آغا علی رضوی کی یاد میں
آغا علی رضوی اور این ایس ایف کے کارکنوں کی یہ واضح سوچ تھی کی سندھ کی سرکاری زبان سندھی ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر آغا علی رضوی امریکا کی ریاست کیلیفورنیا میں انتقال کرگئے۔ 70ء کی دہائی میں آغا علی رضوی طلبہ تحریک کا ایک دیومالائی کردار تھے، بچپن میں خیرپور کے اسکول میں درخت سے گر گئے تھے، وہ اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہوگئے مگر انھوں نے معذوری کو کبھی اہمیت نہ دی، وہ ویل چیئر پر سفرکرتے، بھارت کے عظیم مارکسٹ چارو مجمدار کی زندگی کو آئیڈلائزکرتے اور بائیں بازو کی طالب علموں کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے قائدین میں شمار ہوتے تھے۔
وہ نچلے متوسط طبقے کی بستی کورنگی میں قیام پذیر تھے۔ انھوں نے اپنی تعلیم میں ریاضی کے مضمون میں ہمیشہ خصوصی دلچسپی لی تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کا شمار کراچی یونیورسٹی شعبہ ریاضی کے ذہین طالب علموں میں ہوتا تھا۔ ریاضی کے ساتھ انگریزی شاعری ان کا خاص موضوع تھا۔ آغا علی رضوی کورنگی میں نقاش کاظمی، اشرف شاد، اشفاق حسین، شبر اعظمی اور انجم ابرار وغیرہ کے ساتھ مل کر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں کام کرتے تھے۔
وہ طالب علموں کو ریاضی اور انگریزی کی مفت تعلیم دیتے اور روایتی تعلیم کے ساتھ سوشل ازم اور دنیا کی مزاحمتی تاریخ کے بارے میں لیکچر دیا کرتے۔ وہ جب صبح اپنے گھر سے روانہ ہوتے تو طالب علموں کا ایک ہجوم ان کے ساتھ ہوتا۔ یہ طلبہ انھیں کراچی یونیورسٹی جانے والی بس ( پوائنٹ) میں سوار کراتے، یونیورسٹی پہنچ کر انھیں شعبہ ریاضی تک پہنچاتے تھے۔ 1968ء اور بعد کے سال سیاسی لحاظ سے ہنگامہ خیز سال تھے۔
جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف کراچی سے شروع ہونے والی طلبہ تحریک پورے ملک میں پھیل چکی تھی۔ راولپنڈی پولی ٹیکنیک کے طلبہ پر پولیس کی اندھا دھند فائرنگ اور ایک طالب علم کی شہادت کے بعد پورے ملک میں غم وغصے کی فضاء قائم ہوئی تھی۔ کراچی یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کراچی یونیورسٹی میں ایوب حکومت کے خلاف طلبہ کے احتجاج کو کچلنے کے لیے تیار رہتے تھے۔
اس زمانے میں ہونے والے طلبہ یونین کے انتخابات میں این ایس ایف کے امیدواروں کو انتظامیہ کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا، پھر این ایس ایف نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی تھی۔اس بھوک ہڑتال میں حصہ لینے والے اراکین کوگرفتار کرلیا گیا تھا اور پھر جنرل یحییٰ خان کی فوجی عدالت نے ان طلبہ کو قید کی سزائیں دی تھیں۔ اس جبرکے ماحول میں آغا علی رضوی کراچی یونیورسٹی میں این ایس ایف کے فعال کارکن بنے۔ وہ یونیورسٹی میں ہی صرف این ایس ایف کی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیتے بلکہ کراچی شہر میں متحرک رہتے، کچھ ایسی ہی فضاء کراچی کے مختلف علاقوں میں بھی تھی۔
