ہرخوشی اپنے لیے
بے شک انسان بے شمار خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے، اگر اسے شروع ہی سے اچھا ماحول میسر آجائے، اس کی۔۔۔
بے شک انسان بے شمار خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے، اگر اسے شروع ہی سے اچھا ماحول میسر آجائے، اس کی پرورش کرنے والے والدین ہوں یا دوسرے لوگ، اسے منفی اور مثبت باتوں کے فوائد و نقصان سے آگاہ کریں، اسلامی تعلیمات کا درس دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ بڑا ہوکر بڑا آدمی بنے۔ ایک تو مسئلہ یہ بھی ہے کہ لوگ برائی کو برائی ہی نہیں سمجھتے ہیں بلکہ روز مرہ کے معمولات میں جھوٹ، نفرت، تعصب کی باتیں عام طور پر کی جاتی ہیں، ہر شخص دوسرے شخص کی برائی کرنا ضروری تصور کرتا ہے اور اس کی خوبیوں سے حسد کرنا اپنا ذاتی اور پیدائشی حق سمجھتا ہے۔ اس کا خیال یہ ہے کہ کامیابیوں اور خوشیوں پر صرف اور صرف اس کا اختیار ہے۔ دوسرے اگر کوئی اچھا کام یا کارنامہ انجام دیں تو وہ اس سے ہرگز برداشت نہیں ہوگا۔
سب جاننے اور سمجھنے کے باوجود اس موذی مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے، جسے ہم حسد کہتے ہیں اور ایک وقت وہ آتا ہے کہ مرض لاعلاج ہوجاتا ہے، بلکہ غالب کے اس شعر کے مصداق کہ ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی'' والا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ جس طرح غیبت کا اپنا مزہ ہے، اسی طرح حسد کی آگ میں جلنے کی اپنی ہی اذیت ہے، وہ اس دردناک کیفیت میں مبتلا ہوکر اپنے حریف کو اذیت و شکست دینے کے لیے نت نئے منصوبے بناتا ہے اور آگ کے شعلوں سے اپنے آپ کو انتقام لے کر بچانا چاہتا ہے اور ایک دن ایسا آتا ہے جب وہ اپنے شکاری کو تڑپتا اور سسکتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے اور اتنا خوش اور مطمئن ہوجاتا ہے کہ تمام کلفتیں دور ہوجاتی ہیں۔ابھی حال ہی میں میلسی میں حسد کے حوالے سے ایک واقعہ ظہور پذیر ہوا ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ارسل کھچی ہے۔
جس نے اپنے گھناؤنے منصوبے کے تحت 25 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ لالچ بری بلا ہے۔ لالچ کے شکنجے میں پھنسنے والا ہمیشہ رسوا ہوتا ہے۔ اس واقعے میں بھی یہی صورت حال ہے۔ ارسل نے باورچی کو 23 لاکھ کا لالچ دیا تھا اور 50 ہزار ایڈوانس اور زہر کی بوتل دے کر منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لیے کہا تھا، باورچی نے تو اتنی بڑی رقم خواب میں بھی نہیں دیکھی ہوگی، پہلی قسط پاکر ہی اس نے اچھے بھلے انسان کو بڑی آسانی کے ساتھ موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ یہ انسانیت سوز واقعہ محض حسد کا نتیجہ تھا، چونکہ ذرائع کے مطابق ارسل خان کھچی نے الیکشن میں ہار کا بدلہ لینے کے لیے باورچی رفیق کے ذریعے کھانے میں زہر ملوایا۔ جس کے نتیجے میں کچھ افراد تشویش ناک حالت میں مبتلا ہوگئے اور 25 لوگ زہریلا کھانا کھانے کے باعث جاں بحق ہوگئے۔
ہمارے معاشرے میں چھوٹی، بڑی برائیاں بہت تیزی سے پنپتی ہیں اور اس مکروہ فعل کی وجہ سے لوگوں کا چین لوٹ لیا گیا ہے۔ اس دنیا کا یہ چلن ہے کہ کسی کو ہنستا مسکراتا نہیں دیکھ سکتے، کوئی خوش ہے اور چین کی بنسری بجا رہا ہے، تمام کام اس کے بنتے چلے جارہے ہیں، تو آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کامیابی کا سفر فلاں شخص کے مقدر میں ہے، میرے نصیب میں بدقسمتی کیوں لکھ دی گئی ہے؟ وہ سوچ، جس کی وجہ سے بے شمار لوگ پریشان اور ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حاسد اور جلنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں چار دیواری تک میسر نہیں، جن کا ٹھکانہ سڑکیں اور گلی کوچے ہیں جو سخت سردی کے موسم میں زمین پر پڑے سکڑتے رہتے ہیں، کوئی اﷲ کا نیک بندہ محض اﷲ کی خوشنودی کے لیے رات کے سناٹے میں نکلتا ہے اور سردی کی تکلیف میں مبتلا لوگوں کے ابدان پر رضائی یا کمبل ڈال کر اپنی راہ لیتا ہے۔
