حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں سیاسی محاذ آرائی عروج پر

پچھلے کچھ عرصے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاملات میں کچھ بہتری آئی تھی۔

پچھلے کچھ عرصے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاملات میں کچھ بہتری آئی تھی۔ فوٹو: فائل

ملک میں سفارتی و سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں اورآنے والے دنوں میں ان میں مزید تیزی آنے والی ہے۔

سیاسی سطح پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے جس سے ملک میں افواہ سازی کا بازار پھر سے گرم ہوگیا ہے اس بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام و تصادم سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں کہیں پھر سے سسٹم کی بساط لپیٹنے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے تو کہیں کہا جا رہا ہے کہ اس شورش و سیاسی عدم استحکام کی آڑ میں بہت سے اہم اور قومی و عالمی نوعیت کے معاملات پر عوام کی توجہ ہٹائی جا رہی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا مگر سیاسی رہنماوں کو دانشمندی اور برداشت کا دامن نہیں چھوڑنا ہوگا۔

پچھلے کچھ عرصے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاملات میں کچھ بہتری آئی تھی اور اس سے امید پیدا ہوئی تھی کہ معاملات اب آگے بڑھیں گے اور ملک کو درپیش اہم قومی، سیاسی، سفارتی و اقتصادی معاملات میں پارلیمنٹ اپنا فعال کردار ادا کرے گی اور ملک کی کشتی کو مسائل کے بھنور سے نکالنے کیلئے پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر ملک کی تمام سیاسی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے گی اور اس ناؤ کو کنارے لگائے گی۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پبلک اکاونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کا معاملہ حل ہونے کے بعد قائمہ کمیٹیوں کی حتمی تشکیل کی جانب پیشرفت جاری تھی کہ پھر راستے میں اسپیڈ بریکر آگیا اور وہ حکومت جس نے کچھ عرصہ قبل قائد حزب اختلات میاں شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین بنایا اب وہی کپتان اور اس کی پوری ٹیم اسے ہٹانے کیلئے زور لگا رہی ہے اور دونوں طرف سے لفظی گولہ باری جاری ہے، اب جو سیاسی میدان سجا ہوا ہے اس میں سیاسی بڑے مداخلت کرکے بیچ بچاو نہیں کرتے تو حالات مزید بگڑیں گے۔


علیم خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد مارچ میں جھاڑو پھرنے کا بیانیہ بھی زور پکڑ رہا ہے اور یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ مزید بڑوں کیلئے قید خانوں کی صفائیاں کروائی جا رہی ہیں۔ یہ گرفتاریوں کا عمل اگر پھر سے زور پکڑتا ہے تو اس کے بھی یقینی طور پر اثرات مرتب ہونگے۔

مسلم لیگ(ق)کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ مستقبل میں پنجاب میں اقتدار کا ہما مسلم لیگ (ق)کے سر پر بھی بیٹھ سکتا ہے، ابھی چند روز قبل پاکستان مسلم لیگ(ق) اور پاکستان تحریک انصاف کے فیصلہ ساز رہنماوں کا اہم اکٹھ بھی ہوا ہے جس میں دونوں جماعتوں کے اتحاد بارے مخالفین کو واضح پیغام دیا گیا ہے اور یہ اتحاد مستقبل میں بھی مضبوطی کے ساتھ قائم و دائم رہنے کے اعلانات کئے گئے ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ(ق)کے ساتھ پنجاب کے ساتھ ساتھ وفاق میں بھی کئے گئے وعدے پورے کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے جس کے تناظر میں اگلے کچھ عرصے میں وفاقی کابینہ میں توسیع کے امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں اور پرویز الہٰی کے صاحبزادے و رکن قومی اسمبلی مونس الہٰی وفاقی کابینہ کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت کے بارے میں اومنی گروپ کے حوالے سے جا ری تحقیقات میں اہم موڑ آیا ہے اور اس کیس کے اہم ملزم کو انٹرپول کے ذریعے پاکستان لایا گیا ہے اور اس کے وعدہ معاف گواہ بننے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور لگ یہ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھے گا اور پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان بھی خوب جمنے والی ہے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے ساتھ بھی پی اے سی کی چیئرمین شپ اوراحتساب، ڈیل نہ ڈھیل کے حکومتی قیادت کے بیانیہ سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں ۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) کسی قسم کی ڈیل کو مسلسل مسترد کررہی ہے اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہے کہ حکومت جرات کا مظاہرہ کرے اور ڈیل کرنے اور کروانے والوں کے نام سامنے لائے جبکہ حکومتی حلقوںکی جانب سے نام لئے بغیر اتنا ضرور کہا جا رہا ہے کہ حکومت پر ڈیل کیلئے دباو ہے، پھر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کسی بیرونی ملک کے ذریعے سات سے دس ارب ڈالر آئیں گے اور شریف خاندان بیرون ملک چلا جائے گا مگر ابھی تک تو جتنے مُنہ اتنی باتیں ہیں لیکن کوئی چاند چڑھے گا تو دنیا دیکھے گی۔

 
Load Next Story