ڈاکٹر عقیلہ کیانی متانت اور دانش کا حَسین پیکر
ڈاکٹر عقیلہ کیانی کا پورا نام عقیلہ برلاس کیانی تھا، جامعہ کراچی کی ایک انتہائی مقبول اور فعال استاد تھیں۔
ڈاکٹر عقیلہ کیانی کوئی ایسی شخصیت تو نہ تھیں کہ دنیا سے چلی جاتیں اور دوسروں کو کانوں کان خبر نہ ہوتی، لیکن ایسا ہوا۔ ایک تو شاید اس لیے کہ انہوں نے کوئی پندرہ سولہ سال قبل اپنی بستی ہی اتنی دور جا کر بسائی تھی کہ بڑی حد تک پاکستان میں ان کے جاننے اور اُن کو ماننے والے ان سے کٹ کررہ گئے تھے۔
ظاہر ہے کہ کینیڈا سے آنا یا یہاں سے وہاں جانا کوئی ایسا آسان بھی نہیں۔ وہ دو تین سال میں اِدھر کا چکر لگا لیتی تھیں، لیکن پچھلے پانچ، چھے سال سے یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا تھا۔ پھر کچھ اِدھر کے کوائف بھی ایسے ہیں کہ لوگ علائقِ روزگار میں ایسے الجھ چکے ہیں کہ بالکل سامنے کی چیزیں بھی اب شاذونادر ہی اپنی طرف متوجّہ کرپاتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ زمانے کے رنگ ڈھنگ بھی بدل رہے ہیں۔ چشم پوشی عام ہوتی جاتی ہے۔ آج کے محسن کل کے اجنبی بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عقیلہ کیانی کے انتقال کی خبر کوئی دوہفتہ قبل کچھ اس طرح ملی کہ اُن کے صاحبزادے نے اسلام آباد سے فون پر اطلاع دی کہ وہ کسی کام سے کراچی آنا چاہتے ہیں اور یہ کہ اس دوران وہ مجھ سے ملنا بھی چاہتے ہیں۔
دورانِ گفتگو انہوں نے اپنی والدہ کی رحلت کا ذکر کیا تو یہی سب باتیں میرے ذہن میں آئیں کہ کس طرح مکانی فاصلے، روزگار کے مسائل، اور معاشرے میں تیزی سے سرایت کرتے ہوئے بے رخی کے روّیے انسانوں کے درمیان فاصلے پیدا کر رہے ہیں۔ دنیا کی اچھی جامعات میں یہ روایت پائی جاتی ہے کہ اگر کوئی سینیئر پروفیسر وفات پا جاتا ہے تو اُس کے لیے ایک اکیڈمک ریفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں مرحوم کی علمی خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے اور اُس کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں ایسی کوئی باقاعدہ روایت موجود نہیں رہی۔ ماضی میں کبھی کبھار اگر کسی سینیئر استاد کے لیے ریفرنس کا اہتمام کر دیا جاتا تھا تو اب ایسے ریفرنسوں کی تعداد اور بھی گھٹ چکی ہے اور شاذونادر ہی کبھی کسی ریفرنس کا سننے میں آتا ہے۔ سو اگر ہماری جامعہ میں بھی ڈاکٹر صاحبہ کے شایانِ شان کوئی علمی ریفرنس منعقد نہیں ہوا تو افسوس تو ہوتا ہے، مگر حیرت نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر عقیلہ کیانی جن کا پورا نام عقیلہ برلاس کیانی تھا، جامعہ کراچی کی ایک انتہائی مقبول اور فعال استاد تھیں۔ انہوں نے سوشیالوجی کے مضمون میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ ایک طویل عرصہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے قیام کے بعد خوش قسمتی سے یونیورسٹی کو بہت سے ایسے اساتذہ مل گئے جنہوں نے آئندہ برسوں میں اپنے اپنے شعبے کی ترقی کے لیے شبانہ روز محنت کی۔ سوشیالوجی یا عمرانیات کے شعبے کی خوش قسمتی تھی کہ اس کو ڈاکٹر عقیلہ کیانی کی خدمات حاصل ہو گئیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کا اپنا تعلیمی کیریر بہت متاثر کن تھا۔ انہوں نے تقسیمِ ہند سے قبل 44۔1943ء میں آگرہ یونیورسٹی سے بی ۔ اے اور بی۔ ٹی کی ڈگریاں حاصل کی تھیں۔ 1949ء میں انہوں نے لندن یونیورسٹی سے تعلیم کے شعبے میں ایم۔ اے کیا۔ اور پھر 1953ء میں امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی سے عمرانیات میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ دو سال بعد انہوں نے امریکا ہی میں فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا۔
