کیا دانشور مفکر زندہ ہیں 

یہ وقت ہے کہ اہل خرد دانشور مفکر اپنی بے حسی کی قبروں سے نکلیں اور دنیا بھر کے دانشوروں کو جگائیں۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

دنیا میں ہونے والے ظلم وجبر ، ناانصافیوں وغیرہ پر غورو فکرکرنا اور انسانوں کو ان عذابوں سے نکالنے کے لیے نظریاتی راہیں تلاش کرنا اہل فکر، اہل دانش، مفکرین، ادیبوں کی ذمے داری ہوتی ہے۔ دنیا کی یہ بدقسمتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے نہ صرف ان طبقات کو کرپٹ کردیا ہے بلکہ بالواسطہ اور بلاواسطہ انھیں اس نامنصفانہ نظام کی حمایت پر مجبور کردیا۔

سرمایہ دارانہ نظام کو متعارف ہوئے ڈھائی سو سال ہو رہے ہیں، اس طویل دورانیے میں سوائے مارکس اور اس کے دوست اینجلز کے کسی نے نہ سرمایہ دارانہ نظام کی نظریاتی بنیادوں کی تحقیق کی نہ اس نامنصفانہ نظام کا کوئی بہتر متبادل پیش کیا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا دنیا میں مارکس اور اینجلز کے علاوہ کوئی دانشور مدبر اور نظریہ ساز پیدا ہی نہیں ہوا یا دنیا میں انسانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو تقدیرکا لکھا یا فطرت کا قانون سمجھ کر قبول کرلیا۔

منطقی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا کے آغاز کے ساتھ ہی سرمایہ دارانہ نظام کا آغاز ہوا؟ یہ ممکن نہیں اربوں سال قبل انسانی معاشروں کی ہیئت ترکیبی کیا تھی، سماجی اخلاقی اور معاشی نظام کی کیا صورت حال تھی؟ یہ سوال اس لیے ذہن میں آتے ہیں کہ ان سوالوں کو ذہنوں میں لانے کی وجہ دنیا کے موجودہ حالات ہیں۔ جنگیں نفرتیں سماجی اور اقتصادی تقسیم ظالموں اور مظلوموں کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج۔

انسانوں کی مذہب، ذات پات، ملک و ملت، رنگ و نسل، زبان اور قومیت کے حوالوں سے تقسیم اور ان تقسیموں کے حوالے سے ہونے والی ناانصافیاں اور مظالم وہ تلخ حقائق ہیں جو مفکروں اور اہل علم کو ان مسائل پر سوچنے کی ترغیب فراہم کرتے ہیں جب ان تلخ حقائق پر نظر جاتی ہے تو ذہن میں لازمی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ظلم یہ ناانصافیاں انسانی فطرت کا حصہ نہیں یا محض معاشی نظاموں کے لازمات ہیں؟


دنیا اب اکیسویں صدی میں داخل ہوگئی ہے، پسماندہ فکر کے جالے ٹوٹ کر ہوا میں بکھر رہے ہیں زندگی کے مختلف شعبوں میں سائنس ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت انقلاب آ رہے ہیں۔ ماضی میں جن بیماریوں کو لاعلاج سمجھا جاتا تھا، اب ان کے علاج ڈھونڈ لیے گئے ہیں۔ کینسر ایک واحد بیماری ہے جس کا اب تک حتمی علاج نہیں ڈھونڈا جاسکا لیکن امید ہی نہیں یقین ہے کہ اس بیماری کا علاج بھی جلد ڈھونڈ لیا جائے گا، ماضی کا انسان چاند میں اپنی محبوبہ کا چہرہ تلاش کرتا تھا اب جب سے انسان چاند پر ہو آیا ہے، عاشقوں کے لیے چاند میں اپنی محبوبہ کا چہرہ تلاش کرنا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ زمین سے دکھائی دینے والا چاند کا روٹی جیسا چھوٹا سا ہیولا سیکڑوں کلومیٹر پر پھیلا ریت پہاڑوں اور غالباً خشک جھیلوں پر مشتمل زمین جیسا لیکن زمین سے چھوٹا ایک سیارہ ہے ماضی کے فرضی تصورات سے حال کے کھردرے حقائق ٹکرا رہے ہیں۔

دنیا میں بہت کچھ بدل گیا ہے بہت کچھ بدل رہا ہے۔ لیکن اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ ہے ہمارا معاشی نظام جو صدیوں سے سر تا پا ناانصافیوں اور ظلم پر مبنی ہے دنیا کے انسانوں میں سے 90 فیصد سے زیادہ انسان بھوک بے روزگاری بیماری جیسی لعنتوں میں پھنسے ہوئے ہیں ، ماضی ہی کا انسان نہیں ، حال کے انسانوں کا 90 فیصد کے لگ بھگ حصہ اس انسانوں کے مسلط کردہ عذاب کو خدا کی مرضی سمجھ کر قبول کر رہا ہے ۔ استحصالی طبقات ماضی کے ان بے معنی تصورات کو اپنی پناہ گاہیں بنائے ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جہلا ہی نہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی ایک بڑی تعداد بھی ان فرسودہ تصورات کا شکار ہے اس نظریاتی کج روی کی وجہ دو فیصد طبقہ آج بھی لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔

مارکس اور اینجلز نے سرمایہ دارانہ نظام کے فسوں کو توڑ کر دنیا کے سامنے لٹیروں اور لوٹ مار کے طریقوں سے دنیا کو آگاہ کیا معاشی ناانصافیوں کو ختم کرنے کے حوالے سے یہ ایک قابل ذکر پیش رفت تھی، لیکن وسائل پر قابض طبقات نے معاشی ناانصافیوں کے خلاف اٹھنے والی اسی مدبرانہ اور منصفانہ آواز کا مختلف بہانوں سے گلہ گھونٹ دیا اور لوٹ مار کے نظام کو اور مستحکم کیا۔

دور کیوں جائیں خود ہمارے ملک پاکستان کو لیجیے، بے روک ٹوک ، بے لگام لوٹ مار کے بعد اب ''کچھ لوگ'' اس کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس کے خلاف سخت مزاحمت کی جا رہی ہے، اربوں روپوں کی کھلی کرپشن کے خلاف ثبوت کے ساتھ آواز اٹھائی جا رہی ہے لیکن شاہوں ماڈرن شہزادوں اور شہزادیوں کے یہ ریوڑ آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، ناانصافی ہو رہی ہے ۔ ان کے خلاف اربوں کھربوں کی لوٹ مار کے ثبوت ہیں اور ان ثبوتوں کی روشنی میں انھیں سخت سے سخت سزائیں ملنی چاہئیں لیکن ملک کے اندر سے ملک کے باہر سے بڑی بڑی سفارشیں لائی جا رہی ہیں اور بدنام زمانہ این آر او لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ وقت ہے کہ اہل خرد دانشور مفکر اپنی بے حسی کی قبروں سے نکلیں اور دنیا بھر کے دانشوروں کو جگائیں، سر جوڑ کر بیٹھیں، پاکستان اور دنیا کے غریب انسانوں کو طبقاتی استحصال سے بچانے کے لیے سرمایہ دارانہ ظالمانہ نظام کی بے لگام لوٹ مار سے بچانے کے لیے کوئی منصفانہ نظام کی تشکیل کے لیے آگے بڑھیں تاکہ دنیا کو یہ احساس ہو کہ دنیا میں ابھی دانشور مفکر زندہ ہیں۔
Load Next Story