معذوری جھیلتیرنگوں سے کھیلتی ’فریدہ کاہلو‘
باہمّت عورت اور ایک عظیم مصورہ کی مختصر کہانی
صحت و تن درستی ایک انمول نعمت ہے جس کا اصل احساس اسی وقت ہوتا ہے جب کوئی حادثہ یا کسی بیماری کے باعث معذوری کے بعد کوئی دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے۔
زیادہ تر لوگ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرپاتے اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، لیکن کچھ لوگ اپنی محرومی کو زندگی کا روگ نہیں بننے دیتے بلکہ اپنی قوتِ ارادی سے کام لے کر دنیا کے لیے مثال بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ زندگی سے ناامید اور مایوس ہو جانے والوں میں جینے کی امنگ پیدا کردیتے ہیں اور ان کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے ہی باہمت لوگوں کی فہرست میں فریدہ کاہلو بھی شامل ہیں جو معروف مصور اور ایک عظیم آرٹسٹ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
فریدہ کاہلو نے چھے جولائی 1907 کو میکسیکو کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد جرمن اور والدہ کا تعلق ہسپانوی تھیں۔ فریدہ بچپن ہی سے بہت کم زور تھیں اور اسی جسمانی کم زوری کے باعث چھے سال کی عمر میں پولیو جیسے خطرناک مرض کا شکار ہوگئیں۔ یہ بچی نو ماہ تک بستر سے پیر نیچے نہ رکھ سکی اور پولیو نے اس کے دائیں پیر کو متاثر کیا۔ وہ زندگی بھر اسی نقص کے ساتھ چلتی پھرتی رہیں۔ ایک بچی کے لیے یہ بڑا جذباتی صدمہ تھا۔ وہ اپنے اس نقص کو دنیا سے چھپانے کے لیے لمبی اسکرٹس پہنتی تھی۔ فریدہ اپنی والدہ کی نسبت والد سے زیادہ قریب تھیں۔ کاہلو کے والد فوٹوگرافر تھے اور جمالیاتی ذوق اور زندگی کا گہرا شعور رکھتے تھے
جب فریدہ پولیو جیسی بیماری کا شکار ہونے کے بعد رنجیدہ اور غمگین رہنے لگیں تو ان کے والد نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے فریدہ کو فٹ بال، تیراکی اور ریسلنگ جیسے کھیلوں میں حصہ لینے پر رضامند کیا اور یہ تمام کھیل فریدہ کو جسمانی طور پر مضبوط بنانے اور ان کا خود پر اعتماد بحال کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوئے۔
فریدہ نے میکسیکو کے ایک اسکول میں داخلہ لے لیا جہاں اس وقت صرف پینتیس لڑکیاں تھیں۔ بہت جلد فریدہ ان کے درمیان ایک باہمت اور بہادر لڑکی کے طور پر مشہور ہو گئیں۔ اسی اسکول میں ان کی ملاقات میکسکن آرٹسٹ ڈیگو ریویرا سے ہوئیج جو اسکول کی دیواروں پر پینٹنگ کررہے تھے۔ وہ فن کار فریدہ کے دل میں اتر گیا۔
کاہلو کی بھرپور اور نشیب و فراز سے عبارت زندگی کی کہانی میں بس کے حادثے، کئی بیماریوں، لاتعداد معاشقوں اور میکسیکو کے عظیم مصور ڈیگو ریویرا سے بے پناہ محبت کا گہرا عکس نظر آتا ہے۔ تاہم یہ محبت ان کی شخصیت میں مزید ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنی۔ پولیو کا شکار فریدہ محض اٹھارہ برس کی تھیں، جب بس کے ایک حادثے نے انھیں اپاہج بنا دیا اور یوں ان کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو گئی۔
فریدہ اسکول میں طالب علموں کے ایک ایسے گروہ سے وابستہ ہوئیں جو فریدہ کے سیاسی اور دانشوارانہ خیالات سے قریب تھے۔ یہاں ایک وارداتِ قلبی کا ظہور ہوا اور کچھ عرصے بعد وہ اس گروہ کے لیڈر کی محبت میں گرفتار ہو گئیں، مگر اسی عرصے میں ایک حادثے نے سب کچھ بدل کر دکھ دیا ستمبر کی ایک چمکیلی دوپہر وہ اپنے اسی محبوب کے ساتھ بس میں سفر کر رہی تھیں کہ وہ بس سڑک پر گاڑیوں سے ٹکرا گئی۔ حادثے میں فریدہ شدید زخمی ہوگئیں۔ ریڑھ کی ہڈی اور پیلوس میں فریکچر کے بعد ان کو کئی دنوں تک اسپتال میں زیر علاج رہنا پڑا۔ اس حادثے کا فریدہ کے دل اور دماغ پر گہرا اثر ہوا، لیکن وقت ہر زخم بھر دیتا ہے، فریدہ بھی زندگی کی طرف پلٹنے لگیں اور پینٹنگ کا سہارا لیا۔