کوئی تین عشروں کے بعد جب کہ وہ تدریس اور تحقیق کا طویل تجربہ حاصل کر چکی تھیں، انہوں نے ایک اور ایم ۔ اے کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا سے سوشل ورک کے مضمون میں کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو ہمیشہ علم حاصل کرنے کی جستجو رہتی تھی اور وہ مختلف علوم میں دست گاہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتی تھیں۔ اُن کی اس طلبِ علم کی خواہش کے بہت سے مظاہر ہم نے اُس وقت بھی دیکھے جب وہ ریٹائر ہوچکی تھیں۔
1950ء کے عشرے میں ڈاکٹر کیانی امریکا سے فارغ التحصیل ہوکر پاکستان آئیں تو جامعہ کراچی میں انہیں ان افکار کی ترسیل کا موقع ملا جن سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دوران وہ روشناس ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے سوشیالوجی کے شعبے کو بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس مضمون کے لیے نصاب کی تیاری اور تحقیق کے نئے میدان دریافت کرنے میں اُن کا بڑا اہم کردار تھا۔ خود اُن کی اپنی تحقیقات کا رخ زیادہ تر دیہی سماجیات کی طرف تھا۔ 60ء اور 70ء کے عشرے میں جب کہ علم البشریات (Anthropology) کا مضمون پاکستان میں نیا نیا متعارف ہو رہا تھا، ڈاکٹر صاحبہ اس کی ترقی اور فروغ میں پوری طرح منہمک رہیں۔ وہ کراچی یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے شعبے میں چیئرپرسن کے منصب پر بھی ایک عرصہ فائز رہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب وہ سوشیالوجی اور سوشل ورک کے دو شعبہ جات کی سربراہ تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ مختلف ملکوں میں ہونے والی کانفرنسوں میں شرکت کرنے والی اپنے زمانے کی فعال ترین شخصیت تھیں۔لندن میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار کلچرل ریسرچ نے سماجی تبدیلیوں اور ثقافت کے موضوع پر اُن کے کام کا وزن محسوس کرتے ہوئے اُن کو اپنا فیلو مقرر کیا۔
ایک زمانے میں پاکستان میں ایک تنظیم فیڈریشن آف یونیورسٹی ویمن بہت فعال تھی۔ اس فیڈریشن نے مختلف جامعات میں پڑھانے والی اساتذہ کو مجتمع کر دیا تھا۔ ڈاکٹر کیا نی اس تنظیم کی بھی صدر رہیں۔
اسی طرح وہ پاکستان سوشیولوجیکل ایسوسی ایشن کی صدارت کے منصب پر بھی فائز رہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کی اپنی تحقیق کئی مقالوں کی شکل میں اعلیٰ پائے کے جریدوں میں محفوظ ہے۔ جامعہ کراچی کے تدریس وتحقیق کے وسیع تر تجربے کے بعد ایک موقع پر وہ جب امریکا اور کینیڈا گئیں اور وہاں کچھ عرصہ قیام کیا تو اس دوران انہوں نے یونیورسٹی آف الاسکا (امریکا) میں سوشیالوجی اور سوشل ورک کے شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔
1996ء میں انہیں سئیٹل (واشنگٹن) میں ویمینز فیڈریشن فار ورلڈ پیس نے اپنی کانفرنس میں مہمان مقرر کے طور پر مدعو کیا۔
ڈاکٹر عقیلہ کیانی کی تحقیقی مطبوعات میں ایک واضح رجحان یہ نظر آتا ہے کہ وہ سماجی تبدیلی کی حرکیات (dynamics) کو سمجھنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے جدید تحقیقی اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستانی معاشرے کے اندر وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کی نوعیت اور ایک خاص وقت میں معاشرے کے اندر پائے جانے والے تضادات کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ اسی طرح انہوں نے دیہی معاشرت میں ہونے والی تبدیلیوں کو بھی سمجھنے کی کوشش کی۔ ایک زمانے میں پشاور میں قائم پاکستان اکیڈمی فار رورل ڈیولپمنٹ ملک کا ایک مؤقر ادارہ تھا جو دیہی معاشرت کے احوال اور اُس کے کوائف کو اپنی تحقیقات کا موضوع بناتا تھا۔ ڈاکٹر کیانی کا اس ادارے سے بہت گہرا تعلق رہا۔ 1971ء میں ڈاکٹر کیانی کی کتابEmerging Patterns of Rural Leadership in West Pakistanاسی ادارے نے شائع کی۔ 1974ء میں ایک اچھوتے موضوع پر اُن کی ایک کتاب کراچی یونیورسٹی نے شائع کی۔ اس کتاب کا موضوع یہ تھا کہ سماجی علوم کی تدریس میں تخلیقی ادب سے کس طرح استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
