سندھ کا ڈسپوزیبل سرنج ایکٹ

ڈاکٹر ارشد الطاف پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ ہیں ،انھوں نے پاکستان اور امریکا میں اعلی تعلیم حاصل کی ہے۔وہ گزشتہ۔۔۔

ڈاکٹر ارشد الطاف پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ ہیں ،انھوں نے پاکستان اور امریکا میں اعلی تعلیم حاصل کی ہے۔وہ گزشتہ ایک عشرہ سے Injection Safety کے شعبے میں تحقیق اور پالیسی امور پر کام کر رہے ہیں۔ان کے متعدد تحقیقاتی مقالے بین الاقوامی رسائل میں شائع ہو چکے ہیں ، انھیں ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں بھی بطور ایک ماہر کے شرکت کا اعزاز حاصل رہا ہے۔وہ Safety Injection Global Network کی پاکستان میں نمائندگی کرتے ہیں اور وہ اقوام متحدہ کے ادارے WHOمیں ماہرین کے پینل کے اہم رکن ہیں۔ڈاکٹر الطاف نے نیپال اور ازبکستان جیسے ممالک کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے ہاں صحت کے شعبے میں injection safetyکو بہتر بنائیں۔وہ وزارت صحت کی تشکیل دی گئی injection safetyٹاسک فورس کے ممبر بھی رہے ہیں۔

ورلڈ ہیپاٹائٹس الائنس کے مطابق' جو کہ 28 جولائی کو ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے منا رہی ہے' دنیا بھر میں 500 ملین (50 کروڑ) لوگ ہیپاٹائٹس بی یا سی میں مبتلا ہیں اور یہ ایسی تعداد ہے جو ایچ آئی وی (یعنی ایڈز) یا کنسر کے مریضوں سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ہیپاٹائٹس بی اور سی میں مبتلا لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ 2007ء میں قومی سطح پر کیے جانے والے ایک مطالعہ سے معلوم ہوا کہ 12 ملین (ایک کروڑ بیس لاکھ) پاکستانی متذکرہ دو جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ملک بھر میں ہیپاٹائٹس بی میں مبتلا مریضوں کی شرح 2.5 فیصد ہے جب کہ ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا افراد کی شرح 4.9 فیصد ہے۔ یہ دونوں بیماریاں جان لیوا ہیں اور اگرچہ ان کے لیے مفت علاج فراہم کیا جا رہا ہے لیکن یہ بہت پیچیدہ اور بہت لمبے عرصہ تک جاری رہنے والا ہے اور جس میں کامیابی کی شرح بھی محدود ہے۔

نیز اس کے سائڈ ایفکٹس بھی بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی کے شروع ہونے کی وجوہات بہت سی ہیں جن میں غیر محفوظ طریقے سے خون لگوانا' سرجری کے ایسے آلات کا استعمال جن کو صحیح طریقے سے ''سٹرلائز'' نہ کیا گیا ہو' دانتوں کا غیر محفوظ طریقے سے علاج کان' ناک کی چھدائی یا جسم پر ٹیٹو کھدوانا' نائی سے شیو کرانا یا بے احتیاطی سے ٹیکہ لگوانے سے بھی متذکرہ بیمایوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ورلڈ ہیلتھ ارگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے نزدیک محفوظ ٹیکہ وہ ہوتا ہے جس سے ٹیکہ لگوانے والے کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور نہ ہی اس سے ایسی ضایع ہونے والی چیز پیدا ہو جو کمیونٹی کے لیے نقصان دہ ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں غیر محفوظ طریقے سے ٹیکہ لگانے کی مشق بڑی عام ہے اور نہ صرف یہ کہ جعلی ڈاکٹر (کوئیکس) بلکہ باقاعدہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی بلا ضرورت ٹیکے لگوانے کی تشخیص کر دیتے ہیں۔