اسی سال فریدہ نے اپنا پہلا پورٹریٹ مکمل کیا۔ وہ یہ سب بستر پر ہی کرتی تھیں۔ ان کے والدین نے اپنی بیٹی کا معذوری کے بعد بے حد خیال رکھا اور ان کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ کاہلو کی زیادہ تر پینٹنگز ان کے سیلف پورٹریٹس پر مشتمل ہیں۔ اِن تصاویر میں لمبی گردن والی ایک خوب صورت نوجوان عورت نظر آتی ہے۔ فریدہ نے اپنی مصوری کے بارے میں ایک بار کہا تھا۔ ''میں پینٹنگ اپنے لیے کرتی ہوں، کیوں کہ اکثر میں تنہا ہوتی ہوں اور میں ایک مضمون ہوں جسے میں سب سے اچھے سے سمجھتی ہوں۔''
1928میں وہ دوبارہ ڈیگو ریویرا کی طرف متوجہ ہوئیں اور اپنی والدہ کی مخالفت کے باوجود اپنے وقت کے اس مشہور مصور سے شادی کرلی۔ تاہم ان کی شادی شدہ زندگی ہمیشہ اونچ نیچ کا شکار رہی۔ ڈیگو عاشق مزاج تھے۔ ان کے کئی عورتوں سے افیئرز رہے جس کے باعث گھر میں جھگڑا رہتا۔ بس کے حادثے کے بعد فریدہ ماں نہیں بن سکتی تھیں۔ فریدہ کو اولاد نہ ہونے کا دکھ بھی تھا اور دوسری طرف شوہر کی عدم توجہی اور رنگین مزاجی نے بھی انھیں توڑ کر رکھ دیا۔
1938 میں انھوں نے نیو یارک میں اپنی پینٹنگز کی نمائش منعقد کی اور اپنے چند فن پارے فروخت بھی کیے۔ اگلے سال وہ اپنے دوست کی دعوت پر پیرس گئیں۔ یہاں ان کے کام کو اپنے وقت کے بڑے مصوروں نے سراہا۔ اسی سال انھوں نے اپنی سب سے مشہور پینٹنگ The Two Fridas تخلیق کی۔ 1941میں انھیں میکسیکن حکومت کی طرف سے پانچ نمایاں اور قابل عورتوں کے پورٹریٹ بنانے کا کام سونپا گیا، لیکن اسی دوران ان کے والد دنیا سے رخصت ہو گئے اور صدمے کی وجہ سے فریدہ یہ پروجیکٹ مکمل نہ کرسکیں۔
فریدہ کاہلو اپنی دن بہ دن گرتی ہوئی صحت اور ناخوش گوار ازدواجی زندگی کے باوجود اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھیں۔ ان کی شہرت کا سفر جاری تھا اور ان کے فن پارے دنیا بھر میں ماہر مصوروں اور آرٹ کے ناقدین کی توجہ حاصل کر رہے تھے۔ 1944میں فریدہ نے اپنی ایک اور شاہ کار پینٹنگ تخلیق کی جن میں رنگوں کے ذریعے ان کا ذاتی دکھ اور کرب نمایاں تھا۔ تاہم اسی عرصے میں وہ جسمانی تکالیف اور امراض کے باعث آرٹ سے متعلق اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے میں دشواری محسوس کرنے لگیں۔ 1950 میں ایک اور صدمہ سیدھے پاؤں میں کینگرین کی تشخیص سے پہنچا اور وہ اس پیر سے بالکل معذور ہوگئیں۔ تاہم اس دوران بھی وہ اپنے حوصلے اور ہمت سے کام لے کر پینٹنگز تخلیق کرتی رہیں اور میکسیکو میں ان کی نمائش کا انعقاد بھی کیا۔
اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے وہ ایمبولینس میں سوار ہو کر پہنچی تھیں اور بستر پر لیٹے لیٹے سب کا استقبال کیا۔ چند ماہ بعد معالجین نے فیصلہ کیا کہ ان کے دائیں پیر کے متاثرہ حصے کو کاٹ دیا جائے اور یہی کیا گیا۔ ایک عرصے تک امراض اور صدمات سے لڑتے لڑتے اب ان کی ہمت جواب دے رہی تھی۔ 1954 ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ اس باہمت اور عظیم مصورہ کے فن پاروں کی نمائش دنیا کی مشہور آرٹ گیلریز میں ہوتی رہتی ہیں اور ان کی زندگی پر مختلف فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں۔ فریدہ کاہلو اس فن سے وابستہ آرٹسٹوں کے لیے نہ صرف فنی اعتبار سے اہم اور قابلِ ذکر ہیں بلکہ ان کی زندگی بھی ہر ایک کے لیے ہمّت اور بہادری کی مثال ہے۔