اگر ذرا سی دیر کے لیے ہم یہ سوچ لیں کہ بھئی! وہ تو فقیر ہیں، تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ فقیر یا جرائم پیشہ فرد اپنی مرضی سے ہرگز نہیں بنا ہے، نہ جانے اس کے ساتھ کیا حالات رہے ہوں گے جن کے باعث آج اس کی قسمت اسے سڑک پر لے آئی، نہ معلوم وہ کتنے اچھے گھرانے کا چشم و چراغ ہو، اغوا کاروں نے اسے اس حال کو پہنچادیا اور بھیک مانگنا اس کا مقدر ٹھہرا۔ پھر ہمیں تو چھت اور کھانا پینا اور زندگی کی بے شمار آسائشیں ملی ہیں تو پھر اپنے رب کا شکر کیوں نہ ادا کریں۔ ہمیشہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھنا چاہیے۔ تب ٹوٹے دل کو قرار آجاتا ہے کہ ہم دوسروں سے بہتر ہیں اور دوسرے ہم سے بہتر ہیں، شکر اور قناعت کرنے والا کبھی ذہنی تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتا، وہ جانتا ہے کہ ایک دن اسے اس فانی دنیا کو خیرباد کہنا ہے تو پھر اسباب اکٹھا کرنے اور دولت وہ بھی چھینا جھپٹی کی جمع کرنے سے کیا فائدہ؟ فرعون، ہامان، شداد کے پاس دولت پیسے کی کمی نہیں تھی اور وہ اکڑ اکڑ کر چلتے اور لوگوں پر ظلم ڈھاتے تھے، آخر ایک دن اپنے انجام کو پہنچ گئے۔
انجام تو سب کا ہی ہونا ہے خواہ وہ بد ہو یا نیک، عادات رذیلہ انسان کو دنیا میں ہی ذلیل و خوار کردیتی ہیں۔ ہم اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ زندگی کے ہر شعبے میں ایسے لوگ ضرور ملیں گے جو دوسروں کی خوشیوں اور کامیابیوں کے دشمن ہوں گے اور اپنے ہی ساتھیوں سے محض حسد کی بنا پر اتنی نفرت کریں گے کہ شکل دیکھنے کے بھی خواہش مند نہیں، ایسے لوگ دوسروں کے ساتھ دشمنی نہیں کرتے بلکہ اپنے ہی ساتھ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں دونوں طرح سے دینی و دنیاوی طور پر وہ لوگ خسارے میں مبتلا ہیں۔ ان کے برعکس ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کا کام دوسروں کے لیے خوشیاں بانٹنا ہے، وہ اپنی مسکراہٹ سے دکھی دلوں پر مرہم رکھنے کی سعی کرتے ہیں اور ہر طرح سے فائدہ پہنچانے کے لیے پیش پیش رہتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ زندگی کا مقصد یہی ہے کہ جس قدر ممکن ہو اپنے دوست احباب کے بھلے کی بات کریں اور سچی بات یہ ہے کہ تسکین قلب بھی نیکی کرکے ہی حاصل ہوتا ہے دل کا سکھ و چین چاہیے تو بندہ نیکیاں کرے، دکھی انسانیت کی خدمت کرے بڑے پیمانے پر نہ سہی تو چھوٹے پیمانے پر ہی اپنی بساط کے مطابق کام کرے۔
سب جاننے اور سمجھنے کے باوجود اس موذی مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے، جسے ہم حسد کہتے ہیں اور ایک وقت وہ آتا ہے کہ مرض لاعلاج ہوجاتا ہے، بلکہ غالب کے اس شعر کے مصداق کہ ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی'' والا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ جس طرح غیبت کا اپنا مزہ ہے، اسی طرح حسد کی آگ میں جلنے کی اپنی ہی اذیت ہے، وہ اس دردناک کیفیت میں مبتلا ہوکر اپنے حریف کو اذیت و شکست دینے کے لیے نت نئے منصوبے بناتا ہے اور آگ کے شعلوں سے اپنے آپ کو انتقام لے کر بچانا چاہتا ہے اور ایک دن ایسا آتا ہے جب وہ اپنے شکاری کو تڑپتا اور سسکتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے اور اتنا خوش اور مطمئن ہوجاتا ہے کہ تمام کلفتیں دور ہوجاتی ہیں۔ابھی حال ہی میں میلسی میں حسد کے حوالے سے ایک واقعہ ظہور پذیر ہوا ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ارسل کھچی ہے۔