انگریزی میں شائع ہونے والی اس کتاب کا نام Creative Literature and Social Sciences تھا۔ یہ بڑی پر مغز کتاب تھی، جو ایک ورکشاپ پر بنیاد رکھتی تھی۔ اس ورکشاپ میں اردو اور سندھی ادب کے کئی ناولوں، افسانوں اور ڈراموں کو منتخب کر کے یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی تھی کہ ان کا سماجی تناظر کیا ہے اور پاکستانی معاشرے کی تفہیم اور تشریح میں اس تخلیقی ادب سے کس طرح مدد لی جاسکتی ہے۔ چناںچہ اس میں دکھایا گیا کہ سعادت حسن منٹو کی کہانی 'پانچ دن' قدرت اﷲ شہاب کا افسانہ 'غریب خانہ' جمال ابڑو کی سندھی کہانی 'بدتمیز'، دلاور فگار کی نظم 'کراچی کا قبرستان' اور شوکت صدیقی کا ناول 'خدا کی بستی' کس طرح پاکستانی سماجی منظر نامے کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر عقیلہ کیانی کے علمی اور تحقیقی کام کا بڑا حصہ فیلڈ ریسرچ پر مشتمل تھا۔ وہ صرف لائبریریوں پر اکتفا نہیں کرتی تھیں بلکہ وہ براہ راست معاشرے کے مختلف حلقوں میں جاکر اور مختلف سوال ناموں کے ذریعے لوگوں کی آراء حاصل کرنے کے بعد اپنے نتائج مرتب کرتی تھیں۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے علمی سطح پر کام کرکے لوگوں میں اس موضوع پر شعور پیدا کیا، جب یہ موضوع بڑی حد تک ممنوع سمجھا جاتا تھا۔ ایک انتہائی قدامت پسند معاشرے میں جہاں لوگ توہمات اور غلط تصورات کے اسیر تھے کوئی ایسی بات کرنا واقعی بہت مشکل تھا جو ذہنی پستی اور غیر سائنسی سوچ کے خلاف ہو۔ ڈاکٹر کیانی بتایا کرتی تھیں کہ اُن کو فیلڈ ریسرچ کے دوران بارہا کس قسم کے مشکل حالات سے دوچار ہونا پڑا۔
اُن کی وہ تحقیقات جو مختلف معاشرتی برائیوں میں ملوث افراد سے متعلق تھیں اُن تحقیقات کے لیے بھی انہیں مشکل مراحل سے گزرنا پڑا۔ ڈاکٹر کیانی میں ایک جذبہ ہمیشہ موجود رہا اور وہ یہ کہ انہوں نے جو علم حاصل کیا ہے اور جو مواقع انہیں ملے ہیں اُن کو دوسروں کی بھلائی کے لیے استعمال کریں۔
اپنی ذاتی زندگی میں ڈاکٹر عقیلہ کیانی پُر عزم اور مضبوط ارادے کی حامل انسان تھیں۔ وہ غیرمنقسم ہندوستان کے ایک اہم رئیس خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں۔ اُن کے والد مرزا شاکر حسین برلاس وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے اور انہوں نے برطانیہ سے بار ایٹ لا کی ڈگری حاصل کی ہوئی تھی۔ اُن کا تعلق نواب قاسم خان کے خاندان سے تھا جو مغل دربار کے رکن تھے۔ ڈاکٹر عقیلہ کیانی کی والدہ بی بی محمودہ بیگم سر دھنہ کے آخری نواب، نواب امجد علی شاہ کی صاحبزادی تھیں۔ رؤسا کے اس خاندان سے تعلق کے باوجود اُن میں غرور اور تکّبر نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ وہ اپنے طالب علموں کے ساتھ گھل مل جاتی تھیں اور اُن کی تعلیمی استعداد کو بڑھانے میں اپنی پوری کوشش کرتی تھیں۔ جن طالب علموں نے ان کے ساتھ تحقیق کا کام کیا وہ اس امر کی گواہی دیں گے کہ ڈاکٹر صاحبہ ان کے مسودات کو کئی کئی مرتبہ پڑھتی تھیں اور اُن کی اصلاح کرتی تھیں، تاکہ وہ خوب سے خوب تر بن سکیں۔ ڈاکٹر عقیلہ کیانی نے اپنے شوہر عبدالحمید کیانی کے جوان عمری میں انتقال کے بعد خود کو مجتمع رکھا اور اپنے تینوں بچوں کی تعلیم کا بہترین انتظام کیا۔ اُن کو زندگی میں دوسرا بڑا سانحہ اُس وقت پیش آیا جب ان کے ایک جوان صاحبزادے خالد کیانی اُن کے ساتھ جہاز میں دوران سفر حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال کرگئے۔ ڈاکٹر کیانی نے اپنی زندگی میں بڑے سے بڑے حادثے کا بڑی جواں مردی سے مقابلہ کیا۔