آغا علی رضوی ان تمام مشکلات کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ وہ صبح کراچی یونیورسٹی میں این ایس ایف کے اجلاسوں میں جاتے۔ پھر ہفتے میں کئی دن کراچی کے کالجوں کا دورہ کرتے۔ شام کو ڈاؤ میڈیکل کالج کی کینٹین میں این ایس ایف کے کارکنوں کے اجلاس میں شریک ہوتے۔یہ وہ زمانہ تھا کہ بائیں بازو میں نظریاتی بحث عروج پر تھی۔ این ایس ایف کے کارکن دنیا بھر کا لٹریچر پڑھتے۔ اس زمانے میں سوویت یونین اور چین کے اختلافات کی بناء پر بائیں بازو کی تحریک کئی گروہوں میں تقسیم تھی۔
این ایس ایف کے کارکن رجعت پسند نظریات کا مقابلہ کرنے کے ساتھ اندرونی جنگ میں مصروف رہتے کہ نظریاتی بحثیں دھواںدار ہوتیں، اس میں عام طالب علم کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ مگر دنیا بھر کے انقلاب کے معاملات طے ہوتے۔ آغا علی رضوی این ایس ایف رشید گروپ کا حصہ بنے جو اپنے پروچائنا نظریات کی بناء پر مشہور تھا۔ شبر اعظمی جو ان کے بچپن کے ساتھی ہیں یہ دونوں کورنگی کے علاقے میں نظریاتی کام کرتے اور کراچی یونیورسٹی میں مصروف رہتے۔
شبر بھائی کا کہنا ہے کہ آغا علی رضوی این ایس ایف کی مدر آرگنائزیشن کمیونسٹ پارٹی کا فعال حصہ تھے۔ اعظمی بتاتے ہیں کہ آغا علی رضوی نے نویں جماعت سے ایم اے تک اول پوزیشن حاصل کی تھی۔ وہ کورنگی میں طلبہ کو معمولی معاوضے پر ٹیوشن پڑھاتے، والدین نظریات سے ہٹ کر بچوں کو بھیجتے تھے۔ کورنگی کے علاقے میں آغا صاحب کا چھوٹا سا مکان انقلابیوں کی سرگرمیوں کا محور تھا۔ اس مکان میں مزدورکارکنوں کے اجلاس ہوتے۔
لانڈھی کی مزدور تحریک کو مستحکم کرنے کے فیصلے ہوتے اور این ایس ایف کے پیغام کو پھیلانے پر غور و فکر ہوتا تھا۔ 1970ء کے عام انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی پروچائنا نے اپنے کارکنوں کو جو پیپلز پارٹی میں کام کرتے تھے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا تھا۔ یوں معراج محمد خان، ڈاکٹر شمیم، زین العابدین، طارق عزیز، ابرار الحسن اور این ایس ایف کے دیگر کارکنوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کا اس وقت کا نعرہ پرچی کے بجائے پرچھی تھا مگر این ایس ایف کے کارکنوں کی اکثریت پیپلز پارٹی سے ہمدردی رکھتی تھی۔
این ایس ایف نے سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی جماعت کا پلیٹ فارم دیا تھا۔ این ایس ایف کے ایک رہنما معراج محمد خان پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں سے تھے۔ یوں آغا صاحب اور ان کے ساتھیوں کی ہمدردیاں بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ تھیں۔ یہ لوگ معراج محمد خان کے قریبی حلقہ میں شمار ہوتے تھے۔ جب این ایس ایف میں 1972ء میں بنگلہ دیش تسلیم کرنے پر تقسیم ہوئی تو آغا علی رضوی اس گروپ کے قائدین میں شامل تھے جو بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کی حمایت کر رہا تھا۔