جس نے اپنے گھناؤنے منصوبے کے تحت 25 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ لالچ بری بلا ہے۔ لالچ کے شکنجے میں پھنسنے والا ہمیشہ رسوا ہوتا ہے۔ اس واقعے میں بھی یہی صورت حال ہے۔ ارسل نے باورچی کو 23 لاکھ کا لالچ دیا تھا اور 50 ہزار ایڈوانس اور زہر کی بوتل دے کر منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لیے کہا تھا، باورچی نے تو اتنی بڑی رقم خواب میں بھی نہیں دیکھی ہوگی، پہلی قسط پاکر ہی اس نے اچھے بھلے انسان کو بڑی آسانی کے ساتھ موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ یہ انسانیت سوز واقعہ محض حسد کا نتیجہ تھا، چونکہ ذرائع کے مطابق ارسل خان کھچی نے الیکشن میں ہار کا بدلہ لینے کے لیے باورچی رفیق کے ذریعے کھانے میں زہر ملوایا۔ جس کے نتیجے میں کچھ افراد تشویش ناک حالت میں مبتلا ہوگئے اور 25 لوگ زہریلا کھانا کھانے کے باعث جاں بحق ہوگئے۔
ہمارے معاشرے میں چھوٹی، بڑی برائیاں بہت تیزی سے پنپتی ہیں اور اس مکروہ فعل کی وجہ سے لوگوں کا چین لوٹ لیا گیا ہے۔ اس دنیا کا یہ چلن ہے کہ کسی کو ہنستا مسکراتا نہیں دیکھ سکتے، کوئی خوش ہے اور چین کی بنسری بجا رہا ہے، تمام کام اس کے بنتے چلے جارہے ہیں، تو آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کامیابی کا سفر فلاں شخص کے مقدر میں ہے، میرے نصیب میں بدقسمتی کیوں لکھ دی گئی ہے؟ وہ سوچ، جس کی وجہ سے بے شمار لوگ پریشان اور ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حاسد اور جلنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں چار دیواری تک میسر نہیں، جن کا ٹھکانہ سڑکیں اور گلی کوچے ہیں جو سخت سردی کے موسم میں زمین پر پڑے سکڑتے رہتے ہیں، کوئی اﷲ کا نیک بندہ محض اﷲ کی خوشنودی کے لیے رات کے سناٹے میں نکلتا ہے اور سردی کی تکلیف میں مبتلا لوگوں کے ابدان پر رضائی یا کمبل ڈال کر اپنی راہ لیتا ہے۔
اگر ذرا سی دیر کے لیے ہم یہ سوچ لیں کہ بھئی! وہ تو فقیر ہیں، تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ فقیر یا جرائم پیشہ فرد اپنی مرضی سے ہرگز نہیں بنا ہے، نہ جانے اس کے ساتھ کیا حالات رہے ہوں گے جن کے باعث آج اس کی قسمت اسے سڑک پر لے آئی، نہ معلوم وہ کتنے اچھے گھرانے کا چشم و چراغ ہو، اغوا کاروں نے اسے اس حال کو پہنچادیا اور بھیک مانگنا اس کا مقدر ٹھہرا۔ پھر ہمیں تو چھت اور کھانا پینا اور زندگی کی بے شمار آسائشیں ملی ہیں تو پھر اپنے رب کا شکر کیوں نہ ادا کریں۔ ہمیشہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھنا چاہیے۔ تب ٹوٹے دل کو قرار آجاتا ہے کہ ہم دوسروں سے بہتر ہیں اور دوسرے ہم سے بہتر ہیں، شکر اور قناعت کرنے والا کبھی ذہنی تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتا، وہ جانتا ہے کہ ایک دن اسے اس فانی دنیا کو خیرباد کہنا ہے تو پھر اسباب اکٹھا کرنے اور دولت وہ بھی چھینا جھپٹی کی جمع کرنے سے کیا فائدہ؟ فرعون، ہامان، شداد کے پاس دولت پیسے کی کمی نہیں تھی اور وہ اکڑ اکڑ کر چلتے اور لوگوں پر ظلم ڈھاتے تھے، آخر ایک دن اپنے انجام کو پہنچ گئے۔
انجام تو سب کا ہی ہونا ہے خواہ وہ بد ہو یا نیک، عادات رذیلہ انسان کو دنیا میں ہی ذلیل و خوار کردیتی ہیں۔ ہم اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ زندگی کے ہر شعبے میں ایسے لوگ ضرور ملیں گے جو دوسروں کی خوشیوں اور کامیابیوں کے دشمن ہوں گے اور اپنے ہی ساتھیوں سے محض حسد کی بنا پر اتنی نفرت کریں گے کہ شکل دیکھنے کے بھی خواہش مند نہیں، ایسے لوگ دوسروں کے ساتھ دشمنی نہیں کرتے بلکہ اپنے ہی ساتھ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں دونوں طرح سے دینی و دنیاوی طور پر وہ لوگ خسارے میں مبتلا ہیں۔ ان کے برعکس ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کا کام دوسروں کے لیے خوشیاں بانٹنا ہے، وہ اپنی مسکراہٹ سے دکھی دلوں پر مرہم رکھنے کی سعی کرتے ہیں اور ہر طرح سے فائدہ پہنچانے کے لیے پیش پیش رہتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ زندگی کا مقصد یہی ہے کہ جس قدر ممکن ہو اپنے دوست احباب کے بھلے کی بات کریں اور سچی بات یہ ہے کہ تسکین قلب بھی نیکی کرکے ہی حاصل ہوتا ہے دل کا سکھ و چین چاہیے تو بندہ نیکیاں کرے، دکھی انسانیت کی خدمت کرے بڑے پیمانے پر نہ سہی تو چھوٹے پیمانے پر ہی اپنی بساط کے مطابق کام کرے۔