کھلا تضاد
راحم کے سامنے بات کرو تو وہ کسی طوطے کی طرح اس کے دماغ میں سیٹ ہو جاتی ہے اور بسا اوقات اسے بول کر۔۔۔
AJMER, INDIA:
راحم کے سامنے بات کرو تو وہ کسی طوطے کی طرح اس کے دماغ میں سیٹ ہو جاتی ہے اور بسا اوقات اسے بول کر نہ بھی بتائیں تو اس کی یادداشت کے نہاں خانوں میں ہر بات اپنے اپنے خانے میں جمع ہوتی چلی جاتی ہے، شاید ہر دور میں بچے ایسے ہی چالاک ہوتے ہوں گے مگر عصر حاضر کے بچے تو چالاکی میں ہر دور کے بچوں کو مات دے چکے ہیں۔ ہم اس عمر میں جن سائنسی ایجادات سے آشنا ہونے کے لیے کوشاں ہیں وہ ان کے لیے کھلونوں کی طرح ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ ہر آنے والی نسل پچھلی نسل سے بہتر حالات پاتی ہے اور اس کی پرداخت بھی اپنے ماں باپ کی نسبت بہتر ماحول میں ہوتی ہے۔
اگلے ہی روزمیں اسے اپنے ساتھ لے کر صدر تک چلی گئی، چند کام تھے، حسب عادت گزرتے گزرتے ایک کپڑوں کی دکان میں چلی گئی اور ضرورت نہ ہونے کے باوصف ایک دو کپڑوں پر نظر انتخاب ٹھہر گئی... ''لیکن ماما ہم تو عید کے جوتوں کی خریداری کے لیے آئے ہیں!'' اس نے کسی وکیل کی طرح نقطہء اعتراض اٹھایا۔ میں نے اسے یہ بھی سمجھانے کی کوشش نہ کی کہ عورتوں کو ہمارے ہاں بے ضرورت کپڑے خریدنے کا خاص حق حاصل ہے اور اس پر مستزاد الماریاں کپڑوں سے ٹھنسی پڑی ہوتی ہیں اور جب لباس کے انتخاب کا معاملہ ہو تو... کچھ ہے نہیں پہننے کو!!! ہمارا خاص فقرہ ہوتا ہے۔ (ویسے اب یہ معاملہ کچھ کچھ مردوں کے ساتھ بھی ہونا شروع ہو گیا ہے)
بات ہو رہی تھی راحم کے ساتھ خریداری کی... اسے جوتے خرید کر دئیے تو ساتھ ہی اسے کھلونوں کی دکان نظر آ گئی اور اس کا کھلونوں کا مطالبہ حسب معمول شروع ہو گیا۔ ''چلو دیکھ لیتے ہیں مگر کوئی کھلونا پسند کر کے اس کے لیے مجھے تنگ نہ کریں، اگر میرے پاس اتنے پیسے ہوئے تو میں آپ کو لے دوں گی ورنہ نہیں...'' اسے صاف انکار کر کے بازار میں ہی اس کی ضد شروع ہو جانے سے بہتر تھا کہ اسے ایک چکرلگوا کر اس کی پسند کے کھلونے میں کوئی نقص نکال کر اسے قائل کر لوں اور دکان سے باہر نکال لاؤں اور میں نے وہی کیا۔ گاڑی میں بیٹھ کر میں نے اس سے سوال کیا، ''کیا لازم ہے کہ جب بھی آپ بازار میں آئیں تو ایک کھلونا خریدیں... کوئی ایسا مقام بھی تو آنا چاہیے کہ آپ کھلونوں کی دکان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں؟''
''ماما... ہم پرسوں بازار آئے تھے اور آپ نے کپڑ ے لیے تھے، اس سے تین دن پہلے بھی اور آج پھر آپ نے کپڑے لیے ہیں، کیا میں نے آپ سے کہا کہ آپ ہمیشہ کپڑے نہ لیا کریں؟'' اس کی بات سن کر میں دنگ رہ گئی، آپ بھی سات سال کے بچے کے منہ سے ایسی بات سن کر دنگ رہ جاتے۔ اسے یہ بھی نہ کہہ سکی کہ میں نے ان تینوں پھیروں میں اپنے کپڑے تو نہ لیے تھے، ملازموں کے عید کے کپڑے، بچوں کے اور صاحب کے اور اس روز خواہ مخواہ میں اپنے لیے لے لیے۔
''گاڑی چلاتے ہوئے بھی میرا دھیان اس کے اسی سوال کی طرف تھا، اسے اپنی معصومیت میں یہ علم نہ ہوا تھا کہ اس نے کیسی کھڑکی کھول دی تھی۔ ہم کیسی چھوٹی چھوٹی لا پروائیوں سے بچوں کے ذہنوں میں اپنے بارے میں منفی تاثر پیدا کر دیتے ہیں...