بالکل آخر کے چند سالوں کا تو مجھے علم نہیں لیکن اب سے سات آٹھ سال قبل تک وہ جب بھی پاکستان آتیں تو جامعہ کراچی کا پاکستان اسٹڈی سینٹر اُن کا مستقل ٹھکانا بنا رہتا۔ وہ انتہائی زندہ دل اور ملنسار واقع ہوئی تھیں۔ وہ ہر شخص سے گھل مل جاتیں، اُس کی خیریت دریافت کرتیں، بہت سوں کے لیے ان کے پاس تحفے بھی ہوتے۔ طالب علموں سے ان کی بے تکلفی بھی دیکھنے کے لائق تھی۔ وہ اُن سے ان کے ذاتی مسائل پر بھی باتیں کرتیں اور اُن کو عملی زندگی میں داخل ہونے کے حوالے سے مشورے بھی دیتیں۔
ڈاکٹر صاحبہ کی شخصیت میں بے پناہ وقار پایا جاتا تھا لیکن اس وقار میں کبھی تکبّر کی آمیزش ہم نے نہیں دیکھی۔ اُن کی گفتگو بڑی شگفتہ ہوتی۔ دورانِ گفتگو اکثر اُن کی حِسِّ لطیف کا بھی اظہار ہوتا، خاص طور سے جب وہ کوئی تازہ لطیفہ سن کر آئی ہوتیں اور اُس کو دوسروں تک پہنچا رہی ہوتیں۔ تب بات سے بات نکلتی جاتی اور محفل گلزار بن جاتی۔ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ ہمارے سینٹر میں پڑھایا بھی تھا اور 1980ء کی دہائی کے برسوں کا یہی تعلق تھا جو ہمیشہ قائم رہا۔ ڈاکٹر صاحبہ جب بھی سینٹر آتیں تو سینٹر کی فضا بہت خوش گوار ہوجاتی۔
کبھی وہ اپنے ہاتھ کا بنایا ہوا کیک لے کر آرہی ہوتیں، کبھی اُن کے ہاتھ میں گلدستہ یا گجرے ہوتے۔ انہیں خود بھی اچھا نظر آنا پسند تھا۔ اور وہ دوسروں کو بھی اچھا دیکھنا چاہتی تھیں۔ ایک موقع پر جب کہ وہ ستر، بہتر برس کی ہوں گی میں نے حیرت کا اظہار کیا کہ وہ ان دنوں کینیڈا میں کسی سمراسکول میں پھول بنانے کی ترکیب کیوں کر سیکھ رہی ہیں۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تو پیراکی بھی 55 سال کی عمر میں سیکھی تھی۔
تمام عمر سماجی مسئلوں کو سمجھنے اور اُن کے حل تلاش کرنے والی ڈاکٹر عقیلہ کیانی کو زندگی کے آخری برس کینیڈا میں وینکوور کے ایک اولڈ پیپلز ہوم میں گزارنے پڑے۔ ایک مرتبہ وہ کراچی آئیں تو خود انہوں نے اس تجربے کے بارے میں گفتگو کی۔ لیکن خلافِ توقع اس گفتگو میں نہ تو یاس اور بے چارگی کا کوئی عنصر تھا، اور نہ ہی کسی سے شکوہ وشکایت کا پہلو۔ بلکہ مجھے حیرت ہوئی جب انہوں نے اس تجربے کو بھی ایک پر لطف تجربہ قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے گھر میں جو دیگر بوڑھے لوگ رہتے ہیں انہی میں انہوں نے اپنے بہت اچھے دوست بنالیے ہیں جن کے ساتھ وہ گپ شپ کرتی ہیں، ٹیلی ویژن دیکھتی ہیں، اُن کے ساتھ مختلف کھیل کھیلنے کے لیے باغوں میں جاتی ہیں۔ غرض انہوں نے زندگی کے اس حصے میں بھی لطف اور اطمینان کے پہلو تلاش کر لیے تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ کی بیٹی لینا (جو کینیڈا ہی میں مقیم تھیں اور ہیں) آپ سے ملنے تو آتی ہوں گی۔ انہوں نے لینا کی بے پناہ مصروفیت کا ذکر کیا، لیکن وہ خوش تھیں کہ لینا اُن سے وقتاً فوقتاً ملنے کے لیے آتی رہتی ہیں۔
ڈاکٹر کیانی سے جتنا عرصہ بھی تعلق رہا اُس میں مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ اُن میں اور مجھ میں کتنا فاصلہ ہے۔ سچی بات ہے کہ فاصلہ تو بہت تھا، عمروں کا بھی، اور علم کا بھی۔ ظاہر ہے کہ وہ کہاں اور ہم جیسے کم مایہ کہاں۔ لیکن اگر ہمارے درمیان موجود فاصلے نظر نہیں آتے تھے تو یہ ڈاکٹر صاحبہ کا کما ل تھا۔ وہ دوسروں سے اُن کی سطح پر آکر جس طرح ایک تعلق قائم کرتی تھیں وہ ہر شخص کے دل میں اس احساس کو پختہ کر دیتا تھا کہ جیسے وہ واقعی ڈاکٹر صاحبہ کے برابر ہی کی کوئی ہستی ہے۔ 30 مارچ 2012ء کووینکوور میں جب ڈاکٹر صاحبہ نے دنیا سے رختِ سفر باندھنے کا فیصلہ کیا ہوگا تو مجھے یقین ہے کہ اپنے اکیانوے (91) سال کی انتہائی بھر پور زندگی پر شادمانی کے احساس کے ساتھ ساتھ انہیں اس پورے عرصے کی مہلت کے کم ہونے کا بھی کچھ نہ کچھ خیال ضرور رہا ہوگا۔ لیکن پھر وہ یہ سوچ کر مطمئن ہوگئی ہوں گی کہ ؎