زیادہ تر لوگ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرپاتے اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، لیکن کچھ لوگ اپنی محرومی کو زندگی کا روگ نہیں بننے دیتے بلکہ اپنی قوتِ ارادی سے کام لے کر دنیا کے لیے مثال بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ زندگی سے ناامید اور مایوس ہو جانے والوں میں جینے کی امنگ پیدا کردیتے ہیں اور ان کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے ہی باہمت لوگوں کی فہرست میں فریدہ کاہلو بھی شامل ہیں جو معروف مصور اور ایک عظیم آرٹسٹ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
فریدہ کاہلو نے چھے جولائی 1907 کو میکسیکو کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد جرمن اور والدہ کا تعلق ہسپانوی تھیں۔ فریدہ بچپن ہی سے بہت کم زور تھیں اور اسی جسمانی کم زوری کے باعث چھے سال کی عمر میں پولیو جیسے خطرناک مرض کا شکار ہوگئیں۔ یہ بچی نو ماہ تک بستر سے پیر نیچے نہ رکھ سکی اور پولیو نے اس کے دائیں پیر کو متاثر کیا۔ وہ زندگی بھر اسی نقص کے ساتھ چلتی پھرتی رہیں۔ ایک بچی کے لیے یہ بڑا جذباتی صدمہ تھا۔ وہ اپنے اس نقص کو دنیا سے چھپانے کے لیے لمبی اسکرٹس پہنتی تھی۔ فریدہ اپنی والدہ کی نسبت والد سے زیادہ قریب تھیں۔ کاہلو کے والد فوٹوگرافر تھے اور جمالیاتی ذوق اور زندگی کا گہرا شعور رکھتے تھے
جب فریدہ پولیو جیسی بیماری کا شکار ہونے کے بعد رنجیدہ اور غمگین رہنے لگیں تو ان کے والد نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے فریدہ کو فٹ بال، تیراکی اور ریسلنگ جیسے کھیلوں میں حصہ لینے پر رضامند کیا اور یہ تمام کھیل فریدہ کو جسمانی طور پر مضبوط بنانے اور ان کا خود پر اعتماد بحال کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوئے۔
فریدہ نے میکسیکو کے ایک اسکول میں داخلہ لے لیا جہاں اس وقت صرف پینتیس لڑکیاں تھیں۔ بہت جلد فریدہ ان کے درمیان ایک باہمت اور بہادر لڑکی کے طور پر مشہور ہو گئیں۔ اسی اسکول میں ان کی ملاقات میکسکن آرٹسٹ ڈیگو ریویرا سے ہوئیج جو اسکول کی دیواروں پر پینٹنگ کررہے تھے۔ وہ فن کار فریدہ کے دل میں اتر گیا۔
کاہلو کی بھرپور اور نشیب و فراز سے عبارت زندگی کی کہانی میں بس کے حادثے، کئی بیماریوں، لاتعداد معاشقوں اور میکسیکو کے عظیم مصور ڈیگو ریویرا سے بے پناہ محبت کا گہرا عکس نظر آتا ہے۔ تاہم یہ محبت ان کی شخصیت میں مزید ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنی۔ پولیو کا شکار فریدہ محض اٹھارہ برس کی تھیں، جب بس کے ایک حادثے نے انھیں اپاہج بنا دیا اور یوں ان کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو گئی۔
فریدہ اسکول میں طالب علموں کے ایک ایسے گروہ سے وابستہ ہوئیں جو فریدہ کے سیاسی اور دانشوارانہ خیالات سے قریب تھے۔ یہاں ایک وارداتِ قلبی کا ظہور ہوا اور کچھ عرصے بعد وہ اس گروہ کے لیڈر کی محبت میں گرفتار ہو گئیں، مگر اسی عرصے میں ایک حادثے نے سب کچھ بدل کر دکھ دیا ستمبر کی ایک چمکیلی دوپہر وہ اپنے اسی محبوب کے ساتھ بس میں سفر کر رہی تھیں کہ وہ بس سڑک پر گاڑیوں سے ٹکرا گئی۔ حادثے میں فریدہ شدید زخمی ہوگئیں۔ ریڑھ کی ہڈی اور پیلوس میں فریکچر کے بعد ان کو کئی دنوں تک اسپتال میں زیر علاج رہنا پڑا۔ اس حادثے کا فریدہ کے دل اور دماغ پر گہرا اثر ہوا، لیکن وقت ہر زخم بھر دیتا ہے، فریدہ بھی زندگی کی طرف پلٹنے لگیں اور پینٹنگ کا سہارا لیا۔
