ایوان صدارت کے مکین کون کون رہا پاکستان کا صدر
صدر زرداری کے دور کا اہم آئینی کام 18ویں ترمیم تھا جس کے ذریعے صدر نے اپنے تمام اختیارات وزیراعظم کے حوالے کردیے۔
قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے ایک نظر اب تک صدر کے عہدے پر فائز رہنے والی شخصیات پر ڈالتے ہیں:
(1) اسکندرمرزا کو ملک کا پہلا صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ری پبلکن پارٹی کی نمائندگی کرنے والے اسکندر مرزا نے 23مارچ 1956 سے 27 اکتوبر 1958 تک یہ عہدہ سنبھالا۔ ان کے پاس ملک کے آخری گورنر جنرل ہونے کا اعزاز بھی ہے۔1956 کے آئین کے نفاذ کے بعد وہ صدر بنے تھے۔ فوجی بغاوت کے نتیجے میں جنرل ایوب خان نے اکتوبر 1958 میں انھیں عہدہ چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
(2) ایوب خان 27 اکتوبر 1958سے 8جون 1962 تک ملک کے دوسرے صدر کی حیثیت میں ذمے داریاں انجام دیتے رہے۔ انھوں نے جون 1962 سے 25 مارچ 1969 تک دوسری مدت صدارت بھی گزاری۔ انہی کے دور صدارت میں پاکستان کو روایتی حریف انڈیا کے خلاف تاریخی 1965 کی جنگ سے گزرنا پڑا۔ 1969 میں شدید سیاسی بحران اور اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔
(3) پاکستان کے تیسرے صدر جنرل یحییٰ خان بنے، ان کی صدارت 25 مارچ 1969سے شروع ہوکر20 دسمبر 1971 کو اختتام پذیر ہوئی۔ ایوب خان کے استعفے کے بعد منصب صدارت سنبھالنے والے یحییٰ خان کے دور میں سقوط ڈھاکا کا سانحہ رونما ہوا۔
(4)پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو 20 دسمبر 1971کو ملک کے چوتھے صدر بنے، ان کا مدت صدارت 13اگست 1973 کو ختم ہوئی۔ انھوں نے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر 1973 میں نئے آئین کے نفاذ کے بعد وزارت عظمی سنبھالی۔ 1973 کے آئین کے تحت ملک میں پارلیمانی نظام حکومت متعارف کرایا گیا۔
(5)فضل الٰہی چوہدری ملک کے 5ویں صدر تھے، ان کا دور صدارت 14 اگست 1973 سے شروع ہوکر 16ستمبر 1978کو مکمل ہوا۔ 73 کے آئین کے تحت وہ پہلے صدر تھے، پارلیمانی نظام حکومت کے تحت امور مملکت چلانے کی ذمے داری وزیر اعظم کو سونپ دی گئی تھی۔
(6) پاکستان کے چھٹے صدرجنرل محمد ضیاء الحق تھے جنھوں نے فوجی بغاوت کے تحت حکومت کا تختہ الٹا اور عنان اقتدار سنبھالی۔ وہ 16 ستمبر 1978سے 17 اگست 1988تک صدر مملکت رہے جو پاکستانی صدور کی تاریخ میں سب سے زیادہ عرصے تک کی مدت ہے۔ 1977 میں حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ضیاء الحق چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی رہے۔17اگست 1988 کو فضائی حادثے میں ان کا انتقال ہوا۔
(7)ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد غلام اسحٰق خان نے منصب صدارت سنبھالا، وہ 17 اگست 1988سے جولائی 1993 تک صدر رہے۔ ان کے دور میں قومی سیاست میں زبردست نشیب و فراز دیکھنے میں آئے۔ انھوں نے ایک بار پیپلزپارٹی کی حکومت کو بینظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ن لیگ کی حکومت کو نوازشریف کی وزارت عظمیٰ میں برطرف کیا۔ سیاسی کشیدگی کے باعث 1993 میں فوج کو مداخلت کرنا پڑی اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ کے کہنے پر وزیر اعظم (جنھیں سپریم کورٹ نے بحال کردیا تھا) اور صدر غلام اسحٰق خان کو گھر جانا پڑا۔