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
ظاہر ہے کہ کینیڈا سے آنا یا یہاں سے وہاں جانا کوئی ایسا آسان بھی نہیں۔ وہ دو تین سال میں اِدھر کا چکر لگا لیتی تھیں، لیکن پچھلے پانچ، چھے سال سے یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا تھا۔ پھر کچھ اِدھر کے کوائف بھی ایسے ہیں کہ لوگ علائقِ روزگار میں ایسے الجھ چکے ہیں کہ بالکل سامنے کی چیزیں بھی اب شاذونادر ہی اپنی طرف متوجّہ کرپاتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ زمانے کے رنگ ڈھنگ بھی بدل رہے ہیں۔ چشم پوشی عام ہوتی جاتی ہے۔ آج کے محسن کل کے اجنبی بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عقیلہ کیانی کے انتقال کی خبر کوئی دوہفتہ قبل کچھ اس طرح ملی کہ اُن کے صاحبزادے نے اسلام آباد سے فون پر اطلاع دی کہ وہ کسی کام سے کراچی آنا چاہتے ہیں اور یہ کہ اس دوران وہ مجھ سے ملنا بھی چاہتے ہیں۔
دورانِ گفتگو انہوں نے اپنی والدہ کی رحلت کا ذکر کیا تو یہی سب باتیں میرے ذہن میں آئیں کہ کس طرح مکانی فاصلے، روزگار کے مسائل، اور معاشرے میں تیزی سے سرایت کرتے ہوئے بے رخی کے روّیے انسانوں کے درمیان فاصلے پیدا کر رہے ہیں۔ دنیا کی اچھی جامعات میں یہ روایت پائی جاتی ہے کہ اگر کوئی سینیئر پروفیسر وفات پا جاتا ہے تو اُس کے لیے ایک اکیڈمک ریفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں مرحوم کی علمی خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے اور اُس کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں ایسی کوئی باقاعدہ روایت موجود نہیں رہی۔ ماضی میں کبھی کبھار اگر کسی سینیئر استاد کے لیے ریفرنس کا اہتمام کر دیا جاتا تھا تو اب ایسے ریفرنسوں کی تعداد اور بھی گھٹ چکی ہے اور شاذونادر ہی کبھی کسی ریفرنس کا سننے میں آتا ہے۔ سو اگر ہماری جامعہ میں بھی ڈاکٹر صاحبہ کے شایانِ شان کوئی علمی ریفرنس منعقد نہیں ہوا تو افسوس تو ہوتا ہے، مگر حیرت نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر عقیلہ کیانی جن کا پورا نام عقیلہ برلاس کیانی تھا، جامعہ کراچی کی ایک انتہائی مقبول اور فعال استاد تھیں۔ انہوں نے سوشیالوجی کے مضمون میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ ایک طویل عرصہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے قیام کے بعد خوش قسمتی سے یونیورسٹی کو بہت سے ایسے اساتذہ مل گئے جنہوں نے آئندہ برسوں میں اپنے اپنے شعبے کی ترقی کے لیے شبانہ روز محنت کی۔ سوشیالوجی یا عمرانیات کے شعبے کی خوش قسمتی تھی کہ اس کو ڈاکٹر عقیلہ کیانی کی خدمات حاصل ہو گئیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کا اپنا تعلیمی کیریر بہت متاثر کن تھا۔ انہوں نے تقسیمِ ہند سے قبل 44۔1943ء میں آگرہ یونیورسٹی سے بی ۔ اے اور بی۔ ٹی کی ڈگریاں حاصل کی تھیں۔ 1949ء میں انہوں نے لندن یونیورسٹی سے تعلیم کے شعبے میں ایم۔ اے کیا۔ اور پھر 1953ء میں امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی سے عمرانیات میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ دو سال بعد انہوں نے امریکا ہی میں فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا۔
کوئی تین عشروں کے بعد جب کہ وہ تدریس اور تحقیق کا طویل تجربہ حاصل کر چکی تھیں، انہوں نے ایک اور ایم ۔ اے کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا سے سوشل ورک کے مضمون میں کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو ہمیشہ علم حاصل کرنے کی جستجو رہتی تھی اور وہ مختلف علوم میں دست گاہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتی تھیں۔ اُن کی اس طلبِ علم کی خواہش کے بہت سے مظاہر ہم نے اُس وقت بھی دیکھے جب وہ ریٹائر ہوچکی تھیں۔
