طالبان کا امریکا سے مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ
افغان مذاکراتی عمل پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا کڑا امتحان ہے۔
افغان طالبان نے امریکا سے مذاکرات کے لیے14 رکنی ٹیم کا اعلان کر دیا ہے، جو 25 فروری کو قطر میں ہونے والے مذاکراتی عمل میں شریک ہوگی ۔ دوسری جانب ترجمان دفترخارجہ کے مطابق طالبان کے ساتھ امریکا کی بات چیت ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کے کردار کوتسلیم کیا ہے۔
امریکا کے خصوصی نمایندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے علاوہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی پاکستان کی جانب سے سہولت کاری کی تعریف کی ہے ۔ مسئلہ افغانستان کے پر امن حل کے لیے مذاکراتی عمل شروع ہونے سے صورتحال میں ایک امید کی کرن پیدا ہوئی ہے ۔ دراصل مسئلہ افغانستان انتہائی پیچیدہ اور پر پیچ ہے ، اس کے لیے ہمیں سفارتی سطح پر انتہائی تحمل ، برداشت اور بردباری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ، تاریخ بتاتی ہے کہ افغان قوم کبھی غیر ملکی قوت کی غلام نہیں رہی، افغان ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں سے برسرپیکار رہے ہیں ۔
تازہ ترین منظر نامے میں دیکھا جائے تو صورتحال انتہائی نازک ہے کیونکہ امریکا نے افغانستان میں امن مذاکرات کے لیے تمام تر ذمے داری پاکستان پر ڈال دی ہے اوراس مقصد کے لیے امریکا پاکستان کی مالی مشکلات سے فائدہ اْٹھانا چاہتا ہے۔اس ضمن میں کچھ عرصہ قبل صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کے نام خط میں ان سے درخواست کی تھی کہ پاکستان ،طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات پر آمادہ کرے۔ پاکستانی حکومت نے اس سلسلے میں تعاون کا وعدہ بھی کر لیا تھا ۔
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ افغان امن اور فوجی انخلا پر صدر ٹرمپ، ان کے عسکری مشیروں اور امریکی کانگریس کے درمیان اتفاقِ رائے نہیں ۔ صدر ٹرمپ جلد ازجلد اس کمبل سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں ، جو ان کے خیال میں اب تعفن دینے لگا ہے۔ صدر ٹرمپ ایک کاروباری آدمی ہیں اور وہ افغانستان میں امریکی فوج کے قیام کو امریکی ٹیکس دہندگان پر غیرضروری بوجھ سمجھتے ہیں لیکن امریکا کی سیاسی قیادت کے لیے طالبان قابل قبول نہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان دباؤ ڈال کر طالبان کو افغان حکومت سے مصالحت پر مجبورکرے تاکہ وہ ہتھیار رکھ دیں۔
امریکا کے نمایندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے اپنے ٹویٹ میں افغان امن کے لیے پاکستانی عزم کو سراہتے ہوئے کہا کہ '' ہم ایک درست سمت میں آگے جا رہے ہیں اور پاکستان کی طرف سے مزید اقدامات متوقع ہیں جو ٹھوس نتائج کے حامل ہوں گے'' جب کہ تنازع کے اہم فریق طالبان نے ابتدا ہی میں امن مذاکرات کے لیے دو بنیادی شرائط رکھی تھیں، یعنی امریکا سے براہ راست ملاقات اور افغانستان سے غیرملکی فوج کا مکمل، غیر مشروط اور فوری انخلا۔ دوسری طرف امریکا کا اصرار تھا کہ امن بات چیت طالبان اورکابل انتظامیہ کے درمیان ہونی چاہیے۔
سیانوں کو یقین ہے کہ اگر طالبان ہتھیار رکھ کر افغان حکومت سے مذاکرات پر راضی ہوگئے تو پھر ان سے فوجی اڈوں سمیت کوئی بھی شرط منوانا کچھ مشکل نہ ہوگا ۔ غیر جانبدار مبصرین کا خیال ہے کہ اس وقت طالبان کی شکل میں ایک مرکزی قوت موجود ہے جس کے خوف سے قبائلی عسکریت پسند دبکے بیٹھے ہیں۔ طالبان کے غیرمسلح اور منتشر ہوتے ہی ازبک، تاجک اور دوسرے عسکری گروہ نکل کھڑے ہوں گے، اگر افغانستان میں امریکا کے مکمل انخلاء کے بعد یہ آگ بھڑک اْٹھی تو چنگاریوں کے ساتھ اس کے شعلے بھی یقیناً پاکستان تک آئیں گے ۔
