مراکش سے تعلیمی اشتراک
جنگوں کے ذریعے طاقتور ملکوں کا کمزور ملکوں پر غلبہ حاصل کرنے کا شوق کس قدر مہنگا اور پشیمانی کا سبب بنتا ہے۔
آج کے اخبارات میں دو خبریں قومی اہمیت کی حامل ہیں ۔ دونوں کا تعلق تعلیم سے متعلق ہے۔ ایک خبر کے مطابق پنجاب کی حکومت نے میٹرک تک نصاب میں تبدیلی کی منظوری دے دی ہے۔ جس نظام تعلیم کی پنجاب حکومت نے منظوری دی ہے اس پر عملدرآمد سے10ہزار اسکول بند یا ختم ہوجائیں گے۔
اس نئے نظام تعلیم کی درسی کتابوں میں پہلی کلاس سے میٹرک تک اسلامیات، معاشرتی علوم اور اردو کی درسی کتابوں میں بڑی تبدیلیاں کی جائیں گی۔ ان تبدیلیوں میں65 ء کی جنگ، افواج پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف قربانیوں اور غزوات کو نصاب میں شامل کیا جائے گا۔ ری نیشنلائزیشن کے بعد پنجاب بھر میں 10ہزار اسکول ختم یا بڑے اسکولوں میں ضم کردیے جائیں گے۔ پرائمری اسکولوں میں اسکیل 14اور مڈل اسکولوں میں اساتذہ کو گریڈ17دیا جائے گا۔
خبر میں بتایاگیا ہے کہ نئے تعلیمی اسٹرکچر کا نفاذ نئے تعلیمی سال سے کیاجائے گا۔ اس سے قبل وزیراعظم بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہم مدینے کی حکومت کو ماڈل بنائیں گے اور کوشش کریں گے کہ ہم اپنی حکومت کو مدینے کی حکومت کے طرز پر چلائیں ۔ وزیراعظم کے بیانات اور پنجاب کے اسکولوں میں درسی تبدیلیوں سے یہ اندازہ بہرحال ہوجاتا ہے کہ عمران حکومت ملک کو کس طرف لے جانا چاہتی ہے۔
ہرقوم میں جنگوں ، فتوحات اور فوجی ہیروزکا ذکر ایک معمول کی بات ہے لیکن موجودہ دور خاص طور پر اکیسویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کی ہیت بدل کر رکھ دی ہے۔ ماضی کے اعتقادی نظام میں ہر دورکے علم اور معلومات کا اہم کردار ہوتا تھا ۔ مثلاً چاند اور سورج کے بارے میں جو اعتقادات تھے، ان کا تعلق اس دورکے علم اور معلومات کے مطابق تھا، اسی طرح زمین کے چپٹے ہونے کا علم اور تصویریں بھی اس دورکے علم کے مطابق تھا، اس حوالے سے بے شمار اعتقادات کا تعلق بھی اپنے دورکے علم اور معلومات کا مرہون منت تھا لیکن بیسویں صدی سے شروع ہونے والی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ناقابل یقین ترقی نے دنیا کو سر سے پیر تک بدل کر رکھ دیا ہے۔
اب چاند عاشقوں کے لیے ان کی محبوبائوں کے حسن کا استعارہ نہیں رہا جس میں ماضی کے عشاق اپنی محبوبائوں کے رخ زیبا کا نظارہ کرتے تھے۔ اب چاند ایک دنیا کی طرح لیکن کرۂ ارض سے چھوٹا ایک سیارہ ہے جس میں محبوبائوں کے رخ زیبا کا نظارہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ چاند ایک بے آب و گیاہ ہی نہیں، ہوا تک سے محروم ایک ایسا سیارہ ثابت ہوا ہے ۔ امریکا کے خلا نوردوں نیل آرم اسٹرانگ کی شکل میں چاند کا سفر کرکے جن حقائق کو آشکارہ کیا ہے وہ ماضی کے تصوراتی عقائد و نظریات سے مختلف ہی نہیں بلکہ متصادم ہیں ۔
عمران خان ایک تعلیم یافتہ اور ماڈرن انسان ہیں وہ یقیناً جدید علوم کی قومی ترقی میں اہمیت سے واقف ہوں گے اور پاکستان کا تعلیم یافتہ طبقہ ان سے یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہے کہ وہ پاکستان کو جدید علوم سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں کا شہسوار بناکر جدید ترقی یافتہ دنیا کے شانہ بہ شانہ کھڑا کریں گے ۔ اب جنگوں کے ذکرکے ساتھ جنگوں کی تباہ کاریوں اور انسانوں کے جانی و مالی نقصانات کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ہماری نئی درسی کتابوں میں جنگوں کے اسباب و علل کے ساتھ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے اسباب و علل کیا تھے اور ان جنگوں میں انسانوں کا کتنا جانی و مالی نقصان ہوا اس کی ذمے داری کس پر آتی ہے؟ جنگوں میں کس فریق کا کردار غیر اصولی غیر منطقی اور جارحانہ رہتا ہے اور عام آدمی ان جنگوں سے کیسے اور کس قدر متاثر ہوتا ہے۔
جنگوں کے ذریعے طاقتور ملکوں کا کمزور ملکوں پر غلبہ حاصل کرنے کا شوق کس قدر مہنگا اور پشیمانی کا سبب بنتا ہے۔ اس کا اندازہ ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی افغان جنگ اور اس کے انجام سے لگایا جا سکتا ہے۔ اب دنیا ماضی کی طرح سمٹی ہوئی نہیں ہے بلکہ بہت پھیلی ہوئی ہے۔ ہماری درسی کتاب میں 1965ء کی جنگ کے ساتھ حالیہ افغان جنگ اس کے دنیا پر اثرات اور فریقین پر اس کے نقصانات کا ذکر بھی ضروری ہے تاکہ نئی نسلوں کو کوزے کے ساتھ دریا کا بھی اندازہ ہو۔
کشمیر میں جو جنگ لڑی جارہی ہے اس میں کشمیریوں کا کتنا نقصان ہوا اور بھارت 71سال کی جنگی کوششوں کے باوجود یہ جنگ کیوں جیت نہ سکا۔ جب تک کسی جنگ میں عوام کے دل نہیں جیتے جاتے وہ جنگ بھی جیتی نہیں جاسکتی۔ اس دلچسپ لیکن کشمیریوں کی قاتل جنگ کا بھی درسی کتابوں میں مکمل ذکر ہونا چاہیے۔
دوسری خبر بھی علوم ہی کے متعلق ہے۔ پاکستان کے چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر طارق بنوری نے کہا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن پاکستان مراکش کے ساتھ تعلیمی روابط استوارکرنے کے لیے اقدامات کرے گا تاکہ دونوں ممالک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے مابین اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے شعبہ جات میں تعاون مضبوط ہوسکے۔ بنوری صاحب نے دونوں ملکوں کی جامعات کے درمیان طلباء اور فیکلٹی کے تبادلے کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔
مراکش کے سفیر نے کہاکہ پاکستان اور مراکش کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہیں اور دونوں ممالک کی شعبہ جات بشمول تعلیم میں باہمی تعاون کے ذریعے دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرسکتے۔ انھوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی نے دنیا بھر کے فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ سفیر موصوف نے کہا کہ اسلامی سربراہی کونسل کی تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی پر زور دیا جانا چاہیے۔
بدقسمتی سے ہمارا ملک تعلیم کے شعبے میں اس قدر پسماندہ ہے کہ ملک کی 60 فیصد دیہی آبادی کو تعلیم نام کی کسی چیز سے مکمل واقفیت نہیں۔ دیہی آبادی کے اسکول وڈیروں کے مویشی خانے بنے ہوئے ہیں۔ یہ حرکتیں جان بوجھ کر منظم اور منصوبہ بند انداز میں کی جارہی ہیں کہ ہاریوں اور کسانوں کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے وڈیروں کی اولاد کے مقابلے میں نہ آجائیں۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہم تعلیم کے شعبے میں کس قدر پسماندہ ہیں اور ہمارے ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کا کیسا حال ہے۔ عمران حکومت کو تعلیمی شعبے خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خصوصی دلچسپی لینا چاہیے۔
اس نئے نظام تعلیم کی درسی کتابوں میں پہلی کلاس سے میٹرک تک اسلامیات، معاشرتی علوم اور اردو کی درسی کتابوں میں بڑی تبدیلیاں کی جائیں گی۔ ان تبدیلیوں میں65 ء کی جنگ، افواج پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف قربانیوں اور غزوات کو نصاب میں شامل کیا جائے گا۔ ری نیشنلائزیشن کے بعد پنجاب بھر میں 10ہزار اسکول ختم یا بڑے اسکولوں میں ضم کردیے جائیں گے۔ پرائمری اسکولوں میں اسکیل 14اور مڈل اسکولوں میں اساتذہ کو گریڈ17دیا جائے گا۔
خبر میں بتایاگیا ہے کہ نئے تعلیمی اسٹرکچر کا نفاذ نئے تعلیمی سال سے کیاجائے گا۔ اس سے قبل وزیراعظم بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہم مدینے کی حکومت کو ماڈل بنائیں گے اور کوشش کریں گے کہ ہم اپنی حکومت کو مدینے کی حکومت کے طرز پر چلائیں ۔ وزیراعظم کے بیانات اور پنجاب کے اسکولوں میں درسی تبدیلیوں سے یہ اندازہ بہرحال ہوجاتا ہے کہ عمران حکومت ملک کو کس طرف لے جانا چاہتی ہے۔
ہرقوم میں جنگوں ، فتوحات اور فوجی ہیروزکا ذکر ایک معمول کی بات ہے لیکن موجودہ دور خاص طور پر اکیسویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کی ہیت بدل کر رکھ دی ہے۔ ماضی کے اعتقادی نظام میں ہر دورکے علم اور معلومات کا اہم کردار ہوتا تھا ۔ مثلاً چاند اور سورج کے بارے میں جو اعتقادات تھے، ان کا تعلق اس دورکے علم اور معلومات کے مطابق تھا، اسی طرح زمین کے چپٹے ہونے کا علم اور تصویریں بھی اس دورکے علم کے مطابق تھا، اس حوالے سے بے شمار اعتقادات کا تعلق بھی اپنے دورکے علم اور معلومات کا مرہون منت تھا لیکن بیسویں صدی سے شروع ہونے والی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ناقابل یقین ترقی نے دنیا کو سر سے پیر تک بدل کر رکھ دیا ہے۔
اب چاند عاشقوں کے لیے ان کی محبوبائوں کے حسن کا استعارہ نہیں رہا جس میں ماضی کے عشاق اپنی محبوبائوں کے رخ زیبا کا نظارہ کرتے تھے۔ اب چاند ایک دنیا کی طرح لیکن کرۂ ارض سے چھوٹا ایک سیارہ ہے جس میں محبوبائوں کے رخ زیبا کا نظارہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ چاند ایک بے آب و گیاہ ہی نہیں، ہوا تک سے محروم ایک ایسا سیارہ ثابت ہوا ہے ۔ امریکا کے خلا نوردوں نیل آرم اسٹرانگ کی شکل میں چاند کا سفر کرکے جن حقائق کو آشکارہ کیا ہے وہ ماضی کے تصوراتی عقائد و نظریات سے مختلف ہی نہیں بلکہ متصادم ہیں ۔
عمران خان ایک تعلیم یافتہ اور ماڈرن انسان ہیں وہ یقیناً جدید علوم کی قومی ترقی میں اہمیت سے واقف ہوں گے اور پاکستان کا تعلیم یافتہ طبقہ ان سے یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہے کہ وہ پاکستان کو جدید علوم سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں کا شہسوار بناکر جدید ترقی یافتہ دنیا کے شانہ بہ شانہ کھڑا کریں گے ۔ اب جنگوں کے ذکرکے ساتھ جنگوں کی تباہ کاریوں اور انسانوں کے جانی و مالی نقصانات کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ہماری نئی درسی کتابوں میں جنگوں کے اسباب و علل کے ساتھ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے اسباب و علل کیا تھے اور ان جنگوں میں انسانوں کا کتنا جانی و مالی نقصان ہوا اس کی ذمے داری کس پر آتی ہے؟ جنگوں میں کس فریق کا کردار غیر اصولی غیر منطقی اور جارحانہ رہتا ہے اور عام آدمی ان جنگوں سے کیسے اور کس قدر متاثر ہوتا ہے۔
جنگوں کے ذریعے طاقتور ملکوں کا کمزور ملکوں پر غلبہ حاصل کرنے کا شوق کس قدر مہنگا اور پشیمانی کا سبب بنتا ہے۔ اس کا اندازہ ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی افغان جنگ اور اس کے انجام سے لگایا جا سکتا ہے۔ اب دنیا ماضی کی طرح سمٹی ہوئی نہیں ہے بلکہ بہت پھیلی ہوئی ہے۔ ہماری درسی کتاب میں 1965ء کی جنگ کے ساتھ حالیہ افغان جنگ اس کے دنیا پر اثرات اور فریقین پر اس کے نقصانات کا ذکر بھی ضروری ہے تاکہ نئی نسلوں کو کوزے کے ساتھ دریا کا بھی اندازہ ہو۔
کشمیر میں جو جنگ لڑی جارہی ہے اس میں کشمیریوں کا کتنا نقصان ہوا اور بھارت 71سال کی جنگی کوششوں کے باوجود یہ جنگ کیوں جیت نہ سکا۔ جب تک کسی جنگ میں عوام کے دل نہیں جیتے جاتے وہ جنگ بھی جیتی نہیں جاسکتی۔ اس دلچسپ لیکن کشمیریوں کی قاتل جنگ کا بھی درسی کتابوں میں مکمل ذکر ہونا چاہیے۔
دوسری خبر بھی علوم ہی کے متعلق ہے۔ پاکستان کے چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر طارق بنوری نے کہا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن پاکستان مراکش کے ساتھ تعلیمی روابط استوارکرنے کے لیے اقدامات کرے گا تاکہ دونوں ممالک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے مابین اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے شعبہ جات میں تعاون مضبوط ہوسکے۔ بنوری صاحب نے دونوں ملکوں کی جامعات کے درمیان طلباء اور فیکلٹی کے تبادلے کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔
مراکش کے سفیر نے کہاکہ پاکستان اور مراکش کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہیں اور دونوں ممالک کی شعبہ جات بشمول تعلیم میں باہمی تعاون کے ذریعے دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرسکتے۔ انھوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی نے دنیا بھر کے فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ سفیر موصوف نے کہا کہ اسلامی سربراہی کونسل کی تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی پر زور دیا جانا چاہیے۔
بدقسمتی سے ہمارا ملک تعلیم کے شعبے میں اس قدر پسماندہ ہے کہ ملک کی 60 فیصد دیہی آبادی کو تعلیم نام کی کسی چیز سے مکمل واقفیت نہیں۔ دیہی آبادی کے اسکول وڈیروں کے مویشی خانے بنے ہوئے ہیں۔ یہ حرکتیں جان بوجھ کر منظم اور منصوبہ بند انداز میں کی جارہی ہیں کہ ہاریوں اور کسانوں کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے وڈیروں کی اولاد کے مقابلے میں نہ آجائیں۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہم تعلیم کے شعبے میں کس قدر پسماندہ ہیں اور ہمارے ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کا کیسا حال ہے۔ عمران حکومت کو تعلیمی شعبے خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خصوصی دلچسپی لینا چاہیے۔