...کسی کا فون آئے تو بچوں سے کہتے ہیں کہ فون اٹھا کر کہہ دو پاپا گھر پر نہیں... ماما نماز پڑھ رہی ہیں!
...گھر کے باہر گھنٹی بجے تو بھی بچوں کو یا ان کے سامنے ملازموں سے کہتے ہیں کہ کہو سب لوگ باہر گئے ہیں... گھر پر صرف ملازم ہیں۔ اسی طرح کسی صاحب نے گھر کے باہر گھنٹی بجنے پر اپنے بچے کو یہ کہہ کر باہر بھیجا کہ آنے والے سے کہہ دے کہ پاپا گھر پر نہیں ہیں، مگر تجسس یہ بھی تھا کہ دیکھیں اس وقت آیا کون ہے... جونہی بچے نے ''انکل'' کو بتایا کہ پاپا گھر پر نہیں ہیں، اسے سمے انکل کی نظر کھڑکی پر پڑ گئی اور وہ جاتے جاتے بچے سے کہہ گئے، ''پاپا سے کہنا کہ آئندہ کہیں جانا ہو تو کھڑکی سے اپنا سر بھی اٹھا کر ساتھ لے جایا کریں!''
...ہماری غفلت کی وجہ سے بچوں کا ہوم ورک مکمل نہ ہو تو ہم انھیں کوئی نہ کوئی بہانہ تیار کر کے دے دیتے ہیں تا کہ استاد کے سامنے اس کی بے عزتی نہ ہو، وجہ چاہے ہمارا کسی تقریب میں چلے جانا ہو یا کسی مہمان کی آمد...
...کسی کے ساتھ جھگڑا ہو اور ہمیں علم ہو جائے کہ قصور ہمارے بچے کا ہے تو ہم فوراً اسے پٹی پڑھاتے ہیں کہ اس نے اپنا قصور نہیں ماننا۔
...اس کے سامنے ہم لوگوں کی برائیاں، غیبت کرتے ہیں اور منفی منصوبے بناتے ہیں۔
...بجلی چوری اور ٹیکس میں ہیر پھیر کے منصوبے ترتیب دیتے ہیں۔
...دوسروں سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں ان کی برائیاں کرتے ہیں۔
اس پر مستزاد کہ ہم بچوں کو جو کچھ سکھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ سب ان کے الٹ ہے۔ ہم انھیں ہمیشہ سچ بولنے، چوری نہ کرنے، غیبت سے بچنے، جھگڑا نہ کرنے، اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں عار محسوس نہ کرنے، ملک کے ساتھ وفادار رہنے اور اپنے خاندان کے ساتھ یک جہتی ... مگر یہ سب ہمارے زبانی اسباق ہیں، انہیں ہم مدافعتی ٹیکوں کی طرح بچے کے نظام میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر بچہ تو کسی طوطے اور بندر کی طرح نقال ہوتا ہے۔ اس میں سیکھنے کی صلاحیت سمعی سے زیادہ بصری ہوتی ہے، وہ ہدایات کو سن کر ان پر عمل کرنے سے زیادہ دیکھ کر اسے نقل کرنے میں زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ لڑکیاں ماؤں کے دوپٹے گھسیٹتی پھرتی ہیں، ان کے ہیل والے جوتوں میں چل کر فخر محسوس کرتی ہیں... اسی طرح کئی لڑکے اپنے باپوں کی نقل میںان کی سیفٹی سے شیو کرنے کی کوشش میں اپنا منہ زخمی کر لیتے ہیں، ان کی طرح چلتے اور ٹیلی فون کان سے لگا کر باپ کی طرح کاروباری گفتگو کی نقل کرتے ہیں۔ دیکھ کر سیکھنا بچے کی جبلت ہے، اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ انھیں اگر کچھ اچھا سکھانا ہے تو ہمیں اس اچھائی کا عملی نمونہ بننا ہو گا اور ان سے توقع کرنا ہو گی کہ وہ اپنی جبلت کے عین مطابق اسے نقل کریں۔
