آئی ایم ایف کی بھوک

آئی ایم ایف کی شرائط پر من وعن دستخط کرنا عوام کی اکثریت کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔

anisbaqar@hotmail.com

لوگ سمجھتے تھے کہ بجلی اور گیس کے نرخ حکومتی فیصلوں کے اعتبار سے کئی مرتبہ اورگیس کے نرخ 100 فیصد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں ، اب تو آئی ایم ایف کا پیٹ بھرجانا چاہیے تھا ، مگر موجودہ آئی ایم ایف کی سربراہ میڈم کرسٹائن لیگارڈ کے نزدیک ابھی پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضوں کی منزل کو چھونے کے لیے بہت کچھ مزید کرنا ہے ۔ خصوصاً بجلی اورگیس کے نرخ مزید آگے بڑھانے ہوں گے ۔

اس عمل کو ان کی مرضی کے مطابق غالباً گیس کو مزید100فیصد اور بجلی کے نرخ بڑھانے ہوں گے اور دیگر اصراف زندگی میں اضافہ ، تب جاکے پاکستان بیل آئوٹ پیکیج کے اہداف کو پورا کرے گا۔ پاکستانی معاشی ماہرین نے جو حکومت چلا رہے ہیں ، اِن مطالبوں پر تنقید توکجا اس کو معاشی اصلاحات کا نام دیا ہے۔

حیرت ہے کہ کرنسی جو دبائو کا مسلسل شکار ہے ڈالر کے آگے ۔ روپیہ کی گراوٹ ،کساد بازاری کو ہم کیوں کر اصلاحاتِ زرکا نام دے سکتے ہیں۔ خود آئی ایم ایف امریکی دبائوکا شکار ہے ، بالکل ایسے ہی جیسے دنیا میں مغربی ممالک اور عرب دنیا کے فوجی معاہدے، گو کہ ہمارے ملک سے آئی ایم سے بیزاری کی آوازیں اٹھتی رہی ہیں ۔ امریکا نے جب سے پاکستان کو افغان جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر استعمال کیا مگر اس کا کوئی ذرا سا بھی معاشی فائدہ نہ ہوا بلکہ جہاں پاکستان کے کرپٹ لیڈروں نے زرِمبادلہ کے ذخائر پر ڈاکہ ڈالا ویسے ہی افغان جنگ نے معیشت کو برباد کیا۔

چالیس سالہ اس طویل جنگ نے پاکستان کو زر معکوس کے صحرا میں دھکیل دیا اور اب میڈم کرسٹائن ہمارا حساب کتاب دیکھ رہی ہیں تاکہ ایک ایسا معاشی نظام پاکستان پر نافذ کیا جائے جس میں صرف وہ لوگ زندہ رہ سکیں جن کے گھر کی مجموعی آمدنی کم از کم ایک لاکھ کے ارد گرد ہو۔

ایسی صورت میں غریب عوام کو متحدہ محاذ بنا کر حکومت کے خلاف کھڑا ہونا پڑے کچھ ایسی سیاسی صورتحال جو وینز ویلا کی ہے۔ اس طرف ملک کو دھکیلا جا رہا ہے جب کہ پاکستان ایک کثیر آبادی والا ملک ہے جس کے اجداد نے جنگ آزادی لڑی ہے اور وہ آزادی کی قیمت جانتے ہیں۔ بقول امریکی جنرل کے یہ دنیا کے طاقتور ترین ممالک کے درمیان رہتے ہیں اور ایٹمی اسلحے سے لیس ہیں لہٰذا ان کو زیادہ عرصہ زیر دست نہیں رکھا جاسکتا یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایوبی آمریت کا چراغ گل کردیا تھا۔

حالیہ دبئی میٹنگ میں جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 230 ارب کے نئے ٹیکسوں کا طوفان عوام سے ٹکرانے کو ہے مگر لوگوں کی سمجھ میں یہ ہرگز نہ آئے گا کہ یہ ماضی کے حکمرانوں کی دین ہے، جو ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو تباہ کرکے بیٹھ گئے اور عوام کو معمولی مراعات کے عوض سلطنت خدا داد پاکستان کو کشکول گاہ بنا بیٹھے مگر وہ لوگ نشانِ عبرت نہ بنے ۔

پاکستان کی معاشی بد حالی کی ذمے داری بھارت اور افغان حکومت پر بڑی حد تک عائد ہوتی ہے کیونکہ دونوں گزرگاہیں انھوں نے مخدوش بنا رکھی ہیں جس کی وجہ سے فوجی اخراجات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے چونکہ بھارتی زرمبادلہ کی صورتحال بہتر ہے ، اس لیے وہ پاکستان کو جنگی اخراجات کی سمت دھکیل رہا ہے، مگر جنگی صورت حال تو انسان کش ہوگی اس لیے کسی جنگ کے خطرات تو محسوس نہیں ہوتے جو باتیں غیر ذمے دارانہ طور پر دونوں جانب کے انتہا پسندوں کے ذہن میں ہیں کیونکہ پاک و ہند کی ہوائیں ایٹمی بخارات کو لے کر چلیں گی تو دونوں ملکوں کے لوگ معذور اور محتاج اور آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا نشان ہوں گے۔


لہٰذا ایٹمی جنگ کی باتیں کرنے والے لوگوں کو دماغی علاج کرانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ جنگ نہ کوئی جیتے گا اور نہ ہارے گا۔ جیت اور ہار ہر لحاظ سے ہار ہی ہار ہوگی۔ کیونکہ پاک و ہند کوئی قدرتی اعتبار سے دو ملک نہ تھے۔ یہ سیاسی سماجی حقیقتوں کا نظریاتی بٹوارا تھا جیسے فیملی بڑی ہوتی ہے تو نئے گھر بستے ہیں ۔ اس میں تشدد کے عنصرکا قائداعظم کو بھی رنج تھا ۔ لہٰذا پاک بھارت تصادم کی فضا بھارت کے اور پاکستان کے بانیوں کو پسند نہ تھی جو آج کے حکمران الیکشن جیتنے کے لیے جنگی جنون پیدا کرکے پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

آئی ایم ایف کی شرائط پر من وعن دستخط کرنا عوام کی اکثریت کے ساتھ نا انصافی ہوگی ، لہٰذا اگر نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنا ناگزیر ہے تو پھر حکومت کو راشن شاپ کھولنے ہوں گے جہاں غریب لوگوں کو تیل، گھی اجناس کم از کم 18تا 20 فیصد کم داموں میں ملنی چاہئیں۔ ورنہ یوٹیلیٹی بل میں ہی غریب اور درمیانی طبقے مرجائیں گے یا جرائم میں اضافے کا طوفان اٹھ سکتا ہے مگر جرائم کے مرتکب لوگ کم ہیں اس لیے فرانس کے احتجاجی انداز کو اپنا سکتے ہیں جہاں ملک کے غریب اور امیر طبقات اور کم آمدنی والے لوگ پیلی جیکٹ تحریک مزدوروں کی حمایت میں چلائے ہوئے ہیں جب کہ پاکستان کا مسئلہ بھی خاصا اہم ہے۔

ہمارے لیڈروں کو یہ چاہیے کہ آئی ایم ایف کی سربراہ کو یہ پہلو بتائیں کہ پاکستان امریکی نواز افغان جنگ کی 40 سالہ جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کرتا رہا۔ سو اس پہلو کو مسودے کی شکل میں اٹھایا جائے کیونکہ امیر و غریب کو بلا استثنا ایک ہی چابک سے ہانکنا ناانصافی ہوگی ۔

آئیے! چند منٹ تنخواہوں اور ٹیکسوں کے اس پہلو پر بھی بات کرلیں تو ذرا ملاحظہ فرمائیں۔ ایک لاکھ ماہانہ تنخواہ پر انکم ٹیکس نام کا کوئی ٹیکس نہیں ہے لیکن اگر آپ ملازم نہیں ہیں اور اگر آپ کوئی تحریری مسودہ تحریر کرکے کسی ادارے کو دیتے ہیں تو وہ آپ کو اس کی قیمت دس ہزار طے کرتا ہے تو وہ 17.5 فیصد ٹیکس کاٹنے کا مجاز ہوگا۔ جیساکہ پہلے موبائل فون کارڈ پر ہوا کرتا تھا، اور ایک اور ظالمانہ طریقہ کار ٹیکسوں کے نظام کا کیونکہ جب ہر چیز سیلز ٹیکس پر فروخت ہوگی تو خریدار کی آمدن ایک لاکھ ماہانہ ہو یا دس لاکھ یا دس ہزار ہر ایک کو یکساں ٹیکس دینا ہوگا۔

اب آئیے ! عام طور پر جن لوگوں کی آمدن 15ہزار روپے ہے جس میں ایک یا دو کمرے کا مکان، دو چھوٹے بچے، معمولی اسکول جن کی فیس 4 یا 3 ہزار ماہانہ ہے تو پھر ان کا کیا حشر ہوگا ؟ کیا وہ لوگ ریاست مدینہ کے تصور میں زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس لیے آئی ایم ایف کی شرائط کو من وعن ماننے سے انکار کرنا ہوگا۔

بصورت دیگر حضرت ابوذر غفاریؓ کی سیرت پر عمل پیرا ہونے والوں کو کوئی نہ روک سکے گا، یہ عمل دیر سے سامنے آئے یا جلد اس کا یقین کرنا مشکل ہے مگر ردعمل کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

رہ گیا آئی ایم ایف کی بھوک میں اضافہ ہوتا ہی جائے گا لہذا نو (NO) نا، نا کا کڑوا گھونٹ تو پینا ہی ہوگا خواہ یہ انکار جلد ہو یا بدیر ۔
Load Next Story