حقیقی بھوت

ہماری کہکشاں ملکی وے اتنی بڑی ہے کہ روشنی کو اسکے ایک سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں 105,700 سال لگ جاتے ہیں

ہماری کہکشاں ملکی وے کا قطر ایک لاکھ پانچ ہزار سات سو (105,700) نوری سال ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بھوت دیکھنے کا تجسس تقریباً ہم سب میں کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ بچپن کی وہ کہانیاں ہیں جو ہم بڑے شوق سے سنتے یا پڑھتے تھے۔ کیا حقیقت میں کسی بھوت کو دیکھا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب 'ہاں' میں ہے مگر اس کےلیے آپ کو رات کے وقت آسمان کو دیکھنا ہوگا۔ بہت سے ستارے جو آپ کو نظر آئیں گے، وہ حقیقت میں موجود ہی نہیں ہوتے۔

اسے سمجھنے سے پہلے ہمیں کائنات کی وسعت کو جاننا ہوگا۔ کائنات میں جو چیز سب سے زیادہ رفتار سے سفر کرتی ہے وہ ہے روشنی، جس کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔ سورج سے یہ روشنی زمین تک تقریباً آٹھ منٹ میں پہنچتی ہے۔ فرض کیجیے کہ اگر کسی وجہ سے سورج یکدم غائب ہوجائے (ویسے ایسا ہونا ممکن نہیں) تو ہمیں آٹھ منٹ تک اس کا پتا بھی نہیں چلے گا۔ جب آپ ڈوبتے سورج کو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو حقیقت میں آپ ماضی کو دیکھ رہے ہوتے ہیں کیونکہ جہاں پر آپ کو سورج نظر آرہا ہوتا ہے، وہ وہاں پر آٹھ منٹ پہلے موجود تھا۔

پلوٹو جو ہمارے نظامِ شمسی (سولر سسٹم) کے سب سے آخر پر موجود ہے، وہاں تک سورج کی روشنی کو پہنچنے میں تقریباً سوا پانچ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔

خلاء میں روشنی ایک سال میں جتنا سفر طے کرتی ہے، اسے ایک نوری سال کہا جاتا ہے۔ ہمارا سب سے قریبی نظامِ شمسی ایلفا سینٹوری ہم سے چارنوری سال کے فاصلے پر ہے۔ مطلب یہ کہ جب ہم دوربین سے ایلفا سینٹوری کے کسی سورج کو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ہم حقیقت میں اس کی چار سال پرانی تصویر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ (ایلفا سینٹوری سسٹم میں تین ستارے ہیں۔)

ہماری کہکشاں ملکی وے کا قطر ایک لاکھ پانچ ہزار سات سو (105,700) نوری سال ہے۔ اس حساب سے اگر ہم کسی دوربین کی مدد سے جتنی دور کے ستارے دیکھیں گے، اتنے ہی قدیم ماضی کی جھلک ہمیں نظر آئے گی۔


ملکی وے مسلسل گھوم رہی ہے اور ہر ستارہ ملکی وے کے ساتھ اپنے مدار میں گردش کر رہا ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک ستارہ ہم سے ایک ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے اور ہم طاقتور دوربین سے اس کو دیکھ رہے ہیں۔ تو کیا وہ اب بھی وہی پر ہے؟ جی نہیں! وہ وہاں پر موجود نہیں، وہ ایک ہزار سال میں وہاں سے بہت آگے نکل چکا ہے اور ہم ایک ایسے ستارے کو دیکھ رہے ہیں جو حقیقت میں وہاں پر موجود ہی نہیں۔

ایک اور مسئلہ بھی ہے، روشنی جب کسی بلیک ہول یا بڑے ستارے کے قریب سے گزرتی ہے تو وہ اسے اپنی طرف کھینچتا ہے، لہذا وہ ذرا سا خم کھاتی ہے، یعنی اپنے اصل راستے سے تھوڑی سی ہٹ جاتی ہے۔ اب جب یہ روشنی زمین پر پہنچتی ہے تو حقیقت میں یہ کسی اور طرف سے آرہی ہوتی ہے اور ہم اسے کسی اور طرف سے آتا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

تحریر کے شروع میں سورج کے غائب ہوجانے کی مثال دی گئی تھی۔ زیادہ کمیت کے ستارے اپنی عمر پوری کرکے ایک دھماکے سے پھٹ جاتے ہیں جو سپرنووا کہلاتا ہے (اس پر پھر کسی دن تحریر کروں گا)۔ ہماری کہکشاں میں ایسے بہت سے ستارے تھے جو سپر نووا بن کر ختم ہوئے اور بہت سے ابھی ہونے ہیں۔ فرض کیجیے کہ ایک ستارہ جو ہم سے پانچ سو نوری سال کے فاصلے پر ہے، وہ سپر نووا بن کر ختم ہو جاتا ہے تو ہمیں اس کا علم بھی پانچ سو سال کے بعد ہو گا؛ اور ہم مسلسل پانچ سو سال تک اُسے ویسے کا ویسا چمکتا دمکتا دیکھتے رہیں گے جبکہ وہ ستارہ اب حقیقت میں وہاں موجود ہی نہیں۔

یہ ہیں ہمارے حقیقی بھوت۔ جب ہم آسمان کو دیکھتے ہیں تو وہ کہکشائیں، ستارے اور سیارے اصل میں وہاں موجود نہیں ہوتے جہاں وہ ہمیں نظر آتے ہیں۔ لہذا جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ دراصل ماضی کی کوئی تصویر ہے جو اب بدل چکی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story