گندم کے بیج بو کر چاول کی فصل کی توقع کرنے والے احمق کے سوا اور کچھ نہیں کہلائے جا سکتے۔ اچھے اوصاف کیا ہیں، بچوں کو ہم کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے لیے ہمیں اتنا اچھا بننے کی کوشش کرنا ہو گی۔ اگر ہم اپنی ان عادات کو تبدیل نہیں کر سکتے جو ہم یہ جان کر بھی دانستگی میں کرتے ہیں کہ وہ بری عادات ہیں تو کم از کم ان عادات کا مظاہرہ بچوں کے سامنے مت کریں۔
ماں باپ اور گھر میں رہنے والے دیگر افراد بچے کی پہلی درس گاہ ہوتے ہیں، اس کی تربیت کے آغاز میں اس کی عادات کی تخلیق ہوتی ہے، اسکول جانے سے قبل کا دور انتہائی اہم ہوتا ہے اور اس دور میں بچے کو عملی مظاہرے کے ساتھ اچھائی کے اسباق دیں، گھر کے ملازموں کے انتخاب میں بھی انتہائی احتیاط ملحوظ رکھیں اور اچھے سے اچھے ملازم کے ساتھ بھی بچے کا interaction کم سے کم رکھیں۔ اسکول میں آنے والے ان ننھے ننھے بچوں کو دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے گھر میں ماحول کیسا ہوتا ہے، گویا بچہ ایک ایسا آئینہ ہے جو گھر کے ماحول کا عکاس ہوتا ہے، اپنے والدین کا، گھر کے رہن سہن کا اور اس بات کا بھی فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ بچے کی پرورش والدین کے ہاتھوں ہو رہی ہے یا وہ ملازموں کے رحم و کرم پر ہے۔
اچھائی انسان کے اندر ہوتی ہے اور اچھائی کا عکس اس کے چہرے پر نظر آ تا ہے، بچے ہمارے عکاس ہیں، اگر ہم بچوں کو اچھا دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے اندر کی برائی کا قلع قمع کریں اور پھر اس خوب صورتی کو بچے میں اتار دیں، ایک ایک شخص مل کر معاشرہ بنتا ہے اور ہماری کوشش سے پورا معاشرہ خوب صورت ہو سکتا ہے۔
راحم کے سامنے بات کرو تو وہ کسی طوطے کی طرح اس کے دماغ میں سیٹ ہو جاتی ہے اور بسا اوقات اسے بول کر نہ بھی بتائیں تو اس کی یادداشت کے نہاں خانوں میں ہر بات اپنے اپنے خانے میں جمع ہوتی چلی جاتی ہے، شاید ہر دور میں بچے ایسے ہی چالاک ہوتے ہوں گے مگر عصر حاضر کے بچے تو چالاکی میں ہر دور کے بچوں کو مات دے چکے ہیں۔ ہم اس عمر میں جن سائنسی ایجادات سے آشنا ہونے کے لیے کوشاں ہیں وہ ان کے لیے کھلونوں کی طرح ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ ہر آنے والی نسل پچھلی نسل سے بہتر حالات پاتی ہے اور اس کی پرداخت بھی اپنے ماں باپ کی نسبت بہتر ماحول میں ہوتی ہے۔
اگلے ہی روزمیں اسے اپنے ساتھ لے کر صدر تک چلی گئی، چند کام تھے، حسب عادت گزرتے گزرتے ایک کپڑوں کی دکان میں چلی گئی اور ضرورت نہ ہونے کے باوصف ایک دو کپڑوں پر نظر انتخاب ٹھہر گئی... ''لیکن ماما ہم تو عید کے جوتوں کی خریداری کے لیے آئے ہیں!'' اس نے کسی وکیل کی طرح نقطہء اعتراض اٹھایا۔ میں نے اسے یہ بھی سمجھانے کی کوشش نہ کی کہ عورتوں کو ہمارے ہاں بے ضرورت کپڑے خریدنے کا خاص حق حاصل ہے اور اس پر مستزاد الماریاں کپڑوں سے ٹھنسی پڑی ہوتی ہیں اور جب لباس کے انتخاب کا معاملہ ہو تو... کچھ ہے نہیں پہننے کو!!! ہمارا خاص فقرہ ہوتا ہے۔ (ویسے اب یہ معاملہ کچھ کچھ مردوں کے ساتھ بھی ہونا شروع ہو گیا ہے)