یہ انتہائی مناسب فیصلہ تھا مگر کمیونسٹ پارٹی کے بعض اکابرین چین کی حکومت کی پیروی کررہے تھے۔ انھوں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا تھا کہ چین پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کی بناء پر پالیسی بنا رہا ہے جس کی قیادت نے مارکسزم کو اپنی ریاست کے مفاد کے تابع کیا ہے۔ آغا علی رضوی سمجھتے تھے کہ نظریات ریاستوں کی پالیسی سے بالاتر ہونے چاہئیں اور بنگالی عوام کی تاریخی جدوجہد کو تسلیم کرنا چاہیے۔
ذوالفقارعلی بھٹو حکومت کے پہلے 6 ماہ کے دوران سائٹ اور لانڈھی میں مزدور تحریک کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ پہلے سائٹ میں مزدوروں پر فائرنگ ہوئی اور ہزاروں مزدوروں کو بے روزگار کیا گیا۔ لانڈھی میں حق مانگنے والے مزدوروں کے خلاف آپریشن ہوئے اور مزدور رہنما گرفتار ہوئے۔ آغا علی رضوی اور ان کے ساتھیوں نے پولیس آپریشن کے خلاف رائے عامہ ہموارکرنے کی کوشش کی۔ ان کی قیادت میں کراچی یونیورسٹی کی آرٹس لابی میں احتجاجی جلسے ہوئے۔
آغا علی رضوی اپنی ویل چیئر پر یونیورسٹی کے تمام شعبوں میں گئے۔ انھوں نے کلاسوں میں جا کر طلبہ کو مزدوروں کے ساتھ ہونے والے مظالم سے آگاہ کیا، شہر میں اس صورتحال کے خلاف جلوسوں میں شرکت کی۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھی زبان کو سندھ کی سرکاری زبان بنانے کا قانون سندھ اسمبلی سے منظور کرایا تو سندھ لسانی کشمکش میں مبتلا ہوا۔ اردو بولنے والے مفاد پرستوں کے ٹولے نے سندھی کو سرکاری زبان قرار دیے جانے کے خلاف منفی تحریک چلائی۔
آغا علی رضوی اور این ایس ایف کے کارکنوں کی یہ واضح سوچ تھی کی سندھ کی سرکاری زبان سندھی ہونی چاہیے۔ اردو کا سندھی سے کوئی تضاد نہیں ہے مگر سندھ کی بیوروکریسی کے کچھ اور مقاصد تھے۔ پولیس نے آغا علی رضوی اور شبر اعظمی کو گرفتار کرلیا۔ انھیں کورنگی تھانے کے لاک اپ میں رکھا گیا۔ پولیس والوں نے رضوی سے ویل چیئر چھین لی اور وہ تھانے کے لاک اپ میں چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے۔ ا س زمانے میں معراج محمد خان صدر ذوالفقار علی بھٹوکے عوامی امور کے مشیر تھے، وہ فوراً کراچی پہنچے۔
معراج محمد خان کی مداخلت پر شبر اعظمی اور آغا علی رضوی کو تھانے سے رہا کیا گیا۔ آغا علی رضوی نے کراچی یونیورسٹی میں ایم اے ریاضی کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی۔ پھر کراچی یونیورسٹی کی روایت کے مطابق اس زمانے میں اول پوزیشن آنے والے طالب علم کو لیکچرار کی ملازمت کی پیشکش کی جاتی تھی مگر آغا صاحب کو یہ پیشکش نہیں کی گئی۔ پروفیسر ڈاکٹر ناظم زیدی اس زمانے میں شعبہ ریاضی کے سربراہ تھے۔ ان کی سفارش کے باوجود آغا علی رضوی کے لیے اپنے مادر علمی کے دروازے فوری طور پر نہ کھل سکے۔
خاصے عرصے بعد وہ لیکچرار کے عہدے پر فائز ہوئے، وہ ریاضی میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتے تھے مگر کراچی یونیورسٹی کا ماحول سازگار نہیں تھا۔ جنرل ضیاء الحق کا دور شروع ہوتے ہی علمی آزادی کے ادارے پر قدغن عائد کی جارہی تھی۔ اس ماحول میں رضوی صاحب کو امریکا میں اسکالرشپ میرٹ پر ملی اور وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلے گئے۔