1950ء کے عشرے میں ڈاکٹر کیانی امریکا سے فارغ التحصیل ہوکر پاکستان آئیں تو جامعہ کراچی میں انہیں ان افکار کی ترسیل کا موقع ملا جن سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دوران وہ روشناس ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے سوشیالوجی کے شعبے کو بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس مضمون کے لیے نصاب کی تیاری اور تحقیق کے نئے میدان دریافت کرنے میں اُن کا بڑا اہم کردار تھا۔ خود اُن کی اپنی تحقیقات کا رخ زیادہ تر دیہی سماجیات کی طرف تھا۔ 60ء اور 70ء کے عشرے میں جب کہ علم البشریات (Anthropology) کا مضمون پاکستان میں نیا نیا متعارف ہو رہا تھا، ڈاکٹر صاحبہ اس کی ترقی اور فروغ میں پوری طرح منہمک رہیں۔ وہ کراچی یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے شعبے میں چیئرپرسن کے منصب پر بھی ایک عرصہ فائز رہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب وہ سوشیالوجی اور سوشل ورک کے دو شعبہ جات کی سربراہ تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ مختلف ملکوں میں ہونے والی کانفرنسوں میں شرکت کرنے والی اپنے زمانے کی فعال ترین شخصیت تھیں۔لندن میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار کلچرل ریسرچ نے سماجی تبدیلیوں اور ثقافت کے موضوع پر اُن کے کام کا وزن محسوس کرتے ہوئے اُن کو اپنا فیلو مقرر کیا۔
ایک زمانے میں پاکستان میں ایک تنظیم فیڈریشن آف یونیورسٹی ویمن بہت فعال تھی۔ اس فیڈریشن نے مختلف جامعات میں پڑھانے والی اساتذہ کو مجتمع کر دیا تھا۔ ڈاکٹر کیا نی اس تنظیم کی بھی صدر رہیں۔
اسی طرح وہ پاکستان سوشیولوجیکل ایسوسی ایشن کی صدارت کے منصب پر بھی فائز رہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کی اپنی تحقیق کئی مقالوں کی شکل میں اعلیٰ پائے کے جریدوں میں محفوظ ہے۔ جامعہ کراچی کے تدریس وتحقیق کے وسیع تر تجربے کے بعد ایک موقع پر وہ جب امریکا اور کینیڈا گئیں اور وہاں کچھ عرصہ قیام کیا تو اس دوران انہوں نے یونیورسٹی آف الاسکا (امریکا) میں سوشیالوجی اور سوشل ورک کے شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔
1996ء میں انہیں سئیٹل (واشنگٹن) میں ویمینز فیڈریشن فار ورلڈ پیس نے اپنی کانفرنس میں مہمان مقرر کے طور پر مدعو کیا۔
ڈاکٹر عقیلہ کیانی کی تحقیقی مطبوعات میں ایک واضح رجحان یہ نظر آتا ہے کہ وہ سماجی تبدیلی کی حرکیات (dynamics) کو سمجھنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے جدید تحقیقی اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستانی معاشرے کے اندر وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کی نوعیت اور ایک خاص وقت میں معاشرے کے اندر پائے جانے والے تضادات کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ اسی طرح انہوں نے دیہی معاشرت میں ہونے والی تبدیلیوں کو بھی سمجھنے کی کوشش کی۔ ایک زمانے میں پشاور میں قائم پاکستان اکیڈمی فار رورل ڈیولپمنٹ ملک کا ایک مؤقر ادارہ تھا جو دیہی معاشرت کے احوال اور اُس کے کوائف کو اپنی تحقیقات کا موضوع بناتا تھا۔ ڈاکٹر کیانی کا اس ادارے سے بہت گہرا تعلق رہا۔ 1971ء میں ڈاکٹر کیانی کی کتابEmerging Patterns of Rural Leadership in West Pakistanاسی ادارے نے شائع کی۔ 1974ء میں ایک اچھوتے موضوع پر اُن کی ایک کتاب کراچی یونیورسٹی نے شائع کی۔ اس کتاب کا موضوع یہ تھا کہ سماجی علوم کی تدریس میں تخلیقی ادب سے کس طرح استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
