اپنا احتساب کیجیے
خود پسندی آپ کی شخصیت کو مسخ کر رہی ہے۔
ہر انسان ستائش اور اپنی تعریف پسند کرتا ہے اور یہ اس کی فطرت میں شامل ہے۔ تاہم مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ ستائش پسند اور جذباتی ہوتی ہیں۔
وہ چاہتی ہیں کہ جس میدان میں قدم رکھیں، ترقی اور کام یابی ان کے قدم چومے۔ کسی محفل میں جائیں تو مرکزِ نگاہ ٹھیریں۔ ان کے کاموں کو سراہا جائے۔ اسی لیے آج کل کی خواتین میرے کپڑے، میرے جوتے، میرا ہیئر کٹ، میرا لائف سٹائل اور میری مصروفیات وغیرہ کا اظہار کر کے دوسروں کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ کچھ الگ ہیں۔
تاہم یہ صحیح طرز عمل نہیں، بلکہ بعض اوقات ہمارا یہ عمل سامنے والے اور بہت سے لوگوں کے لیے باعث اذیت بن جاتا ہے، لیکن ہم اپنی انا کی تسکین اور خوشی کے لیے اپنے کسی طرزِ عمل اور رویے کی وجہ سے دوسروں کو ہونے والی اذیت کو محسوس نہیں کرتے، بلکہ خود پسندی کے زعم میں مزید آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
حالاں کہ اصل عملی زندگی میں انسان کو اپنے منفی اور مثبت دونوں رجحانات کو مدنظر رکھ کر اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ جو لوگ خود اپنا احتساب کرتے ہیں تو لوگ بھی خود ان کی مثال دیتے ہیں۔ اور خوشی کا باعث تو یہی بات ہوتی ہے کہ آپ اپنی مثال خود نہ دیں بلکہ لوگ آپ کو بہ طور مثال دوسروں کے سامنے پیش کریں۔ اصل کام یابی تو یہی ہے ورنہ خودپسندی کی عادت عموما جگ ہنسائی کا سبب بن جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یونان کے ایک مصور نے تصویر بنائی جس میں ایک آدمی کو انگور کا خوشہ پکڑے دکھایا گیا تھا۔ اس نے تصویر کو بازار میں لگا دیا۔ جو بھی تصویر دیکھتا، اس کی تعریف کرتا۔ مصور کے کچھ دوست کہنے لگے تم نے انگوروں کا خوشہ اس قدر بہترین بنایا ہے کہ چڑیاں آتی ہیں اور اسے اصل سمجھ کر چونچ مارتی ہیں۔ مصور نے اپنی تعریف پر تکبر کرنے کے بجائے تصویر میں اپنی غلطی ڈھونڈنا شروع کر دی اور کہا اس کا مطلب ہے کہ میری تصویر میں کچھ خامی رہ گئی ہے، ورنہ چڑیاں آدمی کو بھی اصل ہی سمجھتیں، اور اس کے ڈر سے انگوروں پر چونچ مارنے کی جرات نہ کرتیں۔ مصور نے تصویر اتاری اور پہلے سے بہتر تصویر بنائی۔
اس تصویر میں بھی ایک آدمی انگور کا خوشہ لیے کھڑا تھا ،انگور کا خوشہ اس مہارت سے بنایا گیا تھا کہ چڑیاں اس کو دیکھ کر اس کے پاس آتیں مگر اب چونچ مارنے کی ہمت نہ ہوتی، وہ آدمی کے ڈر سے تصویر سے دور رہتیں۔ یعنی زندگی میں اپنی تعریف اور ستائش پر خود پسندی کا شکار ہونے کے بجائے اپنے کاموں اور اعمال کا جائزہ لیتے رہنا بہتر ہے۔ یہی مشاہدہ اور خود احتسابی ہمیں ترقی کی معراج پر پہنچا دیتی ہے، اور دوسرے ہماری مثال دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
خواتین زیادہ تر گھر میں وقت گزارتی ہیں جہاں رشتے ناتوں سے ان کا واسطہ پڑتا ہے، جس کی وجہ سے خواتین میں اپنی رشتے دار عورتوں سے آگے بڑھنے اور ان پر اپنی برتری قائم رکھنے کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً اپنے کپڑے، ہیئر اسٹائل، جوتوں، پرس وغیرہ پر خصوصی توجہ دیتی ہیں، اور جب کسی تقریب میں خوب سج کر پہنچتی ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لیں اور اس کے لیے وہ خود اپنی زندگی اور اپنی ذات سے متعلق گفتگو کیے جاتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ سب ان کی تعریف کریں جب کہ سادگی میں بھی ایک حسن ہوتا ہے اور ایک کم قیمت لباس بھی قرینے سے پہنا جائے تو نمایاں ہوجاتا ہے، مگر آج کل برانڈ کا جنون اور برتری کی خواہش کے بطن سے جس خود پسندی نے جنم لیا ہے، وہ ہماری شخصیت کو مسخ کر رہی ہے۔