ایک اور خطرناک بات صرف ایک دفعہ استعمال کی جانے والی ڈسپوزیبل سرنج کا دوبارہ سہ بارہ استعمال بھی ہے اور یہ حرکت پیسے بچانے کی خاطر کی جاتی ہے۔ بالعوم مریض اتنے غریب ہوتے ہیں کہ ہر بار نئی سرنج کی خرید کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں ڈسپوزیبل سرنج کا استعمال بدستور جاری ہے جب کہ عالمی سطح پر اس حرکت کو قتل عمد کے مترادف تصور کیا جاتا ہے۔سندھ حکومت نے اس حساس معاملے پر گہری توجہ دی ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ یہ معاملہ مریض کی جان کو خطرے میں ڈالنے والا ہے۔ سندھ کا بینہ نے مسودے کی منظوری دیدی ہے اور سندھ اسمبلی نے 12 جنوری 2011ء کو ''دی سندھ ریگولیشن اینڈ کنٹرول آف ڈسپوزیبل سرینج بل 2010ء'' پاس کر دیا۔ جس کے بعد یہ ایک نوٹیفکیشن نمبر پی اے ایس/ لیگیز۔ بی ۔2010/25ء کے ذریعے سندھ کی مقننہ کا ایکٹ بن گیا جسے سندھ ایکٹ نمبر IV آف 2011ء میں نوٹیفائی کر دیا گیا ہے۔ یہ مکمل ایکٹ صوبائی اسمبلی سندھ کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود ہے۔

Http://www.pas.gov.pk/ uploads/acts/ sindh/ 20Act%20No IV%20 of %20212.pdf theسابقہ حکومت کے اس اقدام کی تعریف کی جانی چاہیے کیونکہ ہمارے علم کے مطابق سندھ کے علاوہ کسی اور صوبے کی حکومت نے اس نہایت اہم مسئلہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔اس ایکٹ کی بنیادی شق کا عنوان ہے ''رسٹرکشن'' جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی شخص بھی ڈسپوزیبل سرنج نہیں بنائے گا نہ اس کو فروخت کرے گا اور نہ اس کا استعمال کرے گا تا آنکہ یہ خود کار طریقہ مقفل نہ ہو (آٹو لاک) اور خودکار طریقے سے خراب ہونے والی خود کار طریقے سے ٹوٹنے ولی (آٹو ڈسٹرکٹ اور آٹو بریک) نہ ہو۔ ایسی صورت میں نہ اس سے ٹیکہ لگایا جائے گا نہ خون نکالا جائے گا اور نہ ہی کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ''جرم اور سزا'' کے عنوان کے تحت اس میں لکھا گیا ہے کہ تمام ڈائریکٹرز' منیجرز' سیکریٹریز یا ایجنٹس اس ایکٹ کی پیروی کریں گے اور جو اس کی خلاف ورزی کریں گے ان کو سزا دی جائے گی جو دو سے پانچ سال تک قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی ہو سکتا ہے یا قید اور جرمانہ دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

اس مسودہ قانون کے منظور کرنے کی کلیدی وجہ ڈسپوزیبل سرنجوں کے ایک سے زیادہ بار استعمال کو روکنا تھا جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے تا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کے پھیلنے کو روکا جا سکے۔ پچھلی حکومت کے اس اقدام کو سراہا جانا چاہیے جو انھوں نے متذکرہ بیماریوں سے بچاؤ کے لیے اٹھایا بدقسمتی سے اب بھی ایسے پہلو موجود ہیں جن کے مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔


قارئین کی آسانی کے لیے اس بات کی وضاحت کی ضرورت ہے کہ ایک آٹو ڈس ایبل (AD) کیا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی قسم کی سرنج ہے جو خاص طور پر اس طریقے سے بنائی گئی ہے کہ اسے دوبارہ استعمال کیا ہی نہ جا سکے۔ اس سرنج میں ایک ایسا نظام ہے کہ اگر اس کو ایک بار درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو پھر اس کو دوبارہ استعمال کرنا ممکن ہی نہ ہو یا بے حد دشوار ہو۔ اس کو ایک دفعہ استعمال کرنے سے یعنی ٹیکہ لگانے سے پلیجر میں تھوڑی طاقت استعمال کرنے سے اس میں سے کلک کی آواز نکلتی ہے جس سے پلیجرعملی طور پر مقفل ہو جاتاہے اور دوبارہ استعمال کے قابل نہیں رہتا یا اس کا استعمال بے حد کٹھن ہو جاتا ہے۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں اے ڈی سرنج کا استعمال قانون کے مطابق لازمی ہے جو کہ حفظان صحت کے لیے بنایا گیا ہے۔ اب اس قانون میں رخنوں کا ذکر کرتے ہیں۔

