہے اور انصاف ہوتا رہے گا۔ اس کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ بس صبر شرط ہے۔
رمضان المبارک میں اﷲ کے مومن بندے خدائے رحیم کی رحمتوں کے طلب گار ہیں، ایسے میں ذاتی لالچ میں مگن خوف خدا سے عاری کلمہ گو بیوپاری حضرات اوروں کے لیے زحمت اور اذیت اور اپنے لیے غضب ناک عذاب لانے پر مصر ہیں۔ دین اسلام روزہ داروں کے لیے آسانیاں اور سہولیات فراہم کرنے کا درس دیتا ہے لیکن ناجائز منافع خور حضرات رمضان المبارک میں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں خودساختہ اضافہ کرکے ان کے لیے معاشی تکلیف کا باعث بن رہے ہیں۔ دکاندار رمضان میں استعمال ہونے والی اشیا کی من مانی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کی نمائشی کارروائیوں کے دوران مجسٹریٹ صرف 10 منٹ کے لیے کسی ایک بازار میں ٹھہرتا ہے اور مہنگائی کا طوفان بھی اسی 10 منٹ کے لیے تھمتا ہے۔ اس طرح حکومت وقت کی جانب سے روزمرہ اشیا کی قیمتوں پر نظر رکھنے، ضروری اشیا بروقت اور مناسب قیمت پر لوگوں کو دستیاب ہونے، رمضان المبارک میں عوام کو دو ارب روپے رمضان ریلیف پیکیج دینے کے دعوے اور اقدامات بے کار ثابت ہورہے ہیں۔ عوام کو رمضان میں سستی اشیا کی فراہمی کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہے۔
ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق 11 جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران روز مرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں گزشتہ سال اس عرصے کے مقابلے میں 9.4 فیصد اور گزشتہ ہفتے کی نسبت 0.36 فیصد اضافہ ہوا۔ 8 ہزار روپے ماہانہ آمدنی والا طبقہ مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا، اور اس کے لیے مہنگائی 9.9 فیصد بڑھ گئی۔ آٹے جیسی بنیادی اجناس کی قیمت میں اضافہ غربت کے اس دور میں غریبوں کو جیتے جی مار دینے کے مترادف ہے جو کھلا ظلم اور ناانصافی ہے۔ فائن آٹا 42 روپے کلو، چھوٹی چکی کا آٹا 44 روپے جب کہ ڈھائی نمبر کا آٹا 40 روپے کلو فروخت کیا جارہا ہے۔ بیسن 80 سے 90 روپے کلو، کابلی چنا 100 سے 120 روپے کلو، مونگ کی دال 135 روپے کلو، گرم مصالحہ 700 روپے کلو، چینی 55 روپے کلو، مونگ کی دال کا آٹا 180 روپے، ماش کی دال کا آٹا 160 روپے کلو فروخت ہورہا ہے سوجی اور میدے کی قیمت 50 روپے کلو وصول کی جارہی ہے۔
کھجور جس سے روزہ افطار کرنا مسنون ہے، رمضان المبارک میں اس کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی کھجوروں کی مانگ درآمدی کھجوروں سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں کھجور کی فصل 15 جولائی سے 15 اگست تک تیار ہوتی ہے جس کے بعد اسے اسٹور کرکے رمضان المبارک کے قریب مارکیٹ میں لایا جاتا ہے، جس سے اس کی قیمت میں 3 گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ روزہ داروں کے لیے اس سوغات اور افطار کے وقت دستر خوان کی یہ زینت کھجور کی قیمت ان دنوں تھوک مارکیٹ میں 140 روپے سے 175 روپے فی کلو دستیاب ہے۔ بازاروں میں پھل فروشوں نے جو لوٹ مار مچا رکھی ہے اس نے مہنگائی کو پر لگا دیے ہیں۔ کیلے 60 روپے سے 100 روپے فی درجن، پیلا خربوزہ 30 سے 40 روپے کلو، گرما 50 روپے سے 70 روپے کلو، تربوزہ 30 روپے سے 40 روپے کلو، آم 80 سے 100 روپے، آلوچہ 140 روپے اور چیری کا پیکٹ 150 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں سبزیاں، ٹماٹر، پیاز، آلو وغیرہ مرغی، گوشت، دودھ، دہی، انڈے اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ کپڑے، ریڈی میڈ ملبوسات، چپل جوتے، میڈیکل ادویات سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی ناقابل برداشت اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔شیر خوار بچوں کے سینڈل اور سوٹ بھی 400 روپے میں بک رہے ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ معمول کی بات ہے جس کے بڑھتے ہی ہر چیز کی قیمت خود بہ خود بڑھ جاتی ہے۔ نئے بجٹ میں نئی حکومت نے جی ایس ٹی میں مزید ایک فیصد اضافہ کرکے عوام پر مزید مہنگائی کا بوجھ ڈال دیا ہے اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ بلندیوں پر سفر کرنے والی مہنگائی کو مزید پر لگ گئے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ غریبوں سے ان کے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے۔اس وقت ملک کی 45 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، آبادی کے ایک بڑے طبقے کے لیے دو وقت پیٹ بھرنا دشوار ہوچکا ہے تاہم اسی ملک (پاکستان) میں امیر طبقہ اپنے پالتو کتے بلیوں کا پیٹ بھرنے کے لیے بیرون ملک سے ماہانہ 25 لاکھ روپے کی خوراک منگوائی جاتی ہے یعنی ایک سال میں ایک لاکھ 24 ہزار ڈالر کی خوراک درآمد کی جاتی ہے اور بیرون ملک سے وطن آنے والے افراد بھی اپنے پالتو کتے بلیوں کے لیے پرسنل میں تقریباً اتنی ہی مالیت کی خوراک لارہے ہیں۔ واضح رہے کہ کتے بلیوں کے لیے درآمد کی جانے والی خوراک پوش بیگیج علاقوں کے سپر اسٹور اور ڈپارٹمنٹل اسٹورز پر فروخت کی جاتی ہے، خوراک کے علاوہ ملک میں پالتو کتے بلیوں کی نازبرداریوں پر بھی اخراجات تیزی سے بڑھ رہے ہیں جن میں علاج و معالجے اور ویکسین کے اخراجات بھی شامل ہیں۔
جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں بے روزگاری، غربت اور مہنگائی میں ہوشربا اضافے جیسے حقائق کو بالائے طاق رکھ کر خوشحال امیر طبقہ اپنے پالتو کتوں اور بلیوں کی صحت کو بہتر بنانے اور اپنے پالتو جانوروں کو صحت مند رکھنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ یہ امر قابل غور ہے کہ ملک میں کتوں اور بلیوں کی غذا کی درآمدات پر سالانہ 3 کروڑ روپے خرچ کیے جارہے ہیں جن میں سے پالتو کتے کی ماہانہ خوراک پر 10 ہزار روپے جب کہ بلی کی خوراک پر 4 تا 7 ہزار روپے کے اخراجات آتے ہیں۔ اسی پاکستان میں ایک مزدور کی ماہوار تنخواہ 8 ہزار روپے ہے جس سے اسے اپنے کنبے کی کفالت کرنا ہے۔ ذرا سوچیں! اس مہنگائی میں وہ کیسے گزر بسر کرسکتا ہے؟ دوسرے معنوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے یہاں غریبوں سے زیادہ پالتو جانوروں کی قدر ہے۔ یہ طبقاتی تقسیم ہمیں کہاں لے جاکر ڈبو دے گی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا انجام قدرت کا فیصلہ ہوگا، جب غریب غالب آئیں گے۔ یہ کیسے ہوگا؟ یہی تو قدرت کا کمال ہوگا جس کے یہاں ہمیشہ انصاف ہوا ہے اور انصاف ہوتا رہے گا۔ اس کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ بس صبر شرط ہے۔