تاریخ فراموش

ہم تاریخ کو نظرانداز کرتے ہوئے معاشرتی اقدار کی طرف آئے اور ان میں سے بھی صرف ایک بات پکڑ کر بیٹھ گئے

ہم تاریخ کو نظرانداز کرتے ہوئے معاشرتی اقدار کی طرف آئے اور پھر ان میں سے صرف ایک بات کو پکڑ کر بیٹھ گئے۔ (فوٹو: فائل)

ایک زمانہ تھا جب ہمارا میڈیا چند اخبارات، پاکستان ٹیلی ویژن اور سینما پر مشتمل تھا۔ اس زمانے میں میڈیا کو نہ صرف قومی اقدار کا بخوبی علم تھا بلکہ ان کا اظہار بھی برملا اور ہر وقت کیا جاتا تھا۔ سینما میں تاریخی فلمیں چلتی تھیں اور بڑی کامیاب ہوتی تھیں۔ اخبارات میں با قاعدہ تاریخی کرداروں پر مسلسل مضامین شائع ہوتے تھے؛ اور پی ٹی وی تو اس سلسلے میں سب سے آگے تھا۔ نسیم حجازی کے تاریخی ناولوں پر مبنی ڈرامہ سیریل کسے یاد نہیں ہوں گے؟ اور اس سے پہلے بھی بہت سی اور تاریخی کہانیاں۔

مگر آج جب کہ ہماری نئی نسل کو ہماری تاریخ سے آگاہی کی زیادہ ضرورت ہے، کوئی اس طرف توجہ ہی نہیں دے رہا۔ میڈیا جتنا وسیع ہوا ہے، اتنا ہی اس کا اقدار اور تاریخ سے فاصلہ بڑھا ہے۔ نہ جانے وہ کونسی اقدار اور کونسی اخلاقیات ہیں جو ہمارے مشہور چینلز ہم پر تھوپ رہے ہیں۔ ایک ہی مرکزی خیال ہے ہر ڈرامے اور ڈرامہ سیریل کا۔ ہر چینل کی عورت نہایت مظلوم ہے اور ہر ڈرامے میں اپنے ماں باپ اور بھائی کی بے عزتی کرتی ہوئی دکھائی جارہی ہے۔

کوئی بھی ڈرامہ دیکھ لیجیے، کسی بھی چینل کا تجزیہ کرلیجیے، ہر طرف یہی بات بڑھائی جارہی ہے۔ نوجوان لڑکی یا تو اپنے محبوب کو حاصل کرنے کےلیے بغاوت کر رہی ہے یا پھر اسے اتنا مظلوم اور معصوم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ دنیا مردوں کا ایک جنگل ہے اور مرد ذات ایک وحشی درندے کی طرح ہر لڑکی اور صنف نازک پر ٹوٹی پڑ رہی ہے۔ ہر ڈرامے میں ایک ڈائیلاگ ایسا ضرور سننے کو ملتا ہے کہ یہ میری زندگی ہے اور میں اسے اپنی مرضی سے گزاروں گی۔ یہی درس دیا جا رہا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہر میڈیا پر اسی خیال کا چرچا ہے۔


ہم تاریخ کو نظر انداز کرتے ہوئے معاشرتی اقدار کی طرف آئے اور پھر ان میں سے صرف ایک بات کو پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اب کچھ بھی دیکھ لیں، وہ باسی باسی سا لگتا ہے۔ وہی بے ڈھنگی چال ہے اور جیسے ''قحط الخیال'' ہے۔ خبروں والے چینل بھی جیسے بھاڑے کے ٹٹو ہیں۔ وہ بھی اس طرف توجہ نہیں دلاتے کہ یہ جو کچھ ہماری نئی نسل کو دکھایا جارہا ہے اس سے وہ کیا بنے گی؟

عورت کو بغاوت کا درس دیا جا رہا ہے اور مرد کو ظالم دکھایا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرتی بگاڑ بڑھتا جارہا ہے۔ ایک گلیمر ہے جو ہر جگہ نظر آتا ہے۔ یہاں ہمارے ڈرامہ بنانے والے اتنے دانشمند ہیں کہ دیہات کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی میں بھی ہیلی کاپٹر اور رولز رائیس کاریں دکھاتے ہیں۔ غریب کو کلبوں میں ناچتا ہوا دکھاتے ہیں اور عورت کا لباس ایسا منتخب کرتے ہیں جو پیرس اور لندن کی سپر ماڈلز پہنتی ہیں۔

ہمارے تفریحی چینل چین، کوریا اور دوسرے ممالک کی تہذیب دکھا رہے ہیں ان کی تاریخ سنا رہے ہیں۔ اپنی تاریخ کو یکسر فراموش کر رہے ہیں۔ یاد رکھیے ایسا کرنے والوں کو نہ تو تاریخ نے کبھی معاف کیا ہے اور نہ ہی انہیں دوبارہ موقع دیا ہے۔ جو قومیں اپنی تاریخ نظرانداز کرتی ہیں، پھر دوسرے ہی ان کی تاریخ لکھتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story