دراصل افغان مذاکراتی عمل پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا کڑا امتحان ہے، ہمیں اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے۔ بہرحال یہ کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان ہمیشہ ہمسایہ ملک میں امن واستحکام کا خواہاں رہا ہے۔
امریکا کے خصوصی نمایندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے علاوہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی پاکستان کی جانب سے سہولت کاری کی تعریف کی ہے ۔ مسئلہ افغانستان کے پر امن حل کے لیے مذاکراتی عمل شروع ہونے سے صورتحال میں ایک امید کی کرن پیدا ہوئی ہے ۔ دراصل مسئلہ افغانستان انتہائی پیچیدہ اور پر پیچ ہے ، اس کے لیے ہمیں سفارتی سطح پر انتہائی تحمل ، برداشت اور بردباری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ، تاریخ بتاتی ہے کہ افغان قوم کبھی غیر ملکی قوت کی غلام نہیں رہی، افغان ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں سے برسرپیکار رہے ہیں ۔
تازہ ترین منظر نامے میں دیکھا جائے تو صورتحال انتہائی نازک ہے کیونکہ امریکا نے افغانستان میں امن مذاکرات کے لیے تمام تر ذمے داری پاکستان پر ڈال دی ہے اوراس مقصد کے لیے امریکا پاکستان کی مالی مشکلات سے فائدہ اْٹھانا چاہتا ہے۔اس ضمن میں کچھ عرصہ قبل صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کے نام خط میں ان سے درخواست کی تھی کہ پاکستان ،طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات پر آمادہ کرے۔ پاکستانی حکومت نے اس سلسلے میں تعاون کا وعدہ بھی کر لیا تھا ۔
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ افغان امن اور فوجی انخلا پر صدر ٹرمپ، ان کے عسکری مشیروں اور امریکی کانگریس کے درمیان اتفاقِ رائے نہیں ۔ صدر ٹرمپ جلد ازجلد اس کمبل سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں ، جو ان کے خیال میں اب تعفن دینے لگا ہے۔ صدر ٹرمپ ایک کاروباری آدمی ہیں اور وہ افغانستان میں امریکی فوج کے قیام کو امریکی ٹیکس دہندگان پر غیرضروری بوجھ سمجھتے ہیں لیکن امریکا کی سیاسی قیادت کے لیے طالبان قابل قبول نہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان دباؤ ڈال کر طالبان کو افغان حکومت سے مصالحت پر مجبورکرے تاکہ وہ ہتھیار رکھ دیں۔
امریکا کے نمایندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے اپنے ٹویٹ میں افغان امن کے لیے پاکستانی عزم کو سراہتے ہوئے کہا کہ '' ہم ایک درست سمت میں آگے جا رہے ہیں اور پاکستان کی طرف سے مزید اقدامات متوقع ہیں جو ٹھوس نتائج کے حامل ہوں گے'' جب کہ تنازع کے اہم فریق طالبان نے ابتدا ہی میں امن مذاکرات کے لیے دو بنیادی شرائط رکھی تھیں، یعنی امریکا سے براہ راست ملاقات اور افغانستان سے غیرملکی فوج کا مکمل، غیر مشروط اور فوری انخلا۔ دوسری طرف امریکا کا اصرار تھا کہ امن بات چیت طالبان اورکابل انتظامیہ کے درمیان ہونی چاہیے۔
سیانوں کو یقین ہے کہ اگر طالبان ہتھیار رکھ کر افغان حکومت سے مذاکرات پر راضی ہوگئے تو پھر ان سے فوجی اڈوں سمیت کوئی بھی شرط منوانا کچھ مشکل نہ ہوگا ۔ غیر جانبدار مبصرین کا خیال ہے کہ اس وقت طالبان کی شکل میں ایک مرکزی قوت موجود ہے جس کے خوف سے قبائلی عسکریت پسند دبکے بیٹھے ہیں۔ طالبان کے غیرمسلح اور منتشر ہوتے ہی ازبک، تاجک اور دوسرے عسکری گروہ نکل کھڑے ہوں گے، اگر افغانستان میں امریکا کے مکمل انخلاء کے بعد یہ آگ بھڑک اْٹھی تو چنگاریوں کے ساتھ اس کے شعلے بھی یقیناً پاکستان تک آئیں گے ۔
دراصل افغان مذاکراتی عمل پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا کڑا امتحان ہے، ہمیں اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے۔ بہرحال یہ کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان ہمیشہ ہمسایہ ملک میں امن واستحکام کا خواہاں رہا ہے۔