آشا پوسلے پہلی پاکستانی فلم ’’تیری یاد‘‘ کی ہیروئن بنیں
1931 کوپیدا ہوئیں،اصلی نام صابرہ بیگم تھا، ریڈیو پاکستان سے بھی منسلک رہیں
آشا پوسلے کو پاکستان میں بننے والی پہلی فلم ''تیری یاد'' کی ہیروئن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
اس نے ریڈیو اور فلم کی اسکرین پر ایک طویل عرصہ تک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ساتھی اداکار ، ہیروئن اور مزاحیہ رول اس نے ادا کیے اور بعد میں اولڈ ایج کریکٹر بھی ادا کرتی رہی۔ اصلی نام صابرہ بیگم تھا اور وہ ماسٹر عنایت علی میوزک کمپوزر کے یہاں جالندھر (مشرقی پنجاب)میں 1931ء میں پیدا ہوئیں ۔ ماسٹر عنایت کی تین لڑکیاں اور ایک لڑکا جن میں صابرہ منجھلی تھی۔ ماسٹرعنایت علی شعبہ موسیقی سے وابستہ تھا۔ اس لیے وہ ہنرماسٹرز وائس ریکارڈنگ کمپنی دہلی میں آرگنائزر مقرر ہوگیا۔ صابرہ اور ان کی بہنوں نے فن موسیقی اپنے گھر سے ہی سیکھی اور تربیت کے ساتھ ریاض بھی ہوتا رہا اور پھر صابرہ آل انڈیا ریڈیو دہلی سے بچوں کے پروگراموں میں ''آشا''کے نام سے حصہ لینے لگی ۔ ریڈیو کے اس پروگرام سے آشا کو خاصی شہرت ملی اور گانے کے ساتھ ساتھ آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ صدا کاری کے بھی مواقع ملے۔
آشا جب گیارہ سال کی تھی ماسٹر عنایت اپنے بیوی بچوں کو لے کر لاہور آئے جہاں سیر کے دوران ان لوگوں کا پنچولی اسٹوڈیوز مسلم ٹاؤن جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ وہاں ان دنوں مہیشوری کی پنجابی فلم ''گوانڈھی'' کی شوٹنگ چل رہی تھی ۔ اس فل میں وینا ، شیام ، منورما ، نارنگ کام کر رہے تھے۔ فلم کے ہدایتکار شنکر مہتہ تھے اس روز جو سین فلمایا جارہا تھا اس میں ہیروئن وینا کے ساتھ اس کی کچھ سہلیوں کو اسے گھیرے ہوئے دکھانا تھا ۔ شنکر مہتہ نے ماسٹر عنایت علی کی اجازت سے سہیلیوں کے ساتھ اسے کھڑا کردیا ۔فلم ''گوانڈھی'' 1942 ء میں ریلیز ہوئی تھی اور 1944ء میں ماسٹر عنایت علی کا تبادلہ لاہور ہوگیا ۔
ان ہی دنوں برٹش انفارمیشن فلمز نے ایک فلم ''بھارت کے بہادر'' بنائی جس میں آشا نے ایک کردار ادا کیا۔ اس فلم کا کچھ حصہ روپ کے شوری کے اسٹوڈیو میکلوڈ روڈ لاہور میں فلمایا گیا تھا جہاں آشا کو روپ کے شوری نے دیکھا تو اپنی فلموں میں کام کرنے کی پیشکش کردی اور ماسٹر عنایت علی نے اپنے دوست سلطان کھوسٹ کے ذریعے اسے فلمی دنیا سے روشناس کرایا۔ آشا کی پہلی فلم ''پنچھی'' نگار پروڈکشن کے بنیر پر فلمائی گئی تھی۔ آخری عمر میں ان کی خواہش تھی کہ انھیں کوئی سرکاری ایوارڈ مل جائے لیکن وہ یہ حسرت دل میں لیے 25مارچ 1998ء کو ملک عدم سدھار گئی ۔
اس نے ریڈیو اور فلم کی اسکرین پر ایک طویل عرصہ تک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ساتھی اداکار ، ہیروئن اور مزاحیہ رول اس نے ادا کیے اور بعد میں اولڈ ایج کریکٹر بھی ادا کرتی رہی۔ اصلی نام صابرہ بیگم تھا اور وہ ماسٹر عنایت علی میوزک کمپوزر کے یہاں جالندھر (مشرقی پنجاب)میں 1931ء میں پیدا ہوئیں ۔ ماسٹر عنایت کی تین لڑکیاں اور ایک لڑکا جن میں صابرہ منجھلی تھی۔ ماسٹرعنایت علی شعبہ موسیقی سے وابستہ تھا۔ اس لیے وہ ہنرماسٹرز وائس ریکارڈنگ کمپنی دہلی میں آرگنائزر مقرر ہوگیا۔ صابرہ اور ان کی بہنوں نے فن موسیقی اپنے گھر سے ہی سیکھی اور تربیت کے ساتھ ریاض بھی ہوتا رہا اور پھر صابرہ آل انڈیا ریڈیو دہلی سے بچوں کے پروگراموں میں ''آشا''کے نام سے حصہ لینے لگی ۔ ریڈیو کے اس پروگرام سے آشا کو خاصی شہرت ملی اور گانے کے ساتھ ساتھ آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ صدا کاری کے بھی مواقع ملے۔
آشا جب گیارہ سال کی تھی ماسٹر عنایت اپنے بیوی بچوں کو لے کر لاہور آئے جہاں سیر کے دوران ان لوگوں کا پنچولی اسٹوڈیوز مسلم ٹاؤن جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ وہاں ان دنوں مہیشوری کی پنجابی فلم ''گوانڈھی'' کی شوٹنگ چل رہی تھی ۔ اس فل میں وینا ، شیام ، منورما ، نارنگ کام کر رہے تھے۔ فلم کے ہدایتکار شنکر مہتہ تھے اس روز جو سین فلمایا جارہا تھا اس میں ہیروئن وینا کے ساتھ اس کی کچھ سہلیوں کو اسے گھیرے ہوئے دکھانا تھا ۔ شنکر مہتہ نے ماسٹر عنایت علی کی اجازت سے سہیلیوں کے ساتھ اسے کھڑا کردیا ۔فلم ''گوانڈھی'' 1942 ء میں ریلیز ہوئی تھی اور 1944ء میں ماسٹر عنایت علی کا تبادلہ لاہور ہوگیا ۔
ان ہی دنوں برٹش انفارمیشن فلمز نے ایک فلم ''بھارت کے بہادر'' بنائی جس میں آشا نے ایک کردار ادا کیا۔ اس فلم کا کچھ حصہ روپ کے شوری کے اسٹوڈیو میکلوڈ روڈ لاہور میں فلمایا گیا تھا جہاں آشا کو روپ کے شوری نے دیکھا تو اپنی فلموں میں کام کرنے کی پیشکش کردی اور ماسٹر عنایت علی نے اپنے دوست سلطان کھوسٹ کے ذریعے اسے فلمی دنیا سے روشناس کرایا۔ آشا کی پہلی فلم ''پنچھی'' نگار پروڈکشن کے بنیر پر فلمائی گئی تھی۔ آخری عمر میں ان کی خواہش تھی کہ انھیں کوئی سرکاری ایوارڈ مل جائے لیکن وہ یہ حسرت دل میں لیے 25مارچ 1998ء کو ملک عدم سدھار گئی ۔