بات ہو رہی تھی راحم کے ساتھ خریداری کی... اسے جوتے خرید کر دئیے تو ساتھ ہی اسے کھلونوں کی دکان نظر آ گئی اور اس کا کھلونوں کا مطالبہ حسب معمول شروع ہو گیا۔ ''چلو دیکھ لیتے ہیں مگر کوئی کھلونا پسند کر کے اس کے لیے مجھے تنگ نہ کریں، اگر میرے پاس اتنے پیسے ہوئے تو میں آپ کو لے دوں گی ورنہ نہیں...'' اسے صاف انکار کر کے بازار میں ہی اس کی ضد شروع ہو جانے سے بہتر تھا کہ اسے ایک چکرلگوا کر اس کی پسند کے کھلونے میں کوئی نقص نکال کر اسے قائل کر لوں اور دکان سے باہر نکال لاؤں اور میں نے وہی کیا۔ گاڑی میں بیٹھ کر میں نے اس سے سوال کیا، ''کیا لازم ہے کہ جب بھی آپ بازار میں آئیں تو ایک کھلونا خریدیں... کوئی ایسا مقام بھی تو آنا چاہیے کہ آپ کھلونوں کی دکان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں؟''
''ماما... ہم پرسوں بازار آئے تھے اور آپ نے کپڑ ے لیے تھے، اس سے تین دن پہلے بھی اور آج پھر آپ نے کپڑے لیے ہیں، کیا میں نے آپ سے کہا کہ آپ ہمیشہ کپڑے نہ لیا کریں؟'' اس کی بات سن کر میں دنگ رہ گئی، آپ بھی سات سال کے بچے کے منہ سے ایسی بات سن کر دنگ رہ جاتے۔ اسے یہ بھی نہ کہہ سکی کہ میں نے ان تینوں پھیروں میں اپنے کپڑے تو نہ لیے تھے، ملازموں کے عید کے کپڑے، بچوں کے اور صاحب کے اور اس روز خواہ مخواہ میں اپنے لیے لے لیے۔
''گاڑی چلاتے ہوئے بھی میرا دھیان اس کے اسی سوال کی طرف تھا، اسے اپنی معصومیت میں یہ علم نہ ہوا تھا کہ اس نے کیسی کھڑکی کھول دی تھی۔ ہم کیسی چھوٹی چھوٹی لا پروائیوں سے بچوں کے ذہنوں میں اپنے بارے میں منفی تاثر پیدا کر دیتے ہیں...
...کسی کا فون آئے تو بچوں سے کہتے ہیں کہ فون اٹھا کر کہہ دو پاپا گھر پر نہیں... ماما نماز پڑھ رہی ہیں!
...گھر کے باہر گھنٹی بجے تو بھی بچوں کو یا ان کے سامنے ملازموں سے کہتے ہیں کہ کہو سب لوگ باہر گئے ہیں... گھر پر صرف ملازم ہیں۔ اسی طرح کسی صاحب نے گھر کے باہر گھنٹی بجنے پر اپنے بچے کو یہ کہہ کر باہر بھیجا کہ آنے والے سے کہہ دے کہ پاپا گھر پر نہیں ہیں، مگر تجسس یہ بھی تھا کہ دیکھیں اس وقت آیا کون ہے... جونہی بچے نے ''انکل'' کو بتایا کہ پاپا گھر پر نہیں ہیں، اسے سمے انکل کی نظر کھڑکی پر پڑ گئی اور وہ جاتے جاتے بچے سے کہہ گئے، ''پاپا سے کہنا کہ آئندہ کہیں جانا ہو تو کھڑکی سے اپنا سر بھی اٹھا کر ساتھ لے جایا کریں!''
...ہماری غفلت کی وجہ سے بچوں کا ہوم ورک مکمل نہ ہو تو ہم انھیں کوئی نہ کوئی بہانہ تیار کر کے دے دیتے ہیں تا کہ استاد کے سامنے اس کی بے عزتی نہ ہو، وجہ چاہے ہمارا کسی تقریب میں چلے جانا ہو یا کسی مہمان کی آمد...