اس موقع پر وسیم سجاد کو جو چیئرمین سینیٹ تھے، 3 ماہ کے لیے قائم مقام صدر کی ذمے داریاں دی گئیں۔ وہ 18 جولائی 1993سے لے کر 14نومبر 1993تک صدر رہے۔ ان کا تعلق اس وقت مسلم لیگ ن سے تھا۔
(8) پیپلزپارٹی کے سردار فاروق احمد خان لغاری 14نومبر 1993 کو پاکستان کے 8ویں صدر بنے، ان کا دور صدارت 2دسمبر 1997تک جاری رہا۔ وزیر اعظم نوازشریف کی حکومت سے شدید اختلافات کے بعد انھیں عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اپنے دور صدارت میں فاروق لغاری نے اپنی ہی پارٹی (پیپلزپارٹی) کی حکومت کو بھی برطرف کیا۔ لغاری کی جانب سے پیپلزپارٹی کی حکومت کو ختم کرنے کا اقدام ہر ایک کے لیے انتہائی حیرت ناک تھا، کیوںکہ وہ پیپلزپارٹی کی قائد بینظیر بھٹو کے انتہائی قابل اعتماد سمجھے جاتے تھے۔
لغاری کے استعفے کے بعد ایک بار پھر وسیم سجاد کو عبوری صدر بنایا گیا، 2 دسمبر 1997سے یکم جنوری 1998تک وسیم سجاد دوسری بار ملک کے عبوری صدر بنے۔
(9) یکم جنوری 1998 کو ن لیگ کی حکومت نے رفیق تارڑ کو پاکستان کا 9واں صدر بنادیا۔ انھوں نے 2001 میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ اپنے دور صدارت ہی میں انھوں نے اپنی پارٹی ن لیگ کی حکومت کو اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف کے ہاتھوں ختم ہوتے دیکھا۔
(10)آرمی چیف پرویز مشرف 20 جون 2001 کو ملک کے 10ویں صدر بنے، ان کے عہدہ صدارت کی پہلی مدت 6اکتوبر 2007کو ختم ہوئی۔ 2007 میں ہی وہ دوبارہ صدر منتخب کیے گئے، ان کی دوسری مدت صدارت 18اگست 2008 کو پوری ہوئی۔ اکتوبر 1999میں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے دور میں بطور آرمی چیف جمہوری حکومت کو برطرف کرکے اقتدار سنبھالنے والے پرویز مشرف کا دور سیاسی اور قومی سطح پر انتہائی ہنگامہ خیز رہا۔ وہ آرمی چیف کے ساتھ ملک کے چیف ایگزیکٹیو بھی رہے۔ ان ہی کے دور میں طیارہ سازش کیس میں قید بھگتنے والے شریف خاندان کو جلاوطن ہونا پڑا۔ دور صدارت میں ہی ان پر کئی بار قاتلانہ حملے کیے گئے، جب کہ 2007 میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کو عہدے سے معزول کرنا، افتخار چوہدری کے انکار، ایمرجینسی کے نفاذ، میڈیا پر پابندی اور پھر ججوں کی نظر بندی جیسے واقعات نے دنیا بھر کو ہلاکر رکھ دیا۔ 27دسمبر 2007 کو پیپلزپارٹی کی قائد اور عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان بننے والی بینظیر بھٹو انتخابی ریلی کے دوران فائرنگ اور دھماکے کے نتیجے میں جاں بحق ہوئیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب پرویز مشرف نے میڈیا پر قوم سے خطاب کے دوران استعفے کا اعلان کیا تو اس وقت ملک میں پیپلزپارٹی ہی کی حکومت تھی۔
پرویز مشرف کے استعفیٰ دینے کے بعد اس وقت کے چیئرمین سینیٹ اور مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے محمد میاں سومرو کو قائم مقام صدر بنایا گیا، وہ 18اگست 2008 سے 9ستمبر 2008تک صدر رہے۔
(11)پیپلزپارٹی کی لیڈر بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پارٹی کے شریک چیئرمین کی ذمے داریاں انجام دینے والے آصف علی زرداری 9ستمبر 2008 کو ملک کے 11ویں صدر منتخب ہوئے۔ صدر زرداری کے دور کا اہم آئینی کام 18ویں ترمیم تھا جس کے ذریعے صدر نے اپنے تمام اختیارات وزیراعظم کے حوالے کردیے۔