امریکا میں معذور افراد کو بہت سی سہولتیں حاصل ہیں، یوں امریکا میں ان کے حالات بہتر ہوئے۔ انھوں نے اقتصادیات کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ وہ امریکا میں مظلوم طبقات کی تحریکوں میں فعال رہے۔ آغا علی رضوی نے آخری عمر تک ترقی پسند نظریہ کو تھامے رکھا اور اپنے آدرش کے لیے کبھی اپنی معذوری کو رکاوٹ نہیں جانا، ہمیشہ نوجوانوں کا آئیڈیل رہے۔
وہ نچلے متوسط طبقے کی بستی کورنگی میں قیام پذیر تھے۔ انھوں نے اپنی تعلیم میں ریاضی کے مضمون میں ہمیشہ خصوصی دلچسپی لی تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کا شمار کراچی یونیورسٹی شعبہ ریاضی کے ذہین طالب علموں میں ہوتا تھا۔ ریاضی کے ساتھ انگریزی شاعری ان کا خاص موضوع تھا۔ آغا علی رضوی کورنگی میں نقاش کاظمی، اشرف شاد، اشفاق حسین، شبر اعظمی اور انجم ابرار وغیرہ کے ساتھ مل کر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں کام کرتے تھے۔
وہ طالب علموں کو ریاضی اور انگریزی کی مفت تعلیم دیتے اور روایتی تعلیم کے ساتھ سوشل ازم اور دنیا کی مزاحمتی تاریخ کے بارے میں لیکچر دیا کرتے۔ وہ جب صبح اپنے گھر سے روانہ ہوتے تو طالب علموں کا ایک ہجوم ان کے ساتھ ہوتا۔ یہ طلبہ انھیں کراچی یونیورسٹی جانے والی بس ( پوائنٹ) میں سوار کراتے، یونیورسٹی پہنچ کر انھیں شعبہ ریاضی تک پہنچاتے تھے۔ 1968ء اور بعد کے سال سیاسی لحاظ سے ہنگامہ خیز سال تھے۔
جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف کراچی سے شروع ہونے والی طلبہ تحریک پورے ملک میں پھیل چکی تھی۔ راولپنڈی پولی ٹیکنیک کے طلبہ پر پولیس کی اندھا دھند فائرنگ اور ایک طالب علم کی شہادت کے بعد پورے ملک میں غم وغصے کی فضاء قائم ہوئی تھی۔ کراچی یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کراچی یونیورسٹی میں ایوب حکومت کے خلاف طلبہ کے احتجاج کو کچلنے کے لیے تیار رہتے تھے۔
اس زمانے میں ہونے والے طلبہ یونین کے انتخابات میں این ایس ایف کے امیدواروں کو انتظامیہ کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا، پھر این ایس ایف نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی تھی۔اس بھوک ہڑتال میں حصہ لینے والے اراکین کوگرفتار کرلیا گیا تھا اور پھر جنرل یحییٰ خان کی فوجی عدالت نے ان طلبہ کو قید کی سزائیں دی تھیں۔ اس جبرکے ماحول میں آغا علی رضوی کراچی یونیورسٹی میں این ایس ایف کے فعال کارکن بنے۔ وہ یونیورسٹی میں ہی صرف این ایس ایف کی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیتے بلکہ کراچی شہر میں متحرک رہتے، کچھ ایسی ہی فضاء کراچی کے مختلف علاقوں میں بھی تھی۔
آغا علی رضوی ان تمام مشکلات کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ وہ صبح کراچی یونیورسٹی میں این ایس ایف کے اجلاسوں میں جاتے۔ پھر ہفتے میں کئی دن کراچی کے کالجوں کا دورہ کرتے۔ شام کو ڈاؤ میڈیکل کالج کی کینٹین میں این ایس ایف کے کارکنوں کے اجلاس میں شریک ہوتے۔یہ وہ زمانہ تھا کہ بائیں بازو میں نظریاتی بحث عروج پر تھی۔ این ایس ایف کے کارکن دنیا بھر کا لٹریچر پڑھتے۔ اس زمانے میں سوویت یونین اور چین کے اختلافات کی بناء پر بائیں بازو کی تحریک کئی گروہوں میں تقسیم تھی۔