اسی طرح کچھ خواتین کو ذاتیات کے ساتھ ساتھ اپنے ڈرائنگ روم اور کچن کو ڈیکوریٹ کرنے کا بھی انتہا درجہ کا شوق ہوتا ہے۔ وہ اس شوق میں اپنے خاندان خصوصا اپنے شوہر کے لیے مشکل کا باعث بن جاتی ہیں۔ اس شوق کی خاطر وہ اپنا بجٹ بھی مدنظر نہیں رکھتیں۔ پھر وہ اپنے گھر کی دعوتوں میں اپنے ذوق اور شوق کو بیان کرتی ہیں جس سے انہیں وقتی خوشی اور اطمینان تو ضرور مل جاتا ہے لیکن یہ عادت ان کی آئندہ زندگی اور بجٹ پر برا اثر ڈالتی ہے۔
اگر آپ یہ محسوس کرتی ہیں کہ آپ خود پسندی کی عادت کا شکار ہیں اور اس سے چھٹکارا پانا چاہتی ہیں تو اس حوالے سے کوشش کی جاسکتی ہے۔ جیسے ہم نے اوپر مصور کے قصے سے سیکھا کہ انسان جتنی بار بھی اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش کرتا ہے، اس کی ذات اور کام میں بہتری آجاتی ہے۔ ماضی کی خرابیوں اور خامیوں سے نجات حاصل کرکے بہتری کا سفر جاری رکھا جائے اور اصل ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو اپنے گھر بار کے لیے وقف کیا جائے تو آپ کی ذات نکھر سکتی ہے۔ جو لوگ خود احتسابی کو اپنا لیتے ہیں وہ ہمیشہ کام یاب ہوتے ہیں۔
دوسروں کی ذات کی خامیوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کو موضوع بحث بنانے کے بجائے اپنی غلطیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کو تلاش کرکے مثبت تبدیلی کے لیے خود کو تیار کریں۔ اپنا احتساب کرتے رہنا چاہیے۔ اس طرح نہ صرف آپ کو خوشی ملے گی بلکہ آپ دوسروں کے لیے مثال بن جائیں گی۔
وہ چاہتی ہیں کہ جس میدان میں قدم رکھیں، ترقی اور کام یابی ان کے قدم چومے۔ کسی محفل میں جائیں تو مرکزِ نگاہ ٹھیریں۔ ان کے کاموں کو سراہا جائے۔ اسی لیے آج کل کی خواتین میرے کپڑے، میرے جوتے، میرا ہیئر کٹ، میرا لائف سٹائل اور میری مصروفیات وغیرہ کا اظہار کر کے دوسروں کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ کچھ الگ ہیں۔
تاہم یہ صحیح طرز عمل نہیں، بلکہ بعض اوقات ہمارا یہ عمل سامنے والے اور بہت سے لوگوں کے لیے باعث اذیت بن جاتا ہے، لیکن ہم اپنی انا کی تسکین اور خوشی کے لیے اپنے کسی طرزِ عمل اور رویے کی وجہ سے دوسروں کو ہونے والی اذیت کو محسوس نہیں کرتے، بلکہ خود پسندی کے زعم میں مزید آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
حالاں کہ اصل عملی زندگی میں انسان کو اپنے منفی اور مثبت دونوں رجحانات کو مدنظر رکھ کر اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ جو لوگ خود اپنا احتساب کرتے ہیں تو لوگ بھی خود ان کی مثال دیتے ہیں۔ اور خوشی کا باعث تو یہی بات ہوتی ہے کہ آپ اپنی مثال خود نہ دیں بلکہ لوگ آپ کو بہ طور مثال دوسروں کے سامنے پیش کریں۔ اصل کام یابی تو یہی ہے ورنہ خودپسندی کی عادت عموما جگ ہنسائی کا سبب بن جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یونان کے ایک مصور نے تصویر بنائی جس میں ایک آدمی کو انگور کا خوشہ پکڑے دکھایا گیا تھا۔ اس نے تصویر کو بازار میں لگا دیا۔ جو بھی تصویر دیکھتا، اس کی تعریف کرتا۔ مصور کے کچھ دوست کہنے لگے تم نے انگوروں کا خوشہ اس قدر بہترین بنایا ہے کہ چڑیاں آتی ہیں اور اسے اصل سمجھ کر چونچ مارتی ہیں۔ مصور نے اپنی تعریف پر تکبر کرنے کے بجائے تصویر میں اپنی غلطی ڈھونڈنا شروع کر دی اور کہا اس کا مطلب ہے کہ میری تصویر میں کچھ خامی رہ گئی ہے، ورنہ چڑیاں آدمی کو بھی اصل ہی سمجھتیں، اور اس کے ڈر سے انگوروں پر چونچ مارنے کی جرات نہ کرتیں۔ مصور نے تصویر اتاری اور پہلے سے بہتر تصویر بنائی۔