(1) اسکندرمرزا کو ملک کا پہلا صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ری پبلکن پارٹی کی نمائندگی کرنے والے اسکندر مرزا نے 23مارچ 1956 سے 27 اکتوبر 1958 تک یہ عہدہ سنبھالا۔ ان کے پاس ملک کے آخری گورنر جنرل ہونے کا اعزاز بھی ہے۔1956 کے آئین کے نفاذ کے بعد وہ صدر بنے تھے۔ فوجی بغاوت کے نتیجے میں جنرل ایوب خان نے اکتوبر 1958 میں انھیں عہدہ چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
(2) ایوب خان 27 اکتوبر 1958سے 8جون 1962 تک ملک کے دوسرے صدر کی حیثیت میں ذمے داریاں انجام دیتے رہے۔ انھوں نے جون 1962 سے 25 مارچ 1969 تک دوسری مدت صدارت بھی گزاری۔ انہی کے دور صدارت میں پاکستان کو روایتی حریف انڈیا کے خلاف تاریخی 1965 کی جنگ سے گزرنا پڑا۔ 1969 میں شدید سیاسی بحران اور اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔
(3) پاکستان کے تیسرے صدر جنرل یحییٰ خان بنے، ان کی صدارت 25 مارچ 1969سے شروع ہوکر20 دسمبر 1971 کو اختتام پذیر ہوئی۔ ایوب خان کے استعفے کے بعد منصب صدارت سنبھالنے والے یحییٰ خان کے دور میں سقوط ڈھاکا کا سانحہ رونما ہوا۔
(4)پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو 20 دسمبر 1971کو ملک کے چوتھے صدر بنے، ان کا مدت صدارت 13اگست 1973 کو ختم ہوئی۔ انھوں نے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر 1973 میں نئے آئین کے نفاذ کے بعد وزارت عظمی سنبھالی۔ 1973 کے آئین کے تحت ملک میں پارلیمانی نظام حکومت متعارف کرایا گیا۔
(5)فضل الٰہی چوہدری ملک کے 5ویں صدر تھے، ان کا دور صدارت 14 اگست 1973 سے شروع ہوکر 16ستمبر 1978کو مکمل ہوا۔ 73 کے آئین کے تحت وہ پہلے صدر تھے، پارلیمانی نظام حکومت کے تحت امور مملکت چلانے کی ذمے داری وزیر اعظم کو سونپ دی گئی تھی۔
(6) پاکستان کے چھٹے صدرجنرل محمد ضیاء الحق تھے جنھوں نے فوجی بغاوت کے تحت حکومت کا تختہ الٹا اور عنان اقتدار سنبھالی۔ وہ 16 ستمبر 1978سے 17 اگست 1988تک صدر مملکت رہے جو پاکستانی صدور کی تاریخ میں سب سے زیادہ عرصے تک کی مدت ہے۔ 1977 میں حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ضیاء الحق چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی رہے۔17اگست 1988 کو فضائی حادثے میں ان کا انتقال ہوا۔
(7)ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد غلام اسحٰق خان نے منصب صدارت سنبھالا، وہ 17 اگست 1988سے جولائی 1993 تک صدر رہے۔ ان کے دور میں قومی سیاست میں زبردست نشیب و فراز دیکھنے میں آئے۔ انھوں نے ایک بار پیپلزپارٹی کی حکومت کو بینظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ن لیگ کی حکومت کو نوازشریف کی وزارت عظمیٰ میں برطرف کیا۔ سیاسی کشیدگی کے باعث 1993 میں فوج کو مداخلت کرنا پڑی اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ کے کہنے پر وزیر اعظم (جنھیں سپریم کورٹ نے بحال کردیا تھا) اور صدر غلام اسحٰق خان کو گھر جانا پڑا۔