این ایس ایف کے کارکن رجعت پسند نظریات کا مقابلہ کرنے کے ساتھ اندرونی جنگ میں مصروف رہتے کہ نظریاتی بحثیں دھواںدار ہوتیں، اس میں عام طالب علم کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ مگر دنیا بھر کے انقلاب کے معاملات طے ہوتے۔ آغا علی رضوی این ایس ایف رشید گروپ کا حصہ بنے جو اپنے پروچائنا نظریات کی بناء پر مشہور تھا۔ شبر اعظمی جو ان کے بچپن کے ساتھی ہیں یہ دونوں کورنگی کے علاقے میں نظریاتی کام کرتے اور کراچی یونیورسٹی میں مصروف رہتے۔
شبر بھائی کا کہنا ہے کہ آغا علی رضوی این ایس ایف کی مدر آرگنائزیشن کمیونسٹ پارٹی کا فعال حصہ تھے۔ اعظمی بتاتے ہیں کہ آغا علی رضوی نے نویں جماعت سے ایم اے تک اول پوزیشن حاصل کی تھی۔ وہ کورنگی میں طلبہ کو معمولی معاوضے پر ٹیوشن پڑھاتے، والدین نظریات سے ہٹ کر بچوں کو بھیجتے تھے۔ کورنگی کے علاقے میں آغا صاحب کا چھوٹا سا مکان انقلابیوں کی سرگرمیوں کا محور تھا۔ اس مکان میں مزدورکارکنوں کے اجلاس ہوتے۔
لانڈھی کی مزدور تحریک کو مستحکم کرنے کے فیصلے ہوتے اور این ایس ایف کے پیغام کو پھیلانے پر غور و فکر ہوتا تھا۔ 1970ء کے عام انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی پروچائنا نے اپنے کارکنوں کو جو پیپلز پارٹی میں کام کرتے تھے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا تھا۔ یوں معراج محمد خان، ڈاکٹر شمیم، زین العابدین، طارق عزیز، ابرار الحسن اور این ایس ایف کے دیگر کارکنوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کا اس وقت کا نعرہ پرچی کے بجائے پرچھی تھا مگر این ایس ایف کے کارکنوں کی اکثریت پیپلز پارٹی سے ہمدردی رکھتی تھی۔
این ایس ایف نے سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی جماعت کا پلیٹ فارم دیا تھا۔ این ایس ایف کے ایک رہنما معراج محمد خان پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں سے تھے۔ یوں آغا صاحب اور ان کے ساتھیوں کی ہمدردیاں بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ تھیں۔ یہ لوگ معراج محمد خان کے قریبی حلقہ میں شمار ہوتے تھے۔ جب این ایس ایف میں 1972ء میں بنگلہ دیش تسلیم کرنے پر تقسیم ہوئی تو آغا علی رضوی اس گروپ کے قائدین میں شامل تھے جو بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کی حمایت کر رہا تھا۔
یہ انتہائی مناسب فیصلہ تھا مگر کمیونسٹ پارٹی کے بعض اکابرین چین کی حکومت کی پیروی کررہے تھے۔ انھوں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا تھا کہ چین پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کی بناء پر پالیسی بنا رہا ہے جس کی قیادت نے مارکسزم کو اپنی ریاست کے مفاد کے تابع کیا ہے۔ آغا علی رضوی سمجھتے تھے کہ نظریات ریاستوں کی پالیسی سے بالاتر ہونے چاہئیں اور بنگالی عوام کی تاریخی جدوجہد کو تسلیم کرنا چاہیے۔