اس ایکٹ کی بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کو مکمل طور پر نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ میرے علم کے مطابق سرکاری شعبہ کے اسپتالوں کی اکثریت اب بھی روائتی ڈسپوزیبل سرینج استعمال کر رہی ہیں یہ فرض کر لینا آسان ہے کہ میڈیکل سپرنٹڈنٹس یا پرچیز ڈپارٹمنٹس قانون کی خلاف ورزی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ لہٰذا اسے آسانی سے جیل بھیجا جا سکتا ہے یا پانچ لاکھ روپے کا بھاری جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو تو یہ بھی پتہ نہیں ہو گا کہ اس قسم کا کوئی قانون صوبے ہیں لاگو ہو چکا ہے۔اس ایکٹ کے بارے میں دوسری مشکل اے ڈی سرنجوں کی تیاری اور ان کی فروخت کے بارے میں ہے۔ اگرچہ ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئی شخص اے ڈی سرنج کے علاوہ اور کوئی سرنج نہیں بنائے گا لیکن ایکٹ نے ایک بے حد اہم پہلو کو نظر انداز کر دیا ہے جو یہ ہے کہ سرنج کو (ISO)788-4 آئی ایس او یعنی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فارسٹیڈڈئزیشن کے معیار پر پورا اترنا چاہیے لیکن یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔

چنانچہ سرنج بنانے والوں کو آئی ایس او کوالٹی سسٹم کے معیار کے مطابق ہونا چاہیے جو کہ میڈیکل ڈیوائس مینوفیکچرنگ آئی ایس او 13485 کے لیے طے کیا گیا ہے۔ مزید براں اسی ایکٹ کی زبان ایسی ہے کہ کوئی بھی مینو فیکچرر کسی قسم کی بھی AD سرنج تیار کر کے سپلائی کر سکتا ہے جس کی کوالٹی اور معیار پر قانونی طور پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔

بطور ایک ریسرچر اور انجکشن سیفٹی ایڈووکیٹ میں مذکورہ بالا ایکٹ میں ایک بڑا سقم دیکھتا ہوں کہ حفظان صحت کے مراکز میں سرنجوں کے جان بوجھ کر دوبارہ استعال پر کوئی اقدام نہیں لیا گیا۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ مستعمل سرنجوں کا دوبارہ استعمال اب بھی جاری ہے اور اس ضمن میں بھی قانون سازی ہونا چاہیے۔ مجھ سمیت اعلیٰ پیمانے پر پیشہ ورانہ بنیادوں پر تربیت یافتہ ٹیم نے اسی طرح کی قانون سازی کے لیے بے شمار مسودوں پر کام کیا۔ اگرچہ یہ حکومت کے افسر شاہی نظام میں بھی پھنس کر رہ گیا لیکن اس امر کی یقین دہانی کروائی گئی کہ تمام تر جزئیات پر تفصیلی سوچ بچار ہو تا کہ اس مہلک بیماری کی بیخ کنی کے لیے احسن طریقے سے کام کیا جائے۔ غریب اور غیر تعلیم یافتہ افراد اکثر اوقات ان حفاظتی امور سے لا علم ہوتے ہیں اور شاذ ہی ٹیکہ لگانے والے سے پوچھتے ہیں کہ آیا سرنج نئی ہے یا نہیں اور کیا اسے سیل شدہ پیکٹ سے کھولا گیا ہے یا نہیں۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے آج تک صوبائی اور نہ ہی قومی سطح پر کوئی قانون سازی کی گئی ہے۔

آخر میں اس بات کا تذکرہ بہت ضروری ہے، اس ایکٹ میں سنجیدہ نوعیت کی خامیاں رہ گئی ہیں۔ جب یہ تکمیل کے مراحل سے گزر رہا تھا' اس دوران تو ٹیکنیکل اور صحت عامہ کے ماہرین سے مشاورت کرنا چاہیے تھی۔ اب جب کہ قانون تکمیل کے مراحل طے کر چکا ہے تو صوبائی مقننہ کے سیاسی کلچر کو دیکھتے ہوئے اس میں کسی قسم کی ترمیم کے بارے میں سوچنا بھی مشکل ہے۔ کون آگے بڑھے گا' کون اس قانون پر نظر ثانی کرے گا کون اس میں بہتری لائے گا یہ سب سنجیدہ اور مخلص سوچ رکھنے والوں کی خواہش تک ہی محدود ہے۔ ایک عملی راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ سندھ مقننہ میں ہیلتھ پروموشن یا کوئی اور مناسب نام کے ساتھ ایک کمیٹی بنائی جائے۔ یہ کمیٹی صوبائی اسمبلی کے متعلقہ اراکین اور صحت عامہ کے ماہرین پر مشتمل ہو اور مل جل کر اس قانون کی خامیوں اور کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کریں اور ممکنہ حد تک بہتری لائیں۔ اگرچہ اولاً بھی یہ قانون سازی نیک نیتی پر مبنی تھی۔
Load Next Story