اس موقع پر وسیم سجاد کو جو چیئرمین سینیٹ تھے، 3 ماہ کے لیے قائم مقام صدر کی ذمے داریاں دی گئیں۔ وہ 18 جولائی 1993سے لے کر 14نومبر 1993تک صدر رہے۔ ان کا تعلق اس وقت مسلم لیگ ن سے تھا۔
(8) پیپلزپارٹی کے سردار فاروق احمد خان لغاری 14نومبر 1993 کو پاکستان کے 8ویں صدر بنے، ان کا دور صدارت 2دسمبر 1997تک جاری رہا۔ وزیر اعظم نوازشریف کی حکومت سے شدید اختلافات کے بعد انھیں عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اپنے دور صدارت میں فاروق لغاری نے اپنی ہی پارٹی (پیپلزپارٹی) کی حکومت کو بھی برطرف کیا۔ لغاری کی جانب سے پیپلزپارٹی کی حکومت کو ختم کرنے کا اقدام ہر ایک کے لیے انتہائی حیرت ناک تھا، کیوںکہ وہ پیپلزپارٹی کی قائد بینظیر بھٹو کے انتہائی قابل اعتماد سمجھے جاتے تھے۔
لغاری کے استعفے کے بعد ایک بار پھر وسیم سجاد کو عبوری صدر بنایا گیا، 2 دسمبر 1997سے یکم جنوری 1998تک وسیم سجاد دوسری بار ملک کے عبوری صدر بنے۔
(9) یکم جنوری 1998 کو ن لیگ کی حکومت نے رفیق تارڑ کو پاکستان کا 9واں صدر بنادیا۔ انھوں نے 2001 میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ اپنے دور صدارت ہی میں انھوں نے اپنی پارٹی ن لیگ کی حکومت کو اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف کے ہاتھوں ختم ہوتے دیکھا۔
(10)آرمی چیف پرویز مشرف 20 جون 2001 کو ملک کے 10ویں صدر بنے، ان کے عہدہ صدارت کی پہلی مدت 6اکتوبر 2007کو ختم ہوئی۔ 2007 میں ہی وہ دوبارہ صدر منتخب کیے گئے، ان کی دوسری مدت صدارت 18اگست 2008 کو پوری ہوئی۔ اکتوبر 1999میں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے دور میں بطور آرمی چیف جمہوری حکومت کو برطرف کرکے اقتدار سنبھالنے والے پرویز مشرف کا دور سیاسی اور قومی سطح پر انتہائی ہنگامہ خیز رہا۔ وہ آرمی چیف کے ساتھ ملک کے چیف ایگزیکٹیو بھی رہے۔ ان ہی کے دور میں طیارہ سازش کیس میں قید بھگتنے والے شریف خاندان کو جلاوطن ہونا پڑا۔ دور صدارت میں ہی ان پر کئی بار قاتلانہ حملے کیے گئے، جب کہ 2007 میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کو عہدے سے معزول کرنا، افتخار چوہدری کے انکار، ایمرجینسی کے نفاذ، میڈیا پر پابندی اور پھر ججوں کی نظر بندی جیسے واقعات نے دنیا بھر کو ہلاکر رکھ دیا۔ 27دسمبر 2007 کو پیپلزپارٹی کی قائد اور عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان بننے والی بینظیر بھٹو انتخابی ریلی کے دوران فائرنگ اور دھماکے کے نتیجے میں جاں بحق ہوئیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب پرویز مشرف نے میڈیا پر قوم سے خطاب کے دوران استعفے کا اعلان کیا تو اس وقت ملک میں پیپلزپارٹی ہی کی حکومت تھی۔
پرویز مشرف کے استعفیٰ دینے کے بعد اس وقت کے چیئرمین سینیٹ اور مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے محمد میاں سومرو کو قائم مقام صدر بنایا گیا، وہ 18اگست 2008 سے 9ستمبر 2008تک صدر رہے۔
(11)پیپلزپارٹی کی لیڈر بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پارٹی کے شریک چیئرمین کی ذمے داریاں انجام دینے والے آصف علی زرداری 9ستمبر 2008 کو ملک کے 11ویں صدر منتخب ہوئے۔ صدر زرداری کے دور کا اہم آئینی کام 18ویں ترمیم تھا جس کے ذریعے صدر نے اپنے تمام اختیارات وزیراعظم کے حوالے کردیے۔