ذوالفقارعلی بھٹو حکومت کے پہلے 6 ماہ کے دوران سائٹ اور لانڈھی میں مزدور تحریک کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ پہلے سائٹ میں مزدوروں پر فائرنگ ہوئی اور ہزاروں مزدوروں کو بے روزگار کیا گیا۔ لانڈھی میں حق مانگنے والے مزدوروں کے خلاف آپریشن ہوئے اور مزدور رہنما گرفتار ہوئے۔ آغا علی رضوی اور ان کے ساتھیوں نے پولیس آپریشن کے خلاف رائے عامہ ہموارکرنے کی کوشش کی۔ ان کی قیادت میں کراچی یونیورسٹی کی آرٹس لابی میں احتجاجی جلسے ہوئے۔
آغا علی رضوی اپنی ویل چیئر پر یونیورسٹی کے تمام شعبوں میں گئے۔ انھوں نے کلاسوں میں جا کر طلبہ کو مزدوروں کے ساتھ ہونے والے مظالم سے آگاہ کیا، شہر میں اس صورتحال کے خلاف جلوسوں میں شرکت کی۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھی زبان کو سندھ کی سرکاری زبان بنانے کا قانون سندھ اسمبلی سے منظور کرایا تو سندھ لسانی کشمکش میں مبتلا ہوا۔ اردو بولنے والے مفاد پرستوں کے ٹولے نے سندھی کو سرکاری زبان قرار دیے جانے کے خلاف منفی تحریک چلائی۔
آغا علی رضوی اور این ایس ایف کے کارکنوں کی یہ واضح سوچ تھی کی سندھ کی سرکاری زبان سندھی ہونی چاہیے۔ اردو کا سندھی سے کوئی تضاد نہیں ہے مگر سندھ کی بیوروکریسی کے کچھ اور مقاصد تھے۔ پولیس نے آغا علی رضوی اور شبر اعظمی کو گرفتار کرلیا۔ انھیں کورنگی تھانے کے لاک اپ میں رکھا گیا۔ پولیس والوں نے رضوی سے ویل چیئر چھین لی اور وہ تھانے کے لاک اپ میں چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے۔ ا س زمانے میں معراج محمد خان صدر ذوالفقار علی بھٹوکے عوامی امور کے مشیر تھے، وہ فوراً کراچی پہنچے۔
معراج محمد خان کی مداخلت پر شبر اعظمی اور آغا علی رضوی کو تھانے سے رہا کیا گیا۔ آغا علی رضوی نے کراچی یونیورسٹی میں ایم اے ریاضی کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی۔ پھر کراچی یونیورسٹی کی روایت کے مطابق اس زمانے میں اول پوزیشن آنے والے طالب علم کو لیکچرار کی ملازمت کی پیشکش کی جاتی تھی مگر آغا صاحب کو یہ پیشکش نہیں کی گئی۔ پروفیسر ڈاکٹر ناظم زیدی اس زمانے میں شعبہ ریاضی کے سربراہ تھے۔ ان کی سفارش کے باوجود آغا علی رضوی کے لیے اپنے مادر علمی کے دروازے فوری طور پر نہ کھل سکے۔
خاصے عرصے بعد وہ لیکچرار کے عہدے پر فائز ہوئے، وہ ریاضی میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتے تھے مگر کراچی یونیورسٹی کا ماحول سازگار نہیں تھا۔ جنرل ضیاء الحق کا دور شروع ہوتے ہی علمی آزادی کے ادارے پر قدغن عائد کی جارہی تھی۔ اس ماحول میں رضوی صاحب کو امریکا میں اسکالرشپ میرٹ پر ملی اور وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلے گئے۔
امریکا میں معذور افراد کو بہت سی سہولتیں حاصل ہیں، یوں امریکا میں ان کے حالات بہتر ہوئے۔ انھوں نے اقتصادیات کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ وہ امریکا میں مظلوم طبقات کی تحریکوں میں فعال رہے۔ آغا علی رضوی نے آخری عمر تک ترقی پسند نظریہ کو تھامے رکھا اور اپنے آدرش کے لیے کبھی اپنی معذوری کو رکاوٹ نہیں جانا، ہمیشہ نوجوانوں کا آئیڈیل رہے۔