انگریزی میں شائع ہونے والی اس کتاب کا نام Creative Literature and Social Sciences تھا۔ یہ بڑی پر مغز کتاب تھی، جو ایک ورکشاپ پر بنیاد رکھتی تھی۔ اس ورکشاپ میں اردو اور سندھی ادب کے کئی ناولوں، افسانوں اور ڈراموں کو منتخب کر کے یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی تھی کہ ان کا سماجی تناظر کیا ہے اور پاکستانی معاشرے کی تفہیم اور تشریح میں اس تخلیقی ادب سے کس طرح مدد لی جاسکتی ہے۔ چناںچہ اس میں دکھایا گیا کہ سعادت حسن منٹو کی کہانی 'پانچ دن' قدرت اﷲ شہاب کا افسانہ 'غریب خانہ' جمال ابڑو کی سندھی کہانی 'بدتمیز'، دلاور فگار کی نظم 'کراچی کا قبرستان' اور شوکت صدیقی کا ناول 'خدا کی بستی' کس طرح پاکستانی سماجی منظر نامے کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر عقیلہ کیانی کے علمی اور تحقیقی کام کا بڑا حصہ فیلڈ ریسرچ پر مشتمل تھا۔ وہ صرف لائبریریوں پر اکتفا نہیں کرتی تھیں بلکہ وہ براہ راست معاشرے کے مختلف حلقوں میں جاکر اور مختلف سوال ناموں کے ذریعے لوگوں کی آراء حاصل کرنے کے بعد اپنے نتائج مرتب کرتی تھیں۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے علمی سطح پر کام کرکے لوگوں میں اس موضوع پر شعور پیدا کیا، جب یہ موضوع بڑی حد تک ممنوع سمجھا جاتا تھا۔ ایک انتہائی قدامت پسند معاشرے میں جہاں لوگ توہمات اور غلط تصورات کے اسیر تھے کوئی ایسی بات کرنا واقعی بہت مشکل تھا جو ذہنی پستی اور غیر سائنسی سوچ کے خلاف ہو۔ ڈاکٹر کیانی بتایا کرتی تھیں کہ اُن کو فیلڈ ریسرچ کے دوران بارہا کس قسم کے مشکل حالات سے دوچار ہونا پڑا۔
اُن کی وہ تحقیقات جو مختلف معاشرتی برائیوں میں ملوث افراد سے متعلق تھیں اُن تحقیقات کے لیے بھی انہیں مشکل مراحل سے گزرنا پڑا۔ ڈاکٹر کیانی میں ایک جذبہ ہمیشہ موجود رہا اور وہ یہ کہ انہوں نے جو علم حاصل کیا ہے اور جو مواقع انہیں ملے ہیں اُن کو دوسروں کی بھلائی کے لیے استعمال کریں۔
اپنی ذاتی زندگی میں ڈاکٹر عقیلہ کیانی پُر عزم اور مضبوط ارادے کی حامل انسان تھیں۔ وہ غیرمنقسم ہندوستان کے ایک اہم رئیس خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں۔ اُن کے والد مرزا شاکر حسین برلاس وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے اور انہوں نے برطانیہ سے بار ایٹ لا کی ڈگری حاصل کی ہوئی تھی۔ اُن کا تعلق نواب قاسم خان کے خاندان سے تھا جو مغل دربار کے رکن تھے۔ ڈاکٹر عقیلہ کیانی کی والدہ بی بی محمودہ بیگم سر دھنہ کے آخری نواب، نواب امجد علی شاہ کی صاحبزادی تھیں۔ رؤسا کے اس خاندان سے تعلق کے باوجود اُن میں غرور اور تکّبر نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ وہ اپنے طالب علموں کے ساتھ گھل مل جاتی تھیں اور اُن کی تعلیمی استعداد کو بڑھانے میں اپنی پوری کوشش کرتی تھیں۔ جن طالب علموں نے ان کے ساتھ تحقیق کا کام کیا وہ اس امر کی گواہی دیں گے کہ ڈاکٹر صاحبہ ان کے مسودات کو کئی کئی مرتبہ پڑھتی تھیں اور اُن کی اصلاح کرتی تھیں، تاکہ وہ خوب سے خوب تر بن سکیں۔ ڈاکٹر عقیلہ کیانی نے اپنے شوہر عبدالحمید کیانی کے جوان عمری میں انتقال کے بعد خود کو مجتمع رکھا اور اپنے تینوں بچوں کی تعلیم کا بہترین انتظام کیا۔ اُن کو زندگی میں دوسرا بڑا سانحہ اُس وقت پیش آیا جب ان کے ایک جوان صاحبزادے خالد کیانی اُن کے ساتھ جہاز میں دوران سفر حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال کرگئے۔ ڈاکٹر کیانی نے اپنی زندگی میں بڑے سے بڑے حادثے کا بڑی جواں مردی سے مقابلہ کیا۔
