پبلک اکائونٹس کمیٹی ـسب اچھا نہیں ہے

اب شہباز شریف اپنے منصب کو اپنے خلاف مقدمات میں بطور ڈھال استعمال کر رہے ہیں۔

ali.dhillon@ymail.com

1861میں برطانوی پارلیمنٹ میں گلیڈ اسٹونین اصلاحات(Gladstonian Reforms)نافذ کی گئیں، جس میں یہ ضروری قرار دیا گیا کہ برطانیہ کے زیر کنٹرول تمام ممالک میں مختلف کمیٹیاں بنائی جائیں گی جو اُس ملک کی ترقی، قانون سازی اور اداروں میں کرپشن کی روک تھام کے لیے کام کریں گی۔ ان اصلاحات کی کامیابی کے بعد انھیں کئی جمہوری ملکوں میں بھی اپنایا گیاخصوصاً دولت مشترکہ کے کئی ممالک میں یہ اصلاحات آج بھی نافذ العمل ہیں۔

پاکستان کا پارلیمانی نظام چونکہ بھارتی و برطانوی پارلیمانی نظام سے میل کھاتا ہے اس لیے پاکستان آزاد ہونے کے ساتھ ہی مئی 1948ء میں پبلک اکائونٹس کمیٹی بنائی گئی ، اُس کے بعد دوسری پبلک اکائونٹس کمیٹی اپریل 1951ء میں بنائی گئی جس کے چیئرمین غیاث الدین پٹھان تھے، تیسری کمیٹی اپریل 1953ء میں بنائی گئی جس کے چیئرمین محمد علی تھے، چوتھی کمیٹی اپریل 1956ء میں بنائی گئی جس کے چیئرمین سید امجد علی تھے، پانچویں اور چھٹی کمیٹی 1965ء میں بنی دونوں کمیٹیوں کے چیئرمین نور الامین تھے، چھٹی کمیٹی 1972ء میں بنی جس کے چیئرمین مبشر حسن تھے، ساتویں پبلک اکائونٹس کمیٹی 1985ء میں بنی جس کے چیئرمین صاحبزادہ ایم علی شاہ تھے، آٹھویں کمیٹی 1989ء میں بنی جس کے چیئرمین آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری تھے، نویں کمیٹی 1991میں بنی، دسویں کمیٹی 1995 جب کہ گیارھویں کمیٹی 1997ء میں بنی، اسی طرح بارھویں کمیٹی نومبر 2003ء میں بنی جس کے چیئرمین ملک اللہ یار خان تھے۔

یہاں تک تو تمام چیئرمین حکومتی وزرا یا ایم این ایز ہی بنتے تھے لیکن 2006ء میں میثاق جمہوریت پر دستخط ہونے کے بعد میاں نواز شریف اور بے نظیر کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین اپوزیشن لیڈر ہوگا یا اپوزیشن جماعت میں سے کوئی بھی ہوسکتا ہے۔یہ شق اس لیے رکھی گئی تھی کہ ماضی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین حکومت اپنا ہی لگا دیتی تھی، یہی وجہ ہے کہ آج تک پبلک اکاؤنٹس کمیٹی پاکستان میں ادارے کی حیثیت نہیں حاصل کر سکی۔ اسی لیے تیرھویں پی اے سی( 2008ء سے 2013) کے چیئرمین اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان اور ندیم افضل گوندل رہے جب کہ چودھویں پبلک اکائونٹس کمیٹی (2013 سے 2018ء) کے چیئرمین اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ رہے۔

اس کمیٹی کے کام کا جائزہ لیا جائے تو وفاقی حکومت کی جانب سے بجٹ میں جس جس وزارت اور محکمے کو جو پیسے ملتے ہیں، اس کی آڈٹ رپورٹ میں اٹھائے گئے اعتراضات کا جائزہ لینا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا کام ہوتا ہے۔پبلک اکائونٹس کمیٹی سرکاری محکموں کو دی جانے والی سالانہ گرانٹس اور فنڈز سے متعلق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کو زیر بحث لاتی ہے اور جس ادارے کے سربراہ کو طلب کیا جائے تو اسے اس گرانٹ سے متعلق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو مطمئن کرنا ضروری ہوتاہے۔

مطمئن نہ ہونے کی صورت میں کمیٹی اس معاملے میں ایف آئی اے یا کسی بھی تفتیشی ادارے کو تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی ادارے کے سربراہ کو طلب کرسکتا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین خورشید شاہ متعدد بار نیب کے چیئرمین اور دیگر اداروں کے سربراہان کو طلب کیا کرتے تھے۔