اسی سال فریدہ نے اپنا پہلا پورٹریٹ مکمل کیا۔ وہ یہ سب بستر پر ہی کرتی تھیں۔ ان کے والدین نے اپنی بیٹی کا معذوری کے بعد بے حد خیال رکھا اور ان کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ کاہلو کی زیادہ تر پینٹنگز ان کے سیلف پورٹریٹس پر مشتمل ہیں۔ اِن تصاویر میں لمبی گردن والی ایک خوب صورت نوجوان عورت نظر آتی ہے۔ فریدہ نے اپنی مصوری کے بارے میں ایک بار کہا تھا۔ ''میں پینٹنگ اپنے لیے کرتی ہوں، کیوں کہ اکثر میں تنہا ہوتی ہوں اور میں ایک مضمون ہوں جسے میں سب سے اچھے سے سمجھتی ہوں۔''
1928میں وہ دوبارہ ڈیگو ریویرا کی طرف متوجہ ہوئیں اور اپنی والدہ کی مخالفت کے باوجود اپنے وقت کے اس مشہور مصور سے شادی کرلی۔ تاہم ان کی شادی شدہ زندگی ہمیشہ اونچ نیچ کا شکار رہی۔ ڈیگو عاشق مزاج تھے۔ ان کے کئی عورتوں سے افیئرز رہے جس کے باعث گھر میں جھگڑا رہتا۔ بس کے حادثے کے بعد فریدہ ماں نہیں بن سکتی تھیں۔ فریدہ کو اولاد نہ ہونے کا دکھ بھی تھا اور دوسری طرف شوہر کی عدم توجہی اور رنگین مزاجی نے بھی انھیں توڑ کر رکھ دیا۔
1938 میں انھوں نے نیو یارک میں اپنی پینٹنگز کی نمائش منعقد کی اور اپنے چند فن پارے فروخت بھی کیے۔ اگلے سال وہ اپنے دوست کی دعوت پر پیرس گئیں۔ یہاں ان کے کام کو اپنے وقت کے بڑے مصوروں نے سراہا۔ اسی سال انھوں نے اپنی سب سے مشہور پینٹنگ The Two Fridas تخلیق کی۔ 1941میں انھیں میکسیکن حکومت کی طرف سے پانچ نمایاں اور قابل عورتوں کے پورٹریٹ بنانے کا کام سونپا گیا، لیکن اسی دوران ان کے والد دنیا سے رخصت ہو گئے اور صدمے کی وجہ سے فریدہ یہ پروجیکٹ مکمل نہ کرسکیں۔
فریدہ کاہلو اپنی دن بہ دن گرتی ہوئی صحت اور ناخوش گوار ازدواجی زندگی کے باوجود اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھیں۔ ان کی شہرت کا سفر جاری تھا اور ان کے فن پارے دنیا بھر میں ماہر مصوروں اور آرٹ کے ناقدین کی توجہ حاصل کر رہے تھے۔ 1944میں فریدہ نے اپنی ایک اور شاہ کار پینٹنگ تخلیق کی جن میں رنگوں کے ذریعے ان کا ذاتی دکھ اور کرب نمایاں تھا۔ تاہم اسی عرصے میں وہ جسمانی تکالیف اور امراض کے باعث آرٹ سے متعلق اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے میں دشواری محسوس کرنے لگیں۔ 1950 میں ایک اور صدمہ سیدھے پاؤں میں کینگرین کی تشخیص سے پہنچا اور وہ اس پیر سے بالکل معذور ہوگئیں۔ تاہم اس دوران بھی وہ اپنے حوصلے اور ہمت سے کام لے کر پینٹنگز تخلیق کرتی رہیں اور میکسیکو میں ان کی نمائش کا انعقاد بھی کیا۔
اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے وہ ایمبولینس میں سوار ہو کر پہنچی تھیں اور بستر پر لیٹے لیٹے سب کا استقبال کیا۔ چند ماہ بعد معالجین نے فیصلہ کیا کہ ان کے دائیں پیر کے متاثرہ حصے کو کاٹ دیا جائے اور یہی کیا گیا۔ ایک عرصے تک امراض اور صدمات سے لڑتے لڑتے اب ان کی ہمت جواب دے رہی تھی۔ 1954 ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ اس باہمت اور عظیم مصورہ کے فن پاروں کی نمائش دنیا کی مشہور آرٹ گیلریز میں ہوتی رہتی ہیں اور ان کی زندگی پر مختلف فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں۔ فریدہ کاہلو اس فن سے وابستہ آرٹسٹوں کے لیے نہ صرف فنی اعتبار سے اہم اور قابلِ ذکر ہیں بلکہ ان کی زندگی بھی ہر ایک کے لیے ہمّت اور بہادری کی مثال ہے۔