...کسی کے ساتھ جھگڑا ہو اور ہمیں علم ہو جائے کہ قصور ہمارے بچے کا ہے تو ہم فوراً اسے پٹی پڑھاتے ہیں کہ اس نے اپنا قصور نہیں ماننا۔
...اس کے سامنے ہم لوگوں کی برائیاں، غیبت کرتے ہیں اور منفی منصوبے بناتے ہیں۔
...بجلی چوری اور ٹیکس میں ہیر پھیر کے منصوبے ترتیب دیتے ہیں۔
...دوسروں سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں ان کی برائیاں کرتے ہیں۔
اس پر مستزاد کہ ہم بچوں کو جو کچھ سکھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ سب ان کے الٹ ہے۔ ہم انھیں ہمیشہ سچ بولنے، چوری نہ کرنے، غیبت سے بچنے، جھگڑا نہ کرنے، اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں عار محسوس نہ کرنے، ملک کے ساتھ وفادار رہنے اور اپنے خاندان کے ساتھ یک جہتی ... مگر یہ سب ہمارے زبانی اسباق ہیں، انہیں ہم مدافعتی ٹیکوں کی طرح بچے کے نظام میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر بچہ تو کسی طوطے اور بندر کی طرح نقال ہوتا ہے۔ اس میں سیکھنے کی صلاحیت سمعی سے زیادہ بصری ہوتی ہے، وہ ہدایات کو سن کر ان پر عمل کرنے سے زیادہ دیکھ کر اسے نقل کرنے میں زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ لڑکیاں ماؤں کے دوپٹے گھسیٹتی پھرتی ہیں، ان کے ہیل والے جوتوں میں چل کر فخر محسوس کرتی ہیں... اسی طرح کئی لڑکے اپنے باپوں کی نقل میںان کی سیفٹی سے شیو کرنے کی کوشش میں اپنا منہ زخمی کر لیتے ہیں، ان کی طرح چلتے اور ٹیلی فون کان سے لگا کر باپ کی طرح کاروباری گفتگو کی نقل کرتے ہیں۔ دیکھ کر سیکھنا بچے کی جبلت ہے، اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ انھیں اگر کچھ اچھا سکھانا ہے تو ہمیں اس اچھائی کا عملی نمونہ بننا ہو گا اور ان سے توقع کرنا ہو گی کہ وہ اپنی جبلت کے عین مطابق اسے نقل کریں۔
گندم کے بیج بو کر چاول کی فصل کی توقع کرنے والے احمق کے سوا اور کچھ نہیں کہلائے جا سکتے۔ اچھے اوصاف کیا ہیں، بچوں کو ہم کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے لیے ہمیں اتنا اچھا بننے کی کوشش کرنا ہو گی۔ اگر ہم اپنی ان عادات کو تبدیل نہیں کر سکتے جو ہم یہ جان کر بھی دانستگی میں کرتے ہیں کہ وہ بری عادات ہیں تو کم از کم ان عادات کا مظاہرہ بچوں کے سامنے مت کریں۔
ماں باپ اور گھر میں رہنے والے دیگر افراد بچے کی پہلی درس گاہ ہوتے ہیں، اس کی تربیت کے آغاز میں اس کی عادات کی تخلیق ہوتی ہے، اسکول جانے سے قبل کا دور انتہائی اہم ہوتا ہے اور اس دور میں بچے کو عملی مظاہرے کے ساتھ اچھائی کے اسباق دیں، گھر کے ملازموں کے انتخاب میں بھی انتہائی احتیاط ملحوظ رکھیں اور اچھے سے اچھے ملازم کے ساتھ بھی بچے کا interaction کم سے کم رکھیں۔ اسکول میں آنے والے ان ننھے ننھے بچوں کو دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے گھر میں ماحول کیسا ہوتا ہے، گویا بچہ ایک ایسا آئینہ ہے جو گھر کے ماحول کا عکاس ہوتا ہے، اپنے والدین کا، گھر کے رہن سہن کا اور اس بات کا بھی فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ بچے کی پرورش والدین کے ہاتھوں ہو رہی ہے یا وہ ملازموں کے رحم و کرم پر ہے۔
اچھائی انسان کے اندر ہوتی ہے اور اچھائی کا عکس اس کے چہرے پر نظر آ تا ہے، بچے ہمارے عکاس ہیں، اگر ہم بچوں کو اچھا دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے اندر کی برائی کا قلع قمع کریں اور پھر اس خوب صورتی کو بچے میں اتار دیں، ایک ایک شخص مل کر معاشرہ بنتا ہے اور ہماری کوشش سے پورا معاشرہ خوب صورت ہو سکتا ہے۔