ابھی تک اگر اس کمیٹی کی ''کوالٹی'' کی بات کی جائے تو جنرل مشرف نے پہلی دفعہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کو میڈیا کے لیے اوپن کیا اور ایک ایڈہاک کمیٹی بنائی جس کے چیئرمین ایچ بو بیگ تھے اور ممبران بھی زیادہ تر ریٹائرڈ فیڈرل سیکریٹریز تھے۔ یہ کمیٹی گزشتہ 35سالوں میں سب سے اچھی کمیٹی تھی۔ اس کے بعد آنے والی کمیٹیاں سیاستدانوں کے کارنامے مٹانے اور سیٹل کرنے کے لیے استعمال ہوتی رہیں۔ بیوروکریٹس بڑے سیانے ہوتے ہیں، انھیں علم ہوتا ہے کہ سیاستدانوں کو کس طرح اپنے زیر سایہ کر ہے اور انھیں کس طرح پھنسانا ہے۔ لہٰذاوہ خود بھی کھاتے اور انھیں بھی کھلاتے تو ہیں لیکن سب ملبہ سیاستدانوں کے کھاتے میں درج ہوتا ہے۔ انھی بیوروکریٹس کی بدولت سیاستدانوں میں جن جن لوگوں نے بڑے ہاتھ مارے ہیں ان میں پاکستان میں وہی چند خاندان آتے ہیں جن کا میں اکثر نام لیا کرتا ہوں ، ان کی دیکھا دیکھی باقی حواریوں نے بھی کرپشن میں ہاتھ بٹایا اور بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کے لیے خوب مال بنایا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک دلوالیہ ہوگیا۔

پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے باری باری کھل کر پی اے سی کو اپنے بڑے بڑے اسکینڈلز سیٹل کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اختر بلند رانا نے آڈیٹر جنرل آفس سے آئی پی پیز کو دیے جانے والے پانچ سو ارب روپے کے قریب سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی کا آڈٹ کرایا تو ہوشربا انکشافات ہوئے لیکن اس وقت کے چیئر مین نے ان ادائیگیوں کو جائز قرار دے دیا۔

موجودہ پندرھویں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی بات کی جائے تو اس کے چیئرمین شہباز شریف ہیں، وہ بنے تو حکومت کے توسط ہی سے ہیں مگر قارئین کے لیے وہ الفاظ دہراتا چلوں جو شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ میں بولے تھے انھوں نے کہا تھا کہ '' جمہوریت کی بقا کی خاطر ،اس ایوان کو فعال رکھنے کی خاطر اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قانون سازی کی خاطر وفاقی حکومت یہ معاملہ اپوزیشن لیڈر پر چھوڑتی ہے کہ وہ کسی بھی فرد کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نامزد کر دیں اور اگر وہ خود بھی چیئرمین بننا چاہیں تو حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا'' میری ناقص اطلاعات کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے بھی وزیر اعظم عمران خان سے بات کی، جس پر وزیر اعظم تو مان گئے مگر اُن کے وزیر شدید احتجاج کرتے نظر آئے۔ فواد حسین چو ہدری نے کھل کر میاں شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بنانے کی مخالفت کی، پھر شیخ رشید احمد میدان میں۔

اب شہباز شریف اپنے منصب کو اپنے خلاف مقدمات میں بطور ڈھال استعمال کر رہے ہیں۔بہرکیف تحریک انصاف اہم کمیٹی کھو چکی ہے۔ ایسا منظر بھی دیکھا گیا کہ ایک دن نیب کے تفتیش کاروں کے سامنے حاضر ہونے والے شخص نے اگلے دن نیب حکام کو پی اے سی میں طلب کر لیا۔اس لیے میرے خیال سب اچھا نہیں ہے! دنیا کے کسی مہذب اور قانون پسند ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ بدعنوانی یا گھپلے پر گرفتار کوئی رکن پارلیمنٹ اداروں کے سربراہوں کو طلب کر کے ان کی گوشمالی کرے۔ تحریک انصاف اور اس کی حامی جماعتوں کا موقف رہا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس وقت تک ایسے ہر عہدے کے لیے نا اہل قرار دیدیا جائے جو عوامی نمایندگی رکھتے ہیں۔

دنیا بھر کے ترقی یافتہ سیاسی و جمہوری معاشروں میں ایسی روایات ہیں کہ احتسابی نوعیت کے اداروں کی سربراہی عموماً ایسے افراد کو دی جاتی ہے جن پر الزامات نہ ہوں ، لہٰذا اگر وفاقی کابینہ موصوف کی پی اے سی سربراہی پر معترض اور ان سے اخلاقی طور پر مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے تو بظاہر یہ کوئی قابل اعتراض اور غیر منطقی مطالبہ نہیں ہے، سابق وزیر اعلیٰ کو بھی چاہیے کہ وفاقی کابینہ کی تشویش کو ذاتی پسند نا پسند سمجھنے کے بجائے نیب سے اپنی بریت اور خود کو بے داغ ثابت کرنے تک اس عہد ے سے الگ ہوجائیں تا کہ پارلیمنٹ کا تقدس برقرار رہے۔
Load Next Story