اس تصویر میں بھی ایک آدمی انگور کا خوشہ لیے کھڑا تھا ،انگور کا خوشہ اس مہارت سے بنایا گیا تھا کہ چڑیاں اس کو دیکھ کر اس کے پاس آتیں مگر اب چونچ مارنے کی ہمت نہ ہوتی، وہ آدمی کے ڈر سے تصویر سے دور رہتیں۔ یعنی زندگی میں اپنی تعریف اور ستائش پر خود پسندی کا شکار ہونے کے بجائے اپنے کاموں اور اعمال کا جائزہ لیتے رہنا بہتر ہے۔ یہی مشاہدہ اور خود احتسابی ہمیں ترقی کی معراج پر پہنچا دیتی ہے، اور دوسرے ہماری مثال دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
خواتین زیادہ تر گھر میں وقت گزارتی ہیں جہاں رشتے ناتوں سے ان کا واسطہ پڑتا ہے، جس کی وجہ سے خواتین میں اپنی رشتے دار عورتوں سے آگے بڑھنے اور ان پر اپنی برتری قائم رکھنے کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً اپنے کپڑے، ہیئر اسٹائل، جوتوں، پرس وغیرہ پر خصوصی توجہ دیتی ہیں، اور جب کسی تقریب میں خوب سج کر پہنچتی ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لیں اور اس کے لیے وہ خود اپنی زندگی اور اپنی ذات سے متعلق گفتگو کیے جاتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ سب ان کی تعریف کریں جب کہ سادگی میں بھی ایک حسن ہوتا ہے اور ایک کم قیمت لباس بھی قرینے سے پہنا جائے تو نمایاں ہوجاتا ہے، مگر آج کل برانڈ کا جنون اور برتری کی خواہش کے بطن سے جس خود پسندی نے جنم لیا ہے، وہ ہماری شخصیت کو مسخ کر رہی ہے۔
اسی طرح کچھ خواتین کو ذاتیات کے ساتھ ساتھ اپنے ڈرائنگ روم اور کچن کو ڈیکوریٹ کرنے کا بھی انتہا درجہ کا شوق ہوتا ہے۔ وہ اس شوق میں اپنے خاندان خصوصا اپنے شوہر کے لیے مشکل کا باعث بن جاتی ہیں۔ اس شوق کی خاطر وہ اپنا بجٹ بھی مدنظر نہیں رکھتیں۔ پھر وہ اپنے گھر کی دعوتوں میں اپنے ذوق اور شوق کو بیان کرتی ہیں جس سے انہیں وقتی خوشی اور اطمینان تو ضرور مل جاتا ہے لیکن یہ عادت ان کی آئندہ زندگی اور بجٹ پر برا اثر ڈالتی ہے۔
اگر آپ یہ محسوس کرتی ہیں کہ آپ خود پسندی کی عادت کا شکار ہیں اور اس سے چھٹکارا پانا چاہتی ہیں تو اس حوالے سے کوشش کی جاسکتی ہے۔ جیسے ہم نے اوپر مصور کے قصے سے سیکھا کہ انسان جتنی بار بھی اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش کرتا ہے، اس کی ذات اور کام میں بہتری آجاتی ہے۔ ماضی کی خرابیوں اور خامیوں سے نجات حاصل کرکے بہتری کا سفر جاری رکھا جائے اور اصل ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو اپنے گھر بار کے لیے وقف کیا جائے تو آپ کی ذات نکھر سکتی ہے۔ جو لوگ خود احتسابی کو اپنا لیتے ہیں وہ ہمیشہ کام یاب ہوتے ہیں۔
دوسروں کی ذات کی خامیوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کو موضوع بحث بنانے کے بجائے اپنی غلطیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کو تلاش کرکے مثبت تبدیلی کے لیے خود کو تیار کریں۔ اپنا احتساب کرتے رہنا چاہیے۔ اس طرح نہ صرف آپ کو خوشی ملے گی بلکہ آپ دوسروں کے لیے مثال بن جائیں گی۔