بالکل آخر کے چند سالوں کا تو مجھے علم نہیں لیکن اب سے سات آٹھ سال قبل تک وہ جب بھی پاکستان آتیں تو جامعہ کراچی کا پاکستان اسٹڈی سینٹر اُن کا مستقل ٹھکانا بنا رہتا۔ وہ انتہائی زندہ دل اور ملنسار واقع ہوئی تھیں۔ وہ ہر شخص سے گھل مل جاتیں، اُس کی خیریت دریافت کرتیں، بہت سوں کے لیے ان کے پاس تحفے بھی ہوتے۔ طالب علموں سے ان کی بے تکلفی بھی دیکھنے کے لائق تھی۔ وہ اُن سے ان کے ذاتی مسائل پر بھی باتیں کرتیں اور اُن کو عملی زندگی میں داخل ہونے کے حوالے سے مشورے بھی دیتیں۔
ڈاکٹر صاحبہ کی شخصیت میں بے پناہ وقار پایا جاتا تھا لیکن اس وقار میں کبھی تکبّر کی آمیزش ہم نے نہیں دیکھی۔ اُن کی گفتگو بڑی شگفتہ ہوتی۔ دورانِ گفتگو اکثر اُن کی حِسِّ لطیف کا بھی اظہار ہوتا، خاص طور سے جب وہ کوئی تازہ لطیفہ سن کر آئی ہوتیں اور اُس کو دوسروں تک پہنچا رہی ہوتیں۔ تب بات سے بات نکلتی جاتی اور محفل گلزار بن جاتی۔ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ ہمارے سینٹر میں پڑھایا بھی تھا اور 1980ء کی دہائی کے برسوں کا یہی تعلق تھا جو ہمیشہ قائم رہا۔ ڈاکٹر صاحبہ جب بھی سینٹر آتیں تو سینٹر کی فضا بہت خوش گوار ہوجاتی۔
کبھی وہ اپنے ہاتھ کا بنایا ہوا کیک لے کر آرہی ہوتیں، کبھی اُن کے ہاتھ میں گلدستہ یا گجرے ہوتے۔ انہیں خود بھی اچھا نظر آنا پسند تھا۔ اور وہ دوسروں کو بھی اچھا دیکھنا چاہتی تھیں۔ ایک موقع پر جب کہ وہ ستر، بہتر برس کی ہوں گی میں نے حیرت کا اظہار کیا کہ وہ ان دنوں کینیڈا میں کسی سمراسکول میں پھول بنانے کی ترکیب کیوں کر سیکھ رہی ہیں۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تو پیراکی بھی 55 سال کی عمر میں سیکھی تھی۔
تمام عمر سماجی مسئلوں کو سمجھنے اور اُن کے حل تلاش کرنے والی ڈاکٹر عقیلہ کیانی کو زندگی کے آخری برس کینیڈا میں وینکوور کے ایک اولڈ پیپلز ہوم میں گزارنے پڑے۔ ایک مرتبہ وہ کراچی آئیں تو خود انہوں نے اس تجربے کے بارے میں گفتگو کی۔ لیکن خلافِ توقع اس گفتگو میں نہ تو یاس اور بے چارگی کا کوئی عنصر تھا، اور نہ ہی کسی سے شکوہ وشکایت کا پہلو۔ بلکہ مجھے حیرت ہوئی جب انہوں نے اس تجربے کو بھی ایک پر لطف تجربہ قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے گھر میں جو دیگر بوڑھے لوگ رہتے ہیں انہی میں انہوں نے اپنے بہت اچھے دوست بنالیے ہیں جن کے ساتھ وہ گپ شپ کرتی ہیں، ٹیلی ویژن دیکھتی ہیں، اُن کے ساتھ مختلف کھیل کھیلنے کے لیے باغوں میں جاتی ہیں۔ غرض انہوں نے زندگی کے اس حصے میں بھی لطف اور اطمینان کے پہلو تلاش کر لیے تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ کی بیٹی لینا (جو کینیڈا ہی میں مقیم تھیں اور ہیں) آپ سے ملنے تو آتی ہوں گی۔ انہوں نے لینا کی بے پناہ مصروفیت کا ذکر کیا، لیکن وہ خوش تھیں کہ لینا اُن سے وقتاً فوقتاً ملنے کے لیے آتی رہتی ہیں۔
ڈاکٹر کیانی سے جتنا عرصہ بھی تعلق رہا اُس میں مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ اُن میں اور مجھ میں کتنا فاصلہ ہے۔ سچی بات ہے کہ فاصلہ تو بہت تھا، عمروں کا بھی، اور علم کا بھی۔ ظاہر ہے کہ وہ کہاں اور ہم جیسے کم مایہ کہاں۔ لیکن اگر ہمارے درمیان موجود فاصلے نظر نہیں آتے تھے تو یہ ڈاکٹر صاحبہ کا کما ل تھا۔ وہ دوسروں سے اُن کی سطح پر آکر جس طرح ایک تعلق قائم کرتی تھیں وہ ہر شخص کے دل میں اس احساس کو پختہ کر دیتا تھا کہ جیسے وہ واقعی ڈاکٹر صاحبہ کے برابر ہی کی کوئی ہستی ہے۔ 30 مارچ 2012ء کووینکوور میں جب ڈاکٹر صاحبہ نے دنیا سے رختِ سفر باندھنے کا فیصلہ کیا ہوگا تو مجھے یقین ہے کہ اپنے اکیانوے (91) سال کی انتہائی بھر پور زندگی پر شادمانی کے احساس کے ساتھ ساتھ انہیں اس پورے عرصے کی مہلت کے کم ہونے کا بھی کچھ نہ کچھ خیال ضرور رہا ہوگا۔ لیکن پھر وہ یہ سوچ کر مطمئن ہوگئی ہوں گی کہ ؎
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر