ہاتھ تھامیے حق داروں کا

مالی عبادات میں خواتین کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے

مالی عبادات میں خواتین کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

رمضان المبارک جہاں جسمانی عبادت کے حوالے سے اپنا خاص مقام رکھتا ہے، وہیں اسے مالی عبادت کے لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے۔

اس ماہ مبارک میں روزوں کے ساتھ زکوۃ اور صدقات کے ذریعے مالی عبادت بھی کی جاتی ہے، جس کے ذریعے معاشرے کے مستحق اور غریب لوگوں کی مالی اعانت کی جاتی ہے۔ اس ماہ میں نفلی طور پر کی جانے والی خیرات کے علاوہ بطور فرض رکن، اپنے مال کی زکوۃ بھی ادا کی جاتی ہے، اس کے علاوہ رمضان المبارک کے اختتام اور عید الفطر سے پہلے صدقتہ الفطر بھی ادا کیا جاتا ہے۔

ان مالی عبادات کی ادائیگی کے لیے پہلا حق قرابت داروں اور رشتہ داروں کا مانا جاتا ہے، رشتہ داروں اور ارد گرد کے لوگوں کے ضمن میں خواتین، مردوں کے مقابلے میں زیادہ علم رکھتی ہیں کہ کون زیادہ مستحق اور حق دار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد حضرات کی زیادہ دل چسپی دفتری اور پیشہ ورانہ امور میں ہوتی ہے، جب کہ خواتین گھریلو ذمہ داریوں سے بھی نبرد آزما ہوتی ہیں، تو اس تعلق سے انہیں دوسرے لوگوں کے گھریلو حالات سے بھی کسی نہ کسی طرح آگاہی ہو ہی جاتی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے گھر کے مالی حالات کیسے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس ماہ مبارک میں جب زکوۃ اور صدقات ادا کیے جائیں، تو اس ضمن میں خواتین بطور خاص اپنا کردار ادا کریں اور اپنے ارد گرد اور جاننے والوں میں مستحقین کو تلاش کریں اور نہایت راز داری سے انہیں ان کا حق دیں۔



اکثر خواتین رمضان اور پھر عید کی تیاریوں میں لگ کر اس معاملے میں دل چسپی کا مظاہرہ نہیں کرتیں اور ایسی تمام رقوم وغیرہ مختلف رفاہی اداروں کو دے کر خود کو گویا آزاد کر لیا جاتا ہے، جب کہ اگر آپ کسی مستحق کو جانتی ہیں تو اپنے ہاتھ سے اس کی اعانت کرنا زیادہ بہتر اور ضروری امر ہے۔ جن گھروں میں پہلے ہی خواتین ہی زکوۃ اور صدقات کی ادائیگی کے لیے مستحقین کا انتخاب کرتی ہیں، تو انہیں چاہیے کہ اس موقع پر وہ بہت زیادہ غوروخوص اور احتیاط کا مظاہرہ کریں، کہیں جلد بازی میں یہ حق کسی غیر مستحق کو نہ چلا جائے۔ ہمارے معاشرے کے بہت سے ضرورت مند اپنی ضروریات کا دوسروں سے تقاضا کر لیتے ہیں، لہٰذا ایسے لوگوں کی مالی اعانت کہیں نہ کہیں سے ہو ہی جاتی ہے۔


ان کے مقابلے میں بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو کسی طرح یہ گوارا نہیں کر سکتے کہ کسی سے اپنی مالی ضرورت کا ذکر کریں یا پھر وہ بہت قریب ترین لوگوں سے ہی اپنی مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہیں اور ہر ایک سے دست دراز نہیں کرتے۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے ارد گرد دوسری قسم کے تمام لوگوں کو خصوصاً مد نظر رکھیں۔ ایسے لوگوںکی ضرورت پوری ہونے کے امکانات نہایت محدود تر ہیں کیوں کہ وہ ہر ایک سے اپنی ضرورت کا اظہار نہیں کرتے اور اپنے برے حالات دوسروں سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔

مستحقین کی ایک قسم وہ ہوتی ہے جوکسی اچانک افتاد یا ضرورت کے نتیجے میں شدید مالی بحران کا شکار ہو جاتی ہے، جیسے کوئی بیماری یا بڑاحادثہ وغیرہ۔ ایسے لوگ ظاہر ہے کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اپنی ضرورت کے لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلائیں، اگر ہم ایسے لوگوں کی ضروریات سے آگہی رکھتے ہیں تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ایسے مواقع پر ان کی ضروریات کو پوری کر کے ان پر آنے والی مشکلات حل کرنے میں ان کی مدد کریں۔



دوسری قسم میں وہ مستحقین آتے ہیں جو طویل عرصے سے مالی مشکلات کا شکار چلے آرہے ہیں اور زندگی کی گاڑی بہ مشکل ہی آگے دھکیل رہے ہیں۔ ایسے مستحقین کی مدد کرتے ہوئے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ کسی طرح انہیں مالی طور پر خود مختار بنا یا جائے، تاکہ ان کی عزت نفس بحال ہو اور وہ جلد ہی لینے والوں کے بہ جائے دینے والوں میں سے بن جائیں۔ ایسے لوگوں کے حالات سے واقفیت کے بعد ان کے ہاں معاشی امکانات کے ایسے پہلو دیکھنے چاہئیں کہ جس میں ان کی مدد کی جائے تو وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں۔ اکثر ان کے جیسے تیسے ذریعہ روزگار کو بہتری کے لیے مالی اعانت درکار ہوتی ہے۔ اس موقع پر آپ ان کی یہ مدد کر کے ان کی خود داری کا تحفظ بھی کر سکتی ہیں۔ اگر آپ ایسے لوگوں میں ان کی کوئی ایسی ضرورت محسوس نہیں کر پا رہیں، تو آپ ان سے دریافت کر سکتی ہیں کہ آپ کی معاشی مشکلات کے حل کے لیے آپ کی ایسی کون سی ضرورت ہے، جسے پورا کر کے آپ خود اپنے بل بوتے پر حالات زیادہ بہتر کر سکتی ہیں۔ ہمارا یہ اقدام مستقل بنیادوں پر ان کے معاشی حالات بہتر کرنے میں خاصی مدد دے گا، بہ جائے اس کے کہ ہم انہیں مچھلیاں پکڑ کر دیں، بہتر یہ ہے کہ انہیں مچھلی پکڑنے کا جال فراہم کریں تاکہ کل کو وہ اپنے لیے خود مچھلیاں پکڑ سکیں۔

مال کی ادائیگی کے ذریعے ہماری یہ فرضی اور نفلی عبادات ادا تو ہو ہی جاتی ہیں، لیکن اس کو اس کی اصل روح کے ساتھ اور زیادہ سے زیادہ خلوص کے ذریعے ادائیگی کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اس سے نہ صرف معاشرتی سطح پر ہمیں کسی کی مدد کرنے کی خوشی ہوگی، بلکہ ساتھ ہی ہماری اس مالی عبادت میں دل چسپی اور دل جمعی اس عبادت کے درجات کو بھی بلند کرے گی۔ اگر ہم اپنی رمضان کی مصروفیات اور عید کی تیاریوں میں سے تھوڑا سا وقت دوسروں کے لیے بھی نکالیں تو اس سے ہمارے کام تو اتنے متاثر نہیں ہوں گے، جتنا کہ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ یہ آسانیاں ان کے پھیکے پھیکے سے تہواروں میں خوشیاں بھرنے کے ساتھ ان کی زندگی کی مشکلات کو بھی کم کریں گی۔ ساتھ ہی دوسروں کی یہ آسانیاں ہمارے ان تہواروں کو بھی حقیقی خوشی کے انمول رنگوں سے آراستہ کریں گی۔
Load Next Story